پاکستانی
16 جولائی کو پاکستانی کی آمد ہوئی اور مدت تک چپ چاپ شرکت ہی رہی اکا دکا پوسٹس کے ساتھ پھر اپنا ڈیرہ جمانے کے بعد پچھلے چند ماہ میں خاصے فعال ہوگئے ہیں اور جگہ جگہ ان کی موجودگی کے ثبوت مل رہے ہیں۔ بچپن میں پیار سے
منا کہا جاتا تھا اب بڑے ہو کر
منیر ہوگئے ہیں اور بھی کچھ ہوگئے ہوں گے مگر ہمیں یہی پتہ ہے۔ شروع شروع میں کیبل نیٹ کی بجائے ڈائل اپ سے انٹر نیٹ کا رابطہ جوڑا کرتے تھے اور ساتھ میں خواہش رکھتے تھے کہ فون بھی بزی نہ رہے تاکہ ٹو ان ون کے مزے اڑا سکیں مگر حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے ایک ہی لطف اٹھا سکے گو دونوں لطائف کی خواہش میں جگہ جگہ کی خاک چھانی اور بالآخر تھک کر کیبل نیٹ لگوا کر دل کی مراد پائی۔ شروع میں انپیچ کا استعمال کرتے تھے پھر نبیل کی نرگسیت سے متاثر ہو کر اردو ایڈیٹر استعمال کرنا شروع کیا اور اسی کے ہو کر رہ گئے تا دمِ تحریر۔ غالب کی دو غزلوں کا سرائیکی ترجمہ پیش کرچکے ہیں جو نہایت دلچسپ ہے
ایہہ نہ ہئی اساڈی قسمت جو وصال یار ہوندا
یہ نہ تھی ہماری قسمت جو وصال یار ہوتا
جو بیا وی جیندے رہندے ایہو انتظار ہوندا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
کوئی میڈے دل توں پچھے، تیڈے تیر ادھ پڈے کوں
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیر نیم کش کو
اینویں چبھدا ایہہ نہ رہندا، جو جگر دے پار ہوندا
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
ابن انشا کی چاند نگر کی بات ہورہی ہو تو یہ دور کی کوڑی لا کر فرماتے ہیں
ہمارے ہاں موٹر سائیکل رکشہ کو چاند گاڑی کہتے ہیں آپ کہیں تو وہ بھیجوا دوں شاید وہ آپ کو چاند نگر تک لے جائے۔
اب بندہ پوچھے ان سے کہ موٹر سائیکل پر اگر چاند نگر پہنچ سکتے تو سی ڈی 70 رکھنے والے ا لیٹر میں 70 کلو میٹر چلا کر پورے چاند پر قابض ہو چکے ہوتے ، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے ڈیرے کے گرد و نواح میں کوئی غیر سرکاری چاند نگر قائم کررکھا ہو جس کی طرف لطیف اشارہ کیا ہے، اب اصل حقیقتِ حال تو خدا ہی بہتر جانے ہم تو اندھیرے میں تیر ہی چلا سکتے ہیں سو چلا رہے ہیں اندھا دھند۔ ایک غالب کی پرستار نے جب محفل میں شرکت کی تو ان کا کہنا تھا کہ ان کا ہاتھ لکھتے وقت کانپ رہا ہے کہ اتنی بڑی بڑی ہستیاں ہیں ، پاکستانی بھیا نے اور ڈراتے ہوئے لکھا کہ ہاتھ تو کیا انسان کا پورا جسم کانپتا ہے ( اب پتہ نہیں کن خوفناک شخصیات کی طرف اشارہ ہے ایک تو شاید ۔۔۔۔۔ اب میں نام کیسے لوں مجھے بھی تو ڈر لگتا ہے ) ان ہستیوں کے سامنے ، تسلی کے لیے لکھ دیا کہ ڈرنا مفید ہے ، یہ نہیں بتایا کہ کس کے لیے ۔
