شکریہ جناب۔
فاتح بھائی دو زیر اور دو پیش کی مثال موجود ہے کوئی اردو میں؟اگر آپ کی مراد تنوین سے ہے تو یقیناً مستعمل ہیں۔ مثلاً یقیناً
دو زبر تو کثرت سے مستعمل ہے، ہمارا سوال دو زیر اور دو پیش کے حوالے سے تھا۔ در اصل قصہ یوں ہے کہ اگر یہ مستعمل نہ ہوں تو انھیں کسی اردو کی بورڈ میں شامل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، بجز اس کے کہ عربی متن لکھنے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔اگر آپ کی مراد تنوین سے ہے تو یقیناً مستعمل ہیں۔ مثلاً یقیناً
فوراً تو ذہن میں صرف فتحتین کی ہی مثالیں آ رہی ہیں۔ ضمتین کی مثال محمدٌ ہی آ رہی ہے لیکن خالصتاً اردو مثال نہیں ہے یہفاتح بھائی دو زیر اور دو پیش کی مثال موجود ہے کوئی اردو میں؟
کلمہ طیبہ اس کثرت سے اردو میں لکھا جاتا ہے کہ اس میں موجود اعراب کو اردو کی بورڈ سے خارج کرنا درست نہیں ہو گا۔دو زبر تو کثرت سے مستعمل ہے، ہمارا سوال دو زیر اور دو پیش کے حوالے سے تھا۔ در اصل قصہ یوں ہے کہ اگر یہ مستعمل نہ ہوں تو انھیں کسی اردو کی بورڈ میں شامل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، بجز اس کے کہ عربی متن لکھنے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اور ہم تو سب کو مونث کہتے تھے۔نیز یہ کہ غالباً تینوں اعراب زبر، زیر، اور پیش اسم مذکر ہیں لہٰذا انھیں کھڑا زبر، کھڑا زیر، اور الٹا پیش لکھا جانا چاہیے۔ ہم زیر کو اسم مؤنث پڑھا کرتے تھے، لیکن آج لغت میں اسے مذکر پایا۔
واقعی؟اور ہم تو سب کو مونث کہتے تھے۔
الٹا پیش ۔ٗ
یس سر۔
اگر چہ دو پیش اور دو زیر نثر میں استعمال نہیں ہوتے تاہم شعرونطم میں عربی اور فارسی تراکیب،استعارات اورضرب الامثال وغیرہ اس کثرت سے مستعمل ہیں کہ انہیں لکھنے کا باضابطہ انتظام (خسوصاََ بقیہ اعراب کی موجودگی میں ) نہ صرف جواز بلکہ ان کے وجوب تک سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس لحاظ سے اردو کتابت کے نظام کا فارسی اورعربی کا سپر سیٹ ہوتا عین اردو فطرت کےتقاضے کے مطابق نظر آتا ہے ۔دو زبر تو کثرت سے مستعمل ہے، ہمارا سوال دو زیر اور دو پیش کے حوالے سے تھا۔ در اصل قصہ یوں ہے کہ اگر یہ مستعمل نہ ہوں تو انھیں کسی اردو کی بورڈ میں شامل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، بجز اس کے کہ عربی متن لکھنے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
دو زیر اردو میں ہے تو سہی لیکن اب شاید ہی کوئی استعمال کرتا ہو، مثلا نسلا بعد نسل یہ نسلَن بعد نسلِن بولا جائے گا۔دو زبر تو کثرت سے مستعمل ہے، ہمارا سوال دو زیر اور دو پیش کے حوالے سے تھا۔ در اصل قصہ یوں ہے کہ اگر یہ مستعمل نہ ہوں تو انھیں کسی اردو کی بورڈ میں شامل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، بجز اس کے کہ عربی متن لکھنے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
اس معاملے میں میرا موقف یہ ہے کہ اگر آپ کو کسرتین اور ضمتین کثرت سے استعمال کرنے کی ضرورت پیش آ رہی ہے تو غالب امکان یہی ہے کہ آپ عربی لکھ رہے ہیں، اردو نہیں، اور اِس صورت میں آپ کو کیبورڈ بھی عربی ہی کا استعمال کرنا چاہیے۔ (نیز، عربی متن کے لیے عربی کیبورڈ کے استعمال کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ عربی اور اردو کی مختلف ہ/ی وغیرہ کے مسائل سے بچا جا سکے۔)دو زبر تو کثرت سے مستعمل ہے، ہمارا سوال دو زیر اور دو پیش کے حوالے سے تھا۔ در اصل قصہ یوں ہے کہ اگر یہ مستعمل نہ ہوں تو انھیں کسی اردو کی بورڈ میں شامل کرنے کا کیا جواز ہو سکتا ہے، بجز اس کے کہ عربی متن لکھنے میں ان کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔
یہ دلیل قابلِ غور ہے۔اگر چہ دو پیش اور دو زیر نثر میں استعمال نہیں ہوتے تاہم شعرونطم میں عربی اور فارسی تراکیب،استعارات اورضرب الامثال وغیرہ اس کثرت سے مستعمل ہیں کہ انہیں لکھنے کا باضابطہ انتظام (خسوصاََ بقیہ اعراب کی موجودگی میں ) نہ صرف جواز بلکہ ان کے وجوب تک سوچنے پر مجبور کرنے کے لیے کافی ہے۔
درج بالا اقتباس کو پڑھنے کے بعد میں نے ’أ‘ کو اپنے کیبورڈ میں شامل کر لیا تھا، لیکن ابھی تک اس سے مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوں۔ کیا ’أ‘ کو اردو میں عام استعمال کیا جاتا ہے؟(3) جُرّات، تَاثُّر، مورِّخ، موثِّر
عربی میں ان الفاظ پر ہمزہ لکھا جاتا ہے۔ اگر عربی کی تقلید کرتے ہوئے ایسے الفاظ پر ہمزہ لکھا جائے (جیسے جُرّأت، تَأثُّر، تأسُّف، مؤرِّخ، تأمُّل) تو اسے اردو میں غلط نہ سمجھا جائے۔ لیکن ہماری سفارش یہ ہے کہ یہ لفظ اردو میں چونکہ بیشتر ہمزہ کے بغیر لکھے جاتے ہیں، انھیں ہمزہ کے بغیر لکھنا بھی صحیح سمجھا جائے:
جرّات، تاثّر، تاسّف، مورّخ، تامّل، متاثّر، موثّر، متاہّل، موذّن، مودّب، مونّث
ۃ کی مثال بھی دیکھیں اردو کی بورڈ میں شامل ہے جب کہ یہ عربی ہے اور اردو میں ت یا ہ سے بدل دی جاتی ہے ۔مثلاً کلمۃ طیبّۃ کا کلمہ طیّبہ لکھا جانا ۔یہ دلیل قابلِ غور ہے۔