اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

حضرت داغ دہلوی کیا اچھا فرماگئے ہیں
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ​
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے​
ذیل میں ہم ایک حال ہی میں خریدی ہوئی پرانی کتاب ’’ محمد بن قاسم ثقفی ‘‘ از پروفیسر نافع عبداللہ کی کتاب سے ان کا ضمیمہ پیش کررہے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب( انصاری ) نے کیا ہے ، انھوں نے موصوف کے ضمیمے کو تو من و عن ترجمہ کیا لیکن تشنگی رہ جانے کے باعث ایک عدد ضمیمہء دوم بھی لکھا ہے۔ اس ضمیمہ میں موصوف نے اردو زبان پر ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے ۔ ہم اگلی نشستوں میں ان دونوں ضمیموں کے متن پیش کریں گے۔اردو داں طبقہ کے لیے معلوماتی مضامین ہیں جو امید ہے پسند کیے جائیں گے۔​
 
محمد بن قاسم ثقفی فاتحِ سندھ تالیف پروفیسر ڈاکٹر نافع عبداللہ ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب انصاری ( سابق صدر شعبہ عربی جامعہ کراچی)​
ضمیمہ اول: سندھ کی زبان اردو​
۱۔ اردو وجود میں آنے سے قبل:​
تاریخی اعتبار سے سن ۸۹ھ میں عرب مسلمانوں نے سپہ سالار محمد بن قاسم ثقفی کی شاندار قیادت میں سندھ فتح کرلیا تھا ۔ یہاں آکر اُسے معلوم ہوا کہ کہ اِن مفتوحہ ممالک کے باشندوں کی کوئی ایک مشترکہ زبان نہیں ہے۔ بلکہ یہ مختلف بولیاں اپنے اپنے لب و لہجے میں بولا کرتے ہیں۔ لیکن اِس لسانی فرق و تفاوت کے باوجود اِن زبانوں کی اپنی انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ وسعت اور پھیلاؤ ، تاچیر و خصوصیات بھی تھیں۔ اِن زبانوں میں بعض زبانیں یہ تھیں جِن کا تعارف پیش کیا جاتا ہے۔​
دوشاخہ ایرانی زبان:​
فارسی: یہ زبان یا لغت ، ادبی ، درباری، دینی اور تجارتی زبان کی حیثیت رکھتی تھی۔​
پشتو:​
یہ زبان ، شمالی بلوچستان اور بلخ کے ساتھ ساتھ علاقہ دامنِ کوہِ سلیمان اور درہ خیبر کی گزر گاہ پر واقع علاقوں کے باشندگان بولا کرتے تھے۔​
ترکی :​
یہ لشکر کی زبان مشہور تھی۔​
ہندی:​
یہ ہندؤوں کے دین دھرم، فلسفہ و حکمت اور راجہ اور پرجا ( سرکار اور رعایا ) کی زبان تھی۔​
متنوع آرین زبان:​
یہ زبان جنگجو قبائل مثلاً وسط ایشیا کے ہن ہیاطلہ یا خانہ بدوش چرواہوں کی زبان تھی۔​
رومانسی:​
جاٹ۔ ہندو، جاٹوں کی زبان رہی ہے۔ اِس کے علاوہ دوسرے لہجات بھی ان زبانوں کے موجود تھے۔​
عربی زبان:​
عرب فاتحین کے ساتھ اُن کے مفتوحہ ملک سندھ میں عربی زبان کا آنا ایک قدرتی امر تھا چنانچہ اُصولاً یہ اُن کے محکمہ عدل و انصاف اور شریعتِ اسلامیہ کی زبان قرار دیدی گئی۔اور عرب لشکر کی تو یہ اپنی زبان تھی۔ لیکن سندھ میں اِس زبان کی بقا اور اِرتِقاء اور بعد تک عربی کی ترویج و اِشاعت اِن عرب قبائل کی مرہونِ منت تھی جو فتوحاتِ اسلامیہ کے بعد سندھ کو اپنا وطن بنا چکے تھے۔ اور اس طرح ان کو اپنا بنیادی مقصد پورا کرنا تھا کہ سندھ میں عربی زبان کی جڑیں مضبوطی کے ساتھ پھیلتی چلی جائیں۔ کیونکہ سندھ اب اسلامی خلافت کا حصہ بن چکا تھا، مسلمانوں کا دیار یعنی وطن تھا۔​
پھر مدتِ دراز تک یہی معاملہ رہابلکہ چوتھی صدی کے وسط تک جبکہ محمود غزنوی نے حملہ کیا، یہی سلسلہ جاری تھا۔ پھر غزنوی دور میں کئی سابقہ زبانوں کے باہمی ااختلاط نیز تراکیب کے گھل مل جانے سے ایک نئی زبان وجود میں آگئی جس پر اردو کا اطلاق ہوا یا عربی تلفظ’ اوردو‘ کا۔​
اصل کلمہ اردو لغت کی روشنی میں ( یک لفظی یا دو لفظی) نیز دیگر کتبِ انسائیکلو پیڈیا کت استقصاء کے بعد یہ اس کلمہ کی تعارفی کاوش ، تحقیق اور ارتقائی مراحل کا ماحصل ہے۔​
