اصولِ شاعری کے حوالے سے چند سوال۔۔۔؟

محمد وارث

لائبریرین
بہت بہت شکریہ استاذ گرامی جناب محمد وارث صاحب!
ایک اور سوال وہ یہ کہ ہر بحر کے ہر افاعیل کی جگہ اس کا زحاف استعمال ہو سکتا ہے یا کچھ بحروں میں کچھ زحافات مخصوص ہیں کہ لگائے جا سکتے ہیں۔۔۔ ۔؟
اور دوسرا سوال یہ کہ کیا ہر بحر میں 2 کو 11 میں توڑا جا سکتا ہے یا یہ کلیہ صرف فعلن پر ہی لاگو ہوتا ہے ۔۔۔ ؟
امید ہے جواب دے کر مشکور فرمائیں گے۔۔۔ !

ہر بحر کے ہر رکن کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، کہیں اجازت ہے اور کہیں نہیں ہے، مثلاً بحر ہزج مثمن سالم مفاعیلن چار بار، اس کے نہ پہلے رکن میں تبدیلی ہو سکتی ہے نہ دوسرے نہ تیسرے، صرف چوتھے میں مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان آ سکتا ہے۔

اسی طرح بحر رمل مثمن محذوف فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن، اس کے بھی کسی رکن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی سوائے فاعلن کے مسبغ ہو کر فاعلان ہو جاتا ہے۔

لیکن اسی بحر رمل کی ایک مزاحف شکل، بحر رمل مثمن محذوف مقطوع فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن، اس بحر میں فاعلاتن کی جگہ فعلاتن اور فعلن کی جگہ فَعِلن، فعلان اور فَعِلان آ سکتے ہیں اور یوں آٹھ وزن بن جاتے ہیں۔

اسی طرح بحر خفیف جس کا کچھ ذکر اوپر ہوا ہے، میں بھی آٹھ وزن بن جاتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ ہر بحر کا اپنا مخصوص نظام ہے اور کسی بھی بحر میں ایک رکن کی جگہ دوسرا رکن لانے کیلیے بحور پر عبور ضروری ہے وگرنہ بہتر یہی ہے کہ کسی بحر کے جو نارمل ارکان مستعمل ہوتے ہیں انہی کو استعمال کیا جائے۔

فعلن، زیادہ تر کسی بھی بحر کے آخر میں آتا ہے، مثلاً

رمل مثمن کی مزاحف شکل میں فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
رمل مسدس کی مزاحف شکل میں فاعلاتن فعلاتن فعلن
مجتث مثمن کی مزاحف شکل میں مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
خفیف مسدس کی مزاحف شکل میں فاعلاتن مفاعلن فعلن

ان سب میں فعلن 22 کو نہ صرف فَعِلن 11 2سے بدلا جا سکتا ہے بلکہ فعلان 2 2 1 اور فَعِلان 1 1 2 1 کی شکل میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
کسی بحر کے شروع میں ایک متحرک حرف کا ہرگز اضافہ نہیں ہو سکتا۔

لیکن جہاں تک آپ کی مثال ًجلا ہےً سے میں سمجھا ہوں، آپ یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا سببَ خفیف کی جگہ رکن سببَ ثقیل سے شروع ہو سکتا ہے یا نہیں تو عرض ہے کہ کچھ بحروں میں پہلے رکن کے سببِ خفیف کو توڑنے کی اجازت ہے اور سببِ خفیف کی جگہ سببِ ثقیل کا آدھا یعنی 1 سکتا ہے، مثلاً بحر خفیف جس کے افاعیل فاعلاتن مفاعلن فعلن ہیں اس میں فاعلاتن کی فا کی جگہ صرف فَ آ سکتا ہے یعنی وزن فعلاتن مفاعلن فعلن آ سکتے ہیں مثلاً فیض

آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے ﴿فاعلاتن مفاعلن فعلن﴾

اور اسی غزل کا ایک مصرع

نہ گئی تیرے غم کی سرداری ﴿فعلاتن مفاعلن فعلن﴾

اسی طرح بحر رمل کی ایک مزاحف شکل ہے فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن اس میں بھی فاعلاتن کی جگہ فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن آ سکتا ہے۔مثلاً مومن

ناوک انداز جدھر دیدہٴ جاناں ہونگے ﴿فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾

اور اسی غزل کا ایک مصرع

وہی ہم ہونگے وہی دشت و بیاباں ہونگے ﴿فعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن﴾
وارث صاحب چند سوالات۔

