اکمل زیدی
محفلین
علامہ اقبال اور رابندر ناتھ ٹیگور ہندوستان کے دو عظیم ہم عصر شاعر تھے جن کا کلام ایک ہی زمانے میں مشہور ہوا۔
شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔
علامہ اقبالؔ کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’ زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913ء سے 1938ء تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔
چونکہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لئے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔ اسے ایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھاکہ علامہ اقبالؔ کو نوبل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔
1963ء میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔
سن 1914ء کے اوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہیرلڈ ہئیارن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ اور تباہی کے پر چارک ہوں۔
کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پرپڑتا ہے۔
ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کے آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کونہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔
ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔
اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوشی فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں ان کی تلخی مزید بڑھ گئی۔
1907۔ء کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئر مین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ادب کو ان وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہو کر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیے۔
کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رکا رہا لیکن گاندھی کے کیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاص بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948ء میں انہیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہو گئی۔
علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سرکا خطاب سات برس پہلے 1915ء میں ہی مل گیا تھا۔
ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔
ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔
اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔
یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔
علامہ اقبالؔ کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعر اقبال کا ایک سرا اگر بطون ذات میں تھا تو دوسرا وسعت کائنات میں تھا۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/11/061107_jiqbal_nobel_prize_ih.shtml
شاعری کی حدود سے نکل کر سیاسی اور سماجی میدان میں بھی دونوں شخصیات بیسویں صدی کے اوائل میں ایک ساتھ نمودار ہوئیں لیکن یہ امر دلچسپی سے خالی نہیں کہ عمر بھر دونوں کی ملاقات کبھی نہیں ہوئی۔
علامہ اقبالؔ کے مداحوں کو اس بات کا ہمیشہ قلق رہا ہے کہ ہندوستان کے اولین نوبل انعام کا اعزاز اقبال کے بجائے ٹیگور کو حاصل ہوا۔ شاید اس ’’ زیادتی‘‘ کی تلافی ہو جاتی اگر بعد کے برسوں میں اقبال کو بھی اس انعام کا مستحق قرار دے دیا جاتا لیکن 1913ء سے 1938ء تک کے 25 برسوں میں ایک بار بھی نوبل کمیٹی کی توجہ اقبال پر مرکوز نہ ہو سکی۔
چونکہ نوبل کمیٹی کی تمام دستاویزات اور خط و کتابت پر پچاس برس تک اخفاء کی پابندی رہتی ہے اس لئے سن ساٹھ کے عشرے تک یہ محض ایک راز تھا اور اس پر ہر طرح کی چہ می گوئیاں ہوتی تھیں۔ اسے ایک سوچی سمجھی سازش بھی قرار دیا جاتا تھاکہ علامہ اقبالؔ کو نوبل پرائیز سے کیوں محروم رکھا گیا تھا۔
1963ء میں پرانے دستاویزات کے سامنے آنے پر کھلا کہ کمیٹی نے کوئی سازش نہیں کی تھی اور نہ علامہ اقبال کی نامزدگی کا جھگڑا کبھی پیدا ہوا تھا۔ لیکن اگر بنگال کے شاعر رابندر ناتھ کا نام کمیٹی کے سامنے پیش کیا جا سکتا ہے تو اقبال کی نامزدگی میں کیا قباحت تھی؟ پرانے دستاویزات اس سلسلے میں کوئی واضح رہنمائی نہیں کرتے۔
سن 1914ء کے اوائل میں تیار ہونے والی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئرمین ہیرلڈ ہئیارن نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یورپ میں چھڑنے والی جنگ کی ممکنہ تباہ کاری کو دیکھتے ہوئے کمیٹی سوچ رہی تھی کہ نوبل انعام ایسے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہئے جو جنگ اور تباہی کے پر چارک ہوں۔
