امجد علی راجا
محفلین
امتحان اس بار بیٹا پاس کر
میری انکم کا نہ ستیاناس کر
خالہ کی بیٹی ہے گونگی، شکر ہے
اے خدا خالہ کو میری ساس کر
وصل کے اشعار جب بھی میں کہوں
ہنس کے وہ کہتی ہے "مت بکواس کر"
دوست ہیں ہم کیوں لڑیں اس کے لئے؟
وہ تری ہے یا مری، چل ٹاس کر
چیک کرتی ہے وہ ٹھڈے مار کر
صبر کا یہ امتحاں بھی پاس کر
پھول چاہت کا نہیں کھلتا اگر
دل کے گلشن میں تُو پیدا گھاس کر
"نوٹ" اور "پستول" بھی لایا ہوں، سر
تیری مرضی "فیل" کر یا "پاس" کر
سامنے بچوں کے بیگم ڈانٹ مت
میری عزت کا بھی کچھ احساس کر
چیختی رہتی ہے بیگم ہر گھڑی
یا خدا اس کا گلہ حساس کر
فیل ہو کر آ جماعت میں مری
دوستی کا "پاس رکھ" یا "پاس کر"
محترم استادِ محترم الف عین کی مہربانی سے یہ غزل اشاعت کے لائق ہوئی۔
محمد خلیل الرحمٰن سید شہزاد ناصر افلاطون الشفاء امر شہزاد باباجی ذوالقرنین شمشاد شوکت پرویز شہزاد احمد شیزان عمراعظم عینی شاہ محسن وقار علی سید زبیر محمد اسامہ سَرسَری محمد بلال اعظم محمد وارث محمد یعقوب آسی مقدس مہ جبین نیرنگ خیال نیلم یوسف-2 نایاب متلاشی مغزل مزمل شیخ بسمل نگار ف