اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم!

arifkarim

معطل
اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم
پاکستانی سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے چھبیس اگست کو محفوظ کیا گیا اردو زبان سے متعلق فیصلہ اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل منگل کو سنایا۔


پاکستانی آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون میں "اُردو" کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ شامل ہے۔ اس فیصلے کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔

عدالت نے تمام سرکاری دفاتر اور وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال سے متعلق اردو کے احیاء کے لیے قائم اداروں کی سفارشات پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے خاص طورپر عوامی مفاد سے متعلق قوانین کا اردو ترجمہ کرانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری محکموں کو عدالتی مقدمات میں اپنے جوابات اردو میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ عوام اس فیصلے کو سمجھ کر اپنے حقوق کا نفاذ کرا سکیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا کہ "اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا"۔


پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت

خیال رہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق فیصلہ کوکب اقبال ایڈووکیٹ اور ایک درخواست گزار محمود اختر نقوی کی درخواستوں پر سنایا گیا۔ کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست دوہزار تین سے عدالت عظمی میں زیر التوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو رائج نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسا معاشرتی اور لِسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صِرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کاسبب بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس آئینی شق کو انیس سو تہتر کے آئین کی منظوری کے 15برس کے دوران نافذ کیا جانا تھا لیکن 1988 ء میں یہ میعاد پوری ہونے کے 27 برس گزرنے کے باوجود مذکورہ لازمی آئینی شق کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر فوری رد عمل میں یونیورسٹی کی سطح کے بعض طالبعلوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم وفاقی اردو سائنس یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں زیر تعلیم خالد کان کا کہنا ہے کہ "میرے لیے اس لیول پر آ کر فزکس جیسے مضمون کو اردو میں پڑھنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، ایک تو میں پشتون بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور دوسرا تمام ایجوکیشن انگلش زبان میں حاصل کی ہے۔" شعبہ طبعیات ہی کی ایک طالبہ نائمہ محمود کا کہنا تھا کہ اردو کو صرف اس حد تک سرکاری زبان رکھنا چاہیے کہ ہمارے حکمران اندرون اور بیرون ملک تقاریب میں تقاریر اردو میں کریں ۔ انہوں نے کہا کہ "اردو کے نفاذ کا فیصلہ اچھا ہے لیکن کچہ اسٹڈیز ایسی ہیں جن کی اصطلاحات کو اردو میں پڑھنا آسان نہیں ہو گا۔تو اس لیے اگر اس کو اپنی پہچان بنانا ہے تو نیشنل لیول پر اس کو فووغ دیں۔"

دوسری جانب اسلام آباد میں شعرا ء اور ادیبوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کے لیے قائم ادارے " اکادمی ادبیات " کے سربراہ ڈاکٹر قاسم بھگیو کا کہنا ہے کہ اردو کے نفاذ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ " جب آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کی شق رکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے لیے ادارے بھی بنائے گئے تھے، جنہوں نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا لیکن اب بھی ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو زبان کے نفاذ میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب تک انگریزی میں ہونے والی دفتری خط و کتابت کے جو نمونے ہیں انہیں فوری طور پر اردو میں ترجمہ کرکے نافذ کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ انہوں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔
http://www.dw.com/ur/اردو-کو-بطور-سرکاری-زبان-فوری-طور-پر-نافذ-کرنے-کا-حکم/a-18701937

بہت دیر کردی مہربان نے آتے آتے۔ اب پاکستان کے انگریزی سیاست دانوں جیسے بلاول بھٹو زرداری کو بھی اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لینا پڑے گا کیا؟ :)
 

arifkarim

معطل
انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔
اور یہ بھی خیال رکھنا ہوگا کہ نئی اردو اصطلاحات بناتے وقت اردو وکی پیڈیا سے استفادہ ہرگز ہرگز نہیں کیا جائے گا :)
 

کاظمی بابا

محفلین
عرب، افریکی اور مشرق بعید کے لوگ انگریزی اپنا رہے ہیں، حتی کہ چین اور روس نے بھی انگریزی کے لئے دروازے کھول دئے ہیں۔
غیر ممالک میں پاکستانیوں کی اعلی کارکردگی ہر میدان میں تسلیم کی گئی ہے جس کی ایک اہم وجہ بہتر انگریزی دانی ہے۔
ہم نہیں سمجھتے کہ اس فیصلے سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل ہو پائے گا۔
 

arifkarim

معطل
ہم نہیں سمجھتے کہ اس فیصلے سے کوئی مثبت نتیجہ حاصل ہو پائے گا۔
جناب بنیادی تعلیم تو ایک قومی زبان میں ہی ہونی چاہئے نا! گھر میں آپ بچے سے پنجابی بولیں، اسکول میں اساتذہ اسے انگریزی میں پڑھائیں، جبکہ اخبارات و رسائل اردو میں ہوں، تو ایسے میں وہ بچہ کیا خاک اعلیٰ تعلیم حاصل کر پائے گا؟
ضرورت اس امر کی ہے کہ اردو کو فارسی کی طرح پاکستان کی سرکاری و تدریسی زبان کا درجہ دیا جائے۔ یوں تمام پاکستانی بچوں کو بنیادی تعلیم اردو ہی میں دی جائے اور پھر اعلیٰ تعلیم کیلئے انگریزی سکھائی جائے۔ یہاں مغرب میں یہی ماڈل ایک عرصہ سے بالکل درست کام کر رہا ہے اور آج تک کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ پھر پاکستانیوں کو آخر کیوں اپنی قومی زبان میں بنیادی تعلیم حاصل کرتے تکلیف ہوتی ہے؟
مثال کے طور پر ناروے میں پہلی جماعت سے لیکر کالج تک تمام تعلیم قومی زبان نارویجن میں دی جاتی ہے۔ البتہ پرائمری کے بعد انگریزی لازمی مضمون کے طور پر سکھائی جاتی ہے جسکی بدولت ہر نارویجن بچہ انگریزی سمجھ سکتا ہے۔ کالج کے بعد جب طالب علموں کی علمی بنیاد مضبوط ہو جاتی ہے تو پھر اعلیٰ تعلیم انگریزی ہی میں دی جاتی ہے۔ جسے سمجھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں کہ اسکی ٹریننگ آپ سیکنڈری اسکول سے کر رہے ہوتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

کاظمی بابا

محفلین
سائنس، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے دستیاب وسائل کو اردو میں کون منتقل کرے گا ؟
یہ تجربہ ضیاء دور میں کیا گیا تھا، گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اردو میں نہیں کرپائے تیرہ سال میں ۔ ۔ ۔
جو تراجم کئے، بھونڈے اور مضحکہ خیز ۔ ۔ ۔ کنفیوژن ہی کنفیوژن ۔ ۔ ۔
اب بھی یہ وقت اور وسائل کی زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
 

کاظمی بابا

محفلین
سکول میں انگریزی
گھر میں پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی
مسجد میں عربی
سرکاری عرضیاں اردو میں
-
ایک ایک چیز کے چار چار نام یاد کرو
میموری فُل
 

Majid Hashmi

محفلین
اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم
پاکستانی سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے چھبیس اگست کو محفوظ کیا گیا اردو زبان سے متعلق فیصلہ اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل منگل کو سنایا۔


پاکستانی آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون میں "اُردو" کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ شامل ہے۔ اس فیصلے کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔

عدالت نے تمام سرکاری دفاتر اور وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال سے متعلق اردو کے احیاء کے لیے قائم اداروں کی سفارشات پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے خاص طورپر عوامی مفاد سے متعلق قوانین کا اردو ترجمہ کرانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری محکموں کو عدالتی مقدمات میں اپنے جوابات اردو میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ عوام اس فیصلے کو سمجھ کر اپنے حقوق کا نفاذ کرا سکیں۔

عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا کہ "اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا"۔


پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت

خیال رہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق فیصلہ کوکب اقبال ایڈووکیٹ اور ایک درخواست گزار محمود اختر نقوی کی درخواستوں پر سنایا گیا۔ کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست دوہزار تین سے عدالت عظمی میں زیر التوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو رائج نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسا معاشرتی اور لِسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صِرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کاسبب بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس آئینی شق کو انیس سو تہتر کے آئین کی منظوری کے 15برس کے دوران نافذ کیا جانا تھا لیکن 1988 ء میں یہ میعاد پوری ہونے کے 27 برس گزرنے کے باوجود مذکورہ لازمی آئینی شق کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔

اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر فوری رد عمل میں یونیورسٹی کی سطح کے بعض طالبعلوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم وفاقی اردو سائنس یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں زیر تعلیم خالد کان کا کہنا ہے کہ "میرے لیے اس لیول پر آ کر فزکس جیسے مضمون کو اردو میں پڑھنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، ایک تو میں پشتون بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور دوسرا تمام ایجوکیشن انگلش زبان میں حاصل کی ہے۔" شعبہ طبعیات ہی کی ایک طالبہ نائمہ محمود کا کہنا تھا کہ اردو کو صرف اس حد تک سرکاری زبان رکھنا چاہیے کہ ہمارے حکمران اندرون اور بیرون ملک تقاریب میں تقاریر اردو میں کریں ۔ انہوں نے کہا کہ "اردو کے نفاذ کا فیصلہ اچھا ہے لیکن کچہ اسٹڈیز ایسی ہیں جن کی اصطلاحات کو اردو میں پڑھنا آسان نہیں ہو گا۔تو اس لیے اگر اس کو اپنی پہچان بنانا ہے تو نیشنل لیول پر اس کو فووغ دیں۔"

دوسری جانب اسلام آباد میں شعرا ء اور ادیبوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کے لیے قائم ادارے " اکادمی ادبیات " کے سربراہ ڈاکٹر قاسم بھگیو کا کہنا ہے کہ اردو کے نفاذ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ " جب آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کی شق رکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے لیے ادارے بھی بنائے گئے تھے، جنہوں نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا لیکن اب بھی ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو زبان کے نفاذ میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب تک انگریزی میں ہونے والی دفتری خط و کتابت کے جو نمونے ہیں انہیں فوری طور پر اردو میں ترجمہ کرکے نافذ کیا جائے۔"

انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ انہوں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔
http://www.dw.com/ur/اردو-کو-بطور-سرکاری-زبان-فوری-طور-پر-نافذ-کرنے-کا-حکم/a-18701937

بہت دیر کردی مہربان نے آتے آتے۔ اب پاکستان کے انگریزی سیاست دانوں جیسے بلاول بھٹو زرداری کو بھی اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لینا پڑے گا کیا؟ :)

رکنیت اختیار کرتے ہی پہلی تحریر پڑھی ہے یہ - شکریہ عارف کریم بھائی :)
 
زبان اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک عادت ہے۔ عادت پڑنے سے قبل اجنبیت محسوس ہونا فطری ہے۔ لیکن اس اجنبیت کی بنا پر ایک مفید عادت نہ اپنانا محض حماقت ہے۔ انگریزی، اردو، پنچابی وغیرہ کے مستعمل الفاظ ہمیں مضحکہ خیز اس لیے معلوم نہیں ہوتے کہ کان اور زبانیں ان سے آشنا ہیں۔ ورنہ تھرمامیٹر جیسے الفاظ درختوں پر تو اگتے نہیں کہ فطری کہلائیں۔ جب پہلے پہل بولے گئے ہوں گے تو ضرور حجت ہوئی ہو گی جیسے آج ہو رہی ہے۔ میں مقیاس الحرارت جیسے تراجم کے تجربات کرنے کا حامی نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ زبان پہ چڑھ جائیں تو تھرمامیٹر بیہودہ لگنے لگے گا۔
 

arifkarim

معطل
سائنس، انجینئرنگ اور ٹیکنالوجی کے دستیاب وسائل کو اردو میں کون منتقل کرے گا ؟
وہی قوت جس نے چین، جاپان، جنوبی کوریا وغیرہ جیسے مشرقی ممالک میں اپنی ترقی پزیری کے دوران یہ کام سرانجام دیا تھا۔ آج یہی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں مغرب کی ٹکر پر آگئے ہیں۔ اگر وہ یہ کام انسان ہوتے ہوئے کر سکتے ہیں تو ہم پاکستانی کیا خلائی مخلوق ہیں؟ :) یاد رہے کہ جنوبی کوریا نے اپنے معاشی سفر کی ابتداء پاکستان آکر یہاں سے پانچ سالہ معاشی منصوبہ مستعار لیکر شروع کی تھی۔ جب انہیں ہم سے کچھ اچھا لینے میں کوئی عار نہیں تو ہمیں ان قوموں کے بعض اچھے اقدام پر چلتے وقت کانٹے چبنے لگ جاتے ہیں؟ :)

یہ تجربہ ضیاء دور میں کیا گیا تھا، گاڑیوں کی نمبر پلیٹس اردو میں نہیں کرپائے تیرہ سال میں ۔ ۔ ۔
ضیاء کے دور میں کوئی ایک بھی کام ٹھیک سے ہوا تھا جوآپ اسکے دور کی ناکامی کو مثالی نمونہ بنا کر پیش کر رہے ہیں؟ :)

جو تراجم کئے، بھونڈے اور مضحکہ خیز ۔ ۔ ۔ کنفیوژن ہی کنفیوژن ۔ ۔ ۔
ظاہر ہے۔ جیسا ضیاء ویسی اسکی باقیات کی موجودہ کارکردگی بشمول عزت مآب نواز شریف جنہوں نے اپنی سیاست کی ابتداء ضیاء کیساتھ مل کر شروع کی۔

اب بھی یہ وقت اور وسائل کی زیاں کے علاوہ کچھ نہیں ہو گا۔
جب نیک نیتی سے کوشش ہی نہیں کرنی تو پہلے ہی رولا ڈالنے کا کیا فائدہ؟

سکول میں انگریزی
گھر میں پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی
مسجد میں عربی
سرکاری عرضیاں اردو میں
-
ایک ایک چیز کے چار چار نام یاد کرو
میموری فُل
جی بالکل ایسا ہی ہے۔ اس موضوع پر نامور پاکستانی گلوکار شہزاد روئے نے کافی سال قبل جیو پر کئی قسطوں پر مشتمل ایک پروگرام بھی کیا تھا۔ جن میں یہی زبان کے ایشوز اٹھائے گئے تھے۔ اس شو کا نتیجہ یہی نکلا تھا کہ مغرب کی طرح بنیادی تعلیم قومی زبان میں اور اسکے بعد اعلیٰ تعلیم انگریزی میں حاصل کرنا ہی ان مسائل کا حل ہے۔

زبان اپنی نوعیت کے لحاظ سے ایک عادت ہے۔ عادت پڑنے سے قبل اجنبیت محسوس ہونا فطری ہے۔ لیکن اس اجنبیت کی بنا پر ایک مفید عادت نہ اپنانا محض حماقت ہے۔ انگریزی، اردو، پنچابی وغیرہ کے مستعمل الفاظ ہمیں مضحکہ خیز اس لیے معلوم نہیں ہوتے کہ کان اور زبانیں ان سے آشنا ہیں۔ ورنہ تھرمامیٹر جیسے الفاظ درختوں پر تو اگتے نہیں کہ فطری کہلائیں۔ جب پہلے پہل بولے گئے ہوں گے تو ضرور حجت ہوئی ہو گی جیسے آج ہو رہی ہے۔ میں مقیاس الحرارت جیسے تراجم کے تجربات کرنے کا حامی نہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ زبان پہ چڑھ جائیں تو تھرمامیٹر بیہودہ لگنے لگے گا۔
سو فیصد متفق! درحقیقت اردو میں کئی الفاظ اور اصطلاحات ہیں جو بولنے میں انگریزی سے کہیں زیادہ مشکل ہیں لیکن چونکہ بچپن ہی سے یہ ہمارے منہ پر چڑھے ہوتے ہیں یوں ہم انگریزی کی بجائے اردو ہی میں انہیں بولتے ہیں۔ جسکی ایک مثال ’’مقناطیس‘‘ ہے۔ ہم اسے بہت تیزی کیساتھ انگریزی میں Magnet کہہ سکتے ہیں لیکن چونکہ مقناطیس زبان پر چڑھا ہے تو ہم ہمیشہ اسے یہی کہتے ہیں۔ یہی حال دیگر ایجادات کا ہے جیسے کارکو گاڑی، ایئرپلین کو جہاز، شپ کو بحری جہاز کہنا وغیرہ۔
 

فاتح

لائبریرین
سکول میں انگریزی
گھر میں پنجابی، پشتو، سندھی یا بلوچی
مسجد میں عربی
سرکاری عرضیاں اردو میں
-
ایک ایک چیز کے چار چار نام یاد کرو
میموری فُل
یہ بہت پرانا خیال ہے۔ جدید تحقیق اور تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا دماغ ایک ہی وقت کئی زبانیں سیکھنے کا اہل ہوتا ہےاور خصوصاً بچوں میں یہ صلاحیت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
 

عثمان

محفلین
یہ حکم نامہ سرکاری دفتری معاملات کے بارے میں ہے۔ لوگ فی الفور سکول کی سطح تک کیوں پہنچ جاتے ہیں۔
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم دونوں طرح کے تعلیمی ادارے موجود رہنے چاہیں، جیسا کہ اب ہیں۔ جس کو اردو میڈیم کا شوق ہے وہ جائے اپنی اولاد کو قومی زبان کی محبت میں اردو میڈیم سکولوں میں داخل کروائے۔ جو انگریزی کو ضرورت سمجھتا ہے اسے انگریزی میڈیم سے استفادہ کرنے دیں۔
اردو میڈیم کب انگریزی میڈیم کے آگے ٹکی ہے۔ زبردست کا ٹھینگا سر پر!
 

عثمان

محفلین
یہ بہت پرانا خیال ہے۔ جدید تحقیق اور تجربوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ انسان کا دماغ ایک ہی وقت کئی زبانیں سیکھنے کا اہل ہوتا ہےاور خصوصاً بچوں میں یہ صلاحیت کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
درست! پاکستان بھر کے بچے اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں بھی سیکھتے آئے ہیں۔ :)
 

arifkarim

معطل
اردو میڈیم اور انگریزی میڈیم دونوں طرح کے تعلیمی ادارے موجود رہنے چاہیں، جیسا کہ اب ہیں۔ جس کو اردو میڈیم کا شوق ہے وہ جائے اپنی اولاد کو قومی زبان کی محبت میں اردو میڈیم سکولوں میں داخل کروائے۔ جو انگریزی کو ضرورت سمجھتا ہے اسے انگریزی میڈیم سے استفادہ کرنے دیں۔
کیا آپکے خیال میں اس قسم کا تعلیمی نظام پوری قوم کیلئے کارگر ہو گا یا یہ آگے چل کر مزید طبقاتی تقسیم کا باعث بنے گا؟ ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا :)
 

arifkarim

معطل
درست! پاکستان بھر کے بچے اردو کے ساتھ ساتھ علاقائی زبانیں بھی سیکھتے آئے ہیں۔ :)
علاقائی زبانیں تو انکی مادری زبان میں سے ایک ہوگی۔ کیا ابتدائی تعلیم بھی اسی زبان میں حاصل کرتے ہیں؟ ریسرچ تو یہی بتاتی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں بہترین تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
کیا آپکے خیال میں اس قسم کا تعلیمی نظام پوری قوم کیلئے کارگر ہو گا یا یہ آگے چل کر مزید طبقاتی تقسیم کا باعث بنے گا؟ ذرا سوچ سمجھ کر جواب دیجئے گا :)
پاکستان میں یہ تعلیمی نظام پہلے ہی سے موجود ہے۔ معروف انگریزی تعلیمی ادارے بہترین تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر ایک طبقہ سسک رہا ہے تو اسکی بہتری کے لیے اقدام کیے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ باقی طبقات کو بھی کمزور طبقے کے برابر لانے کے لیے سزا کے طور پر اسی کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔
ہم اردو میڈیم میں پڑھ کر نقصان بھگت چکے ہیں اور اس پر اب دل کھول کر لعنت رسید کرتے ہیں۔ اور اب انشااللہ اپنی نسلوں کو اردو میڈیم سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی نسل پر جو مرضی تجربات کریں۔ دوسروں سے توقعات مت رکھیے کہ وہ بھی آپ کے چناؤ کے پیچھے قومی زبان کا نعرہ لگاتے چل پڑیں گے۔ اردو میڈیم نظام تعلیم انگریزی میڈیم جیسا مفید کیوں نہیں ہوسکتا اسکی وجہ کچھ زمینی حقائق ہیں جو آپ اپنی قومی زبان کے چاؤ میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
نیز یہ صرف پاکستان کی حد تک نہیں ہیں۔ کینیڈا میں بھی انگریزی اور فرینچ دونوں سکول موجود ہیں۔ جس کا جی چاہے جو مرضی چناؤ کرے۔
 

عثمان

محفلین
علاقائی زبانیں تو انکی مادری زبان میں سے ایک ہوگی۔ کیا ابتدائی تعلیم بھی اسی زبان میں حاصل کرتے ہیں؟ ریسرچ تو یہی بتاتی ہے کہ بچہ اپنی مادری زبان میں بہترین تعلیم حاصل کر سکتا ہے۔
میری مادری زبان پنجابی ہے۔ سکول میں اردو سکھائی گئی۔ اور پھر آہستہ آہستہ انگریزی سیکھی۔
میں اب جس زبان میں بہترین معلومات حاصل کر پاتا ہوں۔ وہ انگریزی ہے۔ جو میری مادری زبان نہیں۔
اس ریسرچ کے نتائج کچھ ڈھیلے ہیں۔ سکالرز کو مطلع کریں۔
 
جب بھی کبھی اردو کے نفاذ کی بات آتی ہے، ایک موضوع جو بڑی شد و مد کے ساتھ سر اٹھاتا ہے وہ مختلف انگریزی اصطلاحات و الفاظ کے اردو ترجمے کا ہے.

اور ہم سب ایسے الفاظ کے لیے بالجبر کوئی نہ کوئی اردو لفظ ڈھونڈنے میں لگ جاتے ہیں اور نہ ملنے کی صورت میں اردو کو نا مکمل یا مشکل سمجھنا شروع کر دیتے اور ان الفاظ کا ترجمہ ہونا ضروری سمجھنے لگتے ہیں.

اصطلاحات ہمیشہ جس زبان میں ایجاد ہوئی ہوتی ہیں، عموماً اسی طرح یا زبان کی ضروریات کے مطابق معمولی رد و بدل کے ساتھ ہر زبان کی لغت کا حصہ بن جاتی ہیں.

مثال کے طور پر بہت سی سائنسی اصطلاحات یونانی زبان میں وجود میں آئیں، وہ ابھی تک انگریزی میں بھی مستعمل ہیں.

بہت سی علمی اصطلاحات جو عربی میں وجود میں آئیں، وہ انگریزی میں اسی طرح یا معمولی رد و بدل کے ساتھ مستعمل ہیں. مثلاً الجبرا، کیمسٹری (کیمیاء) وغیرہ.

ایسے الفاظ جن کا اردو متبادل موجود تو ہو، لیکن معدوم ہو چکا ہو، اسے از سر نو زندہ کرنے کی ضرورت ہے.

ایسے انگریزی الفاظ جو اب روزمرہ اردو بول چال کا حصہ بن چکے ہیں، ان کو اردو لغت کا حصہ بنا لینا چاہیے.

اور ایسی اصطلاحات، جو اردو میں موجود نہیں ہیں، ان کو بھی بعینہ لغت میں شامل کر لینا چاہیے.

ضروری نہیں ہے کہ ہر لفظ اور اصطلاح لازمی ترجمہ کر کے لغت میں شامل کی جائے.
مثلاً فیسبک، ٹویٹر اور ان میں استعمال ہونے والی دیگر اصطلاحات کا ترجمہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے.
فیسبک ایک اسم ہے. اس کو لغوی معنوں میں ترجمہ کر کے استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے.

اس طرح کی لا حاصل مباحث اور کوششیں اردو کے نفاذ کو اور مشکل بنا دیتی ہیں.

اردو زبان آسان اور دیگر زبانوں کے الفاظ کو قبول کرنے والی زبان ہے. لہٰذا جو انگریزی الفاظ اور اصطلاحات روزمرہ اردو میں مستعمل ہیں، انہیں تبدیل کرنے کی پریشانی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے.
 

arifkarim

معطل
پاکستان میں یہ تعلیمی نظام پہلے ہی سے موجود ہے۔ معروف انگریزی تعلیمی ادارے بہترین تعلیم دے رہے ہیں۔ اگر ایک طبقہ سسک رہا ہے تو اسکی بہتری کے لیے اقدام کیے جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ باقی طبقات کو بھی کمزور طبقے کے برابر لانے کے لیے سزا کے طور پر اسی کھونٹے سے باندھ دیا جاتا ہے۔
اگر معروف انگریزی اداروں سے ہی سے بہترین تعلیم پانی ہے تو باقی کروڑ ہا آبادی تک انکی رسائی بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے موجودہ حالات میں بلکہ آئندہ دور دور تک مستقبل میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ ایسی صورت میں ’’جیسا چل رہا ہے چلنے دو‘‘ کے مصداق نظام کو مزید خراب نہیں کیا جا سکتا۔ یہ سچ ہے کہ انگریزی ادارے ، اردو تعلیمی اداروں سے بہت بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ انہی کا کرم ہے کہ اب نظام تعلیم پاکستان میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں سارا مقصد والدین کی خون پسینے کی کمائی چھیننے پر ہوتا ہے۔ اگر ان بڑکے مارنے والے اداروں کے بچوں کا کبھی بین الاقوامیPISA ٹیسٹ لیا گیا تو انکی کارکردگی کے دعوے سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔

ہم اردو میڈیم میں پڑھ کر نقصان بھگت چکے ہیں اور اس پر اب دل کھول کر لعنت رسید کرتے ہیں۔ اور اب انشااللہ اپنی نسلوں کو اردو میڈیم سے پاک رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اپنی نسل پر جو مرضی تجربات کریں۔ دوسروں سے توقعات مت رکھیے کہ وہ بھی آپ کے چناؤ کے پیچھے قومی زبان کا نعرہ لگاتے چل پڑیں گے۔ اردو میڈیم نظام تعلیم انگریزی میڈیم جیسا مفید کیوں نہیں ہوسکتا اسکی وجہ کچھ زمینی حقائق ہیں جو آپ اپنی قومی زبان کے چاؤ میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔
یہ تو پھر آپکا انفرادی مسئلہ ہے۔ ہم نے پاکستان میں ساتویں تک انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کی اور اردو بھی وہیں تک سیکھی۔ یعنی اگر ایک انگلش میڈیم اسکول اچھاہو تو وہ اردو و انگریزی دونوں کا خیال رکھتے ہوئے اچھی معیار تعلیم فراہم کر سکتا ہے۔ اور ویسے بھی میں اعلیٰ تعلیم اردو میں حاصل کرنے کا قائل نہیں۔ البتہ بنیادی تعلیم یعنی پرائمری یا زیادہ سے زیادہ سیکنڈری کو مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ ساتھ کیساتھ میں انگریزی بھی سیکھتے رہیں۔ اس سے کون روک رہا ہے؟

نیز یہ صرف پاکستان کی حد تک نہیں ہیں۔ کینیڈا میں بھی انگریزی اور فرینچ دونوں سکول موجود ہیں۔ جس کا جی چاہے جو مرضی چناؤ کرے۔
متفق۔ یہاں ناروے میں بھی ایک چھوٹی سی قدیم Sami کمیونیٹی کیلئے انکی مادری زبان میں اسکول قائم ہیں۔

میری مادری زبان پنجابی ہے۔ سکول میں اردو سکھائی گئی۔ اور پھر آہستہ آہستہ انگریزی سیکھی۔
میری مادری زبان اردو ہے، تعلیم انگریزی و نارویجن میں حاصل کی۔ تھوڑی بہت فرینچ بھی جانتا ہوں اور عربی بھی سیکھی ہوئی ہے۔

میں اب جس زبان میں بہترین معلومات حاصل کر پاتا ہوں۔ وہ انگریزی ہے۔ جو میری مادری زبان نہیں۔
بالکل۔ یہی حال میرا بھی ہے۔ کیونکہ انٹرنیٹ پر معلومات عامہ میں انگریزی زبان اول نمبر پر ہے۔

آپ کی ریسرچ کے نتائج کچھ ڈھیلے ہیں۔ سکالرز کو مطلع کریں۔
ریسرچ کے روابط فراہم کر دیتا ہوں، آپ خود ہی مطلع کر دیں:
http://www.globalpartnership.org/blog/children-learn-better-their-mother-tongue
http://www.acasus.com/children-lear...-their-mother-tongue-for-the-earliest-grades/
http://esl.fis.edu/parents/advice/intro.htm
 
آخری تدوین:

عثمان

محفلین
اگر معروف انگریزی اداروں سے ہی سے بہترین تعلیم پانی ہے تو باقی کروڑ ہا آبادی تک انکی رسائی بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے موجودہ حالات میں بلکہ آئندہ دور دور تک مستقبل میں ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔
تو اس کروڑ ہا آبادی تک معیاری انگریزی تعلیم کے لیے اپنی جدوجہد لے جائیں۔ نا کہ باقی مانندہ معیاری انگریزی حاصل کرنے والوں کے گلے پڑ جائیں ؟
یہ سچ ہے کہ انگریزی ادارے تعلیمی اداروں سے بہت بہتر کارکردگی دکھاتے ہیں۔ لیکن یہ انہی کا کرم ہے اب نظام تعلیم پاکستان میں ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ جہاں سارا مقصد والدین کی خون پسینے کی کمائی چھیننے پر ہوتا ہے۔
گرا کھوتے سے ، غصہ کمہار پر۔
پرائیوٹ ادارے چلانے والے کسی قاعدے قانون کے قابو نہیں آ رہے تو انگریزی میڈیم تعلیم کیسے قصوروار ہوگئی۔
یعنی اگر کچھ ڈاکٹر اور پرائیوٹ کلینک والے لوٹ رہے ہیں تو ایلوپیتھی کی پریکٹس بند کر دی جائے ؟
اگر ان بڑکے مارنے والے اداروں کے بچوں کا کبھی بین الاقوامیPISA ٹیسٹ لیا گیا تو انکی کارکردگی کے دعوے سب دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔
کینیڈا اور امریکہ کی یونیورسٹیوں میں پاکستان کے انگریزی تعلیم یافتہ طلباء آتے ہیں اور بہترین نتائج دیکھاتے ہیں۔ اے لیول اور آئی بی تک پاکستان کے انگریزی تعلیم یافتہ کا امتحان لیتا ہے۔ آپ کا دعوی یہاں دھرے کا دھرا ہے۔ سوچ سمجھ کر تبصرہ لکھیے۔
یہ تو پھر آپکا انفرادی مسئلہ ہے۔
نہ تو یہ محض میرا انفرادی مسئلہ ہے اور نہ ہی اس مسئلے کی جڑیں کسی نزلہ زکام میں ہیں۔ یہ اس پسماندہ اردو میڈیم نظام تعلیم کا ثمر ہے۔
ہم نے پاکستان میں ساتویں تک انگلش میڈیم میں تعلیم حاصل کی اور اردو بھی وہیں تک سیکھی۔ یعنی اگر ایک انگلش میڈیم اسکول اچھاہو تو وہ اردو و انگریزی دونوں کا خیال رکھتے ہوئے اچھی معیار تعلیم فراہم کر سکتا ہے۔
لوجی یہ تو بحث ہی ختم !
پہلے ہی اندازہ تھا کہ اردو میڈیم اور اس کے زہریلے اثرات سے آپ کا دور پات کا کوئی واسطہ نہیں، بس شوق ہے نظریاتی بحث کا!
آپ کی کرم فرمائی ہے کہ انگریزی میڈیم سکول میں اردو لگژری کے طور پر پڑھ کر اردو میڈیم نظام پر وکالت کا احسان کرنے چلے ہیں۔ تحریک نفاذ اردو کو چاہیے کہ آپ کو اپنا راہنما۔۔ میرا مطلب ہے لیڈر منتخب کرلیں۔
باقی جس طرح آپ نے اپنے انگریزی میڈیم سکول میں اردو کا ایک پیریڈ برداشت کیا تو اسی طرح پاکستان بھر کے اردو میڈیم سکولوں میں انگریزی کے ایک پیریڈ برداشت کرنے کا رواج ہے۔ اس کے معیار کو بہتر کریں۔ نا کہ نظام ہی کو ختم کریں ؟
اور ویسے بھی میں اعلیٰ تعلیم اردو میں حاصل کرنے کا قائل نہیں۔
اردو میڈیم کی وقعت ہی اتنی ہے کہ اس میں اعلیٰ کچھ بھی ممکن نہیں۔ ہم تجربے سے اس حقیقت کو جان چکے ہیں۔
البتہ بنیادی تعلیم یعنی پرائمری یا زیادہ سے زیادہ سیکنڈری کو مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ ساتھ کیساتھ میں انگریزی بھی سیکھتے رہیں۔ اس سے کون روک رہا ہے؟
اول تو جیسا کہ بارہا کہا کہ آپ کی خواہش کے مطابق پاکستان میں ایسا ہی ہے۔ لوگوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو دس بارہ سال اردو میں جھک مارتی ہے اور ساتھ ساتھ انگریزی بھی سیکھتی ہے۔ کون روک رہا ہے ؟
ہم پر دس سال اردو میڈیم تعلیم حاصل کرنے کے بعد آشکار ہوا کہ آگے سب کچھ انگریزی میں ہے۔ اس وقت ہم نے خود سے پوچھا کہ پچھلا سب کچھ بھی اسی انگریزی میں کیوں نہیں تھا ؟
متفق۔ یہاں ناروے میں بھی ایک چھوٹی سی قدیم Sami کمیونیٹی کیلئے انکی مادری زبان میں اسکول قائم ہیں۔

میری مادری زبان اردو ہے، تعلیم انگریزی و نارویجن میں حاصل کی۔ تھوڑی بہت فرینچ بھی جانتا ہوں اور عربی بھی سیکھی ہوئی ہے۔

بالکل۔ یہی حال میرا بھی ہے۔ کیونکہ انٹرنیٹ پر معلومات عامہ میں انگریزی زبان اول نمبر پر ہے۔
آپ کے اپنے ہی موقف کو کمزور کرتے تین پوائنٹس!
ریسرچ کے روابط فراہم کر دیتا ہوں، آپ خود ہی مطلع کر دیں:
.I could care less
اسے آپ نے اپنے موقف کے حق میں استعمال کیا ہے نا کہ میں نے۔
 
آخری تدوین:
Top