دل اور درد کا رشتہ دھڑکن سے جوڑتے ہیں اور پھر شاعرانہ علاج بتانے کی بجائے خالص طبی علاج یعنی ای سی جی کرانے کا مشورہ دیتے ہیں، تشخیص ٹھیک کرتے ہیں مگر علاج غلط اور مہنگا بتاتے ہیں اس لیے کہتے ہیں نیم حکیم خطرہ جان ۔
فیصل مسجد کا انہیں ابھی تک پتہ نہیں چلا کہ کس شہر میں ہے ، پوچھتے ہیں۔
اسلام آباد کی فیصل مسجد پاکستان کے کس شہر میں واقع ہے؟
اب اس سادگی پر کون نہ مرجائے اے خدا ۔
نام بتائیں ایک مقبول کھیل ہے محفل کا جس میں کسی مشہور شخصیت کا نام لکھنا ہوتا ہے اس میں ت سے ایک نام بتانا تھا ، شومئی قسمت کہ پاکستانی بھیا کی باری تھی اور انہیں
تختہ یاد تھا جھٹ سے بول پڑے کہ تختہ ، کہہ تو دیا مگر کچھ عجیب لگا تو مزید تشریح کردی ت سے تختہ ۔۔۔۔ موت والا نہیں
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ کیا کیا پاکستانی نے (دھڑن تختہ ہی کردیا ) ۔ تفصیل بتاتا چلوں کہ تختہ لفظ سے ذہن میں کیا کیا آسکتا ہے ، اس سے اس لفظ تختہ کا تختہ کرنے میں آسانی ہوگی ۔ تختہ بادشاہت کا بھی ہوتا ہے اور اسکول کے زمانے میں جانے کونسے کونسے مشکل تختے ہوتے ہیں تو پھر موت کا تختہ ہی کیوں ذہن میں آئے گا بھلا جس کی تشریح کی مگر پاکستانی بھیا کو زیر عتاب آنا تھا تو قسمت نے انہیں یہی سوجھایا بروقت یا اس وقت ۔
اگر یہ لگ رہا ہو کہ میں نے ایک لفظ تختہ کو پکڑ ہی لیا ہے ، اتنے لوگ تھے محفل پر کسی اور کو نظر نہیں آیا تھا یہ لفظ
تختہ تو ملاحظہ ہو شہنشاہِ خطوط کا جواب اس پیغام پر
ت سے تختہ ۔۔۔۔ موت والا نہیں
بیٹے جی یہاں الف انار اور بے بکری نہیں لکھنا بلکہ کسی مشہور شخصیت کا نام لکھنا ہے اور وہ بھی اس حرف سے جس پر پہلے رکن نے ختم کیا ہے۔
اگر سمجھ نہیں آئی تو بتانا، ایک بار پھر تفصیل سے سمجھا دوں گا۔
امید ہے کہ اب بات تہہ تک سمجھ آگئی ہوگی ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں بھیجتا ہوں شہنشاہِ خطوط کو آپ کو سمجھانے کے واسطے بھی ، گیارہ ہزار خطوط ہم رکاب ہوں گے اور سمجھانے میں جو ملکہ ہے وہ تو اوپر دیکھ ہی چکے آپ۔
کسی نئے آنیوالے کو خوش آمدید کہہ کر تعارف کروانے کا ایسے کہیں گے جیسے لاہور کے رہنے والے مہمانوں کو کھانے شروع کرنے کے لیے بصد اصرار کہتے ہیں ، ملاحظہ کیجیے ۔
خوش آمدید
تعارف لازمی ہے جناب بسم اللہ کیجیئے
شہنشاہ خطوط کے ساتھ ایک نوک جھونک تو ملاحظہ کر ہی چکے ہیں اب ذرا ایک اور دلچسپ قصہ دیکھتے ہیں جس میں شہنشاہِ خطوط کے چار ہزار خطوط ہوئے تھے اور پاکستانی انہیں اپنی دھن میں بے پرواہ مبارکباد دے رہے تھے کہ شہنشاہِ خطوط نے انہیں آہنی ہاتھوں سے لیا۔ مبارکباد دیتے ہوئے لکھتے ہیں
پاکستانی : بہت مبارک ہو آپ کو ۔ اور بس اسی خوشی میں ہو جائیں ایک ہزار اور !