1. یورٹ: یہ روسی لفظ ہے جس کے معنی جانوروں کے چمڑے یعنی جلدی خیمہ جات یا سائبیریا کے باشندوں اور منگولوں کا سائبان ( قاموس المورود عربی وانگریزی، منی بعلبکی)​
2. تورڈ: ترکی کلمہ ہے اس کے معانی درج ذیل ہیں۔ طلباء کا ہاسٹل جہاں وہ رات گزاریں اور نوجوانوں کی اقامت گاہ اور سر چھپانے کا ٹھکانا مثال کے طور پر ہم اس کو جامعات میں نوجوان طلباء کا مسکن و مستقر یا طلباء کی بین لاقوامی اقامت گاہ کہیں گے۔ ( جدید ترکی زبان میں تحقیق و استقصاء)​
3. اردو: اصلا! یہ ترکی کلمہ یا لفظ ہے جو لشکر اور فوجی چھاؤنی کے معنی میں آتا ہے۔( دائرۃ المعارف الاسلامیہ۔جلد اول)​
4. اردو: ترکی میں بحرِ اسود کے ساحل پر واقع تفریح گاہ۔( المنجد فی الاعلام، عربی الاب لویس یسوعی)​
5. اردو: ہندوستانی زبان جو متعدد اصول سے مشتق ہےیا جڑوں سے پھوٹی ہے،۔۔( دائرۃ المعارف الاسلامیہ۔جلد اول)​
6. اردو: ( زبان۔ بولی) یہ مختلف زبانوں ترکی، فارسی اور ہندی سے مِل کر پیدا ہوئی یا معرضِ وجود میں آئی۔اس میں فارسی اور ترکی مفردات موجود ہیں۔( معجم المورود۔ عربی انگریزی)​
7. اردو: پاکستان کی ادبی زبان۔( معجم المورود۔ عربی انگریزی)​
بعض مستند لغوی مصادر کی مدد سے ہم جس نتیجہ پر پہنچے ہیں یہ ہماری اس تحقیقی کاوش کا لبِ لباب ہے۔ حتی الامکان ہم نے لفظ اردو کی اصلیت معلوم کرنے کے سلسلے میں جو تحقیقی مساعی کرسکتے تھے وہ قارئین کی نذر کردیں۔الحمدللہ اس کوشش اور انتھک تحقیقی مطالعے سےیہ ضرور ثابت ہوگیا کہ اردو زبان ان لوگوں کی زبان یا بولی ہے جو مشترکہ طور پر یا مل جل کر باہم زندگی گزارتے ہیں اور عمومی اور خصوصی حالات میں بھی یہ پاکستانی مروجہ قومی زبان ہے۔ کیلن اب بھی اصلاً یہی ہے کہ پاکستانیوں سے قبل و بعد اردو لشکر ہی کی زبان کی حیثیت سے مشہور تھی ( کسی اور سے قبل)​
اردو زبان کی بناوٹ کا ارتقائی دور:​
اردو زبان کی تخلیق یا بناوٹ کا دور سلطان محمود غزنوی کے دور تک جاری رہا۔ غزنوی سلاطین ترک بادشاہوں کی نسل سے تھے۔ وہ افغانستان، مشرقی ایران اور ہندوستان میں پنجاب و گجرات پر بھی ۳۵۱ھ سے ۵۸۲ ھ تک حکومت کرتے رہے۔ شہر غزنہ اُن کا پایہ ء تخت تھا۔ غزنوی بادشاہوں نے شہر ’’لاہور‘‘ کی بنیاد رکھی۔ جو پنجاب اور سندھ کا دارالحکومت تھا۔ سلاطینِ غزنویہ میں سب سے زیادہ نامور سلطان محمود غزنوی تھا جو سبکتگین کا بیٹا تھا۔ سلطان محمود غزنوی نے ۹۹۸ھ تا ۱۰۳۰ھ حکومت کی۔ یہی نہیں بلکہ اس نے اپنے دور میں بخارا فتح کیا اور ماورا ء النھر کے علاقوں پر بھی قبضہ کرلیا تھا اسی طرح اس کا اثر و نفوز پنجاب و گجرات تک پھیلا ہوا تھا۔​
اس کا لشکرمختلف رنگ و نسل سے تعلق رکھنے والی اور مختلف زبانیں بولنے والی اقوام پر مشتمل تھا ۔ یعنی ترکی ایرانی اور ہندی سپاہیوں کی فوج تھا۔ یہ لوگ چھاؤنیوں میں برابر ساتھ ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ لشکر سلطانی فوج کا لشکر مشہور تھا۔ اس لیے اس کو ترکی میں ’’لشکر‘‘ یا اردو کا نام دیا گیا۔ اور پھر شاید لشکر کے افراد ملی جلی زبانیں بولا کرتے تھے اس لیے ایک مشترکہ زبان ہونی ضروری تھی چنانچہ یوں ’’ اردو‘‘ زبان وجود میں آگئی۔​
یہاں آکر یا اس مرحلے میں اور سلطان محمود غزنوی کے دور میں اس زبان کی ابتدائی بنیادیں رکھی گئیں جو تین مختلف اقوام کی یعنی ترکی، فارسی اور ہندی کا امتزاج یا ملاوٹ سے بنی تو ان کی زبان کا نام ’’اردو‘‘ رکھ دیا گیا۔ تاکہ وہ آپس میں ایک دوسرے کی بات سمجھ سکیں۔ اور اردو زبان کے مفردات میں اضافہ ہوا۔(جاری ہے)​
 
