محمود احمد غزنوی
محفلین
میں آجکل اھلِ تصوف کی ایک بڑی مشہور اور اہم کتاب پڑھ رہا ہوں جس میں بسم اللہ الرحمن الرحیم کی عارفانہ شرح کی گَی ہے۔ کتاب کا نام ہے 'الکہف والرقیم فی شرح بسم اللہ الرحمن الرحیم' اسکے مصنف ہیں حضرت عبدالکریم جیلی رحمتہ اللہ علیہ۔
میرا جی چاہا کہ اسکا آسان اور عام فہم ترجمہ (اپنی بساط کے مطابق) کرکے آپ کے ساتھ شئیر کیا جائے۔ ۔ ۔کتاب کے مقدمے کا ترجمہ سب سے آخر میں کروں گا انشاءاللہ۔ اس ترجمے کیلئے میرے پاس دارالکتب العلمیہ کا چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے اور کہیں کہیں سے مولانا تقی حیدر کاکوری کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے( جو تقریباّ سو سال قبل لکھا گیا تھا اور بذاتِ خود کافی پیچیدہ اور مغلق ہے)
گر قبول افتد زہے عزّ و شرف۔ ۔ ۔
اخبارِ نبوی میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو کچھ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نازل ہوا، وہ سب قرآن میں ہے، اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ سب سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ الرحمن الرحیم میں موجود ہے۔" اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ " جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ 'باء' میں ہے اور جو کچھ 'باء' میں ہے وہ سب باء کے نیچے یعنی نقطے کے اندر ہے۔"
اور کچھ عارفین نے فرمایا کہ " عارف کی طرف سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بمنزلہِ 'کن' کے ہے جو اللہ سے صادر ہوا۔"
اور جان لو کہ بسم اللہ پر کثیر وجوہ سے کلام کیا گیا ہے۔ مثلاّ صرف و نحو اور لغت۔ اور اس میں وہ کلام بھی شامل ہے جس میں اسکے حروف کے مادّوں، انکے صیغوں، انکی طبائع، انکی ھیئتِ ترکیبی اوران خصائص پر بھی بات کی جاتی ہے جو اسکے حروف کو فاتحہ کے بقّیہ حروف کے مقابلے مین حاصل ہیں۔ اور بسم اللہ کے فوائد اور اسرارو خواص پر بھی کلام کیا گیا۔ اور ہم ان میں سے کسی بھی چیز سے منہ نہیں موڑتے لیکن ان (حروف) پر ہمارا کلام ان معنوں، اور حقائق کے ان پہلووں سے ہے جو حق سبحانہ تعالی کی بارگاہ کے لائق ہیں۔ ان باتوں میں سے کچھ باتیں ایک دوسرے میں مندرج ہیں اور ان باتوں اور کلام کے ان پہلووں سے ہمارا مقصد حق سبحانہ و تعالی کی معرفت ہے۔ اور ہم اس پاک ذات کے در پر پڑے ہوئے ہیں۔ پس اس حالت میں جو بھی تازگی اس ذات کے فیض سے ہماری سانسوں میں آتی ہے، روح الامیں اسی کو لے کر صفحہِ قلب پر اترتی ہے۔
