محمد امین
لائبریرین
تو صاحبو! قصہ چہار درویش کی طرح ہمیں سونپا گیا ہے کام اس داستانِ ملاقاتِ کو یہاں پیش کرنے کا کہ جو آج بروزِ اتوار شہرِ کراچی کے قلب میں لگ بھگ چھ گھنٹوں پر محیط رہی۔
قصہ شروع ہوتا ہے اس ذاتی پیغام سے کہ جو بروز 8 اگست 2012 جناب محترم محمد خلیل الرحمٰن نے ہمیں بھیجا تھا اور کہ جس میں کراچی میں رہائش پذیر اردو محفل کے مزید اراکین کے نام بھی شامل تھے۔ اس پیغام میں بعدِ عید الفطر کسی مناسب جگہ پر کوئی تقریب بہرِ ملاقات کی صورت نکالنے پر اصرار کیا گیا تھا۔ ہم بہت خوش ہوئے اور کچھ جگہیں تجویز کیں۔ قصہ مختصر وہ ذاتی مکالمہ گفت و شنید اور سناٹوں کے ادوار سے گزر کر بہرحال اس نہج تک آگیا کہ جہاں ملاقات کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
ملاقات کی جگہ کے بارے میں طے نہ ہو پانے کے باعث کچھ اراکین (بشمول راقم الحروف) کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے دن 2 بجے مزارِ قائدِ اعظم محمد علی جناح پر ملنا طے پایا۔ سوچا گیا کہ وہاں مل بیٹھ کر کہیں اور جانے اور کھانے کے بارے میں طے کرلیا جائے گا۔
اس ملاقات میں گو کہ خلیل بھائی اور یوسف ثانی بھائی کو بھی شریک ہونا تھا مگر وہ اپنی نجی مصروفیات کی بناء پر شرکت کو یقینی نہیں بنا سکے کہ جس کا ہمیں بھی قلق ہوا اور انہیں دورانِ مجلس یاد بھی کیا گیا۔
صبح وقتِ فجر تک محفل میں دھاگوں کی نگرانی کرنے کے بعد ہم نے تھوڑی نیند لینے کا سوچا اور 12 بجے کا الارم لگا کر سوگئے۔ برا ہو اس جوش کا کہ جس نے ہماری نیندیں اڑا دی تھیں۔ 6 بجے سے لے کر 11 بجے کے دوران کئی دفعہ ہماری آنکھ کھلی۔ نہ صرف یہ بلکہ 12 بجے والے الارم کا بھی ہم نے آدھے گھنٹے تک جاگ کر انتظار کیا۔ جاگنے کے بعد سب سے پہلے میر انیس بھائی کو فون کر کے ان سے ان کے گھر کا رستہ دریافت کیا اور پھر تیار ہو کر اپنی بائک سنبھالے 1:45 کے آس پاس ان کی طرف جا پہنچے۔ چونکہ ان کے گھر کا پتا نہیں معلوم تھا تو ناظم آباد میں واقع ابنِ انشاء پارک کے پاس ان کا انتظار کیا۔ یہ عقدہ بھی میر انیس بھائی نے بعد میں کھولا کہ ابنِ انشاء کا گھر ان کے گھر کے قریب ہی ہے، کہ "اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ۔۔۔۔اک نار پہ جان کو وار گیا مشہور ہے اس کا افسانہ"۔پھر انہیں لیے تقریبا٘ 2 بجے ہم مزارِ قائد پہنچ گئے۔
وہاں پہنچے تو اک اژدھام۔ اتوار کا روز تھا تو تفریح گاہ ہونے کے باعث خاصا رش تھا۔ ایک سایہ دار جگہ تلاش کی گئی کہ جہاں بیٹھ کر ہم آنے والوں کی نگرانی کر سکیں۔ کراچی میں سائے کا بھی ایک المیہ ہے۔ بہت کم درخت سایہ دار ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں وہ غیر شادی شدہ جوڑوں کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پھر @fahim، انیس الرحمن بھائی، محمداحمد بھائی ، حسان خان کو فون کیے گئے۔ حسان اس وقت گھر میں تھے اور نکلنے ہی والے تھے۔ محمد احمد بھائی نے طے شدہ جگہ پہنچ کر ہمیں فون کیا اور پھر بات کرتے کرتے فرمانے لگے کہ جی ہم نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔ تو ہماری نظریں تو اژدھام میں ایک باوقار نوجوان پر جم گئیں کہ جو فون کان سے لگائے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بڑھ رہے تھے۔ ہم نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور بغلگیر ہوئے۔ ہم تینوں بینچ پر بیٹھے باتیں کر ہی رہے تھے کہ انیس الرحمٰن بھائی ہمیں اپنی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے بھی معانقہ کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ایک خوبرو مگر دھان پان سا لڑکا مسکراتے ہوئے آ کھڑا ہوا۔ ہم تینوں نے اٹھ کر اس کا بھی استقبال کیا کہ انداز اردو محفل سے تعلق پر دال تھا۔ ہم نے تعارف کا مطالبہ کیا تو مزید مسکراتے ہوئے اس نے دھیرے سے کہا مہدی نقوی حجاز۔۔۔۔۔۔اور ہم لوگ گویا دنگ رہ گئے۔۔۔پھر عش عش کر اٹھے۔ واہ صاحب ہم تو آپ کو کوئی بھاری بھرکم سا مفرس سا فلسفی سمجھا کیے اور آپ تو ہم جیسے ہی انسان ہیں ۔۔