سلطان محمود غزنوی نے خاص طور پرحوصلہ افزائی کی جس نے اردو کی نشو و نما اور ترویج و اشاعت میں اس قدر مدد کی کہ ’’اردو‘‘ سلاطینِ غزنویہ کی سرکاری زبان ہوگئی۔ اور بڑی تعداد میں مسلم و غیر مسلم سندھ و ہند کے باشندوں کی قومی زبان کی سی حیثیت اختیار کرگئی۔​
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کوئی جھگڑا یا اختلاف نہیں ہوسکتا کہ زبان کے اس امتزاج میں جس زبان کے الفاظ بھی شامل ہوئے ان کی تاثیر ’’اردو‘‘ کی روح میں اتر گئی اور اس کے اندر جڑ پکڑ گئی۔​
ممکن ہے کوئی سوال کرے کہ آخر ’’ادرو‘‘ پر دیگر زبانوں کی تاثیر ہے یا دوسرے لافاظ میں اردو نے دیگر زبانوں سے کیا لیا یا اخذ کیا ؟ اردو شاعری پر فارسی الفاظ و تراکیب کا اثر پایا جاتا ہے نیز شعر وسخن کے اسالیب و فنِ عروض و قوافی کے اغراض و مقاصد بھی واضح طور پر ملتے ہیں۔​
اردو نے ہندی زبان پر نھوی اصول و قواعد میں اعتماد کیا جبکہ عام طور پر بیشتر متداول الفاظ ایسے ہیں جو یہ زبان بولنے والوں کے درمیان تمام زبانوں کے یا ہندی زبان کے لہجے مشترک ہوگئے۔ اس طرح ترکی زبان کا اثر یہ بھی ہوا کہ اس نے معاشرے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کو ایک رنگ میں رنگ دیا۔​
گویا وہ لشکر میں ہیں اور ان کی زبان ایک ہی ہے اور وہ ہے ’’اردو‘‘ یہاں یہ بھی واضح ہوجاتا ہے کہ سندھ کو اسلام کے بعد یہ امتیاز حاصل ہوا کہ ایک مدت بعد ان کی زبان بھی ایک ہی زبان یا اکیلی زبان ’’اردو‘‘ رہی ہے اور سندھ نے بھی اردو کو تحفظ دیا ہے۔​
رہ گئی عربی زبان تو اس مقدس قرآنی زبان کا ’’اردو‘‘ سے رشتہ و تعلق لازوال اور لافانی ہے۔ عربی زبان بحیثیت قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ کی زبان قدرتی عوامل کے ساتھ ’’ اردو‘‘ پر نہ صرف اثر انداز ہوئی بلکہ اردو کی روح میں اتر گئی اور اس کی رگ رگ میں شامل ہوگئی۔​
ایک طرف تو یہ ہوا اور دوسری طرف عمومی حیثیت سے عربی کے کلمات و الفاظ اردو زبان کے شعر و ادب ، دین، فقہ ، شریعت و احکام، سیرتِ پاک اور احادیث الغرض عربی الفاظ اس درجہ متداول اور عام ہیں کہ ہمیں کوئی دلیل پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ غالباً اس لیے بھی کہ اگر کوئی عرب اردو زبان میں گفتگو سنے تو بڑی آسانی سے ان الفاظ و کلمات کا اندازہ کرسکتا ہے یا سمجھ سکتا ہے جو دورانِ گفتگو استعمال کیے گئے ہوں گے۔​
یہ مرحلہ تو ان الفاظ و کلمات کی حد تک متفقہ طور پر طے شدہ تھا کہ اردو پر کن زبانوں کا اثر و تاثر ہے۔ لیکن جہاں تک ہیئت و شکل کے اعتبار سے عربی زبان کی تاثیر کا تعلق ہے تو اردو زبان کا خط تحریر شکل و صورت اور انداز کے لحاظ سے ’’رعبی ‘‘ رسم الخط ہے۔ اور ہر اعتبار سے عربی رسم الخط ہی پر مرکوز رہا ہے۔​
رسم الخط کا معاملہ ترکی کے برعکس ہے کیونکہ ترکی نے قطعاً عربی رسم الخط کی جگہ اپنے قائد مصطفیٰ کمال پاشا کے حکم سے عربی کی جگہ لاطینی رسم الخط اختیار کرلیا تھا خاص طور پر جب اتاترک نے ۱۹۲۳ء میں سیکیولر ازم کا نعرہ بلند کیا۔​
اردو زبان کی ترقی:​
اردو جب سلطنتِ غزنویہ کی سرکاری زبان ہوگئی اور بولنے اور لکھنے میں بھی باہمی تفاہم پیدا ہوا تو اس کا معیار بہت بلند ہوگیا حتیٰ کہ اس نے عربی اور فارسی کے بعد ایک تیسری زبان کا درجہ حاصل کرلیا۔ خاص طور پر کتابیں لکھنے اور تدوینِ کتبِ اسلامیہ بھی اس نوزائیدہ اور کمسن زبان میں ہونے لگی۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر حالات میں اردو نے بھی ترقی کرلی، جبکہ اس میں بیشتر انگریزی لافاظ بھی شامل ہوگئے خاص طور پر جب برصغیر ہند برطانوی استعماری طاقت کا ۱۸۵۷ء میں غلام ہوگیا تھا، یہ ضرور ہے کہ یہ انگریزی الفاظ بولے اصلی لب و لہجے میں جاتے ہیں لیکن لکھے اپنے رسم الخط میں جاتے تھے۔​
پھر ہندو سندھ کی تاریخی سرزمین پر اردوزبان نے نمایاں طور پر ترقی حاصل کی یہاں تک کہ برصغیر کے مسلمانوں کی علمی ادبی دینی اور ثقافتی زبان برطانوی راج میں بھی اردو بن چکی تھی بلکہ یہ ’’ہندی‘‘ کے مقابلے پر تھی۔​
بیسویں صدی میں اردو زبان:​
۱۹۴۷ء میں برطانوی اقتدار سے آزادی حاصل کرنے کے بعد ہندوستان دو حصوں میں بٹ گیا۔ ایک پاکستان بن گیا اور دوسرا ہندوستان ہی رہا۔ ہندوستان میں اردو زبان کو دور تر کردیا گیا تاکہ ’’ہندی‘‘ اسکی جگہ لے سکے۔جس کی وجہ سے آج تک مسلمانانِ ہند ہندوؤں سے برسرِ پیکار ہیں ارود اردو کے لیے جد و جہد کررہے ہیں تاکہ ہندوستان کے جن صوبوں میں مسلم اکثریت ہے وہاں اس کا اعتراف کرتے ہوئے ’’اردو‘‘ کو جائز مقام دیا جائے۔​
ان تمام باتوں کے باوجود مختلف احوال و ظروف کا نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں اب بھی ہندو اکثریت کے باوجود اردو ایک مشترکہ زبان ہی چلی آرہی ہے۔ جسے لینگوا فرانکا کہتے ہیں۔ ، جو ہندوستان کی اکثریت اپنی روزمرہ زندگی میں مختلف قومیتوں اور زبانوں کے ہوتے ہوئے بھی بولتی ہے۔ خواہ ان کی کاروباری زندگی ہو یا گھریلو ’’اردو‘ُ‘ برابر بولی اور سمجھی جاتی ہے۔​
جب ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کا یہ مقام ہے تو پاکستان جو اسلامی جمہوریہ ہے اس میں تو ’’ ادرو‘‘ ہی کا سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت سے رائج ہونا ایک فطری تقاضہ تھا ۔ البتہ اسکا رسم الخط عربی ہی ہے۔​
یہاں تک تو ڈاکٹر نافع عبداللہ کا ضمیمہ تھا ۔ اب ہم پیش کریں گے ُروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب کا لکھا ہوا ضمیمہ دوم۔۔( جاری ہے)​
 
