اردو ویب کلاسک - کہانی کیسے آگے بڑھی

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

(ایڈٹ کردہ از نبیل): میں امید کرتا ہوں کہ سیفی بھائی میری دیدہ دلیری کا برا نہیں منائیں گے کہ میں نے ان کی پوسٹ کا کھیل بنا لیا ہے۔ لیکن کھیل مجھے اس قدر دلچسپ لگا کہ یہاں منتقل کیے بغیر نہ رہ سکا۔ چلیں دیکھتے ہیں اب دوست اس کہانی کو کیسے آگے بڑھاتے ہیں۔۔

بس مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔تل دھرنے کو جگہ نہیں تھی۔۔۔۔۔۔۔گرمی کے مارے مسافروں کا برا حال تھا۔۔۔۔۔۔پایئدان پر تو لوگ کھڑے ہی تھے کچھ ڈنڈے سے لٹکے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس کی چھت آدھی طلباء سے بھری تھی۔۔۔۔اور کچھ مسافر بھی بیٹھے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

بس کا ڈرائیور اگر ایک مسافر بھی رستے میں کھڑا دیکھ لیتا تو جھٹ سے بریک لگا دیتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کنڈیکٹر وہیں سے آواز لگاتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔“اتے ہو جاؤ بھئی ۔۔۔۔نال نال ہو جاؤ“۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

مجھے تو حیرت کنڈیکٹر کی ہٹ دھرمی اور جسم کی لچک پر ہوتی۔۔۔۔۔وہ سب کو کہتا آگے آگے ہو جاؤ بھائی۔۔۔۔لوگ آگے سے کچھ سنا دیتے تو یوں آگے ہو جاتا جیسے اس سے نہیں کسی اور سے کہا جا رہا ہو۔۔۔۔۔۔اور پھر اسکی لچک اور ہمت کہ کھچا کھچ بھری بس میں سے بھی یوں گزر جاتا جیسے۔۔۔۔پانی میں سے پانی۔۔۔۔۔۔

میں کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا باہر دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔باہر خوانچہ فروش اور چھابڑی والے گرمی سے بے نیاز آوازیں لگا رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر شربت والا لیموں رکھے ۔۔۔۔شربت کے گلاس بھرے ۔۔۔۔دو دو روپے۔۔۔۔میں لوگوں کی گرمی کا علاج کئے جارہا تھا۔۔۔۔۔۔سڑک پر بیٹھے فقیر کو بھی گرمی سے کوئی سروکار نہیں تھا۔۔۔۔۔

میں باہر کے نظاروں میں مگن تھا۔۔۔۔۔اچانک بس کے کنڈیکٹر کی چیختی ہوئی آواز میرے کان میں آئی ۔۔۔ساتھ ہی اس نے میرا کاندھا پکڑ کر ہلایا۔۔۔۔۔۔۔کرایہ دے دو بھائی۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کرایہ نکال کر دے دیا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔
۔
۔۔۔۔
کیا کرتا بھائی کرایہ تو دینا ہی تھا۔۔۔۔۔۔۔اور تو کوئی حل نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔کیا خیال ہے آپ کا بارے اس کے۔۔ :lol: ۔ :hatoff:
:chicken:
:boxing:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم

شاید آپ ایک بات بھول گئے بھائی صاحب ۔ اسی بس میں دروازے میں ایک شخص اپنی بکری کو لے کر لٹکا ہوا تھا ۔ اس شخص کی ہمت کی داد دینی پڑے گی کہ ایک ہاتھ سے دروازے کا پائدان دوسرے ہاتھ سے بکری کی گردن جو بغل میں پھنسی ہوئے خوف کے مارے آواز بھی نہیں نکال رہی تھی ۔ دوسری طرف بس کے ڈرائیور کا فل آواز میں ڈیک چلا رکھنا اور ایک پان منہ میں رکھ کر ایک ہاتھ میں سگریٹ اور دوسرے ہاتھ میں اسٹیرنگ تھامے بلا خوف و خطر ڈرائیونگ کر نا نئے پرندوں کو خوف میں مبتلا کیئے ہوئے تھا۔ ایک اسٹاپ کے بعد دوسرے کے رستے میں اسپیڈ بریکروں کی بھرمار تمام کھڑی سواریوں سے بریک ڈانس کروا رہی تھی ۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ پیچھے کارنر والی سواری سے تو میں نے کرایا لیا ہی نہیں ۔ اور میں اگلے اسٹاپ پر اتر کر دال والے کی بالٹی میں ہاتھ مارا اور مٹھی بھر چنے اٹھا کر ان کی جگالی کرتا ہوا پچھلے دروازے کی طرف بڑھا اب بکری کو اپنی قمیص کا بوسہ دیتے ہوئے میں بس میں گھسا اور آگے آگے ہو جائو کے نعرے لگاتا ہوا جب اس سیٹ کی طرف بڑھا تو خوف کے مارے میرے بال کھڑے ہو گئے۔ہاتھ سے بارہ مصالحے والی چنے کی بھنی ہوئی دال دانہ دانہ کر کے گرتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب آگے کیا ہوا کوئی اور بتائے۔۔۔کیونکہ کہانیاں ایسے ہی چلتی ہیں
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم


لوجی کہانی تو لگتا ہے کہ اٹک گئی ہے ۔ خیر آگے چلا دیتا ہوں کہیں دوسروں کو برا تو نہیں لگ رہا ناں ۔۔۔ اگر برا لگنے لگے تو کہ دیجئے گا کہانی بند :warzish:

میں ہکا بکا اسکی صورت دیکھ رہا تھا کہ اچانک بکری کی آواز نے مجھے ہوش دلانے میں اساسی کردار ادا کیا اور میں نے ہوش میں آنے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ ارے نبیل تم یہاں کیسے ۔ وہ بولایار اب مجھے بھی چھپڑ اسٹاپ جانا تھا تو سوچا کہ ویگن میں “کوڈے“ ہو کر جانے سے بہتر ہے کہ بس میں سیدھا بیٹھ کر جاؤں اور بیٹھ گیا بس میں اب مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ تمہاری بس ہے ۔میں نے نبیل کی بے خبری پر اندر ہی اندر خوش ہوتے ہوئے (کہ وہ بس میری نہیں ہے بلکہ میں اس پر کام کرتا ہوں) اسے کہا چلو اب یتیم خانہ اسٹاپ پر چل کے کچھ کھا پی لیتے ہیں اتنا کہ کر میں نے ڈرائیور کو اشارہ کیا کہ اسکیم موڑ آگیا ہے کچھ سواریوں کو اترنا ہے ۔ موسم بہت سہانا ہو رہا تھا ایسے لگ رہا تھا کہ کسی بھی وقت بارش شروع ہو جائے گی ۔ اب مجھے تو بارش اچھی لگتی تھی مگر شاید ان سواریوں کو نہ لگتی جنکا آٹا بوریوں کی صورت میں بس کی چھت پر پڑا تھا۔

اسکیم موڑ والی سواریوں کو اتار کر ہم لوگ یتیم خانہ کی طرف بڑھے ۔ جناب سیفی صاحب کو بھی چونکہ اسکیم موڑ اترنا تھا وہ بھی تشریف لے جا چکے تھے ۔ عموماََ ہمارا اسٹاپ چوک یتیم خانہ پر دس ایک منٹ کا ہوتا تھا لھذا میں اب نبیل کے پاس جاکر کھڑا ہوگیا اور اسے چنے کی بھنی ہوئی دال کی دعوت دے ڈالی۔ اب پتہ نہیں نبیل کو کیا سوجھی کہنے لگا
نبیل : یار فیصل یہ چنے کی دال تو اب بندر بھی نہیں کھاتے تم کیسے کھا لیتے ہو ۔۔۔۔؟
میرے منہ سےبلا ساختہ نکل گیا بالکل صحیح کہا جناب نے “بندر اب چنے کی دال نہیں کھاتے“ ابھی یہ بات مکمل ہوئی ہی تھی کہ چوک یتیم خانہ آگیا۔ اور ہم دونوں وہاں اتر کر منھاجین کے بھنی ہوئی مچھلی کے تھڑے کی طرف بڑھتے چلے گئے اتنے میں زکریا نے بس تھوڑا آگے کر کے سائیڈ پر لگا دی ۔




اب اگلا حصہ اگلے ہفتے۔۔۔۔۔ :tv:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

مسئلہ اس وقت سمجھ آیا جب قدیر احمد رانا نے فیصل عظیم سے کرایہ طلب کیا۔ فیصل عظیم نے اپنا روزانہ والا جواب دہرایا کہ بھئی سٹوڈنٹ ہوں :chal: ۔ قدیر احمد رانا نے جزبز ہو کر کہا تو کیا سٹوڈنٹ سواری نہیں ہوتے۔ ہوتے ہوں گے لیکن ایم اے او کالج کے سٹوڈنٹ سواریاں نہیں ہوتے۔ :chicken: ایم اے او کالج کا نام سنتے ہی قدیر احمد رانا کا لہجہ انتہائی دوستانہ ہوگیا اور وہ ہنستے ہوئے کہنے لگے اچھا تو یوں کہیے نا لیجیے آپ ایک کی بجائے دو سیٹوں پر بیٹھیے۔ نبیل کو زیادہ لفٹ اس لیے نہیں کرائی گئی کیونکہ وہ ایم اے او کالج کی بجائے کسی عام سے کالج کے سٹوڈنٹ تھے۔ زکریا نے بھی صورتحال بھانپتے ہوئے بس کو بگٹٹ دوڑانا شروع کردیا۔

بس والوں پر اپنی دھاک جمانے کے بعد فیصل عظیم نے سواریوں پر ایک طائرانہ نظر ڈالی۔ ان کی نگاہ سامنے والی سیٹ پر گئی تو وہاں سفید یونیفارم میں ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ فیصل اور اس کی لڑکی کی نگاہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ لڑکی سٹپٹا گئی جبکہ فیصل اسے دیکھ کر دم بخود ہو گئے۔ اس لڑکی کو دیکھ کر اچانک پرانا ماضی ان کی نظروں کے سامنے دوڑ گیا۔ وہ اپنے خیالوں میں ایسے کھوئے کہ پیکے وال موڑ آ کر گزر بھی گیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔ قدیر احمد رانا پیٹتے رہے کہ پیکے وال موڑ کی سواریاں اتر جائیں مگر فیصل کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ وہ تو اس وقت پرانے وقتوں کو یاد کر رہے تھے جب ان کے محلے کے سامنے والے گھر میں کوئی انہیں کواڑ کی اوٹ سے چھپ کر دیکھتا تھا۔ جب کبوتروں کو پیغام رسانی کی ٹریننگ دی جاتی تھی۔ پھر کبھی اتفاقاً یونہی اچانک تنہائی میں آمنا سامنا ہو جاتا تھا تو وہ قریب آکر کہتی تھی ۔۔بے اے اے۔۔ وہ دراصل بکری کے ممیانے سے ایک دم فیصل پرانی یادوں کے حصار سے باہر نکل آئے۔ فیصل نے بکری کے مالک پر قہر آلود نظر ڈالی اور پھر بس کے باہر۔ یہ دیکھ کر فیصل کو کافی شاک لگا کہ بس اخری سٹاپ پر پہنچ کر اب دوسری جانب پھیرا لگانے کی تیاری کر رہی تھی۔ قدیر احمد رانا پچھلے پھیرے کے پیسے گن رہے تھے جبکہ زکریا سائیڈ پر کھڑے ہو کر سوٹا لگا رہے تھے۔۔
باقی آئندہ :punga:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

واہ جی واہ۔۔۔۔۔۔

میں نے تو چھوٹی سی کہانی لکھی تھی مگر یہاں تو بڑے بڑے قلمکاروں کے آگے تو ہم پانی بھرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔۔۔۔۔