تھوڑی دیر کے بعد نفری میں مزید اضافہ ہوا کہ ہمیں مزارِ قائد کے دروازے پر عمار خاں اور فہیم کھڑے نظر آئے۔ ہم نے انہیں آواز لگا کر اشارہ کیا کہ میاں چلے آؤ! فہیم صاحب دھوپ کی عینک لگائے پاکستانی ٹوم کروز دکھائی دیتے تھے جب کہ عمار خالص پاکستانی ہی معلوم ہوئے کہ قومی لباس پہنے تھے۔ پھر جناب ہم نے حساب شروع کیا کہ کون آگیا ہے، کون آنے والا ہے اور کون نہیں آئے گا۔۔۔ میر انیس بھائی اور محمد احمد بھائی نے مغزل بھائی کو فون کیا تھا تو ان سے معلوم ہوا کہ نجی مصروفیات کی بناء پر ان کی شرکت بھی ممکن نہیں۔ خیر صاحب آپ کو بھی بہت یاد کیا گیا۔ فہیم اور عمار کی زبانی معلوم ہوا کہ ابوشامل بھائی اور شعیب صفدر راستے میں ہی ہیں اور تشریف لایا ہی چاہتے ہیں۔ باقی رہ گئے مزمل شیخ بسمل کہ جو اپنا نمبر نہیں دے سکے تھے تو ہم خاصے فکر مند تھے کہ ان سے کیسے رابطہ کیا جائے اور اتنی بڑی تفریح گاہ میں باوجود اژدھام کے انہیں کیسے تلاش کیا جائے۔
چونکہ اس وقت تک ہماری تعداد 7 کو چھو چکی تھی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا گھوم پھر لیا جائے اور بیٹھنے کی کوئی مناسب سی جگہ ڈھونڈی جائے۔ درختوں، پھولوں اور سبزے کے ساتھ ساتھ روشوں، پگڈنڈیوں اور اونچے نیچے "ماربل زدہ" ٹیلوں پر چلتے چلتے بہت سا وقت بیت گیا۔ تعارف ہوئے، قہقہے مارے گئے۔ امین اور فہیم نے ایک دوسرے پر دیرینہ دوستی کی بناء پر چوٹیں بھی کیں، جملے بھی کسے۔ ہم نے زحال مرزا بھائی کو امریکہ فون کیا کہ انہوں نے حکم دیا تھا۔ احباب سے ان کی بات ہوئی۔ پھرتصاویر کھینچی گئیں اور سائے کی تلاش میں ہم باتیں کرتے کرتے بہت دور تک جا نکلے۔ مگر جہاں دیکھا وہی پروقار، پرنور سفید سنگِ مرمر سے ڈھکا گنبد نظر آیا کہ مرقد پر واقع ہے اس عظیم ہستی کی، جس کے ناتواں ہاتھوں نے ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تشکیل کی۔ نوّر اللہ مرقدہٗ۔ ہم دل ہی دل میں اس شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کر کے "ہفت درویشوں" کی مجلس میں واپس آئے۔
ہم لوگ چل پھر ہی رہے تھے کہ ہمیں مزمل شیخ بسمل آن ملے۔ ہم شش و پنج میں مبتلا ہوئے کہ کہیں موصوف صاحبِ کشف تو نہیں کہ سیدھا یہیں آ پہنچے۔ ہم نے دریافت کیا تو کہنے لگے بس ابھی آئے اور تھوڑی تلاش بسیار کے بعد ہمیں دیکھ لیا۔ ہمیں یک گونہ اطمینان ہوا کہ یہ مل گئے ورنہ اگر مل نہ پاتے تو افسوس ہوتا۔ بالآخر ہمیں ایک سایہ دار درخت میسر آ ہی گیا۔ جب یہ ملاقات طے پا رہی تھی تو گزشتہ روز کی بارش کی وجہ سے یار لوگوں کا خیال تھا کہ آج بھی موسم خوشگوار اور "اوور کاسٹ" ہوگا۔ کسی نے تو چھتری کا انتظام کر رکھنے کا مشورہ بھی دے دیا۔ مگر دھوپ نے آج خوب روپ جمایا۔ درخت کے سائے میں بیٹھے میر انیس بھائی، انیس الرحمٰن بھائی، محمداحمد بھائی، محمد امین، فہیم، مہدی نقوی حجاز، عمار خان اور مزمل شیخ بسمل تعارف کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہے۔۔ اس دوراں حسان خان کا ہمیں فون آیا کہ وہ مرکزی دروازے پر موجود ہیں تو ہم اور فہیم انہیں لینے چلے گئے۔ انہیں لے کر واپس ہی رہے تھے کہ فہیم کی فون پر فہد بھائی (ابو شامل بھائی) سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اور شعیب صفدر بھائی مرقدِ جناح کے پاس موجود ہیں۔ ہم واپس مجلس کی طرف گامزن ہوئے تو دیکھا عمار خاں صاحب وکیل بھائی اور صاحبِ کرک نامہ کو لیے آرہے ہیں۔ تو ہماری ٹیم مکمل ہو ہی گئی۔ 11 کا عدد کرک نامہ کے منتظم فہد بھائی کی بدولت مکمل ہوا، اچھا حسنِ اتفاق ہے۔۔ ۔
اس مہربان سایہ دار درخت کی زلفوں تلے (عبید اللہ علیم کی "وہ مہرباں سایہ دار زلفیں" سے ماخوذ) ہم 11 افراد کی ٹیم بیٹھی میچ کا لائحۂ عمل طے کرتی رہی۔ متوقع اوور کاسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ تھوڑا زیادہ ہی ہوگیا۔ ہم نے کھانے کے وقفے کے لیے "میدان" چھوڑنے کی تجویز پیش کی تو کرک نامہ والے کپتان صاحب کی ڈانٹ سننے کو ملی کہ میاں "آئے ہو ابھی، کھیلو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو"۔۔ کچھ لوگوں نے ریورس سوئنگ سے گھبرا کر مزار پر فاتحہ کرنے کا قصد کیا تو بتایا گیا کسی "وی آئی پی" کی آمد کی وجہ سے مزار ہم "عوام" کے لیے بند ہے۔ القصہ، طعام کے لیے مختلف جگہوں کے نام تجویز کیے گئے اور قرعۂ اتفاق نکلا کراچی کی قدیم ترین فوڈ اسٹریٹ پر واقع مشہورِ زمانہ فوڈ سینٹر کے نام۔ 4 بائکوں پر 11 لوگوں کا قافلہ خراماں خراماں اگلے نشانِ راہ کی جانب گامزن ہوا۔ وہاں پہنچے تو 3 لوگ اور ایک بائک کم نکلی۔ دیکھا تو فہیم صاحب کی کی بائک نہیں تھی اور وہ جن کو لے کر آرہے تھے وہی کم تھے۔ ہم فوڈ سینٹر کے باہر گلی میں کھڑے ان کی راہ میں ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے جب ابوشامل فہد بھائی اور حسان خان ترکی زبان و تاریخ پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ حسان خان کے ساتھ ساتھ فہد بھائی بھی ترکی زبان و ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تو تشویش کے مارے ہم نے عمار خاں کو فون کیا جو کہ فہیم کے ساتھ بائک پر تھے۔ ان کی زبانی علم ہوا کہ فہیم کی بائک کا کوئی پر پرزہ فہیم کے دماغ کی طرح ڈھیلا ہوگیا ہے اور وہ ریگل چوک پر اسے ٹھیک کروا رہے ہیں (اپنا نہیں بائک کا۔۔۔ان کے پرزے تو لا علاج ہی ہیں)۔ ہم ان کا انتظار باہر کرنے کے بجائے اندر جا کر ایک میز کے ساتھ کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ جب فہیم پارٹی آ پہنچی تو ایک مسئلہ درپیش ہوا کہ کھایا کیا جائے۔ کافی عمیق فکر کے ساتھ غور و خوض کرنے کے بعد سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں منگوائیں۔ کھانا آنے سے پہلے طے پایا کہ مجلس میں موجود شعراء یہاں ایک مشاعرہ برپا کریں۔ جس پر شعراء کی سٹی گم ہوگئی کہ اڑوس پڑوس میں خاصا غیر شاعرانہ ماحول پایا جاتا تھا (گو کہ "غزل" کے "اصل" مخاطبین کافی تعداد و مقدار میں موجود تھے۔۔یعنی "جانِ غزل")۔ مزید برآں چھری کانٹے اور پلیٹ چمچ بھی وافر تعداد میں پائے جاتے تھے اور داد و تحسین کے ڈونگرے (اور سالن بھرے ڈونگے) برسنے کا خاصا امکان تھا۔
بڑی مشکل سے محمداحمد بھائی، مزمل شیخ بسمل اور مہدی نقوی حجاز کو راضی کیا گیا کہ وہ اپنے کلام سے عوام الناس کو مستفید فرمائیں۔ سب سے پہلے دعوت دی گئی محفل کے خاموش طبع مگر قادر الکلام نوجوان شاعر جناب محمد احمد بھائی کو۔ جنہوں نے یہ کہتے ہوئے کرسیٔ صدارت قبول فرمائی کہ "ہم نے تو کھانے کے لیے آستینیں چڑھا لی تھیں۔۔۔" ہم نے عرض کی یہ آستینیں چڑھا کر بھی شاعری سنائی جا سکتی ہے۔ جوابِ آں غزل کے طور پر احمد بھائی نے ارشاد فرمایا "سنائی جانا الگ بات مگر سننے کے بعد سامعین کی آستینیں چڑھ جاتی ہیں" ۔ احمد بھائی نے اپنا بہت پیارا کلام سناکر سامعین کو محظوظ کیا۔ ہم نے واہ واہ سبحان اللہ اور تالیوں کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ فوڈ سینٹر میں غزل سناتے ہوئے احمد بھائی کی تصویر نیچے موجود ہے۔ ان کے بعد مزمل بسمل اور مہدی حجاز نے اپنا اپنا کلام سنایا کہ جو وہی لوگ یہاں شامل کریں گے کہ اس وقت تو ذہن میں اشعار موجود نہیں ہیں۔ مزمل بسمل اور مہدی حجاز کی شاعری سن کر جتنی حیرانگی ہوئی اس سے زیادہ خوشی ہوئی۔ کہ فی زمانہ بالترتیب 19 اور 17 سال کی عمروں میں ایسے زبردست اور رواں اشعار کہتے ہم نے کسی کو نہ سنا نہ دیکھا۔ اللہ ان دونوں نوجوانوں کو خوب ترقی دے اور علم میں برکت عطا فرمائے۔
جب شعرائے ثلاثہ اپنا کلام مکمل کرچکے تو زبردستی ہمیں کھینچ کھانچ کر کرسیٔ صدارت پر لا بٹھایا گیا اور حکم صادر ہوا کہ میاں اب تک جتنے بھی عشق کیے ہیں شاعری میں انکا اقبال کرلو ورنہ نتائج کے ذمے دار خود ہوگے۔ ہم جل تو جلال تو کا ورد کرتے کرتے اپنے معاشقوں کو کوس ہی رہے تھے کہ بیروں نے میز پر کھانا سجانا شروع کردیا۔ اور ہم یہ کہہ کر وہاں سے بھاگم بھاگ اپنی جگہ پر واپس آپہنچے کہ کھانے کے بعد بشرطِ درستگیٔ ہاضمہ۔
کھانے پر ہم(اور صرف "ہم") بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ صبح اس سوچ کے ساتھ کھانا نہیں کھایا تھا کہ "رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن"۔ کھانے کے دوران امریکہ میں مقیم ابن سعید کا فون آیا اور احباب نے باری باری ان سے گفتگو کی۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو مشاعرے کی کرسیٔ صدارت پر فہیم زبردستی براجمان ہوگئے بلکہ آ کر جم گئے اور ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ ہم سب نے ہاتھ جوڑ پر معافی مانگی اور التجائیں کی کہ صاحب ابھی کھانا کھایا ہے مت کرو اتنا ظلم مگر نہیں۔۔۔ وہ شروع ہوگئے "ترنم" کے ساتھ اپنی "فی البدیہہ" شاعری سنانے۔ جس کے ہاتھ جو جو کچھ لگا اس نے کانوں میں ٹھونس کر خود کو اس ظلم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی مگر حیف۔۔۔ ہر کوشش ناکام رہی۔۔۔اور فہیم کو: جو رہی سو بے خبری رہی۔ جب عوام اتنا ظلم سہہ چکی تو ہم نے انکشاف کیا کہ فہیم بہت اچھے گلوکار بھی ہیں جس پر وکیل صاحب (شعیب صفدر) بھائی کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ گئے۔ اور ہم خود کو "ذوالفقار مرزا" محسوس کرنے لگے!!
