جی مخصوص بحروں میں بالکل ہو سکتا ہے۔
ایک تو بحر خفیف ہے جس کے پہلے رکن میں فاعلاتن کو فعلاتن اور آخری رکن میں فعلن، فَعِلن، فعلان اور فَعِلان چاروں میں سے کوئی بھی آ سکتا ہے۔
اس بحر کے اوزان پر میرا تفصیلی مضمون مثالوں کے ساتھ دیکھیے۔
اسی طرح بحر رمل کی ایک شکل اوپر گزری ہے اس میں بھی آخری رکن فعلن 22 کی جگہ فَعِلن 211 آ سکتا ہے مثلاً مومن کی ایک غزل کے مصرعے میں نے اوپر لکھے ہیں، اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنھیں چاہ کے ارماں ہونگے
اس میں پہلا مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فَعِلن ہے
ایک ہم ہیں - فاعلاتن
کہ ہُ ئے اے - فعلاتن
سِ پشیما - فعلاتن
ن کہ بس - فَعِلن
جب کہ دوسرے مصرعے کا وزن فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن ﴿ع ساکن کے ساتھ﴾ ہے یعنی
ایک وہ ہیں - فاعلاتن
کہ جنھیں چا - فعلاتن
ہ کِ ارما - فعلاتن
ہونگے - فعلن
پس ثابت ہوا کہ فعلن کی جگہ فعِلن آ سکتا ہے۔
مزید برآں یہ کہ اس بحر میں بھی آخری رکن فعلن، فَعِلن، فعلان اورفَعِلان ہو سکتا ہے۔
آپ کے سوال کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے کہونگا کہ کچھ بحروں میں رکن کے شروع میں فَعِلن کو فعلن کے ساتھ بھی بدلا جا سکتا ہے، شکل مختلف ہو سکتی ہے لیکن اصول یہی ہے۔
مثلاً بحرِ کامل کہ اس کا وزن ہے
مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن مُتَفاعلن
آپ غور کریں کہ مُتَفا اصل میں فِعَلن ہی ہے، اور اس مُتَفا کے مُ تَ کو تسکینِ اوسط زحاف سے فع سے بدل سکتےہیں یعنی متفاعلن کو مستفعلن سے بدل سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر مولانا جامی کا مشہور شعر ہے ﴿جسے غلطی سے لوگ دوبیتی یا رباعی سمجھتے اور لکھتے ہیں حالانکہ وہ اس بحر کامل میں ایک شعر ہے﴾
بلغ العلیٰ بکمالہ، کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ، صلوا علیہ و آلہ
اس میں تمام ٹکڑے متفاعلن کے وزن پر چل رہے ہیں لیکن صلوا علیہ و آلہ میں صلوا علے مستفعلن کے وزن پر ہے۔
بَ لَ غل عُ لا - متفاعلن
ب کَ ما لِ ہی - متفاعلن
کَ شَ فد دُ جیٰ - متفاعلن وعلی ہذا القیاس
اور
صلوا علیہ و آلہ
صل لو ع لے - مستفعلن
ہِ و آ لِ ہی - متفاعلن
پس ثابت ہوا کہ متفاعلن کو تسکین اوسط زحاف سے مستفعلن بنایا جا سکتا ہے۔
آمدم برسر مطلب فَعِلن کو فعلن بنایا جا سکتا ہے اور اسکا الٹ بھی صحیح ہے جو کہ آپ کا اصل سوال تھا۔