فیصل عظیم صاحب نے افسانہ کو حقیقت کا رخ دینے کی کوشش کی اور زندہ کرداروں کو کہانی کے بیچ لائے تو جناب نبیل صاحب نے اس کو رومانوی داستان میں بدل کے رکھ دیا۔۔۔۔ :chill:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شارق مستقیم

نبیل آپ نے کہانی پر بہت ہی عمدہ طرح لگائی ہے۔ کاش آپ بس کو آخری اسٹاپ پر نہ پہونچاتے تو کہانی کے آگے بڑھنے کے بہت مواقع تھے کیونکہ ہمارے ہاں بسیں انتہائی سست روی سے چلتی ہیں۔ کہانی میں رومانس تو آگیا تھا مگر ایکشن کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی تھی۔ بہرحال میں کہانی کو تھوڑا ریوائنڈ کر رہا ہوں اور متادل سچوئیشن دینے کی کوشش کر تا ہوں۔

ان کی نگاہ سامنے والی سیٹ پر گئی تو وہاں سفید یونیفارم میں ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی۔ فیصل اور اس لڑکی کی نگاہوں کا آمنا سامنا ہوا تو وہ لڑکی سٹپٹا گئی جبکہ فیصل اسے دیکھ کر دم بخود ہو گئے۔ لڑکی کی کھوئی کھوئی آنکھوں نے انہیں طالبعلمی کے اس دور میں دھکیل دیا جب ان کا دل پہلی بار کسی جنسِ مخالف کی طرف کھنچا تھا۔ اس دور کی یادوں میں کھوتے ہی بے خیالی میں ان کا منہ چلنے لگ گیا اور منہ میں موجود پان، جس کی جگالی کے سہارے انہیں یہ سفر مکمل کرنا تھا، کسی فوارے کی مانند سامنے کی نشست پر براجمان ایک حضرت کے سر پر برس پڑا۔ وہ حضرت پہلے تو اس بِن بادل برسات پر گھبرا گئے لیکن جیسے ہی ان پر معاملات کا انکشاف ہوا وہ غراتے ہوئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ فوراً ہی ان کی زبان سے نازیبا کلمات جاری ہوگئے۔ فیصل نے دوبارہ لڑکی کی طرف دیکھا جو اب ادھر ہی متوجہ تھی۔ وہ صاحب بے تکان ہی بولے چلے جارہے تھے اور فیصل کی کوشش تھی کہ لڑکی کے سامنے بات آگے نہ بڑھے مگر اچانک ان صاحب کا ہاتھ آگے بڑھا اور فیصل کے گریبان پر آگیا۔ پھر یکلخت فیصل کے دماغ پر بھی چھپکلی رینگ گئی اور بس میں گھونسوں مکوں لاتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔

دوستو! میں تو فیصل کو لڑائی کے بیچ میں چھوڑ کر رخصت ہورہا ہوں۔ اب تم میں سے کوئی انہیں عزت کے ساتھ موقع سے نکالے۔

(کہانی کے نام، کردار و واقعات فرضی ہیں۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم


اب جب مجھے لڑائی میں گھسیٹ ہی لیا گیا تو میں نے لڑتے لڑتے اپنی طرف سے مکا مارنے کی کوشش کی مگر وہ صاحب اچانک پیچھے ہٹے اور اپنا گھٹنا اٹھاتے ہوئے مجھے ایسی جگہ مارا کہ مجھے پھر کچھ سمجھ ہی نہیں آئی اور میں ہائے کہتا ہوا بس میں کوڈا ہو گیا۔ میری قمیص جگہ جگہ سے پھٹ چکی تھی گریبان میں پان نے لہو رنگ سمندر بنا رکھا تھا۔ خانہ خراب کو ذرا حیا نہیں آئی کہ خواتین کی موجودگی میں بھی فاؤل پلے کر کے بیلٹ سے نیچے مار ڈالا ۔ اب میں تھا مرا درد اور ظالم بس۔

کچھ لوگوں نے آگے بڑھ کر صلح کی کوششیں شروع کیں اب میرے منہ سے نکل رہا تھا او میرا کیا قصور ہے مجھے تو چھوڑ دو ظالم ۔ بھائی صاحب غلطی ہو گئی معاف کر دینا۔ خیر پان اور خون سے سرخ قمیص نامی چیتھڑوں کو سہارا دیتا ہوا میں اترا اور نزدیک ہی ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چلا گیا کہ “ ابتدائی طبی امداد “ حاصل کر سکوں۔

اسپتال کا نام تھا مصطفیٰ میڈیکل سنٹر یہ بالکل اسی جگہ جہاں آجکل میکڈونلڈ ہے ہوا کرتا تھا یعنی ١٣ کشمیر بلاک علامہ اقبال ٹاؤن ۔ وہاں دیکھا تو ڈاکٹر افتخار صاحب نے ایمرجنسی میں وصول کیا فرمانے لگے ارے فیصل میاں آج پھر۔۔۔۔؟

مرتا کیا نہ کرتا ان کو ساری حقیقت بتانا پڑی اور پھر انہوں نے نرس کو بلانے کے لئے بیل دی ۔ میں ان کو اپنے مال خانے میں ہونے والی بربادی کا بتا ہی رہا تھا کہ پردہ کھسکا اور مجھے ہکا بکا کر گیا ۔ وہ سفید لباس میں ایک اداس کنول لگ رہی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب مجھے کچھ بتا رہے تھے مگر مجھے علم نہیں کہ وہ کیا کہ رہے تھے ۔
ارے یہ تو وہی ہے جو سارے فساد کی جڑ ہے ۔۔۔۔؟
نہین یار فساد کی جڑ یہ نہیں ہے بلکہ تیرے منہ کا پان تھا اور قدیر سے بولنے والا جھوٹ تھا کیونکہ میں ایم اے او کالج نہیں بلکہ اسلامیہ کالج سول لائنز پڑھا کرتا تھا اور ایم اے او کالج اور سول لائنز کالج کی دوستی کا سب کو علم تھا۔