بہر کیف فہیم کو بڑی مشکل سے کرسی سے اتارا گیا ۔(کرسیٔ اقتدار والی پھبتی بہت گھِس چکی ہے ورنہ ہم بھی اس کی مثال دیتے)۔ یہ ظلم سہنے کے بعد ہمیں یقین تھا "مظلوموں کے ساتھی" ہم سے رابطہ کر کے ہمیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلائیں گے۔ مگر:
"میں ایسا ہوا، ویسا نہ ہوا"۔
اور اس کے بعد ہمیں کرسی سے باندھ کر اقبالِ جرم کروانے کی تیاری کی گئی۔ ہم نے ایک "بہت ہی فارغ" نظم اور ایک بہت ہی "بوجھل" غزل سنا کر تفتیش کے آگے فل اسٹوپ لگایا۔اللہ کا شکر ہے کسی طرف سے داد و تحسین اور سالن کے ڈونگے نہیں آئے۔ پھر پی سی ہوٹیل (پٹھان کونٹی نینٹل) کی تلاش شروع ہوئی جس کی سربراہی شعیب صفدر بھائی اور فہد بھائی پر مشتمل ٹیم نے کی۔
برنس روڈ پر واقع تقسیمِ ہند سے قبل کے فلیٹوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ہم گھوم پھر کر ایک چائے خانے پر جا ہی پہنچے۔ چائے خانہ کیا تھا عین سڑک پر میزیں کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم گیارہ افراد چائے کے لیے بیٹھ گئے اور ہونے لگی گفتگو اردو، علاقائی زبانوں، تعلیم وغیرہ کے بارے میں۔ اس گفتگو میں پیش پیش حسان خان، فہد بھائی اور میر انیس بھائی تھے۔ باقی احباب بھی وقتا فوقتا ٹکڑے جوڑتے جاتے۔ ان احباب کی بدولت آج ہمیں کافی معلومات ملیں اور شعور کے کافی در وا ہوئے۔ چائے پیتے وقت جب شعیب صفدر بھائی نے شعرائے ثلاثہ سے دوبارہ "دو غزلہ" کی فرمائش کی تو ہمیں "پاک ٹی ہاؤس" یاد آگیا۔ فوڈ سینٹر اور پھر سڑک کنارے بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے بہت معیاری اور کلاسیکی رنگ میں رنگا ہوا کلام ملاحظہ کرتے ہوئے ہمیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھ سکتا تھا۔ اپنی دانست میں ہم نے چند ساعتوں کے لیے ہی سہی کراچی میں اس مردہ ثقافت کو زندہ کردیا تھا کہ جس کے داعی مشاہیر ادباء و شعراء تھے۔ شعیب بھائی نے جب ہم سے غزل کی فرمائش کی تو ہم نے عرض کی جناب ہمارے دیوان میں دو عدد غزلوں اور ایک فراغت سے بھرپور نظم کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد قلم ہی توڑ دیا تھا۔
واہ واہ کی برسات اور سماعتوں میں رس گھولتا کلام ایک الگ دنیا میں لے گیا۔ جس دنیا سے واپسی بہت مشکل اور تکلیف دہ امر تھا۔ اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ساتھ احباب کو بہرحال گھر سے دوری کا احساس ستانے لگا اور پھر جب محفل برخواست کرنے پر غور کیا گیا تو یہ بات تھوڑی دشواری کے ساتھ احباب نے قبول کرلی۔ وہاں سے اٹھتے اٹھتے بھی گفتگو جاری رہی، قہقہے چلتے رہے۔ اور ہم بہت ہی خوشگوار یادوں کے ساتھ محبتیں اور اطمینان اپنے دل میں لیے رخصت ہوئے۔ یقینا یہ دن ایک بہت ہی یادگار دن تھا کہ جب ہم نے اتنے قابل اور زبردست دوستوں سے ملاقات کی۔
تصاویر:
سائے کی تلاش میں روش بہ روش جستجو۔۔۔پس منظر میں بابائے قوم کا مزار فخر سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔
سایہ میسر آہی گیا۔ حسان، میر انیس، ابو شامل، مہدی، محمد احمد اور مزمل
تحریر میں بھاری بھرکم اور با رعب تاثر رکھنے والے مہدی نقوی حجاز حالتِ مراقبہ میں۔ حسان خان اپنے ناخن کھاتے ہوئے!
احمد بھائی کرسیٔ صدارت پر اپنا کلام پیش کرتے ہوئے۔ داد و تحسین اور واہ واہ کے ساتھ تالیوں میں رخصت کیے گئے۔
فہیم میاں زبردستی کرسیٔ صدارت پر جمے ہوئے اپنی "گڑگڑی شاعری" سناتے ہوئے۔
چائے خانے پر فہیم بسمل کو شاعری کے 14 نکات سمجھاتے ہوئے۔
مہدی اور حسان: مہدی حسان کو اپنی فارسی شاعری سنا رہے ہیں۔
"ہم چپ رہے، کچھ نہ کہا۔۔۔" ایک خاموش طبع زبردست نوجوان شاعر۔ محمد احمد بھائی
شعیب صفدر بھائی کی اٹھکیلیوں نے آج کی محفل کو چار چاند لگا دیے۔
فہیم الٹے کپ کی چائے پیتے ہوئے۔
جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا۔۔۔میرا نام اردو محفل، میرا نام یاد رکھنا!!