اور جان لو کہ نقطہ جو 'ب' کے نیچے ہے، کتاب اللہ کی ہر سورت کے شروع میں آیا ہے۔ یہ اسلئے کہ حروف نقطے سے بنے ہیں۔ او جب یہ ضروری ہے کہ ہر سورت کی شروعات کسی حرف سے ہو اور کسی بھی حرف کی شروعات نقطے سے، پس اس سے یہ لازم آیا کہ کتاب اللہ کی تمام سورتوں کی ابتداء نقطہ سے ہی ہو۔ پس جب نقطہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے ذکر کیا۔۔۔ اور اسکے اور 'ب' کے درمیان ایک کامل اور مکمّل نسبت پائی جاتی ہے جسکو عنقریب ہم بیان کریں گے۔۔۔ پس اسکی وجہ سے لازم ہوا کہ 'ب' ہر سورت کے شروع میں بسملہ کی طرح آئے۔ حتّی کہ سورہ توبہ بھی کیونکہ 'ب' اسکا بھی پہلا ہی حرف ہے۔ پس اوپر بیان کی گئی حدیثِ مبارکہ کی رُو سے ضروری ہوا کہ کل قرآن اور کل سورتیں فاتحہ کے اندر ہی ہیں، اور وہی کچھ بسملہ میں، اور وہی کچھ 'ب' میں، اور وہی سب کچھ نقطے میں ہے۔ اسی طرح حق سبحانہ تعالی ہر ایک کے ساتھ اپنے کمال کو لئے ہوئے ہے جسکے نہ تو اجزاء ہی کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ پس نقطہ ایک اشارہ ہے اللہ تعالی کی ذات کی طرف جو اپنی مخلوق میں اپنے ظہور کے باوجود، قیمتی خزانے کی طرح پردوں کی اوٹ میں ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نقطہ دیکھا تو جاتا ہے لیکن اپنے اخفاء اور مخارجِ حروف میں سے کسی بھی مخرج سے مخصوص ہونے کی قید سے منزّہ ہونے کے سبب، پڑھا نہیں جاتا۔ چونکہ تمام مخارج سے ادا ہونے والے حروف کا نفس یہ نقطہ ہی ہے، چنانچہ یہی نقطہ اپنے اس تقابل سے غیبِ احدیت کی ھویت کی خبر دیتا ہے۔
اور ایک اعتبار سے نقطہ پڑھا بھی جاتا ہے۔ 'ت' میں یہ دو مرتبہ آیا اور جب ایک اور مرتبہ آیا تو 'ث' بن گئی۔ چنانچہ قراءت نہیں کی گئی سوائے اس نقطے کے۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' کی صورت بغیر نقطے کے ایک ہی صورت ہے۔ لہذا جو پڑھا گیا وہ انکا نقطہ ہی تھا۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' نقطے سے ہٹ کر اگر اپنی ذات کے سبب ہی پڑھے جاتے تو انکی صورتیں ایک دوسرے سے الگ ہوتیں۔ اور چونکہ نقطے ہی کی وجہ سے ان میں تمیز کی جاسکتی ہے تو ان حروف میں سوائے نقطے کے اور کچھ نہیں پڑھا گیا۔ اسی طرح مخلوق سے کچھ بھی نہیں پہچانا گیا سوائے اللہ کے ۔ پس جب تم نے خلق سے اسکو پہچانا تو حقیقت میں اللہ سے ہی اسکو پہچانا۔
نقطہ بعض حروف میں دوسرے حروف کی نسبت زیادہ شدّت سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ کسی کسی حرف میں یہ زائد یعنی الگ سے ہوتا ہے تاکہ اس حرف کی تکمیل ہوسکے جیسے کہ حروفِ معجمہ۔ کیونکہ ان حروف کی تکمیل نقطے سے ہوتی ہے۔ اور بعض حروف میں یہ بعینہ موجود ہوتا ہے۔ جیسے کہ الف اور حروفِ مہملہ۔ کیونکہ دراصل یہ نقطے سے ہی مرکّب ہیں۔ لہذا الف شرف اور بزرگی میں 'ب' سے زیادہ ہے۔ کیونکہ نقطے کا ظہور الف کی ذات میں ہے ۔جبکہ 'ب' میں نقطہ صرف 'ب' کی تکمیلِ ذات کی وجہ سے متحد ہوا۔ اور یہی اتّحاد غیریت کا پتہ دیتا ہے۔ اور یہ غیریت وہی فاصلہ ہے جو حرف اور نقطے کے درمیان نظر آتا ہے۔ اور الف واحد کے قائم مقام ہے۔ لہذا الف اپنی ذات کے ساتھ تمام حروف میں ظاھر ہوا۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ 'ب' ایک لیٹا ہوا یعنی افقی الف ہے۔ اور 'ج' بھی الف ہی ہے جسکی دونوں اطراف کو خم دے دیا گیا۔ اور ' د ' الف ہے جسکو درمیان سے خم دے دیا گیا۔ جبکہ الف نقطے کے مقام پر ہے کیونکہ جب تمام حروف کی ترکیب الف سے ہے اور الف اور تمام حروف نقطے سے ہی بنے ہیں، پس نقطہ ہر حرف کیلئے بمنزلہ جوھر بسیط ہے اور حرف جسمِ مرکّب ہے۔
