arifkarim
معطل
اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم
پاکستانی سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے چھبیس اگست کو محفوظ کیا گیا اردو زبان سے متعلق فیصلہ اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل منگل کو سنایا۔
پاکستانی آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون میں "اُردو" کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ شامل ہے۔ اس فیصلے کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔
عدالت نے تمام سرکاری دفاتر اور وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال سے متعلق اردو کے احیاء کے لیے قائم اداروں کی سفارشات پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے خاص طورپر عوامی مفاد سے متعلق قوانین کا اردو ترجمہ کرانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری محکموں کو عدالتی مقدمات میں اپنے جوابات اردو میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ عوام اس فیصلے کو سمجھ کر اپنے حقوق کا نفاذ کرا سکیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا کہ "اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا"۔
پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت
خیال رہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق فیصلہ کوکب اقبال ایڈووکیٹ اور ایک درخواست گزار محمود اختر نقوی کی درخواستوں پر سنایا گیا۔ کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست دوہزار تین سے عدالت عظمی میں زیر التوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو رائج نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسا معاشرتی اور لِسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صِرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کاسبب بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آئینی شق کو انیس سو تہتر کے آئین کی منظوری کے 15برس کے دوران نافذ کیا جانا تھا لیکن 1988 ء میں یہ میعاد پوری ہونے کے 27 برس گزرنے کے باوجود مذکورہ لازمی آئینی شق کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر فوری رد عمل میں یونیورسٹی کی سطح کے بعض طالبعلوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم وفاقی اردو سائنس یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں زیر تعلیم خالد کان کا کہنا ہے کہ "میرے لیے اس لیول پر آ کر فزکس جیسے مضمون کو اردو میں پڑھنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، ایک تو میں پشتون بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور دوسرا تمام ایجوکیشن انگلش زبان میں حاصل کی ہے۔" شعبہ طبعیات ہی کی ایک طالبہ نائمہ محمود کا کہنا تھا کہ اردو کو صرف اس حد تک سرکاری زبان رکھنا چاہیے کہ ہمارے حکمران اندرون اور بیرون ملک تقاریب میں تقاریر اردو میں کریں ۔ انہوں نے کہا کہ "اردو کے نفاذ کا فیصلہ اچھا ہے لیکن کچہ اسٹڈیز ایسی ہیں جن کی اصطلاحات کو اردو میں پڑھنا آسان نہیں ہو گا۔تو اس لیے اگر اس کو اپنی پہچان بنانا ہے تو نیشنل لیول پر اس کو فووغ دیں۔"
دوسری جانب اسلام آباد میں شعرا ء اور ادیبوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کے لیے قائم ادارے " اکادمی ادبیات " کے سربراہ ڈاکٹر قاسم بھگیو کا کہنا ہے کہ اردو کے نفاذ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ " جب آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کی شق رکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے لیے ادارے بھی بنائے گئے تھے، جنہوں نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا لیکن اب بھی ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو زبان کے نفاذ میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب تک انگریزی میں ہونے والی دفتری خط و کتابت کے جو نمونے ہیں انہیں فوری طور پر اردو میں ترجمہ کرکے نافذ کیا جائے۔"
انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ انہوں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔
http://www.dw.com/ur/اردو-کو-بطور-سرکاری-زبان-فوری-طور-پر-نافذ-کرنے-کا-حکم/a-18701937
بہت دیر کردی مہربان نے آتے آتے۔ اب پاکستان کے انگریزی سیاست دانوں جیسے بلاول بھٹو زرداری کو بھی اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لینا پڑے گا کیا؟
پاکستانی سپریم کورٹ نے قومی زبان اردو کو بطور سرکاری زبان فوری طور پر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے چھبیس اگست کو محفوظ کیا گیا اردو زبان سے متعلق فیصلہ اپنی سبکدوشی سے ایک روز قبل منگل کو سنایا۔