خیر خیالات کی دنیا سے میں تب باہر آیا جب مترنم گھنٹیوں کی آواز نے الٹا لیٹنے کو کہا اور ایک ڈیسپوز ایبل سرنج میں ڈکلوران کا انجکشن بھر کر سوئی کو اذن دخول دے دیا۔ آآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآآ ایک ہی آواز تھی جو میرے منہ سے نکلنے کو مچل رہی تھی مگر عزت رکھنے کو چہرہ گلابی کر بیٹھا قوت ضبط الم کے مظاہرے کی کوشش میں۔

ٹیکہ لگوایا تو نظر پڑی اسکے نام کے بیج پر “ عاشی“ کیا خوبصورت نام تھا مگر ساتھ میں بڑا سا بٹ لگا ہوا تھا جو اسکی خوش خوراکی کا پتہ دیتا تھا۔

اب میری گفتگو شروع ہو گئی عاشی کے ساتھ:

عاشی : جی تکلیف تو زیادہ نہیں ہوئی۔۔؟
میں : نہیں جی تکلیف کیسی بس ذرا غلطی میری تھی پہلے چنے کھا رہا تھا اوپر سے پان منہ میں رکھ لیا اور پھر آپ کو دیکھ کر دنیا سے بے خبر بھی ہو گیا ۔۔۔ ویسے آپ ہیں بہت خوبصورت
عاشی : چلو بہر حال درد کا انجکشن لگا دیا ہے انشاء اللہ تھوڑی دیر میں درد دور ہو جائے گی۔ ویسے آپ یہ بات ہر لڑکی سے کہتے ہیں ۔۔۔۔؟
میں : جی نہیں جو خوبصورت ہو اسی کی کہتا ہوں ۔ ہاں کیا درد کا انجکشن درد دور کرنے کو ہوتا ہے یا کسی جگہ زیادہ درد پیدا کرنے کو تاکہ مریض کی توجہ اس جگہ سے ہٹ جائے جہاں پہلے درد تھا ۔۔۔؟
عاشی : (ہنستے ہوئے) ویسے آپ کافی دلچسپ انسان ہیں ۔ ڈکلوران کا انجکشن کیونکہ نس میں نہیں لگایا جا سکتا اس لیے اسے پٹھے میں لگایا جاتا ہے ۔ اور تیزی سے حل ہونے کی وجہ سے جب یہ گوشت سے گزرتا ہے تو ذرا تکلیف محسوس ہوتی ہے ۔ اچھا آپ کی قمیص پھٹنے کا بہت افسوس ہوا ۔۔۔۔؟
اتنے میں ڈاکٹر صاحب آگئے اور میری گفتگو اس سے ادھوری رہ گئی۔ میں ڈاکٹر صاحب سے باتیں کرنے لگا جنہوں نے شریف (اس اسپتال میں کلینر) کو بھیج کر سامنے مون مارکیٹ سے نئی قمیص منگوا لی تھی اور مجھے کہنے لگے کہ بھائی قمیص بدل کر گھر جانا ورنہ تمھارے والد میرا جینا حرام کردیں گے کہ بچہ مار کھا کر اسکے پاس گیا مگر اس سے اتنی توفیق نہ ہوئی کہ اسکا حلیہ ہی درست کروا کر بھیجتا۔

میں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا ڈاکٹر صاحب یہ عاشی کیا اسٹوری ہے ۔ کہنے لگے اچھی لڑکی ہے ۔ تین بچے ہیں خاوند قتل کے کیس میں اندر ہے لہذا کیونکہ اس نے نرسنگ کر رکھی ہے اس لیئے گھر چلانے کے لئے یہاں ملازمت کر رہی ہے ۔

اب میری سمجھ میں آگیا کہ اسکی آنکھوں میں اداسی سی کیوں تھی میں بھی اسکی کہانی سن کر اداس ہو گیا اور خاموشی سے قمیص بدل کر ڈاکٹر صاحب سے اجازت لے کر گھر کی جانب چلا۔

درد کا احساس اب بالکل نہ ہونے کے برابر تھا ۔ مگر چلنے میں مشکل ہو رہی تھی ۔ خیر سڑک پار کی اور وہاں سے ویگن پر بیٹھ کر اسکیم موڑ اتر گیا ۔ ابھی ویگن سے اتر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے میری گردن پر زور سے جھانپڑ دیا ۔ اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا یا اللہ آج کیا ہورہا ہے میرے ساتھ اور میں گھوم کر اس کی طرف مڑتا چلا گیا ۔


لو جی کہانی کو آگے تو میں نے چلا دیا ہے اس سے آگے کوئی اور چلائے تاکہ بات سے بات نکل کر لب دشمن پہ چلے
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: سیفی

جھانپڑکھاتے ہی فیصل میاں کی آنکھوں کے سامنے ستارے سے ناچنے لگے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انھیں زمین آسمان سب کچھ ہی گھومتا ہوا نظر آرہا تھا۔۔۔ ذراسی دیر میں حواس اپنی جگہ پر واپس آئے تو ایک عدد پنچ چہرے کا حلیہ بگاڑنے کی پوری کوشش کے دوران ان کے سامنے سے گزرا۔۔۔۔۔۔ وہ تو بھلا ہو اس سفید ریش شخص کا جس نے بیچ سے گزرنے کی کوشش میں اپنا منہ تڑوا کر فیصل صاحب کو بچا لیا تھا ۔۔۔