ضمیمہ دوم۔ ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب

فاضل پروفیسر ڈاکٹر نافع عبداللہ کی کتاب ’’ محمد بن قاسِم ثقفی فاتحِ سندھ‘‘ پر عربی میں ہے جِس کا اردو ترجمہ کرنے کی سعادت آخر ہم کو نصیب ہوئی۔ پروفیسر نافع عبداللہ نے اردو زبان پر جو تحقیقی ’’ضمیمہ‘‘ آخر میں شامِل کیا ہے اس میں دو مقامات پر شبہ محسوس ہواتو ہم نے اردو زبان کی ماہرِ لسانیات اور تاریخِ ادبِ اردو کے نامور اساتذہ کے علاوہ بین الاقوامی شہرت یافتہ شخصیت ممتاز اردو اسکالر پروفیسر ڈاکٹر فرمان فتح پوری سے رجوع کیا اور اردو لغت نیز لاہور کی تاریخ کا ازسرِ نو تحقیقی مطالعہ کیا ، اس میں کاصی مدت اور محنت صرف ہوئی۔​
ہم نے ڈاکٹر نافع کا ضمیمہ من و عن ترجمہ کردیا جو دیانت داری کا تقاضا تھا۔ لیکن علم کی جستجو اور تحقیقی لگن نے ہم کو مجبور کیا کہ ہم اِس موضوع کے ماہرین اور مستند کتب سے مزید تحقیق کا سلیقہ سیکھیں اور اس کتاب کے قارئین کے لیے ایک غیر ملکی اسکالر کی اردو زبان سے دلچسپی پر روشنی ڈالیں۔ ڈاکٹر نافع عبداللہ نے جو تحقیق لفظ ’اردو‘ پر کی ہے وہ لسانیات کے مستند مآخذ خاص طور پر ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی جامع و مستند کتاب ’’ہندی اردو تنازع‘‘ کی روشنی میں بالکل درست نکلیالبتہ ان کا یہ قول کہ ’’ اردو زبان کی ابتدا محمود غزنوی نے کی اور اس کی ترقی و ترویج بھی اسی کی مرہونِ منت رہی۔ نیز اس کے دورِ حکومت میں سرکاری زبان اردو تھی‘‘ تحقیق سے یہ بات بالکل ثابت نہیں ہوئی۔ اس ضمن میں ہم اپنا حاصلِ مطالعہ پیش کرتے ہیں۔​
اردو کی وجہ تسمیہ:​
جہاں تک اردو زبان کے معنی میں ’’لشکر‘‘ یا ’’ لشکرگاہ‘] کا تعلق ہے تو یہ متفقہ طور پر تسلیم شدہ ہے البتہ اس کی وجہ تسمیہ کی وجوہ و علل میں اختلاف پایا جاتا ہے۔​
مثلاً پنڈت برجموہن وتاتریا کیفی کا یہ قول’’ یہ لفظ دراصل ’ارداو‘ ہے،’’ ار‘‘ کے معنی دل اور ’’داو‘‘ کے معنی ہیں دو (۲) چونکہ یہ زبان ہندو مسلم تہذیب کے ملاپ سے وجود میں آئی اس لیے اس کا نام ارداو یعنی دو دلوں کو ملانے والی زبان پڑ گیا۔​
یہی ’’ارداو‘‘ بعد کو ’’ اردو‘‘ پڑگای۔ ڈاکٹر نافع کی تائید میں ہم اردو کے معتبر محقق مولانا ماتیاز علی خان عرشی کا حوالہ دیں گے۔ عرشی صاحب نے مئی ۱۹۴۸ء میں اورئینٹل کالج میگزین میں اردو اور پشتو کے تعلق پر بحث کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ اردو زبان‘‘ افغانوں کی آمدِ ہندوستان کا نتیجہ ہے۔ نہ یہ منچلے غزنوی، غوری خلجی ، لودھی، سوری ، ابدالی، روھیلہ لباس میں جوق در جوق یہاں ہی آکر بستے اور نہ یہ زبان معرضِ وجود میں آتی۔​
بقول علامہ سید سلیمان ندوی ’’ اردو کا اولین گہوارہ دکن ہے‘‘ سندھ کے عالم و محقق پیر علی محمد راشدی نے علامہ موصوف سے اتفاق رائے کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’ بلاشبہ اردو کو اپنی موجودہ شکل اختیار کرنے میں بہت مدت صرف ہوئی لیکن اگر اس کے وجود کا سبب ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد ہے تو پھر یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے کہ مسلمان سب سے قبل سندھ میں آئے اور یہیں ان کی زبان عربی اور پھر فارسی کا اردو زبان سے ارتباط و اختلاط شروع ہوا۔ لہٰذا یہ ایک واضح اور یقینی امر ہے کہ اردو کا اصل مولد سندھ ہے۔‘‘​
ڈاکٹر عبداللہ نافع کی تائید میں ایک مستند قول ملا جو صوبہء سرحد کے ماہرِ لسانیات مولانا عبد القادر کا ہے ’’ اردو کا اولین گہوارہ غزنی سے پشارو تک کا علاقہ ہے، جہاں فتوحاتِ محمودی نے آبادیوں کے اختلاط کی صورت پیدا کردی ۔ اس طرح بہت سی آراء اردو زبان کی پیدائش اور پیدائش گاہ کی بابت تحقیقی کتب و مقالات میں بکھری پڑی ہیں۔ ان آراء پر محاکمہ مقصود نہیں البتہ جو کچھ لکھا گیا اس سے یہ نتیجہ ضرور نکلتا ہے کہ پاک و ہند میں اردو زبان کے مورخین و محققین نے اردو کا اپنے اپنے علاقے سے رشتہ قائم کرنے اور اس کو اردو کا اولین گہوارہ قرار دینے میں ایک طرح کا فخر ضرور محسوس کیا ہے۔ مولانا عبدالحق( بابائے اردو) لکھتے ہیں کہ ’’ یہ امر خاص مسرت کا باعث ہے کہ تقریباً ہر صوبہ اس بات کا مدعی ہے کہ اردو نے وہیں جنم لیا اس سے اردو کی مقبو لیت اور وسعت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔​
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے سلاطینِ غزنویہ یا دیگر فاتحینِ ہند وسندھ کو بجا طور پر اردو کی بنیادی تشکیل یا ارتقاء کے سلسلے میں کوئی کریڈٹ نہیں دیابلکہ وہ رقمطراز ہیں’’ اردو کی اس تیز رفتار ترقی سے یہ قیاس کرنا کہ حکمرانوں یا مسلمان بادشاہوں کی سرپرستی میں ایساہوا ، درست نہ ہوگا بقول ڈاکٹر ابوللیث صدیقی ’’ یہ زبان کسی پر ٹھونسی نہیں گئی، نہ کسی علاقہ پر عائد کی گئی۔۔ بلکہ یہ سارا عمل نرم روی سے خود اختیاری طور پر ہوتا رہامعاشی اور تمدنی ضروریات نے اسکو تقویت پہنچائی اور عوام نے اس کو توانائی بخشی۔‘‘​
اردو زبان و ادب کے ان ماہر اساتذہ سے تسلی بخش استفادہ کرنے کے بعد ہم کو یقین ہے کہ مولف کے ضمیمہ اردو کی طرف سے بڑی حد تک قارئین ضمیمہ اردو زبان کی اصلیت سے مطمئین ہوجائیں گے۔​
نوٹ: ضمیمہ کا باقی حصہ شہرِ لاہور کے نام اور اس کی وجہ تسمیہ سے متعلق ہونے کی وجہ سے یہاں پر غیر متعلق ہے، لہٰذا یہ اقتباس یہیں پر ختم کیا جاتا ہے۔​
اللہ کا شکر ہے کہ یہ مراسلہ ہمارا ایک ہزارواں مراسلہ ہے۔​
( تمت بالخیر)​
 
