محمد بن قاسم ثقفی فاتحِ سندھ تالیف پروفیسر ڈاکٹر نافع عبداللہ ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب انصاری ( سابق صدر شعبہ عربی جامعہ کراچی)
ضمیمہ اول: سندھ کی زبان اردو
۱۔ اردو وجود میں آنے سے قبل:
تاریخی اعتبار سے سن ۸۹ھ میں عرب مسلمانوں نے سپہ سالار محمد بن قاسم ثقفی کی شاندار قیادت میں سندھ فتح کرلیا تھا ۔ یہاں آکر اُسے معلوم ہوا کہ کہ اِن مفتوحہ ممالک کے باشندوں کی کوئی ایک مشترکہ زبان نہیں ہے۔ بلکہ یہ مختلف بولیاں اپنے اپنے لب و لہجے میں بولا کرتے ہیں۔ لیکن اِس لسانی فرق و تفاوت کے باوجود اِن زبانوں کی اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ وسعت اور پھیلاؤ ، تاچیر و خصوصیات بھی تھیں۔ اِن زبانوں میں بعض زبانیں یہ تھیں جِن کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔
دوشاخہ ایرانی زبان:
فارسی: یہ زبان یا لغت ، ادبی ، درباری، دینی اور تجارتی زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔
پشتو:
یہ زبان ، شمالی بلوچستان اور بلخ کے ساتھ ساتھ علاقہ دامنِ کوہِ سلیمان اور درہ خیبر کی گزر گاہ پر واقع علاقوں کے باشندگان بولا کرتے تھے۔
ترکی :
یہ لشکر کی زبان مشہور تھی۔
ہندی:
یہ ہندؤوں کے دین دھرم، فلسفہ و حکمت اور راجہ اور پرجا ( سرکار اور رعایا ) کی زبان تھی۔
متنوع آرین زبان:
یہ زبان جنگجو قبائل مثلاً وسط ایشیا کے ہن ہیاطلہ یا خانہ بدوش چرواہوں کی زبان تھی۔
رومانسی:
جاٹ۔ ہندو، جاٹوں کی زبان رہی ہے۔ اِس کے علاوہ دوسرے لہجات بھی ان زبانوں کے موجود تھے۔
عربی زبان:
عرب فاتحین کے ساتھ اُن کے مفتوحہ ملک سندھ میں عربی زبان کا آنا ایک قدرتی امر تھا چنانچہ اُصولاً یہ اُن کے محکمہ عدل و انصاف اور شریعتِ اسلامیہ کی زبان قرار دیدی گئی۔اور عرب لشکر کی تو یہ اپنی زبان تھی۔ لیکن سندھ میں اِس زبان کی بقا اور اِرتِقاء اور بعد تک عربی کی ترویج و اِشاعت اِن عرب قبائل کی مرہونِ منت تھی جو فتوحاتِ اسلامیہ کے بعد سندھ کو اپنا وطن بنا چکے تھے۔ اور اس طرح ان کو اپنا بنیادی مقصد پورا کرنا تھا کہ سندھ میں عربی زبان کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ پھیلتی چلی جائیں۔ کیونکہ سندھ اب اسلامی خلافت کا حصہ بن چکا تھا، مسلمانوں کا دیار یعنی وطن تھا۔
پھر مدتِ دراز تک یہی معاملہ رہابلکہ چوتھی صدی کے وسط تک جبکہ محمود غزنوی نے حملہ کیا، یہی سلسلہ جاری تھا۔ پھر غزنوی دور میں کئی سابقہ زبانوں کے باہمی ااختلاط نیز تراکیب کے گھل مل جانے سے ایک نئی زبان وجود میں آگئی جس پر اردو کا اطلاق ہوا یا عربی تلفظ’ اوردو‘ کا۔
اصل کلمہ اردو لغت کی روشنی میں ( یک لفظی یا دو لفظی) نیز دیگر کتبِ انسائیکلو پیڈیا کت استقصاء کے بعد یہ اس کلمہ کی تعارفی کاوش ، تحقیق اور ارتقائی مراحل کا ماحصل ہے۔
1. یورٹ: یہ روسی لفظ ہے جس کے معنی جانوروں کے چمڑے یعنی جلدی خیمہ جات یا سائبیریا کے باشندوں اور منگولوں کا سائبان ( قاموس المورود عربی وانگریزی، منی بعلبکی)
2. تورڈ: ترکی کلمہ ہے اس کے معانی درج ذیل ہیں۔ طلباء کا ہاسٹل جہاں وہ رات گزاریں اور نوجوانوں کی اقامت گاہ اور سر چھپانے کا ٹھکانا مثال کے طور پر ہم اس کو جامعات میں نوجوان طلباء کا مسکن و مستقر یا طلباء کی بین لاقوامی اقامت گاہ کہیں گے۔ ( جدید ترکی زبان میں تحقیق و استقصاء)
