الیکشن کمشن آف پاکستان

الف نظامی

لائبریرین
لاہور (نمائندہ جنگ) چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم نے تین صوبوں کے صوبائی الیکشن کمشنرز تبدیل کردیے ہیں ۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے سرکاری اشتہارات میں پارٹی رہنماوٴں کی تصاویر لگانے پر پابندی لگا دی ہے۔
تفصیلات کے مطابق جمعہ کو چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم نے تین صوبوں کے الیکشن کمشنرز تبدیل کردیے جس کے تحت صوبائی الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا طارق قادری کو تبدیل کرکے محبوب انورکی جگہ صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب تعینات کردیا ہے جبکہ ڈائریکٹر جنرل بجٹ الیکشن کمیشن اسلام آباد سونو خاں بلوچ کو طارق قادری کی جگہ خیبر پختونخوا کا صوبائی الیکشن کمشنر مقرر کیا ہے۔ صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور کو صوبائی الیکشن کمشنر سندھ تعینات کیا گیا ہے۔ سونو خاں بلوچ کو دو ہفتے قبل کراچی میں انتخابی فہرستوں میں مبینہ دھاندلیوں کی جماعت اسلامی سمیت دیگر سیاسی و دینی جماعتوں کی شکایات پر صوبائی الیکشن کمشنر سندھ کے عہدے سے ہٹا کر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں ڈائریکٹر جنرل بجٹ تعینات کیاتھا اور صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب محبوب انور کو ان کی جگہ صوبائی الیکشن کمشنر سندھ کا اضافی چارج دیا گیا تھا۔
دریں اثناء الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق سیاسی رہنماوٴں کے تصاویر والے اشتہارات اخبارات اور ٹی وی چینلز پر نہ چلائے جائیں، ایسے اشہارات دینے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الیکشن کمیشن نے سرکاری اشتہارات کے ذریعے انتخابی مہم پر پابندی لگا دی ہے جبکہ ق لیگ کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف الیکشن کمشنر اور ارکان سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے آئے۔
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ سرکاری اشتہاروں میں سیاسی جماعتوں کو اپنی انتخابی مہم چلانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ وفاقی اور صوبائی حکومتیں سرکاری اشتہارات میں پارٹی رہنماں کی تصاویر استعمال کرتے ہیں۔ الیکشن سے پہلے ان اشتہارات پر پارٹی رہنماؤں کی تصاویر لگانے کی پابندی ہو گی۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق اس پابندی کی خلاف ورزی پر الیکشن کمیشن کارروائی کرے گا۔
ترجمان نے ایک بیان میں کہا ہے کہ الیکشن کمیشن مسلم لیگ نون سمیت کسی سیاسی جماعت کی ترجمان نہیں ہے۔
انہوں نے ق لیگ کے اعتراضات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر اور چاروں ارکان سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے آئے اور سیاسی رہنماؤں نے الیکشن کمیشن کے اقدامات پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ دوسری جانب عام انتخابات سے قبل پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن کمشنر تبدیل کر دئیے گئے۔
سونو خان بلوچ کو صوبائی الیکشن کمشنر خیبر پختونخوا جبکہ خیبر پختونخوا کے الیکشن کمشنر ایس ایم طارق قادری کو صوبائی الیکشن کمشنر پنجاب تعینات کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سونو خان بلوچ کو سیاسی جماعتوں کے اعتراض پر سندھ سے ہٹا کر ڈی جی بجٹ الیکشن کمیشن تعینات کر دیا گیا تھا۔ پنجاب کے الیکشن کمشنر محبوب انور کو سندھ کے صوبائی الیکشن کمشنر کی ذمہ داریاں سونپی جا چکی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب احمد خان شیرپاوٴ نے الزام لگایا ہے کہ وفاقی حکومت انتخابات سے قبل ترقیاتی اسکیموں کے اعلانات کے ذریعے دھاندلی کی مرتکب ہورہی ہے۔
پشاور میں میڈیا کے نمائندوں سے گفت گو کرتے ہوئے آفتاب شیرپاوٴ نے کہا کہ حکومت ان اسکیموں کے ذریعے ووٹرز کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔چیف الیکشن کمشنر کو وفاقی حکومت کے اس اقدام کا نوٹس لینا چاہئے۔