’’جب ہندوستان میں ’’اردو‘‘ کا یہ مقام ہے تو پاکستان جو اسلامی جمہوریہ ہے اس میں تو ’’ ادرو‘‘ ہی کا سرکاری اور قومی زبان کی حیثیت سے رائج ہونا ایک فطری تقاضہ تھا ۔ البتہ اسکا رسم الخط عربی ہی ہے۔‘‘ ڈاکٹر عبداللہ نافع​
ڈاکٹر نافع کا آخری جملہ یوں تو بہت خوبصورت ہے لیکن اندر ایں حالات ایک نہایت افسوس ناک صورتحال کا پیش خیمہ ہے۔ ہندوستان میں تو جو صوترحال ہے سو ہے ، اس کے نتیجے میں سرکاری اور غیز سرکاری دونوں سطحوں پر اردو کی حیثیت کو گھٹاکر اسے ایک علاقائی زبان کی طرح صرف اقلیتی مسلمان طبقے کی زبان کے طور پر نہ صرف پیش کیا جاتا ہے بلکہ اس کے شعوری کوششیں بھی جاری ہیں۔ ممبئی کی فلم انڈسٹری ایک بہت طاقتور انڈسٹری ہے لیکن اسے کبھی یہ جرات نہیں ہوئی کہ اردو کے بجائے ہندی میں فلمیں بنا سکے۔ البتہ پرائیویٹ ٹی وی چینلز نے اس کام کو بخوبی انجام دیا ہے۔ ان ٹی وی چینلز نے ہندی پرگراموں کی بھرمار کردی ہے تاکہ اگلی نسل کو اردو سے بیگانہ کرکے ہندی کو بطور رابطے کی زبان کے متعارف کروایا جائے۔ خود ہندوستان میں اس کا کیا اثر ہورہا ہے اس کا تو علم راقم الحروف کو نہیں البتہ پاکستان میں ، جہاں یہ چینلز خاصے مشہور ہیں، لوگوں کی زبانوں پر جابجا ہندی الفاظ چڑھتے نظر آرہے ہیں۔ جس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں​
مُدّا ۔۔ بمعنی معاملہ​
سہمت بمعنی متفق​
گھماسان بمعنی گھمسان​
وشواس بمعنی یقین​
وغیرہ وغیرہ​
ادھر پاکستان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو اردو کو رابطے کی زبان تو مانتا ہے ، جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ اور کوئی زبان کم از کم پاکستان کے سولہ کروڑ عوام میں رابطے کی زبان بن ہی نہیں سکتی، البتہ اسے قومی زبان کا درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں معدودے چند افراد پڑھے لکھے ہیں لہٰذا انگریزی اونچے طبقے کی زبان تو بن سکتی ہے ، لیکن رابطے کی زبان نہیں بن سکتی۔ ہمارے چار صوبوں میں سے لگ بھگ تین میں بنیادی تعلیم قومی زبان اردو زبان اردو کے بجائے صوبائی زبان میں دی جاتی ہے۔​
یہ صورتحال راقم الحروف کے لیے خاصی افسوس کا باعث تھی۔ اب سے کوئی دس سال پہلے راقم کو متحدہ امارات میں دوسال گزارنے کا اتفاق ہوا تو اندازہ ہوا کہ اردو ایک خود رو جنگل کی طرح ایک ایسی زبان ہے جس کا کوئی والی وارث نہ ہونے کے باوجود اس زبان کو کوئی اس کی موجودہ مروجہ بین لاقوامی رابطے کی زبان سے کوئی مائی کا لال نہیں ہٹا سکتا۔ پاکستان، بنگلہ دیش، ہندوستان ، برما نیپال اور بھوٹان کے علاوہ، ایران، افغانستان، متحدہ عرب امارات اور دیگر عرب ریاستوں میں رابطے کی واحد زبان اردو ہی ہے، اور اردو ہی رہے گی۔ مثال کے طور پر ٹی وی چینلز میں سے بی بی سی ہندی، نیشنل جیوگرافک، اور اس قبیل کے کئی ایک چینلز جو ہندی نشریات کے ذمہ دار ہیں انھیں کتنے فیصد لوگ دیکھ اور سن کر سمجھ سکتے ہیں۔ اس کے برعکس اردو جو ممبئی کی فلم انڈسٹری کی زبان ہے ، اس کے گانے بچے بچے کی زبان پر ہیں۔ راقم الحروف نے مسقط میں بلوچ عرب بچوں کو یہ گانے گاتے ہوئے سنا اور اسے یہ یقین ہوگیا کہ اردو کی مسلمہ رابطے کی حیثیت کو مٹانا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ یہ ایک پھلتی پھولتی، پھیلتی ، ترقی یافتہ زبان ہے ، جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ کو شامل کرنے کی صلاحیت بدرجہ اتّم موجود ہے جو اس کی کامیابی ایک راز بھی ہے۔​
اللہ اردو کو پھلتا پھولتا ہی رکھے اور اسے لوگوں کے دلوں میں بسائے رکھے۔​
 
