مہدی نقوی حجاز
محفلین
اسی زمانے میں میرے محترم بزرگ حضرتِ اقبالؔ نے بھی، ایک طویل خط لکھ کر، میری شاعری کی مدح سرائی فرمائی اور دل کھول کر داد دی تھی۔ اور پنجاب یونی ورسٹی سے "روح ادب" کے تین سو نسخوں کا آرڈر بھی بھجوایا تھا۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ یہ بھی تحریر فرمایا تھا کہ، ہر چند میرے ساغر بالکل نئے ہیں اور ایسے نئے کہ انہیں، دیکھ کر غبطہ پیدا ہوتا ہے۔ لیکن ان میں شراب بھری ہوئی ہے وہی پرانی، اس لئے مجھ کو چاہیئے کہ میں حافظؔ اور ٹیگورؔ کی پیروی ترک کر کے فکری شاعری کی طرف آجاؤں، اور حافظؔ و خیامؔ کی طرح تھپک تھپک کر سلانے کے عوض، انسان کو جگانے کی جانب مائل ہو جاؤں۔
لیکن اس وقت میری تخیئل کا دھارا، بڑے زور و شور سے تصوف کی پراسرار وادیوں کی جانب دھڑا دھڑ بہہ رہا تھا، ان کی نصیحت پر عمل پیرا نہیں ہو سکا۔ لیکن "شنیدہ اثری دارد" کے طور پر ان کی نصیحت غیر محسوس طریقے سے، مجھ پر اثر کرتی رہی، اور جب چند ماہ و سال کے بعد، میری طبیعت "روحِ ادب" کے مزاج سے مختلف ہونے لگی، تصوف سے روگردانی کر کے میں سیاسی شاعری کرنے لگا، اور سیاست سے مڑ کر، جس وقت میری شاعری اقوال، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی۔ اور یہ دیکھ کر حیرت ہو گئی کہ جس تصوف اور ما بعدالطبعیات سے انہوں نے مجھے روکا تھا، اس پر "حَرَکی" کا لیبل لگا کر وہ خود اسی طرف چلے گئے۔ اور عقل کو "بولہب" اور عشق کو "مصطفیٰ" کا خطاب دینے، اور ؏
چوں کہ وہ اعلیٰ درجے کے پڑھے لکھے، اور بلا کے ذہین انسان تھے، اس لئے شروع شروع میں انہوں نے مغرب کے الحاد اور مشرق کے مابین مصالحت کی بڑے خلوص کے ساتھ کوشش کی۔ لیکن جب ان کی سعی مشکور نہیں ہوئی تو انہوں نے، 'نٹشے' کے "مافوق البشر" کو مشرف باسلام کر کے "شاہین بچہ" بنا دیا۔ قرآن کے مردود لفظِ "عشق" کو آسمان پر چڑھا کر اسے تمام انسانی شرف و مجد کا مرکز تسلیم کیا اور قرآن کے محبوب لفظِ "عقل" کو خاک میں ملا کر، اس کو تمام مفاسد کا سر چشمہ ٹھہرا دیا۔ اور میں چیخ اٹھا۔
لیکن اس وقت میری تخیئل کا دھارا، بڑے زور و شور سے تصوف کی پراسرار وادیوں کی جانب دھڑا دھڑ بہہ رہا تھا، ان کی نصیحت پر عمل پیرا نہیں ہو سکا۔ لیکن "شنیدہ اثری دارد" کے طور پر ان کی نصیحت غیر محسوس طریقے سے، مجھ پر اثر کرتی رہی، اور جب چند ماہ و سال کے بعد، میری طبیعت "روحِ ادب" کے مزاج سے مختلف ہونے لگی، تصوف سے روگردانی کر کے میں سیاسی شاعری کرنے لگا، اور سیاست سے مڑ کر، جس وقت میری شاعری اقوال، روایات اور عقائد کی طرف چل پڑی۔ اور یہ دیکھ کر حیرت ہو گئی کہ جس تصوف اور ما بعدالطبعیات سے انہوں نے مجھے روکا تھا، اس پر "حَرَکی" کا لیبل لگا کر وہ خود اسی طرف چلے گئے۔ اور عقل کو "بولہب" اور عشق کو "مصطفیٰ" کا خطاب دینے، اور ؏
السلام اے عشقِ خوش سودائے ما
کے نعرے لگانے لگے۔چوں کہ وہ اعلیٰ درجے کے پڑھے لکھے، اور بلا کے ذہین انسان تھے، اس لئے شروع شروع میں انہوں نے مغرب کے الحاد اور مشرق کے مابین مصالحت کی بڑے خلوص کے ساتھ کوشش کی۔ لیکن جب ان کی سعی مشکور نہیں ہوئی تو انہوں نے، 'نٹشے' کے "مافوق البشر" کو مشرف باسلام کر کے "شاہین بچہ" بنا دیا۔ قرآن کے مردود لفظِ "عشق" کو آسمان پر چڑھا کر اسے تمام انسانی شرف و مجد کا مرکز تسلیم کیا اور قرآن کے محبوب لفظِ "عقل" کو خاک میں ملا کر، اس کو تمام مفاسد کا سر چشمہ ٹھہرا دیا۔ اور میں چیخ اٹھا۔
چیست، یارانِ طریقت، بعد ازیں تدبیرِ ما؛