فیصل صاحب کی شکل روہانسی ہو رہی تھی۔۔۔۔ ادھر وہی بس والا شخص تھا کہ انھیں کچا چبانے کو تیار تھا۔۔۔۔۔ اس کے منہ سے غصہ کے مارے جھاگ بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ارے تم مجھے جانتے نہیں ہو۔۔۔۔۔ مجھے فارق مستقیم (کہانی کے کردار اتنے بھی فرضی نہیں جتنے نام ہیں) کہتے ہیں۔۔۔۔۔ مجھ سے بڑے بڑے ڈرتے ہیں تو کس باغ کی مولی ہے۔۔۔۔ اور ہاں بس میں تو میں نے اس نیلی آنکھوں والی کا لحاظ کیا تھا کہ زمانہ طالبعلمی میں ہم بھی اس کی زلفِ گرہ گیر کے اسیر تھے۔۔۔۔ مگر اب تجھے میرے ہاتھوں بچانے والا کوئی نہیں۔۔۔۔۔ اس نے ایک تان کر مکہ اٹھایا اور فیصل صاحب کے دے ناک پر مارا۔۔۔۔۔۔ فیصل صاحب کی ایک زوردار چیخ نکلی اور ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان کی آنکھ کھل گئی۔۔۔۔ ان کے ابو ان کے سرہانے پہنچ چکے تھے اور غصے سے بڑبڑا رہے تھے۔۔۔۔ کیسا فرزند ہے آرام سے سوتا بھی نہیں۔۔۔۔ سوتے ہوئے بھی لڑتا ہے اور جب مار کھانے پہ آتا ہے تو مجھے جگا کے رکھ دیتا ہے۔۔۔۔

اب اگر فیصل صاحب برا نہ مانیں تو اس وقت تک کہانی کو آگے نہ بڑھائیں جب تک ان کا زخم ٹھیک نہ ہو جائے۔۔۔۔مطلب کسی اور کو موقع دے لیں۔۔۔۔۔ورنہ مزا کرکرا ہو جائے گا۔۔۔ ایسے لگے گا جیسے دو لڑکیاں ہی آپس میں لڑ رہی ہوں۔۔۔۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شارق مستقیم

آپ سارے ہی کہانی ختم کرنے پر تل گئے ہیں اور سیفی صاحب نے تو فیصل کو کسی فارغ مستقیم سے پٹوا کر صاحبِ فراش ہی کروادیا ہے۔ بہرحال میں اپنی عادت سے مجبور کہانی کو دوبارہ ریوائنڈ کر رہا ہوں اور اس درمیان میں ہونے والے ایک واقعے کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

درد کا احساس اب بالکل نہ ہونے کے برابر تھا ۔ مگر چلنے میں مشکل ہو رہی تھی ۔ خیر سڑک پار کی اور وہاں سے ویگن پر بیٹھ کر اسکیم موڑ اتر گیا ۔ ابھی ویگن سے اتر ہی رہا تھا کہ اچانک کسی نے میری گردن پر زور سے جھانپڑ دیا ۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا یا اللہ آج کیا ہورہا ہے میرے ساتھ۔ پلٹا تو سامنے اپنے استاد محترم اعجاز اختر صاحب کی شکل دکھی۔ اب مجھے خیال آیا کہ بے دھیانی میں چلتے چلتے اپنی مادرِ علمی دہلی اردو کالج کے سامنے آگیا ہوں اور وہ بھی اس وقت جب کہ عین چھٹی کا ٹائم تھا۔ اعجاز صاحب نہ صرف مجھے اردو پڑھاتے تھے، بلکہ والد کے گہرے دوستوں میں سے تھے۔ انہوں نے خونخوار نظروں سے مجھے گھورا۔
اعجاز صاحب: آج پھر کلاس سے بَنک کیا ہے؟ کہاں گھومتے پھر رہے ہو؟
فیصل: جی وہ کچھ ضروری کام تھا۔
اعجاز صاحب: اور یہ کالج میں ہم جھک مارتے ہیں۔ آج ٹیسٹ بھی تھا۔ چلو آج تمہارے ابا سے شکایت کر کے ہی دم لوں گا کہ کالج میں تم کم ہی دکھتے ہو۔
اس خوفناک دھمکی پر میرے سر کے اوپر سے آسمان سرک گیا اور والد صاحب کا چمڑے کا چابک چاروں طرف شائیں شائیں کرتا نظر آنے لگا۔ میں نے فوراً اعجاز صاحب سے ساز باز کا ارادہ کر لیا۔
فیصل: اعجاز صاحب آج معاف کردیں۔
اعجاز صاحب: ہر گز نہیں۔
فیصل: سر کچھ دے دلا کے بات ختم کر لیں۔
اعجاز صاحب: (آنکھ نکال کے) ناہنجار ہمیں ایسا سمجھتا ہے!!!
فیصل: (بے چارگی سے) پھر کچھ آپ ہی بتائیں کہ معاملہ کیسے رفع دفع کریں گے۔

مگر جواب میں اعجاز صاحب نے جو شرط پیش کی اس سے میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو چھلک پڑے۔
اعجاز صاحب: معاف تمہیں میں کردوں گا مگر تمہیں میری ایک تازہ غزل سننا ہوگی۔

اس شرط کو سن کر میری جان نکل گئی۔ انہیں لاکھ اللہ کے واسطے دیئے کہ کوئی اور شرط پیش کردیں۔ یہاں تک کہا کہ میرے زخمی کولہوں پر ڈنڈے برسالیں مگر غزل کا پروگرام کینسل کردیں مگر وہ نہ مانے۔ بالآخر میں نے ہتھیار ڈال دیئے اور ان کے ہمراہ ایک قریبی چائے خانے کی طرف ہولیا۔ راستے میں اعجاز صاحب پوچھنے لگے:
"جیب میں چائے اور سموسے کے پیسے تو ہونگے نا!"

(کہانی کے نام، کردار و واقعات فرضی ہیں۔)
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم


یار مار تو مجھے چہرے پر پڑی تھی آپ نے کولہے زخمی کیسے کر دیئے بہر حال ابھی کسی اور دوست کو دعوت ہے کہ کہانی کو آگے بڑھائے ورنہ پھر مجبوراَ مجھے ہی کہانی آگے بڑھانی پڑے گی اور یار لوگ کہیں گے کہ دو لڑکیاں آپس میں لڑ رہی ہیں۔۔۔۔۔ :punga:
191kn.gif
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

ایک تو سیفی بھائی نے فیصل پر قدغن لگا دی کہ وہ ذرا آرام کریں دوسرے شارق صاحب نے کہانی کو ریوائنڈ اور فارورڈ کرکر کے اس کی کیسٹ گھسا دی ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہاں سے آگے بڑھائی جائے کہانی۔ مجھے صبح جلدی آفس جانا ہے اس لیے ابھی سو رہا ہوں۔ سیفی بھائی سے درخواست ہی کر سکتا ہوں کہ وہ فیصل پر اپنا بین ختم کر دیں تاکہ کہانی کچھ تو آگے بڑھے۔۔