مقدس شمشاد بھائی، فاتح بھائی، قیصرانی بھائی، ناعمہ عزیز عائشہ عزیز ساجد بھائی عاطف بٹ بھائی، zeesh قرۃالعین اعوان فرحت کیانی سیدہ شگفتہ پپو محمد شعیب باباجی زین چھوٹاغالبؔ حسیب حسیب نذیر گِل
قصہ شروع ہوتا ہے اس ذاتی پیغام سے کہ جو بروز 8 اگست 2012 جناب محترم محمد خلیل الرحمٰن نے ہمیں بھیجا تھا اور کہ جس میں کراچی میں رہائش پذیر اردو محفل کے مزید اراکین کے نام بھی شامل تھے۔ اس پیغام میں بعدِ عید الفطر کسی مناسب جگہ پر کوئی تقریب بہرِ ملاقات کی صورت نکالنے پر اصرار کیا گیا تھا۔ ہم بہت خوش ہوئے اور کچھ جگہیں تجویز کیں۔ قصہ مختصر وہ ذاتی مکالمہ گفت و شنید اور سناٹوں کے ادوار سے گزر کر بہرحال اس نہج تک آگیا کہ جہاں ملاقات کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا۔
ملاقات کی جگہ کے بارے میں طے نہ ہو پانے کے باعث کچھ اراکین (بشمول راقم الحروف) کی تجویز پر عمل کرتے ہوئے دن 2 بجے مزارِ قائدِ اعظم محمد علی جناح پر ملنا طے پایا۔ سوچا گیا کہ وہاں مل بیٹھ کر کہیں اور جانے اور کھانے کے بارے میں طے کرلیا جائے گا۔
اس ملاقات میں گو کہ خلیل بھائی اور یوسف ثانی بھائی کو بھی شریک ہونا تھا مگر وہ اپنی نجی مصروفیات کی بناء پر شرکت کو یقینی نہیں بنا سکے کہ جس کا ہمیں بھی قلق ہوا اور انہیں دورانِ مجلس یاد بھی کیا گیا۔
صبح وقتِ فجر تک محفل میں دھاگوں کی نگرانی کرنے کے بعد ہم نے تھوڑی نیند لینے کا سوچا اور 12 بجے کا الارم لگا کر سوگئے۔ برا ہو اس جوش کا کہ جس نے ہماری نیندیں اڑا دی تھیں۔ 6 بجے سے لے کر 11 بجے کے دوران کئی دفعہ ہماری آنکھ کھلی۔ نہ صرف یہ بلکہ 12 بجے والے الارم کا بھی ہم نے آدھے گھنٹے تک جاگ کر انتظار کیا۔ جاگنے کے بعد سب سے پہلے میر انیس بھائی کو فون کر کے ان سے ان کے گھر کا رستہ دریافت کیا اور پھر تیار ہو کر اپنی بائک سنبھالے 1:45 کے آس پاس ان کی طرف جا پہنچے۔ چونکہ ان کے گھر کا پتا نہیں معلوم تھا تو ناظم آباد میں واقع ابنِ انشاء پارک کے پاس ان کا انتظار کیا۔ یہ عقدہ بھی میر انیس بھائی نے بعد میں کھولا کہ ابنِ انشاء کا گھر ان کے گھر کے قریب ہی ہے، کہ "اس بستی کے اک کوچے میں اک انشاء نام کا دیوانہ۔۔۔۔اک نار پہ جان کو وار گیا مشہور ہے اس کا افسانہ"۔پھر انہیں لیے تقریبا٘ 2 بجے ہم مزارِ قائد پہنچ گئے۔
وہاں پہنچے تو اک اژدھام۔ اتوار کا روز تھا تو تفریح گاہ ہونے کے باعث خاصا رش تھا۔ ایک سایہ دار جگہ تلاش کی گئی کہ جہاں بیٹھ کر ہم آنے والوں کی نگرانی کر سکیں۔ کراچی میں سائے کا بھی ایک المیہ ہے۔ بہت کم درخت سایہ دار ہوتے ہیں اور جو ہوتے ہیں وہ غیر شادی شدہ جوڑوں کے قبضے میں ہوتے ہیں۔ پھر @fahim، انیس الرحمن بھائی، محمداحمد بھائی ، حسان خان کو فون کیے گئے۔ حسان اس وقت گھر میں تھے اور نکلنے ہی والے تھے۔ محمد احمد بھائی نے طے شدہ جگہ پہنچ کر ہمیں فون کیا اور پھر بات کرتے کرتے فرمانے لگے کہ جی ہم نے آپ کو دیکھ لیا ہے۔ تو ہماری نظریں تو اژدھام میں ایک باوقار نوجوان پر جم گئیں کہ جو فون کان سے لگائے ہماری طرف دیکھتے ہوئے بڑھ رہے تھے۔ ہم نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا اور بغلگیر ہوئے۔ ہم تینوں بینچ پر بیٹھے باتیں کر ہی رہے تھے کہ انیس الرحمٰن بھائی ہمیں اپنی طرف بڑھتے ہوئے نظر آئے۔ ان سے بھی معانقہ کر کے فارغ ہی ہوئے تھے کہ ایک خوبرو مگر دھان پان سا لڑکا مسکراتے ہوئے آ کھڑا ہوا۔ ہم تینوں نے اٹھ کر اس کا بھی استقبال کیا کہ انداز اردو محفل سے تعلق پر دال تھا۔ ہم نے تعارف کا مطالبہ کیا تو مزید مسکراتے ہوئے اس نے دھیرے سے کہا مہدی نقوی حجاز۔۔۔۔۔۔اور ہم لوگ گویا دنگ رہ گئے۔۔۔پھر عش عش کر اٹھے۔ واہ صاحب ہم تو آپ کو کوئی بھاری بھرکم سا مفرس سا فلسفی سمجھا کیے اور آپ تو ہم جیسے ہی انسان ہیں ۔۔