3. اردو: اصلا! یہ ترکی کلمہ یا لفظ ہے جو لشکر اور فوجی چھاؤنی کے معنی میں آتا ہے۔( دائرۃ المعارف الاسلامیہ۔جلد اول)
4. اردو: ترکی میں بحرِ اسود کے ساحل پر واقع تفریح گاہ۔( المنجد فی الاعلام، عربی الاب لویس یسوعی)
5. اردو: ہندوستانی زبان جو متعدد اصول سے مشتق ہےیا جڑوں سے پھوٹی ہے،۔۔( دائرۃ المعارف الاسلامیہ۔جلد اول)
6. اردو: ( زبان۔ بولی) یہ مختلف زبانوں ترکی، فارسی اور ہندی سے مِل کر پیدا ہوئی یا معرضِ وجود میں آئی۔اس میں فارسی اور ترکی مفردات موجود ہیں۔( معجم المورود۔ عربی انگریزی)
7. اردو: پاکستان کی ادبی زبان۔( معجم المورود۔ عربی انگریزی)
بعض مستند لغوی مصادر کی مدد سے ہم جس نتیجہ پر پہنچے ہیں یہ ہماری اس تحقیقی کاوش کا لبِ لباب ہے۔ حتی الامکان ہم نے لفظ اردو کی اصلیت معلوم کرنے کے سلسلے میں جو تحقیقی مساعی کرسکتے تھے وہ قارئین کی نذر کردیں۔الحمدللہ اس کوشش اور انتھک تحقیقی مطالعے سےیہ ضرور ثابت ہوگیا کہ اردو زبان ان لوگوں کی زبان یا بولی ہے جو مشترکہ طور پر یا مل جل کر باہم زندگی گزارتے ہیں اور عمومی اور خصوصی حالات میں بھی یہ پاکستانی مروجہ قومی زبان ہے۔ کیلن اب بھی اصلاً یہی ہے کہ پاکستانیوں سے قبل و بعد اردو لشکر ہی کی زبان کی حیثیت سے مشہور تھی ( کسی اور سے قبل)
اردو زبان کی بناوٹ کا ارتقائی دور:
اردو زبان کی تخلیق یا بناوٹ کا دور سلطان محمود غزنوی کے دور تک جاری رہا۔ غزنوی سلاطین ترک بادشاہوں کی نسل سے تھے۔ وہ افغانستان، مشرقی ایران اور ہندوستان میں پنجاب و گجرات پر بھی ۳۵۱ھ سے ۵۸۲ ھ تک حکومت کرتے رہے۔ شہر غزنہ اُن کا پایہ ء تخت تھا۔ غزنوی بادشاہوں نے شہر ’’لاہور‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جو پنجاب اور سندھ کا دارالحکومت تھا۔ سلاطینِ غزنویہ میں سب سے زیادہ نامور سلطان محمود غزنوی تھا جو سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے ۹۹۸ھ تا ۱۰۳۰ھ حکومت کی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے دور میں بخارا فتح کیا اور ماورا ء النھر کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا اسی طرح اس کا اثر و نفوز پنجاب و گجرات تک پھیلا ہوا تھا۔
اس کا لشکرمختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والی اور مختلف زبانیں بولنے والی اقوام پر مشتمل تھا ۔ یعنی ترکی ایرانی اور ہندی سپاہیوں کی فوج تھا۔ یہ لوگ چھاؤنیوں میں برابر ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ لشکر سلطانی فوج کا لشکر مشہور تھا۔ اس لیے اس کو ترکی میں ’’لشکر‘‘ یا اردو کا نام دیا گیا۔ اور پھر شاید لشکر کے افراد ملی جلی زبانیں بولا کرتے تھے اس لیے ایک مشترکہ زبان ہونی ضروری تھی چنانچہ یوں ’’ اردو‘‘ زبان وجود میں آگئی۔
یہاں آکر یا اس مرحلے میں اور سلطان محمود غزنوی کے دور میں اس زبان کی ابتدائی بنیادیں رکھی گئیں جو تین مختلف اقوام کی یعنی ترکی، فارسی اور ہندی کا امتزاج یا ملاوٹ سے بنی تو ان کی زبان کا نام ’’اردو‘‘ رکھ دیا گیا۔ تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھ سکیں۔ اور اردو زبان کے مفردات میں اضافہ ہوا۔(جاری ہے)