آفتاب شیرپاوٴ کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم کا صوابدیدی فنڈ بھی 37 ارب روپے سے بڑھا کر 42 ارب روپے کر دیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 16 مارچ کے بعد عبوری حکومت قائم ہونی چاہیے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری اعلامیہ کے مطابق پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا میں بالواسطہ یا بلاواسطہ ایسے اشتہارات جن میں کسی سیاستدان کی تصویر سیاسی جماعت کا مونو گرام یا جھنڈا موجود ہو اسے سرکاری خرچ پر شائع یا نشر نہیں کیا جاسکتا خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی الیکشن کمیشن نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو ان احکامات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے کی ہدایت بھی کی ہے
اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ یہ بات الیکشن کمیشن کے علم میں آئی ہے کہ انتخابات کے حوالے سے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں اس طرح اشتہار بازی کی جارہی ہے جس کے ذریعے وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی کارکردگی کو پیش کر رہی ہیں اور اس اشتہاربازی کے ذریعے سیاسی جماعتیں نہ صرف اپنے انتخابی نشان بلکہ اپنی جماعتوں اور پارٹی سربراہوں کی مشہوری بھی کر رہی ہیں قوم اور عوام کے پیسے سے جماعتی مفادات کی تشہیر نہیں کی جاسکتی جبکہ یہ بات امتیازی بھی ہے کیونکہ قومی خزانے کی رقم سے صرف ان جماعتوں کو فائدہ حاصل ہوسکتاہے جو برسراقتدار ہیں لہذا اسے جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی نہ ہی جماعتی مفادات کے لئے پبلک کے پیسے کے استعمال کی اجازت دی جاسکتی ہے
اعلامیہ میں کہاگیاہے کہ الیکشن کمیشن آئین کے تحت آزادانہ منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات کا پابند ہے اور اس بات کو سپریم کورٹ بھی اپنے انتخابی اصلاحات کیس کے فیصلے میں تسلیم کر چکی ہے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے قومی سرمائے سے جماعتی مقاصد کے تحت اشتہارات کی مہم بند کرنے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن کے احکامات بلاشبہ غیر جانبدارانہ انتخابات کے سلسلے میں ایک اہم اقدام ہے
یقیناً یہ امتیازی بات ہے کہ جوسیاسی جماعتیں حکومتوں میں نہیں یہ ان کے ساتھ سراسر ناانصافی ہے لیکن ہم چیف الیکشن کمشنر اور کمیشن کے تمام ارکان کی خدمت میں یہ عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جماعتی اور انتخابی مقاصد کے تحت سرکاری اختیارات کے استعمال سے روکنے کے سلسلے میں بھی کمیشن کو مزید بہت سے اقدامات کرنے ہوں گے مرکز اور صوبوں میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ اپنے صوابدیدی فنڈز کوجس طرح مخصوص انتخابی حلقوں میں سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر رہے ہیں ہم حیران ہیں کہ اس پر ابھی تک الیکشن کمیشن نے کیوں توجہ نہیں کی حال ہی میں راجہ پرویز اشرف نے گوجر خان کے اپنے انتخابی حلقے کے لئے متعدد اسکیموں کے لئے خطیر رقوم دی ہیں کیا اس حلقے کے دوسرے امیدواروں کے ساتھ ناانصافی نہ ہوگی الیکشن کمیشن اس سلسلے کو روکنے کے لئے کب فیصلہ صادر کرے گا یہ اطلاعات بھی سننے میں آئی ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے مختلف محکموں میں سینکڑوں نئی بھرتیاں کرنے کے معاملے میں بھی بعض فیصلے کئے ہیں اس موقع پر جبکہ ان حکومتوں کی آئینی مدت دوماہ کے لگ بھگ رہ گئی ہے اور انتخابات سر پر ہیں ان بھرتیوں کا انتخابی مقاصد کے علاوہ اور کوئی جواز نہیں ہوسکتا الیکشن کمیشن کو فوری طور پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو نئی بھرتیوں سے بھی روکنا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کے احکامات پر سختی سے عمل درآمد کیاجائے