اس فرمائشی مبارکباد پر شہنشاہِ خطوط ذرا گھبرا اٹھے اور کہنے لگے
شہنشاہِ خطوط:
بہت بہت شکریہ آپ کا اور اکٹھے ایک ہزار اور ایکدم سے
پاکستانی بھیا نے جو شہنشاہِ خطوط کے قدم اکھڑتے دیکھے تو خوش ہو کر مستانہ وار ایک جملہ اور پھینکا
پاکستانی : ایک دم بلکہ یک دم !!!! مزے کریں جناب
خط نہ ہوئے ردی کے کاغذ ہو گئے جو ہزار بھی ہو جائے اور یک دم بھی۔ خیر شہنشاہِ خطوط کچھ سنبھل چکے تھے اس لیے جوابی حملہ کچھ یوں کیا
خود تو ابھی تک صرف 31 خطوط پر پہنچے (پہنچی) ہیں اور مجھے ایک دم سے ہزار خطوط لکھنے کو کہہ رہے (رہی) ہیں۔
پاکستانی کے ابھی 31 خطوط ہی ہوئے تھے اور کمال چالاکی سے شہنشاہِ خطوط نے ان کی شناخت بھی مشکوک کرکے گویا ایک پنتھ دو کاج والا کام کرڈالا۔ پاکستانی بھی پکے پیروں سے تھے ، ذرا نہ گھبرائے کہ کہاں 31 خطوط اور کہاں چار ہزار ، لگے اپنے 31 خطوط کو قیمتی قطروں سے تشبیہ دینے اس طرح
پاکستانی : قطرے قطرے سے دریا بنتا ہے شمشاد صاحب اور آپ 31 پر ہی پریشان ہو گئے ہیں۔
شہنشاہِ خطوط اب رواں ہوچکے تھے اور پریشانی تو ان سے گھبرا کر دور بھاگ چکی تھی یوں گویا ہوئے
میں پریشان بالکل نہیں ہوں بلکہ یہ چاہتا ہوں کہ دریا نہیں تو کم از کم ایک ندی نالہ ہی بنا دیں، 31 سے تو نالی بھی نہیں بنے گی۔
داد دینے پڑے گی پاکستانی کو کہ وہ اس سخت حملہ کو بھی کمال خوبی سے جھیل گئے ( پکے پیر شاید سیمنٹسے کروائے ہوئے تھے) اور جا پہنچے اپنے اقبال تک
پاکستانی :ندی نالے کا تو صرف محدود سوچ رکھنے والے ہی سوچتے ہیں، ہم تو اقبال کے شاہین ہیں، آپ نے وہ شعر تو سنا ہی ہو گا کہ عقابی روح بیدار ہوتی ہے جب شاہینوں میں آگے آپ خود سمجھدار ہیں۔
شہنشاہِ خطوط اگر ان جملوں میں الجھ جاتے تو پھر شہنشاہِ خطوط کیسے کہلاتے ، عمدگی سے پینترا بدلا اور میدان مار جملوں سے قصہ ختم کیا
چلیں اسی بہانے آپ کے 35 خطوط تو ہو گئے۔ اس طرح لگے رہیں تو میرے ایک فیصد تک تو آج پہنچ ہی جائیں گے۔
فٹنگ کے اتنے شوقین ہیں کہ کوئی سافٹ وئیر انسٹال نہیں کرتے بلکہ اپنے کمپیوٹر میں اس کی
فٹنگ کرتے ہیں ۔ محاورے بہت پسند کرتے ہیں اور بے دریغ استعمال بھی کرتے ہیں چاہے محاورہ ٹھیک ہو یا نہ ہو مگر یہ اسے ٹھیک سمجھنے پر ہی اصرار کریں گے ، ایک محاورے کا استعمال ملاحظہ ہو
ارے واہ دوست یعنی مرے کو مارے شاہ نامدار
( بہرحال کچھ ایسا ہی فقرہ ہے )
کشمکش میں ہیں کہ محاورہ ٹھیک ہے کہ نہیں مگر دوسروں کو یقین دہانی کرانے کے لیے قوسین میں لکھ دیا کہ فقرہ کچھ ایسا ہی ہے بھائی اگر ایسا ہی ہے تویہ لکھنے کی ضرورت کیا ہے۔ شاعری کے بارے میں بھی عین یہی رویہ رکھتے ہیں جو ان کی مستقل مزاجی کا پتہ دیتا ہے۔ شاعری سے خاص لگاؤ رکھتے ہیں ، شاعری کے بارے میں کہہ نہیں سکتے کہ اس کا ان سے کتنا لگاؤ ہے۔ اگر کسی غزل کے ساتھ شاعر کا نام غلط لکھ دیں تو گھبراتے نہیں ، تصحیح بھی کر دی جائے تو پائے استقلال میں فرق نہیں آنے دیتے اور کمال شانِ استغنا سے فرما دیتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ کوئی اور شاعر ہو بہرحال میری معلومات یہی کہتی ہے ( اب ان کی معلومات کے تازہ ہونے کے انتظار میں پڑھنے والا چاہے سوکھ کر کانٹا ہوجائے )۔