کیا بحر متقارب فعولن فعولن فعولن فعولن کہ پہلے فعولن کو فاعولن کیا جا سکتا ہے، اگر کیا جاسکتا ہے تو کیا یہ صرف پہلے رکن میں ہی جائز ہے اور کیا یہ پوری غزل میں کہیں ایک بار ہی لایا جاسکتا ہے یا پھر ایک بار لانے سے ہر مصرعہ میں لانا ضروری ہے۔

بحر خفیف میں اگر کوئی غزل ان افاعیل سے شروع کی جائے، فَعِلاتن مفاعلن فَعِلان ، تو کیا دوسرے مصرعہ میں اصل افاعیل فاعلاتن مفاعلن فعلن لایا جا سکتا ہے یا پھر پورے ایک شعر میں یا پھر پوری غزل میں ایک ہی افاعیل لانے ضروری ہیں۔
کیونکہ آپ کی درج بالا مثالوں سے مینے یہی سمجھا ہیکہ ان بحور میں کسی ایک شعر یا کسی ایک مصرعہ میں افاعیل ضرورت کے مطابق تبدیل کیئے جاسکت ہیں۔

اگر پوری غزل تبدیل افاعیل ( زحاف ) میں کہی گئی ہو تو کیا بحر کا نام تبدیل ہو جائے گا یا بحر کا نام اصل ہی رہے گا، مثلا متقارب مثمن سالم، کا نام کچھ اور ہو جائے گا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث صاحب چند سوالات۔

کیا بحر متقارب فعولن فعولن فعولن فعولن کہ پہلے فعولن کو فاعولن کیا جا سکتا ہے، اگر کیا جاسکتا ہے تو کیا یہ صرف پہلے رکن میں ہی جائز ہے اور کیا یہ پوری غزل میں کہیں ایک بار ہی لایا جاسکتا ہے یا پھر ایک بار لانے سے ہر مصرعہ میں لانا ضروری ہے۔

جی نہیں اس بحر کے پہلے تینوں رکنوں میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی، فقط آخری فعولن میں رکن مسبغ ہو کر فعولان آ سکتا ہے۔، اور عملِ تسبیغ کی تقریباً ہر بحر کے آخری رکن میں اجازت ہے۔


بحر خفیف میں اگر کوئی غزل ان افاعیل سے شروع کی جائے، فَعِلاتن مفاعلن فَعِلان ، تو کیا دوسرے مصرعہ میں اصل افاعیل فاعلاتن مفاعلن فعلن لایا جا سکتا ہے یا پھر پورے ایک شعر میں یا پھر پوری غزل میں ایک ہی افاعیل لانے ضروری ہیں۔
کیونکہ آپ کی درج بالا مثالوں سے مینے یہی سمجھا ہیکہ ان بحور میں کسی ایک شعر یا کسی ایک مصرعہ میں افاعیل ضرورت کے مطابق تبدیل کیئے جاسکت ہیں۔

خفیف میں جو آٹھ اوزان ہیں، ان میں سے کوئی بھی وزن کسی بھی مصرعے میں آ سکتا ہے اور دوسرے مصرعے میں کوئی دوسرا وزن، اور ساری غزل ان آٹھ اوزان میں سے کسی بھی غزل میں کہی جا سکتی ہے یا ان آٹھ اوزان کو مختلف مصرعوں میں استمعال کیا جا سکتا ہے کوئی قدغن نہیں ہے، بحر خفیف کے آٹھ اوزان یہ ہیں۔

1- فاعلاتن مفاعلن فعلن
2- فاعلاتن مفاعلن فَعِلن
3- فاعلاتن مفاعلن فعلان
4- فاعلاتن مفاعلن فَعِلان
5- فعلاتن مفاعلن فعلن
6- فعلاتن مفاعلن فَعِلن
7- فعلاتن مفاعلن فعلان
8- فعلاتن مفاعلن فَعِلان

اگر آپ میرا بحر خفیف والا مضمون دیکھیں تو اس میں ایک ہی غزل میں یا ایک ہی شعر میں مختلف اوزان باندھنے کی کئی ایک مثالیں اساتذہ کے کلام سے موجود ہیں۔

اگر پوری غزل تبدیل افاعیل ( زحاف ) میں کہی گئی ہو تو کیا بحر کا نام تبدیل ہو جائے گا یا بحر کا نام اصل ہی رہے گا، مثلا متقارب مثمن سالم، کا نام کچھ اور ہو جائے گا۔