اردو زبان کی ابتداء اور ارتقائی مراحل

تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ھے کہ قبل مسیح کے زمانےمیں ھندوستان میں مختلف قومیں آکر آباد ہوتی رہیں ہیں،جن میں سے ایک وسط ایشیا کی آریا قوم بھی تھیجس نے شمالی ھند کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس زمانے میں ھندوستان میں مختلف زبانیں بولی جاتی تھیں جن میں تامل،اوڑیا،تلیگوان وغیرہ زیادہ مشہور زبانیں ہیں۔

آریا لوگ قدآور ،بہادر اور خوش شکل تھے اور انہیں اپنے حسب نسب کے علاوہ اپنی زبان پر بڑا مان تھا چنانچہ انہوں نے چند قوائدو ضوابط ترتیب دے کر اپنی زبان کو سنسکرت کا نام دیا اور اسے ایک اعلی درجے کی زبان سمجھنے لگے لیکن سنسکرت کے مخارج اور تلفظ کو مفتوح قوم زیادہ دیر قائم نہ رکھ سکی اور مختلف زبانوں کے میل سے ایک نئی زبان نے جنم لیاجسے پراکرت کہا گیا۔

تقریبا ڈیڑھ ہزار سال تک لوگ پراکرت زبان ہی بولتے رھے لیکن جب راجہ بکر ماجیتگدی پر بیٹھا تو اس نے سنسکرت زبان کو دوبارہ زندہ کرنا چاہا جو کہ دیوتائوں کی زبان سمجھی جاتی تھی،راجہ کی مدد سے بڑے بڑے پنڈت سنسکرت میں کتابیں لکھنے لگےاور سنسکرت پھر ہندوستان کی علمی زبان بن گئیتاہم عام لوگوں کی زبان اب بھی پراکرت ھی تھی۔

حضرت عیسیٰ علیہ ااسلام کی پیدائش کے بعد تک ھندوستان میں تقریبا اکیس، بائیس پراکرت زبانیں بولی جاتی رہیں،ان میں سے ایک زبان "سوراسنی " کا نام بدل کر (برج بھاشا) پڑ گیا،اس زبان کا دائرہ بہت وسیع تھا اور اردو زبان بھی اسی برج بھاشا کی ارتقائی شکل ھے۔

راجہ اشوک اور اردو زبان:

ھندوستان کا مشہور بدھ مت کا پرستار راجہ اشوک بھی یہی زبان بولتا تھا،اس نے جنگ کی ہولناکیوں اور قتلِ عام کو دیکھتے ہوئےبدھ مت اختیار کر لیااور جنگ سے توبہ کر لی۔اس نے نربد اور گنگا سے لے کر دریائے سندھ اور اٹک تک بدھ مت کے بڑے بڑے سٹوپا تعمیر کیے جن پر اسی برج بھاشا میں بدھ مت کے زریں اصول کندہ کروائے،یہ سٹوپا آج بھی ٹیکسلا کے عجائب گھر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔
اس سے بھی پہلے 335سال قبل از مسیح میں سکندر اعظم نے ھندوستان پر حملہ کیا تھا تو بھی یہی برج بھاشا ہی بولی جاتی تھی ۔سکندر نے جب پورس کو شکست دینے کے بعد اس سے پوچھا کہ تم سے کیا سلوک کیا جائے تو پورس نے اسی برج بھاشا میں کہا تھا کہ " وہی سلوک جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ھے"

ھندوستان میں داخل ہونے والے مسلمان فاتحین ترک،افغان اور مغل تھےاور اپنے ساتھ اپنی اپنی زبانوں کی روایات،اصولِ صرف و نحو اور معاشرتی آداب بھی لائے تھے،یہ لوگ زیادہ تر فارسی بولتے تھےیا پھر ان کی زبان میں فارسی زبان کی آمیزش زیادہ تھی اور اسطرح بہت سے عربی اور ترکی الفاظ کی آمیزش سے ایک نئی طرز کی برج بھاشا وجود میں آئی۔

انہی مغلوں کے زمانے میں "اردو" کا لفظ رائج ہوا جو کہ لشکر کے معنوں میں استعمال ہونا شروع ہوا تھا اور مغلیہ بادشاہوں کے شاہی فرمانوں اور سکوں پر بھی اردو لشکر کے معنوں میں ھی لکھا جاتا رہا۔

"بابر" اپنے ایک فارسی شعر میں اپنی فوج کو "اردوئے نصرت شعار " لکھتا ھے،شہنشاہ جہانگیر نے دلی سے کشمیر کی طرف سفر کرتے ہوئے راستے میں ایک سکہ بنوایا اور اس پر یہ شعر کندہ کروایا‘

بادِ رواں تاکہ بودمہروماہ
سکہ اردوئے جہانگیر شاہ

مغل شہنشاہوں لے زمانے میں شاہی لشکر یا لشکرگاہ کو " اردوئے معلی کہتے تھے،پھر جس بازار میں فوج کے سپاہی خرید و فروخت کیلئے جاتے تھے اسے اردو بازار کہا جانے لگا مگر اس زمانے تک لشکری جو زبان آپس میں بولتے تھے اسے اردو نہیں کہا جاتا تھا بلکہ زبانِ ہندی ہی کہا جاتا تھا،اس زبان کی سب سے پہلی تحریر"امیر خسرو دہلوی" کی ملتی ھے جو 653 ہجری کا زمانہ ھے اور وہ اپنی کتاب میں اپنے اردو کلام کو ہندوی کلام کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔

تیرھویں،چودھویں اور پندرھویں صدی کا زمانہ اردو زبان کا تشکیلی دور تھا،اس زمانے میں ہندو مسلم سنتوں اور صوفیوں نے عوام کی زبان میں ہیان سے گفتگو شروع کی،ان میں خواجہ بندہ نواز ،سید محمد حسین گیسو دراز،امیر خسرو،شیخ بو علی قلندر،شیخ شرف االدین یحییٰ منیری،شاہ میراں جی شمس العشاق،کبیر داس،گرو نانک،شیخ عبدالقدوس گنگوہیوغیرہ شامل ہیں،اس دور کی اردو میں ہندی کے الفاظ کی بہتات ھے۔

گجرات کی فتح کے بعد اس دور کی اردو جو گجری کہلاتی تھیکو کافی ترقی ملی پھر علاوالدّین خلجی کے حملے کے ساتھ دکّن میں پہنچی اور جب ضسن گنگوبہمنی نے بہمنی سلطنت قائم کی تو اردو کو سرکاری زبان قرار دیا ،ڈاکٹر نصیرالدین ہاشمی اس دور کی اردو پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں؛

"اس دور میں دکّنی زبان یا قدیم اردو بول چال کی زبان سے گزر کر تحریر کی صورت میں آگئی تھی،جو نمونے نثر اور نظم کے ملتے ہیں ان میں یہ واضح ہوتا ھے کہ اس میں ہندی کے الفاظ زیادہ تھے"۔



تحقیق سے پتہ چلتا ھے کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے عہد تک اردو کا لفظ بہ معنی زبان رائج نہیں تھا اس کے برعکس جہاں جہاں بھی زبان کے مفہوم کو واضح کرنے کی ضرورت پیش آئی وہاں زبانِ ہندی یا زبانِ ریختہ کی ترکیب استعمال کی گئی۔

"ریختہ" کے لغوی معنی تو ایسی شے کے ہیں جو گری پڑی ملی ہو۔اہلِ فارس کے شعراءاس نظم کو نظمِ ریختہ لکھتے تھے جس میں دوسری زبانوں کے الفاظ زیادہ ہوں چونکہ اس دور کے شعراء کے کلام میں ہندی اور فارسی کا امتزاج بہت زیادہ تھا اسلیئے اسے نظمِ ریختہ کہا جانے لگااور یہ رواج انیسویں صدی عیسوی تک مروّج رہا،جیسا کہ میر لکھتے ہیں‘