سرکاری خرچ سے جماعتوں کی تشہیری مہم روکنے کے سلسلے میں الیکشن کمیشن نے اپنے احکامات کی روح پر عمل کرنے کی بات کی ہے سوال یہ ہے کہ کیا محض الیکشن کمیشن کے اعلامیہ سے وفاقی وصوبائی حکومتیں اس اقدام سے باز آجائیں گی؟ اس کے امکانات بہت کم ہیں متعلقہ حکومتیں کوئی نہ کوئی ایسا راستہ ضرور نکال لیں گی جو انتخابات کے غیر جانبدارانہ انعقاد کو مشکوک بنادے گا
اس ضمن میں ہم الیکشن کمیشن کو یہ تجویز پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے صدر دفتر اور اس کے صوبائی دفاتر میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر وفاقی وصوبائی حکومتوں کی تشہیری مہم کی مانیٹرنگ کے لئے خصوصی سیل قائم کئے جائیں جو روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ مرتب کریں تاکہ کمیشن کے احکامات کی خلاف ورزی کی صورت میں متعلقہ حکومت یا اس کے متعلقہ محکمے کے خلاف فوری کارروائی کی جاسکے
یہ ضروری ہے کہ وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے صوابدیدی فنڈ کو مخصوص انتخابی حلقوں میں استعمال کرنے کے عمل کو فوری طور پر روکا جائے اگر اس معاملے میں مزید تاخیر کی گئی تو سرکاری پیسے سے ووٹروں کو برسراقتدار جماعتوں کی طرف راغب کرنے کا عمل انتخابات کی غیر جانبداری کو متاثر کرنے کا باعث بنے گاتاخیر سے نوٹس لینے یا احکامات جاری کرنے کا اقدام محض رسمی خانہ پری تو ہوسکتاہے منصفانہ انتخابات میں معاونت نہ کر سکے گا اس وقت الیکشن کمیشن کو نہ صرف فوری فیصلے کرنے ہوں گے بلکہ ان پر عمل درآمد کو بھی یقینی بنانا ہوگا سست روی یا تاخیر سے کئے جانے والے فیصلے مطلوبہ مقاصد کو حل نہیں کرسکیں گے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے کوئی تبصرہ کیے بغیر الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ فی الوقت انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے اور وقت پر الیکشن کرانا ہی الیکشن کمشن کی اولین ترجیح ہے۔ "ریٹرن آف انکم" جمع کرانے کا لازمی قانون بنائے جانے کے باوجود 70 فیصد ارکان پارلیمنٹ( 437 میں سے 305) نے 2011ء میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور اس وجہ سے وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔
سینٹر فار دی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 67.3 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور یہ تعداد پیپلز پارٹی کے ریٹرن جمع نہ کرانے والے ارکان کی تعداد( 66.8 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ 87.5 فیصد اے این پی کے ارکان کی ہے جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی قانون کی اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر ایف بی آر کے اعداد و شمار کی پڑتال کی جائے تو صوبائی اسمبلیوں کے ایسے سینکٹروں ارکان پارلیمنٹ بے نقاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
اگرچہ الیکشن کمشن آف پاکستان اس بارے میں کچھ نہیں کہتا کہ وہ قانون کی ایسی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کو دوبارہ پارلیمنٹ / اسمبلی میں آنے سے روکے گا ؛لیکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ایسا ارتکاب کرنے والا شخص انتہائی مشکوک ہوجاتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 62 رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کی خواہش رکھنے والے کی اہلیت کے متعلق ہے کہ اسے ایماندار اور اچھی شہرت کا حامل شخص ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق سینکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ملیں گے جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسے شخص کو کس طرح صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں وضع کردہ خصوصیات کے حامل شخص کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
بحوالہ
روزنامہ جنگ 6 فروری 2013
 