جب بھی کسی بحر میں کوئی رکن بدلتا ہے تو کلاسیکی عروض میں اسکا نام بھی بدل جاتا ہے مثلاً اوپر خفیف کے آٹھ اوزان میں نے لکھے، ان سب بحروں کا علیحدہ علیحدہ نام ہے لیکن عملی طور پر شاعری کیلیے بحروں کے نام یاد رکھنے کی ضرورت نہیں ہے ہاں اگر آپ ماہرِ علم عروض بننا چاہتے ہیں تو پھر ضروری ہے۔ شاعری کیلیے فقط اتنا علم کافی ہے کہ کس بحر میں کون کون سے وزن اکھٹے استعمال ہو سکتے ہیں۔

متقارب سالم فعولن فعولن فعولن فعولن کا ایک اور مزاحف وزن ہے فعولن فعولن فعولن فَعِل، یہ نہ صرف ایک علیحدہ بحر ہے بلکہ اسکا نام بھی علیحدہ ہے اور ان دونوں اوزان کو ایک ہی شعر یا ایک ہی غزل میں جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت شکریہ وارث صاحب
مرکب بحور سے کیا مراد ہے ؟

مفرد بحر وہ ہوتی ہے جس میں ایک ہی رکن کی تکرار ہو، مثلاً ہزج مثمن سالم مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن یا متقارب مثمن سالم فعولن فعولن فعولن فعولن۔

مرکب بحر وہ بحر ہوتی ہے جس میں مختلف ارکان ہوں، جیسے مجتث کی مزاحف شکل مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن یا خفیف فاعلاتن مفاعلن فعلن وغیرہ۔

سالم بحر وہ ہوتی ہے جس کے اصلی رکن میں کوئی تبدیلی نہ ہوئی ہو جیسے ہزج مثمن سالم مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن یا کامل متفاعلن متفاعلن متفاعلن متفاعلن وغیرہ۔

مزاحف بحر وہ ہوتی جسے میں اصلی رکن کسی زخاف کی وجہ سے بدل گیا ہو، جیسے ہزج سالم مفاعیلن چار بار سے ہزج مقبوض مفاعلن چار بار یا ہزج اشتر مفعول مفاعیلن مفعول مفاعیلن یا ہزج مسدس سالم مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن ﴿جو کہ اردو میں استعمال نہیں ہوتی﴾ سے ہزج مسدس محذوف مفاعیلن مفاعیلن فعولن، وغیرہ وغیرہ۔
 

ایم اے راجا

محفلین
آپ نے فرمایا ہزج مسدس سالم اردو میں استعمال نہیں ہوتی، کیا اس میں شعر کہنا ٹھیک نہیں؟
میں نے اس میں ایک غزل کہی تھی۔ محبت سے کنارہ کر لیا جائے۔

مستفعِلن فعلن، کیا یہ بحر ٹھیک ہے اور اس کا نام کیا ہے؟
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ نے فرمایا ہزج مسدس سالم اردو میں استعمال نہیں ہوتی، کیا اس میں شعر کہنا ٹھیک نہیں؟
میں نے اس میں ایک غزل کہی تھی۔ محبت سے کنارہ کر لیا جائے۔

مستفعِلن فعلن، کیا یہ بحر ٹھیک ہے اور اس کا نام کیا ہے؟

ہزج مسدس سالم بحر تو موجود ہے، اردو میں، جیسا لکھا کہ استعمال نہیں ہوتی، ہاں اگر کوئی استعمال کر بھی لے تو کیا کہا جا سکتا ہے :) لیکن کوشش یہی ہونی چاہیے کہ مستعمل بحور ہی میں کہا جائے۔

مستفعلن فعلن میری نظروں سے تو نہیں گزری، شاید موجود بھی ہو، بحر الفصاحت دیکھنی پڑے گی۔
 

ایم اے راجا

محفلین
مستفعلن فعلن میری نظروں سے تو نہیں گزری، شاید موجود بھی ہو، بحر الفصاحت دیکھنی پڑے گی۔
ایک شاعر دوست نے مجھے اپنی کتاب بھیجی تھی اس میں یہ بحر تھی، میں نے پوچھا تو اس نے یہ بحر بتائی لیکن نام سے وہ بھی واقف نہیں۔
 

محمد وارث

لائبریرین
نیا سوال یہ ہیکہ سب سے چھوٹی (مختصر ) بحر کون سی ہے اور اسکے افاعیل کیا ہیں ؟