ڈاکٹر صاحب کچھ آپ بھی ذرا طبع آزمائی کرکے دیکھیں، سیفی بھائی کی طبع نازک پر تو لگتا ہے یہ داستاں گوئی کچھ گراں گزر رہی ہے۔ :p
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: اعجاز اختر

شارق نے کہانی میں میرا نام بھی گھسیٹ لیا ہے، مزا آیا۔ محض اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میں خود ان شاعروں سے چڑتا ہوں جو اپنا کلام سنانے کے درپے ہوتے ہیں اور خود مجھے اپنا کلام یاد ہی نہیں رہتا ۔ اور نہ سنانے کی ایسی شدید خواہش۔ اور یہی نہیں، چائے خانوں کے شاعروں سے تو میں خود ہی دور بھاگتا رہا ہوں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

اعجاز اختر صاحب، آپ تو بلا وجہ گھبرا گئے۔ شارق صاحب نے پہلے ہی وضاحت فرما دی ہے کہ تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں۔ لیجیے میں اس کہانی کو کچھ آگے بڑھاتا ہوں۔

تو اعجاز اختر ناگپوری فیصل کے ہمراہ پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے اور چائے آرڈر کی۔ فیصل کی حالت زار دیکھ کر اعجاز اختر صاحب نے پوچھا “فیصل تم نے یہ کیا اپنی حالت بنائی ہوئی ہے“۔ ہمدردی کا اظہار ہوتے ہی فیصل کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔ پھر اس نے اعجاز اختر صاحب کو بتایا کہ وہ حسینہ عاشی بٹ جس کی خوش خوراکی کی وجہ سے اگرچہ اس کا ظاہری حسن نکھر آیا تھا لیکن اسی سے اس کے دماغ پر چربی کی ایک دبیز تہہ چڑھ گئی تھی۔ اس ظالم نے اس کاری گری سے فیصل کو انستھیزیا دیا تھا کہ فیصل کے جسم کے مجروح حصے کو چھوڑ کر باقی سارا جسم سن ہو گیا تھا۔ حتی کہ عاشی بٹ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر جو مسکراہٹ آئی تھی وہ بھی کِھلی باچھوں کی صورت میں اس کے چہرے سے چپک کر رہ گئی۔ انستھیزیا اس غضب کا تھا کہ عمل جراحی کے دوران فیصل صحیح سے صدائے احتجاج بھی نہ بلند کرسکا۔ اس کے حلق سے ایسی آوازیں بلند ہورہی تھیں جیسے کسی کارٹون میں ڈونلڈ ڈک اپنی بطخ کی آواز میں ہنس رہا ہو۔ کلینک سے نکلنے کے بعد فیصل روبوٹ کی طرح چل رہا تھا۔ قدم رکھتا کہیں تھا، پڑتا کہیں تھا حتی کہ وہ اعجاز اختر صاحب کے ہتھے چڑھ گیا۔

فیصل کی کتھا سن کر اعجاز اختر صاحب کو ترس آگیا۔ اس کی دلجوئی کے لیے انہوں نے اپنی بیاض کھولی اور اپنی تازہ غزل سنانی شروع کردی۔ ان کی مترنم آواز سن کر ایک خان صاحب بھی چلے آئے۔ جب اعجاز اختر صاحب شعر کہتے تو خان صاحب وئی کہہ کر فرط سرور سے جھومنے لگتے اور جب اعجاز اختر صاحب شعر کو مکرر پڑھنے کی کوشش کرتے وہ خان صاحب انہیں درشت اشارے سے منع کردیتے کہ اس سے شعر کے لطف میں خلل پڑتا تھا اور جب فیصل انہیں شعر کا مطلب سمجھاتا تو لاحول پڑھ کر خاموش ہوجاتے۔

جی سیفی بھائی، اب اجازت ہے فیصل کو۔۔ :hatoff:
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: قدیر احمد

ارے واہ مجھے تو پتہ ہی نہیں تھا کہ یہاں یاروں نے تباہیاں مچائی ہوئی ہیں ۔ اب میں کیا کروں ۔ میں تو یہاں پہنچا ہی اس وقت ہوں جب کہانی کا مشکل موڑ آگیا ہے۔ ذرا کل تک کہانی کو روک کر رکھیے میں کچھ سوچتا ہوں
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم

دیکھ لو یار میرے اب یہ نہیں پوچھ مجھے
مار پٹتی جو رہی پھر داستاں آگے بڑھی
ہم نے چاہا تھا یہاں بات سے بات چلے
اک کہانی سے چلی داستاں آگے بڑھی
بس چلاتے تھے کبھی مار کھاتے تھے کبھی
اس نے ٹیکہ بھی لگایا داستاں آگے بڑھی
ایک سے دوسرے پھر تیسرے کالج میں گئے
لمبی غزلیں بھی سنی داستاں آگے بڑھی
کوئی کہتا تھا مجھے خواب خرگوش سے جاگ
کسی نے عشق دیا داستاں آگے بڑھی
ہائے “اعجاز اختر“ تیرے سنجیدہ “گماں“
ایسی باتوں سے نہ “چڑ “ داستاں آگے بڑھی
آئے ہیں “شارق“ و “سیفی“ و “نبیل“ اپنے لئیے
“ڈاکٹر“ کی ہے کمی داستاں آگے بڑھی
ہم کو چب رہنے کو کہ ڈالا ہے ظالم تم نے
دیکھ لو شعر کہا داستاں آگے بڑھی
یار لوگوں نے کہانی کو اسقدر موڑا
مانند سرخ جلیبی داستاں آگے بڑھی
کچھ یہ کہتے تھے کہ لاہور میں “دلّی کالج“
“ایم اے او“ ہم بھی گئے داستاں آگے بڑھی
گو کہ پڑھتے تھے کبھی ہم بھی “سول لائنز“ میں
بس کنڈکٹر بھی بنے داستاں آگے چلی
وائے ناکامی کہ باتوں کے سوا کچھ نہ کیا
بات سے بات چلی داستاں آگے بڑھی