کمیٹی کو احساس تھا کہ نوبل انعام حاصل کرنے والا ادیب راتوں رات شہرت کے آسمان پر پہنچ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان تحریروں کا اثر دنیا کے سبھی باشندوں پرپڑتا ہے۔
ہیرلڈ ہئیارن نے مختلف ماہرین کے آراء پیش کرنے کے بعد رپورٹ میں خیال ظاہر کیا کہ ادب کا نوبل انعام دیتے وقت اس امر کو بطور خاص مد نظر رکھنا چاہئے کہ یہ انعام کسی قوم پرستانہ مصنف کونہ چلا جائے یعنی کسی ایسے قلم کار کو جو ایک مخصوص قوم کے ملی جذبات کو ابھار کر دنیا پر چھا جانے کی ترغیب دے رہا ہو۔
ظاہر ہے کہ اقبال کی شاعری کا بیشتر حصہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ کو یاد کرنے اور اسے بحال کرنے کی شدید خواہش کا مظہر ہے۔ اقبال اپنی ملت کو اقوام مغرب سے بالاتر سمجھتے تھے کیونکہ ان کے خیال میں قوم رسول ہاشمی جن عناصر سے مل کر بنی ہے وہ دنیا کی کسی اور قوم میں نہیں پائے جاتے۔
اگرچہ پہلی جنگ عظیم سے قبل بھی یورپ کے سلسلے میں اقبال کسی خوشی فہمی کا شکار نہیں تھے لیکن جنگ کے بعد یورپ کے بارے میں ان کی تلخی مزید بڑھ گئی۔
1907۔ء کی ایک غزل میں اقبال نے کہا تھا: دیار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکان نہیں ہے۔
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہی زر کم عیار ہو گا
نکل کر صحرا سے جس نے روما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہو گا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہو گا
1914ء کی ایک رپورٹ میں نوبل کمیٹی کے چیئر مین خیال ظاہر کرتے ہیں کہ سیاسی اتھل پتھل ایک عارضی مرحلہ ہے۔ ادب کو ان وقتی مصلحتوں سے ماوراء ہو کر عالمی اور دائمی اقدار کا دامن تھامنا چاہیے۔
کم و بیش یہی وہ خیالات تھے جن کی بنیاد پر مہاتما گاندھی کے نوبل پرائز کا راستہ بھی عرصہ دراز تک رکا رہا لیکن گاندھی کے کیس میں کم از کم چار مرتبہ ان کا نام کمیٹی کے سامنے آیا اور اس پر خاص بحث بھی ہوئی بلکہ نئی تحقیق کے مطابق تو 1948ء میں انہیں انعام ملنے ہی والا تھا کہ ان کی ناگہانی موت واقع ہو گئی۔
علامہ اقبال کا معاملہ البتہ مختلف ہے۔ 1913ء میں ٹیگور کو انعام ملنے کے ربع صدی کے بعد تک اقبال زندہ رہے لیکن نوبل کمیٹی نے کبھی ان کے نام پر غور نہیں کیا۔ اقبال کی شہرت کا سورج اس وقت نصف النہار پر تھا اور یہی وہ زمانہ تھا جب اقبال کو حکومت برطانیہ نے ’’سر‘‘ کا خطاب عطا کیا تھا، اگرچہ یہاں بھی ٹیگور انہیں مات دے گئے کیونکہ ٹیگور کو سرکا خطاب سات برس پہلے 1915ء میں ہی مل گیا تھا۔
ٹیگور مادری زبان کو مقدس سمجھتے تھے۔ ایک بار جب وہ اسلامیہ کالج لاہور کے طالب علموں کی دعوت پر پنجاب آئے تو طالب علموں نے ان کے استقبال کے لئے ان کا معروف بنگالی ترانہ گانا شروع کر دیا۔ ٹیگور نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مجھے زیادہ خو شی ہو گی اگر آپ پنجاب کی کوئی سوغات پیش کریں۔ چنانچہ ٹیگور کی خدمت میں ہیر وارث شاہ کے چند بند، ہیر کی روائیتی طرز میں پیش کئے گئے۔ ٹیگور مسحور ہو کر رہ گئے اور محفل کے اختتام پر بولے میں زبان تو نہیں سمجھتا لیکن جتنی دیر ہیر پڑھی جاتی رہی میں مبہوت رہا اور مجھے یوں محسوس ہوتا رہا جیسے کوئی زخمی فرشتہ فریاد کر رہا ہو۔
ٹیگور کو اقبال سے بھی یہی شکوہ تھا کہ اس نے اپنی مادری زبان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ بقول ٹیگور اگر اقبال نے فارسی اور اردو کی بجائے پنجابی کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا ہوتا تو آج پنجابی ایک پر مایہ زبان تو ہوتی۔
اقبال کے سلسلے میں ٹیگور کا یہ بیان ایک نوبل انعام یافتہ شاعر کا بیان بھی تھا۔ ایک ایسے شاعر کے بارے میں جو اس اعزاز سے محروم رہا۔
یہ بیان تھا ’سر‘ کا خطاب ٹھکرا دینے والے ایک شخص کا، اس شخص کے بارے میں جس نے انگریزی کے عطا کردہ اس خطاب کو عمر بھر سینت سینت کے رکھا۔
علامہ اقبالؔ کی شعری کائنات یقیناً ٹیگور کے شعری احاطے سے بہت بڑی تھی کیونکہ شعر اقبال کا ایک سرا اگر بطون ذات میں تھا تو دوسرا وسعت کائنات میں تھا۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/story/2006/11/061107_jiqbal_nobel_prize_ih.shtml
آخری تدوین: