شاکرالقادری
لائبریرین
میں یہاں پر اٹک کے مشہور ادیب اورشاعر جناب مشتاق عاجز کے شعری مجموعہ کو برقیا کر پیش کر رہا ہوں اراکیں سے درخواست ہے کہ وہ اس تھریڈ میں تبصرے نہ کریں بل کہ تبصروں کے لیے یہاں تشریف لائیں تاکہ کتاب کا تسلسل برقرار رہے
اراکین صرف شکریہ کا بٹن دبا کر اپنی پسندیدگی کا اظہار کر سکتے ہیں
انتساب ِاوّل
آسُودگانِ خاک
اشفاق امین، محمد انیس اور عبدالرشید کے نام
جو ابھی تک
خاموش لمحوں میں مجھ سے ہم کلام ہوتے ہیں
تنہا شاموں میں میرے ہم جلیس رہتے ہیں
اور
تاریک راتوں میں میٹھی یادوں کے دیپ جلائے رکھتے ہیں
==============
تیز رفتاری سے میرے پائوں چھلنی ہو گئے
ہو سکے تو اے مری عمرِ رواں ! آہستہ چل
==================
انتسابِ ثانی
دیارِ غیر میں مقیم ہمدمِ دیرینہ
احسان الٰہی کے نام
جو آنکھ سے اوجھل مگر دل کے آئینے میں ہے
اور
واپسی کے سفر میں ڈھلواں راستوں پر ہم قدم
نسیم احمد کے نام
جو میری عمرِ گزشتہ کی ُگم گشتہ بہاروں کا آخری معتبر حوالہ ہے
=========================
اوڑھ رکھی تھی اُداسی کی رِدا ماحول نے
کر رہا تھا اک ُ ّمغنی راگ بھیروں کا الاپ
=====================
عرضِ ناتمام
غزل دلِ گداختہ کی نوا ہے۔ اس کے مزاج میں سوزو ساز کی نرمی اور گرمی رچی بسی ہے۔ بلند آہنگی اور نالۂ شور انگیز سے اس کا فسوں ٹوٹ جاتا ہے؛ اس کا حسن بکھر جاتا ہے۔ جلوت اس کے مزاج کو راس نہیں۔ یہ خلوت میں اپنا پورا اظہار کرتی ہے ۔ اس میں جلالت و شوکت نہیں بل کہ متانت و وقار ہے۔ المیہ موضوعات ہی کو نہیں بل کہ نشاطیہ رنگ کے حامل مضامین کو بھی یہ اپنے سوزِ دروں سے پگھلا دیتی ہے ۔ ّحدت اس کے مزاج کا خاصہ ہے۔ گداز اس کے وجود کی شناخت ہے۔ نرمی اس کے بدن کا گہنا ہے اور کو ملتا اس کی روح کی پکار۔۔۔!
مشتاق عاجزغزل کے مزاج داں ہیں اُنھوں نے ’’الاپ‘‘ کی صورت میں جو سرمایہ تخلیق کیا ہے اس میں غزل کی حقیقی رُوح کارفرما ہے ۔ اُن کا کلام سوز و ساز کی اُس کیفیت سے لبریز ہے جو غزل کی اساسی صفت ہے ۔ اُن کے اشعار چونکاتے نہیں۔۔۔ حیران نہیں کرتے۔ تموّج پیدا نہیں کرتے بل کہ ُچپ چاپ دل میں اُتر جاتے ہیں۔ دل کی دھڑکنوں کے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔ خون میں سرایت کر جاتے ہیں۔ پورے وجود میں وجدانی کیف کی ایک ُپراسرار فضا خلق ہو جاتی ہے ۔ تغزل کی مہکار سے سانسیں معطر ہو جاتی ہیں۔
مشتاق عاجز موسیقی کے اسرار و رموز سے آشنا ہیں۔ اس وصف نے اُن کی غزل میں ایک عجیب نوع کی موسیقیت پیدا کی ہے جو غزل کے مزاجِ خاص سے پوری مطابقت رکھتی ہے ۔ یہ موسیقیت ِتیور سُروں کے جلال اور گونج کی آئینہ دار نہیں بل کہ کومل سُروں اور مدُھر اور نشیلی مدھم لَے کی عکاس ہے۔ موسیقی کا یہ رچائو کسک اور سوز کی صورت میں مصرع بہ مصرع سفر کرتا ہے اور پوری غزل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے ۔ مشتاق صاحب کے مصرعے نیم قوسی زاویہ بناتے ہوئے ایک دوسرے میں پیوست ہو جاتے ہیں۔ مصرعوں کی اس سپردگی کے باعث پوری غزل ایک ہی کیفیت کا اظہاریہ بن جاتی ہے۔ الاپ میں شامل کم و بیش تمام غزلیات میں یک کیفیتی کی فضا موجود ہے ۔ مصرعوں کے درو بست، الفاظ اور تراکیب کے چنائو، اوزان و بحور کے انتخاب اور دیگر تکنیکی عناصر کے استعمال میں سوز و گداز کا یہی رنگ موجود ہے ۔
’’الاپ‘‘ کی غزلیں یک موضوعی نہیں بلکہ ان میں عہدِ جدید کے انسانوں کے اعمال و افعال اور حالات و واقعات کے تمام رنگ نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ ان غزلوں میں خوابوں، خیالوں، آرزوئوں، آدرشوں، جذبوں اور تمنّائوںکی دُنیا اپنی تمام ترجلوہ سامانیوں کے ساتھ عکس فگن ہے۔ یوں موضوعات کا صرف خارجی رُخ ہی ظاہر نہیں ہوتا بل کہ اس کے باطنی زاویے بھی ستارہ وار چمکتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’الاپ‘‘ کی غزلیں دل پذیری اور رعنائی کے اس وصف سے معمور ہیں جو دامنِ قلب و نگاہ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اپنا اسیر کر لیتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہ شعری مجموعہ بازارِ سخن کی قدر و وقعت اور زیب و زینت کو چہار چند کر دے گا۔
ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد
۲۔ اگست ۲۰۰۸ء