پاکستانی آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون میں "اُردو" کا بطور سرکاری زبان نفاذ اور قومی زبان کے متوازی صوبائی زبانوں کا فروغ شامل ہے۔ اس فیصلے کو انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ اردو میں بھی تحریر کیا گیا ہے۔ عدالت نے حکومت کو آئین کے آرٹیکل دوسو اکیاون کو بلا تاخیر نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ فیصلے میں قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت پیدا کرنے کے لیے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ہم آہنگی پیدا کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر وفاقی اور صوبائی قوانین کا قومی زبان میں ترجمہ کر لیا جائے۔
عدالت نے تمام سرکاری دفاتر اور وفاقی سطح پر مقابلہ کے امتحانات میں قومی زبان کے استعمال سے متعلق اردو کے احیاء کے لیے قائم اداروں کی سفارشات پر عمل کی ہدایت کی ہے۔ عدالت نے خاص طورپر عوامی مفاد سے متعلق قوانین کا اردو ترجمہ کرانے کو لازمی قرار دیا ہے۔ عدالت نے سرکاری محکموں کو عدالتی مقدمات میں اپنے جوابات اردو میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ عوام اس فیصلے کو سمجھ کر اپنے حقوق کا نفاذ کرا سکیں۔
عدالت نے اپنے فیصلے کے آخر میں کہا کہ "اگر کوئی سرکاری ادارہ یا اہلکارآرٹیکل251 کے احکامات کی خلاف ورزی جاری رکھے گا تو جس شہری کوبھی اس خلاف ورزی کے نتیجے میں نقصان یا ضرر پہنچے گا اسے قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہو گا"۔
پاکستانی سپریم کورٹ کی عمارت
خیال رہے کہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے سے متعلق فیصلہ کوکب اقبال ایڈووکیٹ اور ایک درخواست گزار محمود اختر نقوی کی درخواستوں پر سنایا گیا۔ کوکب اقبال ایڈووکیٹ کی درخواست دوہزار تین سے عدالت عظمی میں زیر التوا تھی۔ درخواست گزار کوکب اقبال نے اپنے دلائل میں کہا کہ حکومت جان بوجھ کر آئین کے آرٹیکل دو سو اکیاون پر عمل کرنے سے گریزاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو زبان کو رائج نہ کرنے کی وجہ سے معاشرے میں ایک ایسا معاشرتی اور لِسانی تفرقہ پیدا ہو گیا ہے جو نہ صِرف معاشرتی استحکام کی راہ میں حائل ہے بلکہ معاشرتی نفاق کاسبب بھی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس آئینی شق کو انیس سو تہتر کے آئین کی منظوری کے 15برس کے دوران نافذ کیا جانا تھا لیکن 1988 ء میں یہ میعاد پوری ہونے کے 27 برس گزرنے کے باوجود مذکورہ لازمی آئینی شق کا نفاذ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔
اردو زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیے جانے کے عدالتی فیصلے پر فوری رد عمل میں یونیورسٹی کی سطح کے بعض طالبعلوں نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اسلام آباد میں قائم وفاقی اردو سائنس یونیورسٹی کے شعبہ فزکس میں زیر تعلیم خالد کان کا کہنا ہے کہ "میرے لیے اس لیول پر آ کر فزکس جیسے مضمون کو اردو میں پڑھنا ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں، ایک تو میں پشتون بیک گراؤنڈ سے تعلق رکھتا ہوں اور دوسرا تمام ایجوکیشن انگلش زبان میں حاصل کی ہے۔" شعبہ طبعیات ہی کی ایک طالبہ نائمہ محمود کا کہنا تھا کہ اردو کو صرف اس حد تک سرکاری زبان رکھنا چاہیے کہ ہمارے حکمران اندرون اور بیرون ملک تقاریب میں تقاریر اردو میں کریں ۔ انہوں نے کہا کہ "اردو کے نفاذ کا فیصلہ اچھا ہے لیکن کچہ اسٹڈیز ایسی ہیں جن کی اصطلاحات کو اردو میں پڑھنا آسان نہیں ہو گا۔تو اس لیے اگر اس کو اپنی پہچان بنانا ہے تو نیشنل لیول پر اس کو فووغ دیں۔"
دوسری جانب اسلام آباد میں شعرا ء اور ادیبوں کی سرکاری سطح پر حوصلہ افزائی کے لیے قائم ادارے " اکادمی ادبیات " کے سربراہ ڈاکٹر قاسم بھگیو کا کہنا ہے کہ اردو کے نفاذ کا فیصلہ قابل تحسین ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو کو دفتری اور سرکاری زبان کے طور پر نافذ کرنے میں زیادہ کام نہیں کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ " جب آئین میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کی شق رکھی گئی تھی تو اس وقت اس کے لیے ادارے بھی بنائے گئے تھے، جنہوں نے ابھی تک تو کچھ نہیں کیا لیکن اب بھی ماہرین کی ایک ٹیم کے ذریعے فوری طور پر ایسے اقدامات کیے جا سکتے ہیں، جو زبان کے نفاذ میں مدد گار ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے اب تک انگریزی میں ہونے والی دفتری خط و کتابت کے جو نمونے ہیں انہیں فوری طور پر اردو میں ترجمہ کرکے نافذ کیا جائے۔"
انہوں نے کہا کہ البتہ یہ خیال رکھنا ہو گا کہ ترجمہ کرتے وقت ایسے الفاظ کے انتخاب سے بچا جائے جو عام استعمال میں نہیں ہیں۔ انہوں اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ایک مرتبہ درجہ حرارت ماپنے والے آلے "تھرما میٹر" کا اردو ترجمہ "مقیاسُ الحرارت " کیا گیا جسے پڑھنے والوں نے سر پکڑ لیے اور کہا کہ یہ لفظ تو بہت مشکل ہے لہذا تھرما میٹر کہنا ہی ٹھیک ہے۔
http://www.dw.com/ur/اردو-کو-بطور-سرکاری-زبان-فوری-طور-پر-نافذ-کرنے-کا-حکم/a-18701937
بہت دیر کردی مہربان نے آتے آتے۔ اب پاکستان کے انگریزی سیاست دانوں جیسے بلاول بھٹو زرداری کو بھی اردو میڈیم اسکول میں داخلہ لینا پڑے گا کیا؟