جاری ہے)۔ ۔ ۔ ۔
میرا جی چاہا کہ اسکا آسان اور عام فہم ترجمہ (اپنی بساط کے مطابق) کرکے آپ کے ساتھ شئیر کیا جائے۔ ۔ ۔کتاب کے مقدمے کا ترجمہ سب سے آخر میں کروں گا انشاءاللہ۔ اس ترجمے کیلئے میرے پاس دارالکتب العلمیہ کا چھپا ہوا عربی ایڈیشن ہے اور کہیں کہیں سے مولانا تقی حیدر کاکوری کاظمی رحمتہ اللہ علیہ کے ترجمے سے بھی استفادہ کیا گیا ہے( جو تقریباّ سو سال قبل لکھا گیا تھا اور بذاتِ خود کافی پیچیدہ اور مغلق ہے)
گر قبول افتد زہے عزّ و شرف۔ ۔ ۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اخبارِ نبوی میں سے ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا کہ "جو کچھ گذشتہ آسمانی کتابوں میں نازل ہوا، وہ سب قرآن میں ہے، اور جو کچھ قرآن میں ہے، وہ سب سورہ فاتحہ میں ہے اور جو کچھ فاتحہ میں ہے وہ سب بسم اللہ الرحمن الرحیم میں موجود ہے۔" اور یہ بھی وارد ہوا ہے کہ " جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ سب کچھ 'باء' میں ہے اور جو کچھ 'باء' میں ہے وہ سب باء کے نیچے یعنی نقطے کے اندر ہے۔"
اور کچھ عارفین نے فرمایا کہ " عارف کی طرف سے بسم اللہ الرحمن الرحیم بمنزلہِ 'کن' کے ہے جو اللہ سے صادر ہوا۔"
اور جان لو کہ بسم اللہ پر کثیر وجوہ سے کلام کیا گیا ہے۔ مثلاّ صرف و نحو اور لغت۔ اور اس میں وہ کلام بھی شامل ہے جس میں اسکے حروف کے مادّوں، انکے صیغوں، انکی طبائع، انکی ھیئتِ ترکیبی اوران خصائص پر بھی بات کی جاتی ہے جو اسکے حروف کو فاتحہ کے بقّیہ حروف کے مقابلے مین حاصل ہیں۔ اور بسم اللہ کے فوائد اور اسرارو خواص پر بھی کلام کیا گیا۔ اور ہم ان میں سے کسی بھی چیز سے منہ نہیں موڑتے لیکن ان (حروف) پر ہمارا کلام ان معنوں، اور حقائق کے ان پہلووں سے ہے جو حق سبحانہ تعالی کی بارگاہ کے لائق ہیں۔ ان باتوں میں سے کچھ باتیں ایک دوسرے میں مندرج ہیں اور ان باتوں اور کلام کے ان پہلووں سے ہمارا مقصد حق سبحانہ و تعالی کی معرفت ہے۔ اور ہم اس پاک ذات کے در پر پڑے ہوئے ہیں۔ پس اس حالت میں جو بھی تازگی اس ذات کے فیض سے ہماری سانسوں میں آتی ہے، روح الامیں اسی کو لے کر صفحہِ قلب پر اترتی ہے۔
اور جان لو کہ نقطہ جو 'ب' کے نیچے ہے، کتاب اللہ کی ہر سورت کے شروع میں آیا ہے۔ یہ اسلئے کہ حروف نقطے سے بنے ہیں۔ او جب یہ ضروری ہے کہ ہر سورت کی شروعات کسی حرف سے ہو اور کسی بھی حرف کی شروعات نقطے سے، پس اس سے یہ لازم آیا کہ کتاب اللہ کی تمام سورتوں کی ابتداء نقطہ سے ہی ہو۔ پس جب نقطہ ایسے ہی ہے جیسے کہ ہم نے ذکر کیا۔۔۔ اور اسکے اور 'ب' کے درمیان ایک کامل اور مکمّل نسبت پائی جاتی ہے جسکو عنقریب ہم بیان کریں گے۔۔۔ پس اسکی وجہ سے لازم ہوا کہ 'ب' ہر سورت کے شروع میں بسملہ کی طرح آئے۔ حتّی کہ سورہ توبہ بھی کیونکہ 'ب' اسکا بھی پہلا ہی حرف ہے۔ پس اوپر بیان کی گئی حدیثِ مبارکہ کی رُو سے ضروری ہوا کہ کل قرآن اور کل سورتیں فاتحہ کے اندر ہی ہیں، اور وہی کچھ بسملہ میں، اور وہی کچھ 'ب' میں، اور وہی سب کچھ نقطے میں ہے۔ اسی طرح حق سبحانہ تعالی ہر ایک کے ساتھ اپنے کمال کو لئے ہوئے ہے جسکے نہ تو اجزاء ہی کئے جاسکتے ہیں اور نہ ہی علیحدہ علیحدہ کیا جاسکتا ہے۔ پس نقطہ ایک اشارہ ہے اللہ تعالی کی ذات کی طرف جو اپنی مخلوق میں اپنے ظہور کے باوجود، قیمتی خزانے کی طرح پردوں کی اوٹ میں ہے۔
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ نقطہ دیکھا تو جاتا ہے لیکن اپنے اخفاء اور مخارجِ حروف میں سے کسی بھی مخرج سے مخصوص ہونے کی قید سے منزّہ ہونے کے سبب، پڑھا نہیں جاتا۔ چونکہ تمام مخارج سے ادا ہونے والے حروف کا نفس یہ نقطہ ہی ہے، چنانچہ یہی نقطہ اپنے اس تقابل سے غیبِ احدیت کی ھویت کی خبر دیتا ہے۔
اور ایک اعتبار سے نقطہ پڑھا بھی جاتا ہے۔ 'ت' میں یہ دو مرتبہ آیا اور جب ایک اور مرتبہ آیا تو 'ث' بن گئی۔ چنانچہ قراءت نہیں کی گئی سوائے اس نقطے کے۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' کی صورت بغیر نقطے کے ایک ہی صورت ہے۔ لہذا جو پڑھا گیا وہ انکا نقطہ ہی تھا۔ کیونکہ 'ت' اور 'ث' نقطے سے ہٹ کر اگر اپنی ذات کے سبب ہی پڑھے جاتے تو انکی صورتیں ایک دوسرے سے الگ ہوتیں۔ اور چونکہ نقطے ہی کی وجہ سے ان میں تمیز کی جاسکتی ہے تو ان حروف میں سوائے نقطے کے اور کچھ نہیں پڑھا گیا۔ اسی طرح مخلوق سے کچھ بھی نہیں پہچانا گیا سوائے اللہ کے ۔ پس جب تم نے خلق سے اسکو پہچانا تو حقیقت میں اللہ سے ہی اسکو پہچانا۔
نقطہ بعض حروف میں دوسرے حروف کی نسبت زیادہ شدّت سے جلوہ گر ہوتا ہے۔ کسی کسی حرف میں یہ زائد یعنی الگ سے ہوتا ہے تاکہ اس حرف کی تکمیل ہوسکے جیسے کہ حروفِ معجمہ۔ کیونکہ ان حروف کی تکمیل نقطے سے ہوتی ہے۔ اور بعض حروف میں یہ بعینہ موجود ہوتا ہے۔ جیسے کہ الف اور حروفِ مہملہ۔ کیونکہ دراصل یہ نقطے سے ہی مرکّب ہیں۔ لہذا الف شرف اور بزرگی میں 'ب' سے زیادہ ہے۔ کیونکہ نقطے کا ظہور الف کی ذات میں ہے ۔جبکہ 'ب' میں نقطہ صرف 'ب' کی تکمیلِ ذات کی وجہ سے متحد ہوا۔ اور یہی اتّحاد غیریت کا پتہ دیتا ہے۔ اور یہ غیریت وہی فاصلہ ہے جو حرف اور نقطے کے درمیان نظر آتا ہے۔ اور الف واحد کے قائم مقام ہے۔ لہذا الف اپنی ذات کے ساتھ تمام حروف میں ظاھر ہوا۔ جیسے کہ کہا جاتا ہے کہ 'ب' ایک لیٹا ہوا یعنی افقی الف ہے۔ اور 'ج' بھی الف ہی ہے جسکی دونوں اطراف کو خم دے دیا گیا۔ اور ' د ' الف ہے جسکو درمیان سے خم دے دیا گیا۔ جبکہ الف نقطے کے مقام پر ہے کیونکہ جب تمام حروف کی ترکیب الف سے ہے اور الف اور تمام حروف نقطے سے ہی بنے ہیں، پس نقطہ ہر حرف کیلئے بمنزلہ جوھر بسیط ہے اور حرف جسمِ مرکّب ہے۔
جاری ہے)۔ ۔ ۔ ۔