کاشفی
محفلین
غزل
(تلوک چند محروم)
اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
اے ہم نفس، نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی، اُدھر گئی
دامِ غمِ حیات میں الجھا گئی اُمید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دین
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی
انجام حسن گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی
بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وداع ِ دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی
ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی
(تلوک چند محروم)
اس کا گلہ نہیں کہ دُعا بے اثر گئی
اک آہ کی تھی وہ بھی کہیں جا کے مر گئی
اے ہم نفس، نہ پوچھ جوانی کا ماجرا
موجِ نسیم تھی، اِدھر آئی، اُدھر گئی
دامِ غمِ حیات میں الجھا گئی اُمید
ہم یہ سمجھ رہے تھے کہ احسان کر گئی
اس زندگی سے ہم کو نہ دنیا ملی نہ دین
تقدیر کا مشاہدہ کرتے گزر گئی
انجام حسن گل پہ نظر تھی وگرنہ کیوں
گلشن سے آہ بھر کے نسیم سحر گئی
بس اتنا ہوش تھا مجھے روزِ وداع ِ دوست
ویرانہ تھا نظر میں جہاں تک نظر گئی
ہر موجِ آبِ سندھ ہوئی وقفِ پیچ و تاب
محروم جب وطن میں ہماری خبر گئی