بس یا اور۔۔۔۔۔؟
:aadab:

میں نے سوچا کہ اب بات غزل پر اٹکتی جا رہی ہے اور کوئی بھی اپنی شاعری کا خانہ خراب کروانا پسند نہیں کرتا کیوں نہ رضاکارانہ موقع کی مناسبت سے کچھ عرض کر دیا جائے تاکہ برادران کو بات آگے چلانے میں آسانی ہووے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: شعیب صفدر

فیصل عظیم نے کہا:
دیکھ لو یار میرے اب یہ نہیں پوچھ مجھے
مار پٹتی جو رہی پھر داستاں آگے بڑھی
ہم نے چاہا تھا یہاں بات سے بات چلے
اک کہانی سے چلی داستاں آگے بڑھی
بس چلاتے تھے کبھی مار کھاتے تھے کبھی
اس نے ٹیکہ بھی لگایا داستاں آگے بڑھی
ایک سے دوسرے پھر تیسرے کالج میں گئے
لمبی غزلیں بھی سنی داستاں آگے بڑھی
کوئی کہتا تھا مجھے خواب خرگوش سے جاگ
کسی نے عشق دیا داستاں آگے بڑھی
ہائے “اعجاز اختر“ تیرے سنجیدہ “گماں“
ایسی باتوں سے نہ “چڑ “ داستاں آگے بڑھی
آئے ہیں “شارق“ و “سیفی“ و “نبیل“ اپنے لئیے
“ڈاکٹر“ کی ہے کمی داستاں آگے بڑھی
ہم کو چب رہنے کو کہ ڈالا ہے ظالم تم نے
دیکھ لو شعر کہا داستاں آگے بڑھی
یار لوگوں نے کہانی کو اسقدر موڑا
مانند سرخ جلیبی داستاں آگے بڑھی
کچھ یہ کہتے تھے کہ لاہور میں “دلّی کالج“
“ایم اے او“ ہم بھی گئے داستاں آگے بڑھی
گو کہ پڑھتے تھے کبھی ہم بھی “سول لائنز“ میں
بس کنڈکٹر بھی بنے داستاں آگے چلی
وائے ناکامی کہ باتوں کے سوا کچھ نہ کیا
بات سے بات چلی داستاں آگے بڑھی







بس یا اور۔۔۔۔۔؟
:aadab:

میں نے سوچا کہ اب بات غزل پر اٹکتی جا رہی ہے اور کوئی بھی اپنی شاعری کا خانہ خراب کروانا پسند نہیں کرتا کیوں نہ رضاکارانہ موقع کی مناسبت سے کچھ عرض کر دیا جائے تاکہ برادران کو بات آگے چلانے میں آسانی ہووے۔


خوب بہت خوب
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: قدیر احمد

معاف کیجیے گا وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے

دراصل کل سے میری طبیعت خراب ہے ۔ ہر پانچ منٹ میں ایک چھینک آتی ہے اور دو آتی آتی رہ جاتی ہیں ۔ سردرد اور بخار کی کہانی الگ ہے ۔ ابھی ابھی میں جوشاندہ لے کر بیٹھا ہوں اور سوچ رہا ہوں کہ پیوں یا نہ پیوں ۔ اگر دماغ سے زنگار ہٹ گیا تو شاید کچھ لکھ دوں ۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: نبیل

میں تو یہی کہوں گا کہ پی لو جوشاندہ۔ اسے پی کر تو انسان بڑی مشکل سے زندہ بچتا ہے، نزلے کے جراثیم کی کیا مجال ہے بچ جائیں۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: فیصل عظیم


نبیل نے کہا:
اعجاز اختر صاحب، آپ تو بلا وجہ گھبرا گئے۔ شارق صاحب نے پہلے ہی وضاحت فرما دی ہے کہ تمام کردار اور واقعات فرضی ہیں۔ لیجیے میں اس کہانی کو کچھ آگے بڑھاتا ہوں۔

تو اعجاز اختر ناگپوری فیصل کے ہمراہ پاک ٹی ہاؤس میں داخل ہوئے اور چائے آرڈر کی۔ فیصل کی حالت زار دیکھ کر اعجاز اختر صاحب نے پوچھا “فیصل تم نے یہ کیا اپنی حالت بنائی ہوئی ہے“۔ ہمدردی کا اظہار ہوتے ہی فیصل کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو بہنے لگے۔ پھر اس نے اعجاز اختر صاحب کو بتایا کہ وہ حسینہ عاشی بٹ جس کی خوش خوراکی کی وجہ سے اگرچہ اس کا ظاہری حسن نکھر آیا تھا لیکن اسی سے اس کے دماغ پر چربی کی ایک دبیز تہہ چڑھ گئی تھی۔ اس ظالم نے اس کاری گری سے فیصل کو انستھیزیا دیا تھا کہ فیصل کے جسم کے مجروح حصے کو چھوڑ کر باقی سارا جسم سن ہو گیا تھا۔ حتی کہ عاشی بٹ کو دیکھ کر اس کے چہرے پر جو مسکراہٹ آئی تھی وہ بھی کِھلی باچھوں کی صورت میں اس کے چہرے سے چپک کر رہ گئی۔ انستھیزیا اس غضب کا تھا کہ عمل جراحی کے دوران فیصل صحیح سے صدائے احتجاج بھی نہ بلند کرسکا۔ اس کے حلق سے ایسی آوازیں بلند ہورہی تھیں جیسے کسی کارٹون میں ڈونلڈ ڈک اپنی بطخ کی آواز میں ہنس رہا ہو۔ کلینک سے نکلنے کے بعد فیصل روبوٹ کی طرح چل رہا تھا۔ قدم رکھتا کہیں تھا، پڑتا کہیں تھا حتی کہ وہ اعجاز اختر صاحب کے ہتھے چڑھ گیا۔