خوگر نہیں کچھ یونہی ہم ریختہ گوئی کے

معشوق جو تھا اپنا،باشندہ دکّن کا تھا


"میر ‘ کے اس شعر سے اندازہ ہوتا ھے کہ ریختہ کہنے کا عام رواج دہلی سے پہلے دکّن میں ہوا تھا۔

یہاں تک کہ مرزا غالب کے زمانے میں اردو کیلئے یہی لفظ ریختہ استعمال ہوتا تھا خود وہ فرماتے ہیں،

ریختہ کے تم ہی نہیں استاد غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا


اسی طرح مغلوں کے عہد میں یورپ کی بعض قومیں بھیہندوستان آیئں اس لئے کچھ پرتگالی اور فرانسیسی الفاظ بھی اردو میں شامل ہوتے گئےاور وقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہوا ھے۔

سودا اور میر تک آتے آتے اردو پورے ھندوستان میں پھیل گئی اور اس کا تلفّظ بھی کافی صاف ہوگیا،انشاء کے زمانے میں انگریزی الفاظ کے اضافے کے ساتھ زبان میں مزید وسّعت آتی گئی،بعد میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے ماتحت فورٹ ولیم کالج کا قیام کلکتہ میں عمل میں آیا تو اردو زبان کو کافی ترقی ملی اور اسی عہد میں باغ و بہار ،آرائشِ محفل ،باغ اردو ،سنگھاسن بیتسی وغیرہ آسان اور دلکش انداز میں لکھی گیئیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخبارات و رسائل کی وجہ سے مزید ترقی ملی اور زبان میں نئے الفاظ اور محاورات و اصطلاحات کا اضافہ ہوتا گیا۔
اردو زبان کی تشکیل میں مخلوط قوموں کے مشترکہ تہزیبی و ثقافتی اثرات معاون رہے ہیں اور آج یہی زبان برصغیر کی نمائندہ زبان کی حیثیت رکھتی ھے۔
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
طالب علمی کے دور میں ہم اردو کی ابتداء و ارتقاء کے موضوع پر اس طرح کی تحریروں کی تلاش میں رہتے تھے۔ اور ہاتھ لگنے پر بڑے خوش ہوتے تھے۔ کہ ہمارے استاد نے ہمیں یہ بتا دیا تھا کہ امتحا ن میں ایک سوال الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اس موضوع پر لازمی طور پر پوچھا جاتا ہے۔ بہت بہت شکریہ
 
طالب علمی کے دور میں ہم اردو کی ابتداء و ارتقاء کے موضوع پر اس طرح کی تحریروں کی تلاش میں رہتے تھے۔ اور ہاتھ لگنے پر بڑے خوش ہوتے تھے۔ کہ ہمارے استاد نے ہمیں یہ بتا دیا تھا کہ امتحا ن میں ایک سوال الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ اس موضوع پر لازمی طور پر پوچھا جاتا ہے۔ بہت بہت شکریہ
راجہ اشوک اور چندر گپت موریہ کے بارے میں ہم نے تاریخ میں پڑھا ہے کیونکہ تاریخ کو ہم نے اختیاری مضمون کی حیثیت سے لیا تھا اس وقت سے تاریخ سے دلچسپی ہے اور یہ دھاگہ اسی کا شاخسانہ ہے :)
 

عبدالحسیب

محفلین
بہت عمدہ شراکت سید شہزاد ناصر بھائی ۔ محفل میں شامل ہونے کے بعد سے اس جاہل کے علم میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ آپ اساتذہ کی سر پرستی میں انشاء اللہ بہت کچھ سیکھنے ملے گا۔
 
میرا خیال ہے کہ آپ لوگوں کی کاوش قابل تعریف ہے مگر جو اہم بات اپ لوگ بھول گئے وہ اردو کی ترقی میں انگریزوں کا کردار ہے۔ اردو کبھی بھی کسی ملک کی افیشل زبان نہیں رہی ۔ حتیٰ کہ کبھی مغل دور میں بھی نہیں۔ فارسی افیشل زبان تھی۔ انگریزوں نے اکر اردو کو ترقی دینے کے لیے کوششیں کیں تاکہ فارسی کا اثر ہٹایاجاسکے اور اردو کو رابطہ کی زبان بنایا جو وہ اج بھی ہے۔ یہ اردو پر انگریزوں کا احسان ہی ہے
 
جو بات رہ گئی کہنے سے کہ اگر اردو کسی ملک میں رائج ہوسکتی تھی وہ پاکستان تھا
بدقسمتی سے یہ ہو نہ سکا
 
حضرت داغ دہلوی کیا اچھا فرماگئے ہیں
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
ذیل میں ہم ایک حال ہی میں خریدی ہوئی پرانی کتاب ’’ محمد بن قاسم ثقفی ‘‘ از پروفیسر نافع عبداللہ کی کتاب سے ان کا ضمیمہ پیش کررہے ہیں۔ اس کتاب کا ترجمہ پروفیسر ڈاکٹر عطیہ خلیل عرب( انصاری ) نے کیا ہے ، انھوں نے موصوف کے ضمیمے کو تو من و عن ترجمہ کیا لیکن تشنگی رہ جانے کے باعث ایک عدد ضمیمہء دوم بھی لکھا ہے۔ اس ضمیمہ میں موصوف نے اردو زبان پر ایک تحقیقی مضمون لکھا ہے ۔ ہم اگلی نشستوں میں ان دونوں ضمیموں کے متن پیش کریں گے۔اردو داں طبقہ کے لیے معلوماتی مضامین ہیں جو امید ہے پسند کیے جائیں گے۔​
محترم داغ دہلوی کے اس شعر میں اصل لفظ سارےجہاں ہے یا ہندوستاں
 
Top