تھوڑی دیر کے بعد نفری میں مزید اضافہ ہوا کہ ہمیں مزارِ قائد کے دروازے پر عمار خاں اور فہیم کھڑے نظر آئے۔ ہم نے انہیں آواز لگا کر اشارہ کیا کہ میاں چلے آؤ! فہیم صاحب دھوپ کی عینک لگائے پاکستانی ٹوم کروز دکھائی دیتے تھے جب کہ عمار خالص پاکستانی ہی معلوم ہوئے کہ قومی لباس پہنے تھے۔ پھر جناب ہم نے حساب شروع کیا کہ کون آگیا ہے، کون آنے والا ہے اور کون نہیں آئے گا۔۔۔ میر انیس بھائی اور محمد احمد بھائی نے مغزل بھائی کو فون کیا تھا تو ان سے معلوم ہوا کہ نجی مصروفیات کی بناء پر ان کی شرکت بھی ممکن نہیں۔ خیر صاحب آپ کو بھی بہت یاد کیا گیا۔ فہیم اور عمار کی زبانی معلوم ہوا کہ ابوشامل بھائی اور شعیب صفدر راستے میں ہی ہیں اور تشریف لایا ہی چاہتے ہیں۔ باقی رہ گئے مزمل شیخ بسمل کہ جو اپنا نمبر نہیں دے سکے تھے تو ہم خاصے فکر مند تھے کہ ان سے کیسے رابطہ کیا جائے اور اتنی بڑی تفریح گاہ میں باوجود اژدھام کے انہیں کیسے تلاش کیا جائے۔
چونکہ اس وقت تک ہماری تعداد 7 کو چھو چکی تھی تو ہم نے فیصلہ کیا کہ تھوڑا گھوم پھر لیا جائے اور بیٹھنے کی کوئی مناسب سی جگہ ڈھونڈی جائے۔ درختوں، پھولوں اور سبزے کے ساتھ ساتھ روشوں، پگڈنڈیوں اور اونچے نیچے "ماربل زدہ" ٹیلوں پر چلتے چلتے بہت سا وقت بیت گیا۔ تعارف ہوئے، قہقہے مارے گئے۔ امین اور فہیم نے ایک دوسرے پر دیرینہ دوستی کی بناء پر چوٹیں بھی کیں، جملے بھی کسے۔ ہم نے زحال مرزا بھائی کو امریکہ فون کیا کہ انہوں نے حکم دیا تھا۔ احباب سے ان کی بات ہوئی۔ پھرتصاویر کھینچی گئیں اور سائے کی تلاش میں ہم باتیں کرتے کرتے بہت دور تک جا نکلے۔ مگر جہاں دیکھا وہی پروقار، پرنور سفید سنگِ مرمر سے ڈھکا گنبد نظر آیا کہ مرقد پر واقع ہے اس عظیم ہستی کی، جس کے ناتواں ہاتھوں نے ہمارے محبوب وطن پاکستان کی تشکیل کی۔ نوّر اللہ مرقدہٗ۔ ہم دل ہی دل میں اس شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کر کے "ہفت درویشوں" کی مجلس میں واپس آئے۔
ہم لوگ چل پھر ہی رہے تھے کہ ہمیں مزمل شیخ بسمل آن ملے۔ ہم شش و پنج میں مبتلا ہوئے کہ کہیں موصوف صاحبِ کشف تو نہیں کہ سیدھا یہیں آ پہنچے۔ ہم نے دریافت کیا تو کہنے لگے بس ابھی آئے اور تھوڑی تلاش بسیار کے بعد ہمیں دیکھ لیا۔ ہمیں یک گونہ اطمینان ہوا کہ یہ مل گئے ورنہ اگر مل نہ پاتے تو افسوس ہوتا۔ بالآخر ہمیں ایک سایہ دار درخت میسر آ ہی گیا۔ جب یہ ملاقات طے پا رہی تھی تو گزشتہ روز کی بارش کی وجہ سے یار لوگوں کا خیال تھا کہ آج بھی موسم خوشگوار اور "اوور کاسٹ" ہوگا۔ کسی نے تو چھتری کا انتظام کر رکھنے کا مشورہ بھی دے دیا۔ مگر دھوپ نے آج خوب روپ جمایا۔ درخت کے سائے میں بیٹھے میر انیس بھائی، انیس الرحمٰن بھائی، محمداحمد بھائی، محمد امین، فہیم، مہدی نقوی حجاز، عمار خان اور مزمل شیخ بسمل تعارف کے ساتھ ساتھ ہنسی مذاق کرتے رہے۔۔ اس دوراں حسان خان کا ہمیں فون آیا کہ وہ مرکزی دروازے پر موجود ہیں تو ہم اور فہیم انہیں لینے چلے گئے۔ انہیں لے کر واپس ہی رہے تھے کہ فہیم کی فون پر فہد بھائی (ابو شامل بھائی) سے بات ہوئی تو معلوم ہوا کہ وہ اور شعیب صفدر بھائی مرقدِ جناح کے پاس موجود ہیں۔ ہم واپس مجلس کی طرف گامزن ہوئے تو دیکھا عمار خاں صاحب وکیل بھائی اور صاحبِ کرک نامہ کو لیے آرہے ہیں۔ تو ہماری ٹیم مکمل ہو ہی گئی۔ 11 کا عدد کرک نامہ کے منتظم فہد بھائی کی بدولت مکمل ہوا، اچھا حسنِ اتفاق ہے۔۔ ۔
اس مہربان سایہ دار درخت کی زلفوں تلے (عبید اللہ علیم کی "وہ مہرباں سایہ دار زلفیں" سے ماخوذ) ہم 11 افراد کی ٹیم بیٹھی میچ کا لائحۂ عمل طے کرتی رہی۔ متوقع اوور کاسٹ نہ ہونے کی وجہ سے اسٹریٹجک ٹائم آؤٹ تھوڑا زیادہ ہی ہوگیا۔ ہم نے کھانے کے وقفے کے لیے "میدان" چھوڑنے کی تجویز پیش کی تو کرک نامہ والے کپتان صاحب کی ڈانٹ سننے کو ملی کہ میاں "آئے ہو ابھی، کھیلو تو سہی، جانے کی باتیں جانے دو"۔۔ کچھ لوگوں نے ریورس سوئنگ سے گھبرا کر مزار پر فاتحہ کرنے کا قصد کیا تو بتایا گیا کسی "وی آئی پی" کی آمد کی وجہ سے مزار ہم "عوام" کے لیے بند ہے۔ القصہ، طعام کے لیے مختلف جگہوں کے نام تجویز کیے گئے اور قرعۂ اتفاق نکلا کراچی کی قدیم ترین فوڈ اسٹریٹ پر واقع مشہورِ زمانہ فوڈ سینٹر کے نام۔ 4 بائکوں پر 11 لوگوں کا قافلہ خراماں خراماں اگلے نشانِ راہ کی جانب گامزن ہوا۔ وہاں پہنچے تو 3 لوگ اور ایک بائک کم نکلی۔ دیکھا تو فہیم صاحب کی کی بائک نہیں تھی اور وہ جن کو لے کر آرہے تھے وہی کم تھے۔ ہم فوڈ سینٹر کے باہر گلی میں کھڑے ان کی راہ میں ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے جب ابوشامل فہد بھائی اور حسان خان ترکی زبان و تاریخ پر گفتگو کرتے رہے۔ یہ عقدہ بھی کھلا کہ حسان خان کے ساتھ ساتھ فہد بھائی بھی ترکی زبان و ادب سے خاصا شغف رکھتے ہیں۔ تھوڑی دیر گزری تو تشویش کے مارے ہم نے عمار خاں کو فون کیا جو کہ فہیم کے ساتھ بائک پر تھے۔ ان کی زبانی علم ہوا کہ فہیم کی بائک کا کوئی پر پرزہ فہیم کے دماغ کی طرح ڈھیلا ہوگیا ہے اور وہ ریگل چوک پر اسے ٹھیک کروا رہے ہیں (اپنا نہیں بائک کا۔۔۔ان کے پرزے تو لا علاج ہی ہیں)۔ ہم ان کا انتظار باہر کرنے کے بجائے اندر جا کر ایک میز کے ساتھ کرسیوں پر براجمان ہوگئے۔ جب فہیم پارٹی آ پہنچی تو ایک مسئلہ درپیش ہوا کہ کھایا کیا جائے۔ کافی عمیق فکر کے ساتھ غور و خوض کرنے کے بعد سب نے اپنی اپنی پسند کی چیزیں منگوائیں۔ کھانا آنے سے پہلے طے پایا کہ مجلس میں موجود شعراء یہاں ایک مشاعرہ برپا کریں۔ جس پر شعراء کی سٹی گم ہوگئی کہ اڑوس پڑوس میں خاصا غیر شاعرانہ ماحول پایا جاتا تھا (گو کہ "غزل" کے "اصل" مخاطبین کافی تعداد و مقدار میں موجود تھے۔۔یعنی "جانِ غزل")۔ مزید برآں چھری کانٹے اور پلیٹ چمچ بھی وافر تعداد میں پائے جاتے تھے اور داد و تحسین کے ڈونگرے (اور سالن بھرے ڈونگے) برسنے کا خاصا امکان تھا۔
بڑی مشکل سے محمداحمد بھائی، مزمل شیخ بسمل اور مہدی نقوی حجاز کو راضی کیا گیا کہ وہ اپنے کلام سے عوام الناس کو مستفید فرمائیں۔ سب سے پہلے دعوت دی گئی محفل کے خاموش طبع مگر قادر الکلام نوجوان شاعر جناب محمد احمد بھائی کو۔ جنہوں نے یہ کہتے ہوئے کرسیٔ صدارت قبول فرمائی کہ "ہم نے تو کھانے کے لیے آستینیں چڑھا لی تھیں۔۔۔" ہم نے عرض کی یہ آستینیں چڑھا کر بھی شاعری سنائی جا سکتی ہے۔ جوابِ آں غزل کے طور پر احمد بھائی نے ارشاد فرمایا "سنائی جانا الگ بات مگر سننے کے بعد سامعین کی آستینیں چڑھ جاتی ہیں" ۔ احمد بھائی نے اپنا بہت پیارا کلام سناکر سامعین کو محظوظ کیا۔ ہم نے واہ واہ سبحان اللہ اور تالیوں کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی کی۔ فوڈ سینٹر میں غزل سناتے ہوئے احمد بھائی کی تصویر نیچے موجود ہے۔ ان کے بعد مزمل بسمل اور مہدی حجاز نے اپنا اپنا کلام سنایا کہ جو وہی لوگ یہاں شامل کریں گے کہ اس وقت تو ذہن میں اشعار موجود نہیں ہیں۔ مزمل بسمل اور مہدی حجاز کی شاعری سن کر جتنی حیرانگی ہوئی اس سے زیادہ خوشی ہوئی۔ کہ فی زمانہ بالترتیب 19 اور 17 سال کی عمروں میں ایسے زبردست اور رواں اشعار کہتے ہم نے کسی کو نہ سنا نہ دیکھا۔ اللہ ان دونوں نوجوانوں کو خوب ترقی دے اور علم میں برکت عطا فرمائے۔
جب شعرائے ثلاثہ اپنا کلام مکمل کرچکے تو زبردستی ہمیں کھینچ کھانچ کر کرسیٔ صدارت پر لا بٹھایا گیا اور حکم صادر ہوا کہ میاں اب تک جتنے بھی عشق کیے ہیں شاعری میں انکا اقبال کرلو ورنہ نتائج کے ذمے دار خود ہوگے۔ ہم جل تو جلال تو کا ورد کرتے کرتے اپنے معاشقوں کو کوس ہی رہے تھے کہ بیروں نے میز پر کھانا سجانا شروع کردیا۔ اور ہم یہ کہہ کر وہاں سے بھاگم بھاگ اپنی جگہ پر واپس آپہنچے کہ کھانے کے بعد بشرطِ درستگیٔ ہاضمہ۔
کھانے پر ہم(اور صرف "ہم") بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑے۔ صبح اس سوچ کے ساتھ کھانا نہیں کھایا تھا کہ "رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن"۔ کھانے کے دوران امریکہ میں مقیم ابن سعید کا فون آیا اور احباب نے باری باری ان سے گفتگو کی۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو مشاعرے کی کرسیٔ صدارت پر فہیم زبردستی براجمان ہوگئے بلکہ آ کر جم گئے اور ہٹنے کا نام نہیں لیا۔ ہم سب نے ہاتھ جوڑ پر معافی مانگی اور التجائیں کی کہ صاحب ابھی کھانا کھایا ہے مت کرو اتنا ظلم مگر نہیں۔۔۔ وہ شروع ہوگئے "ترنم" کے ساتھ اپنی "فی البدیہہ" شاعری سنانے۔ جس کے ہاتھ جو جو کچھ لگا اس نے کانوں میں ٹھونس کر خود کو اس ظلم سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی مگر حیف۔۔۔ ہر کوشش ناکام رہی۔۔۔اور فہیم کو: جو رہی سو بے خبری رہی۔ جب عوام اتنا ظلم سہہ چکی تو ہم نے انکشاف کیا کہ فہیم بہت اچھے گلوکار بھی ہیں جس پر وکیل صاحب (شعیب صفدر) بھائی کے پیٹ میں ہنس ہنس کر بل پڑ گئے۔ اور ہم خود کو "ذوالفقار مرزا" محسوس کرنے لگے!!
بہر کیف فہیم کو بڑی مشکل سے کرسی سے اتارا گیا ۔(کرسیٔ اقتدار والی پھبتی بہت گھِس چکی ہے ورنہ ہم بھی اس کی مثال دیتے)۔ یہ ظلم سہنے کے بعد ہمیں یقین تھا "مظلوموں کے ساتھی" ہم سے رابطہ کر کے ہمیں اپنی بھرپور حمایت کا یقین دلائیں گے۔ مگر:
"میں ایسا ہوا، ویسا نہ ہوا"۔
اور اس کے بعد ہمیں کرسی سے باندھ کر اقبالِ جرم کروانے کی تیاری کی گئی۔ ہم نے ایک "بہت ہی فارغ" نظم اور ایک بہت ہی "بوجھل" غزل سنا کر تفتیش کے آگے فل اسٹوپ لگایا۔اللہ کا شکر ہے کسی طرف سے داد و تحسین اور سالن کے ڈونگے نہیں آئے۔ پھر پی سی ہوٹیل (پٹھان کونٹی نینٹل) کی تلاش شروع ہوئی جس کی سربراہی شعیب صفدر بھائی اور فہد بھائی پر مشتمل ٹیم نے کی۔
برنس روڈ پر واقع تقسیمِ ہند سے قبل کے فلیٹوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ہم گھوم پھر کر ایک چائے خانے پر جا ہی پہنچے۔ چائے خانہ کیا تھا عین سڑک پر میزیں کرسیاں پڑی تھیں۔ ہم گیارہ افراد چائے کے لیے بیٹھ گئے اور ہونے لگی گفتگو اردو، علاقائی زبانوں، تعلیم وغیرہ کے بارے میں۔ اس گفتگو میں پیش پیش حسان خان، فہد بھائی اور میر انیس بھائی تھے۔ باقی احباب بھی وقتا فوقتا ٹکڑے جوڑتے جاتے۔ ان احباب کی بدولت آج ہمیں کافی معلومات ملیں اور شعور کے کافی در وا ہوئے۔ چائے پیتے وقت جب شعیب صفدر بھائی نے شعرائے ثلاثہ سے دوبارہ "دو غزلہ" کی فرمائش کی تو ہمیں "پاک ٹی ہاؤس" یاد آگیا۔ فوڈ سینٹر اور پھر سڑک کنارے بیٹھ کر چائے پیتے ہوئے بہت معیاری اور کلاسیکی رنگ میں رنگا ہوا کلام ملاحظہ کرتے ہوئے ہمیں اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوجھ سکتا تھا۔ اپنی دانست میں ہم نے چند ساعتوں کے لیے ہی سہی کراچی میں اس مردہ ثقافت کو زندہ کردیا تھا کہ جس کے داعی مشاہیر ادباء و شعراء تھے۔ شعیب بھائی نے جب ہم سے غزل کی فرمائش کی تو ہم نے عرض کی جناب ہمارے دیوان میں دو عدد غزلوں اور ایک فراغت سے بھرپور نظم کے سوا کچھ نہیں کہ ہم نے اس کے بعد قلم ہی توڑ دیا تھا۔
واہ واہ کی برسات اور سماعتوں میں رس گھولتا کلام ایک الگ دنیا میں لے گیا۔ جس دنیا سے واپسی بہت مشکل اور تکلیف دہ امر تھا۔ اندھیرا پھیلنے کے ساتھ ساتھ احباب کو بہرحال گھر سے دوری کا احساس ستانے لگا اور پھر جب محفل برخواست کرنے پر غور کیا گیا تو یہ بات تھوڑی دشواری کے ساتھ احباب نے قبول کرلی۔ وہاں سے اٹھتے اٹھتے بھی گفتگو جاری رہی، قہقہے چلتے رہے۔ اور ہم بہت ہی خوشگوار یادوں کے ساتھ محبتیں اور اطمینان اپنے دل میں لیے رخصت ہوئے۔ یقینا یہ دن ایک بہت ہی یادگار دن تھا کہ جب ہم نے اتنے قابل اور زبردست دوستوں سے ملاقات کی۔
تصاویر:
سائے کی تلاش میں روش بہ روش جستجو۔۔۔پس منظر میں بابائے قوم کا مزار فخر سے سر اٹھائے کھڑا ہے۔
سایہ میسر آہی گیا۔ حسان، میر انیس، ابو شامل، مہدی، محمد احمد اور مزمل
تحریر میں بھاری بھرکم اور با رعب تاثر رکھنے والے مہدی نقوی حجاز حالتِ مراقبہ میں۔ حسان خان اپنے ناخن کھاتے ہوئے!
احمد بھائی کرسیٔ صدارت پر اپنا کلام پیش کرتے ہوئے۔ داد و تحسین اور واہ واہ کے ساتھ تالیوں میں رخصت کیے گئے۔
فہیم میاں زبردستی کرسیٔ صدارت پر جمے ہوئے اپنی "گڑگڑی شاعری" سناتے ہوئے۔
چائے خانے پر فہیم بسمل کو شاعری کے 14 نکات سمجھاتے ہوئے۔
مہدی اور حسان: مہدی حسان کو اپنی فارسی شاعری سنا رہے ہیں۔
"ہم چپ رہے، کچھ نہ کہا۔۔۔" ایک خاموش طبع زبردست نوجوان شاعر۔ محمد احمد بھائی
شعیب صفدر بھائی کی اٹھکیلیوں نے آج کی محفل کو چار چاند لگا دیے۔
فہیم الٹے کپ کی چائے پیتے ہوئے۔
جہاں آج ہم ملے ہیں وہ مقام یاد رکھنا۔۔۔میرا نام اردو محفل، میرا نام یاد رکھنا!!
مقدس شمشاد بھائی، فاتح بھائی، قیصرانی بھائی، ناعمہ عزیز عائشہ عزیز ساجد بھائی عاطف بٹ بھائی، zeesh قرۃالعین اعوان فرحت کیانی سیدہ شگفتہ پپو محمد شعیب باباجی زین چھوٹاغالبؔ حسیب حسیب نذیر گِل