راجا صاحب، کسی ایک بحر کے متعلق کہنا تو شاید مشکل ہو لیکن ظاہر ہے کہ جس بحر میں کم ارکان ہونگے وہ چھوٹی ہوگی اس لحاظ سے تمام مسدس بحریں (ایک مصرعے میں تین ارکان والی) چھوٹی ہوتی ہیں۔

انکے علاوہ مربع بحریں بھی ہوتی ہیں اور وہ ان مسدس بحروں سے بھی چھوٹی ہوتی ہیں، ان مربع بحروں کے ایک مصرعے میں صرف دو رکن ہوتے ہیں مثلاً ہزج مربع سالم مفاعیلن مفاعیلن وغیرہ لیکن مربع بحریں اردو میں بہت کم استعمال ہوتی ہیں۔
 

زلفی شاہ

لائبریرین
ہر بحر کے ہر رکن کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا، کہیں اجازت ہے اور کہیں نہیں ہے، مثلاً بحر ہزج مثمن سالم مفاعیلن چار بار، اس کے نہ پہلے رکن میں تبدیلی ہو سکتی ہے نہ دوسرے نہ تیسرے، صرف چوتھے میں مفاعیلن کی جگہ مفاعیلان آ سکتا ہے۔

اسی طرح بحر رمل مثمن محذوف فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن، اس کے بھی کسی رکن میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی سوائے فاعلن کے مسبغ ہو کر فاعلان ہو جاتا ہے۔

لیکن اسی بحر رمل کی ایک مزاحف شکل، بحر رمل مثمن محذوف مقطوع فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن، اس بحر میں فاعلاتن کی جگہ فعلاتن اور فعلن کی جگہ فَعِلن، فعلان اور فَعِلان آ سکتے ہیں اور یوں آٹھ وزن بن جاتے ہیں۔

اسی طرح بحر خفیف جس کا کچھ ذکر اوپر ہوا ہے، میں بھی آٹھ وزن بن جاتے ہیں۔

کہنے کا مطلب یہ کہ ہر بحر کا اپنا مخصوص نظام ہے اور کسی بھی بحر میں ایک رکن کی جگہ دوسرا رکن لانے کیلیے بحور پر عبور ضروری ہے وگرنہ بہتر یہی ہے کہ کسی بحر کے جو نارمل ارکان مستعمل ہوتے ہیں انہی کو استعمال کیا جائے۔

فعلن، زیادہ تر کسی بھی بحر کے آخر میں آتا ہے، مثلاً
بہت بہت شکریہ سر محمد وارث صاحب اتنی قیمتی ،مفید اور خوبصورت معلومات فراہم کرنے کا اور متلاشی صاحب کے بھی مشکور ہیں کہ جنہوں نے اتنا خوبصورت سلسلہ شروع کیا۔ سدا خوش رہیں۔

رمل مثمن کی مزاحف شکل میں فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن
رمل مسدس کی مزاحف شکل میں فاعلاتن فعلاتن فعلن
مجتث مثمن کی مزاحف شکل میں مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن
خفیف مسدس کی مزاحف شکل میں فاعلاتن مفاعلن فعلن

ان سب میں فعلن 22 کو نہ صرف فَعِلن 11 2سے بدلا جا سکتا ہے بلکہ فعلان 2 2 1 اور فَعِلان 1 1 2 1 کی شکل میں بھی لایا جا سکتا ہے۔
 

ایم اے راجا

محفلین
راجا صاحب، کسی ایک بحر کے متعلق کہنا تو شاید مشکل ہو لیکن ظاہر ہے کہ جس بحر میں کم ارکان ہونگے وہ چھوٹی ہوگی اس لحاظ سے تمام مسدس بحریں (ایک مصرعے میں تین ارکان والی) چھوٹی ہوتی ہیں۔

انکے علاوہ مربع بحریں بھی ہوتی ہیں اور وہ ان مسدس بحروں سے بھی چھوٹی ہوتی ہیں، ان مربع بحروں کے ایک مصرعے میں صرف دو رکن ہوتے ہیں مثلاً ہزج مربع سالم مفاعیلن مفاعیلن وغیرہ لیکن مربع بحریں اردو میں بہت کم استعمال ہوتی ہیں۔
شکریہ وارث صاحب
 

زلفی شاہ

لائبریرین
وہ کون سی بحریں ہیں جن کے ابتدائی رکن میں تبدیلی کی جاسکتی ہے اور کون سی تبدیلی واقع ہوتی ہے؟
 
Top