فیصل کی کتھا سن کر اعجاز اختر صاحب کو ترس آگیا۔ اس کی دلجوئی کے لیے انہوں نے اپنی بیاض کھولی اور اپنی تازہ غزل سنانی شروع کردی۔ ان کی مترنم آواز سن کر ایک خان صاحب بھی چلے آئے۔ جب اعجاز اختر صاحب شعر کہتے تو خان صاحب وئی کہہ کر فرط سرور سے جھومنے لگتے اور جب اعجاز اختر صاحب شعر کو مکرر پڑھنے کی کوشش کرتے وہ خان صاحب انہیں درشت اشارے سے منع کردیتے کہ اس سے شعر کے لطف میں خلل پڑتا تھا اور جب فیصل انہیں شعر کا مطلب سمجھاتا تو لاحول پڑھ کر خاموش ہوجاتے۔

جی سیفی بھائی، اب اجازت ہے فیصل کو۔۔ :hatoff:

غزل سنتے سنتے اچانک میں نے خان صاحب کو اشارہ کیا اور اعجاز اختر صاحب سے گزارش کی کہ اجازت ہو تو ذرا فطری حاجت کا سامان کر آؤں اب اعجاز صاحب پہلے تو غضبناک ہو کر اجازت دینے سے انکار کرنے لگے مگر جیسے ہی انکی نظر خان صاحب پر پڑی انہیں ایک “باذوق“ سامع نظر آیا اور انہوں نے مجھےتنبیہ کر دی کہ دیکھ لینا اب یہاں سے بھی بھاگ نہ جانا کیونکہ چائے اور سموسوں کا بل ادا کرنا ہے اور غزل کے کچھ اشعار باقی ہیں۔ مرتا کیا نہ کرتا میں نے ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ حضور آپ کی محفل سے راہ فرار کسے درکار ہے مگر اس وقت معدہ ناچیز میں کھبی ہوئی پرکار ہے ۔ اس لیئے میں یوں گیا اور یوووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووووں آیا۔
خانصاحب کو اپنی کرسی پر بٹھا کر جب میں بظاہر باتھ روم کی جانب روانہ ہوا تو کچھ دور جا کر میں نے اچٹتی ہوئی نظر ماری کہ خانصاحب کا کیا حشر ہو رہا ہوگا تو دیکھتا ہوں کہ خانصاحب حسب معمول سر دھننے میں مشغول ہیں اور حضرت اعجاز بھی مجھے فراموش کیئے اب نئے شکار کو اپنی شاعری کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اب میں نے بے فکر ہوکر دروازے کا رخ کیا اور آہستہ آہستہ کھسکتے ہوئے دروازے سے باہر نکلنے میں کامیاب رہا ۔ باہر نکلتے ہی میرے منہ سے خوشی کے مارے نعرہ نکلا مگر کیا نعرے کی جگہ ایک پر آشوب چیخ نے لے لی ۔ کیونکہ عاشی کا دیا ہوا اداس تحفہ (وہی ٹیکہ الم خور) مجھے اپنی موجودگی کا احساس دلا رہا تھا ۔ وہاں سے میں سیدھا شاہ فرید موڑ سے تانگے پر سوار ہو کر اپنے گھر بی بلاک میں پہنچ گیا ۔ گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو ماجھاں نے دروازہ کھولا ۔ موصوفہ ہمارے گھر میں کام کرتی تھیں عمر ہے تقریباََ پچاس برس امی کی اکلوتی اور چہیتی ہونے کی بناء پر سیاہ و سفید کی مختار عام اور ہکلا کر بولنے میں ماہر ہیں ۔ ہکلا کر بولنے کی بیماری صرف اسی وقت عود کر آتی ہے جب کبھی حساب کتاب دینا ہو ورنہ (مقص عربی میں اور سیزر انگریزی میں نام ہے انکی زبان کا) عموماََ صاف بات چیت کرتی ہیں۔

اب جو کچھ میرے ساتھ ہو چکا تھا اس کے بعد طبیعت میں گرانی تو عام سی بات تھی لہذا گھر جاتے ہی ڈرائینگ روم کے صوفے پر گرا اور گرتے ہی سو گیا۔ اٹھا تو سر ہلکا تھا مگر ایسے لگ رہا تھا کہ چھینک اب آئی کہ اب آئی۔ ایک منٹ میں مسلسل تین مرتبہ چھینک ماری تو ہوش آئی کہ جناب کو سردی ہو گئی ہے۔

امی نے پوچھا کہ بیٹا کیا ہوا جواب دیا امی لگتا ہے کہ زکام ہو گیا ہے ۔ اتنے میں ماجھاں جوشاندہ بنا کر لے آئی تھی جو کہ مجھے زہر مار کرنا تھا ۔ جوشاندے کا کپ ہاتھ میں پکڑا اور اوپر چھت پر چلا گیا کہ ذرا کھلی ہوا میں بیٹھ کر جوشاندہ پی لوں۔

چھت پر گیا تو شام کے سات بج رہے تھے میں بیٹھ گیا اور چارپائی کے پائے کو جوشاندہ پلانے لگا اتنے میں نور کی بارش ہوئی اور سامنے والی کھڑکی میں چاند کی آمد ہوئی ۔
میں نے اسے دیکھتے ہی اسٹائل مارا مگر یہ کیا

اسکے پیچھے کون ہے جسے دیکھتے ہی میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھاتا چلا گیا۔۔۔۔۔


(یار اب تو اسے آگے بڑھا دو میں نے ویسے بھی قسم توڑ دی ہے نہ بولنے کی)
 

نبیل

تکنیکی معاون
تحریر: افتخار راجہ

ایک ہی وقت میں پوسٹ ہونے والی دو کہانیوں نے مزا کرکرا کر دیا اور اپنی یہ تحریر مجھے خود بھی بے ربط نظر آئی۔ فیصل صاحب کی کہانی کو آگے لے جانا ہی مناسب اور سلسلہ وار ہوگا۔
 
Top