الف نظامی

لائبریرین

  • چیف الیکشن کمشنر فخرالدین جی ابراہیم کے استعفی کی تمام افواہیں غلط ہیں

  • فخرالدین جی ابراہیم کی زندگی کی یہ آخری ڈیوٹی ہے اور وہ اسے شفاف طریقے سے نبھائیں گے

  • الیکشن کمشن اس دفعہ قوم کی پچھلے ساٹھ سالوں کے توقعات کو پورا کرے گا

  • انتخابات اپنے وقت پر ہوں گے اس میں کسی شک و شبہے کی بات نہیں ہے

  • آئین کے آرٹیکل دو سو چون کے مطابق اگر کوئی کام اپنے وقت پر مکمل نہ ہو سکے تو وہ غیر قانونی نہیں ہو جاتا

  • آئین کے آرٹیکل دو سو چون کو جواز بنا کر الیکشن ملتوی نہیں کیا جا سکتا

  • ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کو آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر عمل کرنے کا کہا اور سب نے اس سے اتفاق کیا ہے

  • سیاسی جماعتوں نے آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ پر عملدرآمد کے تین طریقے تجویز کیے ہیں

  • پہلے طریقے کے مطابق سیاسی پارٹیاں خود کاروائی کریں، دوسرے الیکشن کمشن اور تیسرے ووٹرز اپنا کردار ادا کریں

  • ہم دو ہزار نو سے سیاسی جماعتوں، عالمی اور مقامی اداروں کے مشورے سے انتخابی طریقہ کار میں اصلاحات کر رہے ہیں

  • سب سے اہم بات ووٹرز لسٹیں ہوتی ہیں اور ہم نے نادرا کی مدد سے انہیں درست کر دیا ہے

  • اب پاکستان میں بوگس ووٹ کا ندراج ممکن نہیں رہا ہے

  • اٹھارہ سال سے اوپر جو شخص بھی اپنا شناختی کارڈ بنواتا ہے اب اس کا نام خودبخود ووٹرز لسٹ میں شامل ہو جاتا ہے

  • ووٹرز لسٹوں پر نام، ولدیت، پتے کے علاوہ اب ووٹر کی تصویر بھی ہو گی

  • ہم نے قانونی اصلاحات بھی کی ہیں ان میں سے کچھ پاس ہو چکی ہیں اور باقی پارلیمنٹ کے ختم ہونے سے پہلے ہو جائیں گی

  • ہم نے یہ بھی کہا ہے کہ اگر الیکشن کمشن کے عملہ کے خلاف کوئی گڑ بڑ کرے تو الیکشن کمشن کو اس کے خلاف کاروائی کا اختیار ہو

  • اگر طاہرالقادری کے پاس نئی تجاویز ہیں تو کھل کر بتائیں ہم خوش آمدید کہیں گے

  • اکثریتی ووٹوں سے جیتنے کے موجودہ طریقہ کار میں تبدیلی پر بھی غور کیا جا رہا ہے
  • الیکشن جیتنے کے نئے طریقہ کا پر کئی نئی تجاویز زیر غور ہیں

  • کراچی میں حلقہ بندیوں کے مسئلے پر اس ماہ کے آخر تک کوئی تجویز سامنے آ جائے گی

  • الیکشن کمشن انتخابات کے دوران سکیورٹی کو یقینی بنانے پر کام کر رہا ہے

  • الیکشن کمشن اس بار پریزائڈنگ آفیسر کو فرسٹ کلاس مجسٹریٹ کے اختیارات دے گا
  • الیکشن کمشن قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک ہی دن کروانے کا ارادہ رکھتا ہے
 

الف نظامی

لائبریرین
59.gif
 
Top