امریکی کوکیز از عکسی مفتی

الف نظامی

لائبریرین
امریکی کوکیز​
ایک دن کی بات
امریکی ایمبیسی کے پبلک افیئر افسر Larry Shuartz کا فون آیا۔ لیری کو میں پہلے سے جانتا تھا۔ اُس نے کہا:
"مفتی کافی اور کوکیز کھانے کے لیے کل شام F-6/3 میں میرے گھر آجاو۔ بہترین امریکی کوکیز کھلاوں گا اور تم سے ملاقات بھی ہو جائے گی"
اگلے روز سہ پہر کے وقت لیری کے گھر پہنچا۔ یہ وہی پرانا جانا پہچانا گھر تھا؛ جس میں پچھلے پچیس سال سے امریکی سفارت کار رہتے تھے۔ میں نے لیری سے کہا ؛ امریکیوں میں ایک خوبی ہے کہ ہر افسر تبادلے پر اپنا گھر نہیں بدلتا۔ اس گھر کو میں پچیس برس سے جانتا ہوں۔
گھر کے اندر پہنچا تو دیکھا کہ ٹیلی ویژن چینل اور ثقافتی اداروں کی کئی ایک شخصیات وہاں پہلے سے موجود تھیں۔ جیو ، دنیا اور دیگر چینلز کے مشہور اینکر اور پروڈیوسرز صوفوں پر بیٹھے تھے۔ فاطمہ جناح کالج کی وائس چانسلر ، نیشنل کونسل آف دی آرٹس کی معروف شخصیات پہلے ہی موجود تھیں۔ کچھ دیر میں سڑک پر وی ائی پی سائرن بجنے کی آواز گونجی۔ لاتعداد اسپیشل پولیس اسکواڈ کی گاڑیاں جن میں سے کالے کپڑوں میں ملبوس اسپیشل پولیس اسکواڈ بھاری مشین گنوں اور اسلحہ کے ساتھ برامد ہوئے اور گھیرا ڈال لیا۔
میں قدرے پریشان تھا کہ یہ کیسی امریکن کوکیز ہیں جن پر مجھے مدعو کیا گیا ہے۔
لیری کے خاص مہمان کمر ے میں داخل ہوئے۔ امریکی سفیر Nancy Powell , Jonathan Pratt اور ایک خاتون۔ یہ سب لیری کے پیچھے اندر داخل ہوئے۔ ان کا رسمی تعارف کراتے ہوئے بتایا گیا کہ یہ ہندوستان میں امریکہ کے نئے سفیر ہیں۔ حال ہی میں نئی دلی میں ان کا تقرر ہوا ہے۔
ہماری درخواست پر یہ تینوں نئی دلی میں اپنے عہدے سنبھالنے سے پہلے صرف ایک دن کے لیے اسلام آباد رکے ہیں۔ آپ سب سے مشورہ کرنے۔ امریکی سرکار کی خواہش ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے عوامی اور ثقافتی رابطے بحال کیے جائیں۔ ان دونوں ملکوں کی ثقافت ایک ہے ، لوگ ایک ہیں ، تاریخ ایک ہے لہذا people to people contact کو فروغ دینا اور ان کو ایک دوسرے کے قریب لانا ہمارے مقاصد میں شامل ہے۔ اس وجہ سے ہم نے آج آپ جیسی مقبول اور جانی پہچانی شخصیات کو مدعو کیا ہے۔ ہندوستان میں نامزد نئے سفیر آپ کے پاس بیٹھے ہیں۔ یہ آپ کی رائے لینا چاہتے ہیں کہ کیا اقدام کیے جائیں کہ پاک و ہند کے عوامی اور ثقافتی روابط بڑھائے جا سکیں۔ ان دونوں ملکوں کو قریب سے قریب تر لایا جائے۔

سب سے پہلے جیو کا نمائندہ اٹھ کھڑا ہوا اور بولا:
" جناب عالی ہم تو اس نیک کام میں پیش پیش ہیں۔ ہمارا پروگرام "امن کی آشا" مقبول ترین پروگراموں میں سے ایک ہے۔ ہماری کامیابی کا اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حال ہی میں ہندوستان کی مشہور اور معروف فلمی شخصیت امیتابھ بچن نے پاکستانیوں سے بیس منٹ تک جیو ٹی وی سے خطاب کیا ہے۔ لیکن جناب ہم اس سے زیادہ کچھ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ میری آپ سے درخواست ہے ہماری مالی امداد میں اضافہ کردیا جائے۔

فورا ہی دنیا ٹی وی والے بول اٹھے ، یہ international affairs پر نظر رکھنے والا شخص انتہائی دانشمندانہ طریقے سے بولا :
جناب عالی بات دراصل یہ ہے کہ امریکہ کی پالیسی اور امریکہ کی کہی ہوئی بات پر پاکستانی عوام تشویش کا شکار ہو جاتے ہیں۔ بدگمانی پیدا ہوتی ہے لہذا میری تجویز یہ ہے کہ آپ پاکستان اور ہندوستان کو قریب لانے کی پالیسی کا اعلان یورپی یونین سےکروائیں۔ یورپی یونین کے دباو میں آ کر پاکستانی حکومت با آسانی اس پالیسی پر عمل کر سکے گی۔ پاکستانی عوام بھی اسے شک کی نگاہ سےنہیں دیکھیں گے۔ باقی رہا کام ترویج و تشہیر کا تو وہ دنیا ٹی وی با آسانی کر سکے گا۔ مشکل یہ ہے کہ ہمیں اس کے لیے آپ سے مزید مالی امداد کی فوری ضرورت ہوگی۔

اسلام آباد کی ایک جانی پہچانی آرٹ گیلری کی سربراہ خاتون کہنے لگیں: ہم تو اس پروگرام پر پچھلے سال سے بھر پور عمل کر رہے ہیں۔ ابھی حال ہی میں ہندوستان کی اہم شخصیات کے ایک گروہ کو پاکستان آنے کی دعوت دی ۔انہیں شہر شہر گھمایا ، مختلف لوگوں کے ساتھ میل ملاقاتیں ہوئیں۔ جنابِ عالی اس طرح ایسے ہی پروگراموں سے میری اور میرے ادارے کی کوششوں سے آپ کی پالیسی پروان چڑھے گی۔ رکاوٹ صرف یہ ہے کہ آپ کے دیے ہوئے فنڈز ہمیں حکومت پاکستان سے لینے میں دشواری ہوتی ہے۔ لہذا آپ سے درخواست ہے کہ ہماری مالی امداد براہ راست ہمیں دی جائے۔

میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ایک بہت ہی نامور ثقافتی شخصیت ، جو کئی ایک اداروں کے سربراہ رہ چکے ہیں اور حال ہی میں ڈائرکٹر جنرل کے فرائض بھی انجام دے رہے تھے ، کہنے لگے:
جناب سب بجا ، لیکن ہمارے خیال میں پاکستانی عوام اور ہندوستانی عوام کو قریب لانے کا واحد موثر ذریعہ میڈیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس مخصوص کام کے لیے ایک علیحدہ سیٹلائٹ ٹی وی چینل کھولنا چاہیے جو اس پروگرام کے لیے وقف ہو۔حضور یہ وہ کام ہے جو میں بذات خود بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ آپ مجھ پر اعتماد کریں آپ دیکھیں گے کہ کس قدر کم عرصہ میں دونوں ملکوں کے عوام کو جوڑ دوں گا۔ لیکن اس کام کے لیے مالی امداد کی ضرورت ہوگی۔
اس طرح ہر پاکستانی شخصیت نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا لیکن ہر ایک کی بات ایک ہی نکتے پر ختم ہوئی۔ امریکہ سے مالی امداد کی استدعا
میں چپ چاپ بیٹھا سب کی سنتا رہا اور کچھ نہ بولا۔ اتنے میں ہندوستان میں نامزد امریکی سفیر کی نگاہ مجھ پر ٹھہر گئی۔ وہ مجھ سے کہنے لگے " سر ، آپ کی رائے سے ہم مستفید نہیں ہو سکے ، آپ بھی کچھ کہیں"
میں نے ہنستے ہوئے جواب دیا
"یوئر ایکسیلنسی! مجھے تو لیری نے غیر رسمی طور پر امریکن کوکیز کی دعوت دی تھی ۔ میں تو کوکیز کھانے آیا تھا"
یہ سنتے ہی مسٹر پریٹ کو ایک بجلی کا جھٹکا لگا اور وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ درمیان میں پڑی میز پر ایک بڑی پلیٹ ان کے ہاتھ میں تھی۔ اس پلیٹ کو لے کر وہ واپس پلٹے اور میرے سامنے پلیٹ کو بڑھاتے ہوئے بولے
" یہ سب کوکیز آپ ہی کے لیے ہیں ، شوق فرمائیں"
میں نے جواب دیا:
"میں امریکن کوکیز کا پچھلے پچیس برس سے شیدائی ہوں۔ لیکن انہیں کھا کھا کر مجھے شوگر کی بیماری لگ گئی ہے۔ لہذا معذرت سے درخواست کرتا ہوں کہ یہ کوکیز میرے آگے نہ رکھی جائیں"
سفیر صاحب نے پلیٹ واپس رکھتے ہوئے کہا:
"مہربانی فرما کر اپنی قیمتی رائے کا اظہار تو کریں"
میں نے کہا: "جناب یہاں عالم فاضل لوگ بیٹھے ہیں ، میں تو ایک folklorist ہوں۔ آپ چاہیں تو ایک مختصر سی کہانی بیان کر سکتا ہوں"
بولے : " بے شک ، بے شک ، کہانی تو ہم بڑے شوق سے سنتے ہیں"
میں نے کہا:
سفیر صاحب یہ میرے دیس کی قدیم کہانیوں میں سے ایک ہے۔ یہاں سے سو میل دور کے فاصلے پر دریائے جہلم کے کنارے راجہ پورس کے ساتھی اور فوجیں حملہ آور سکندر اعظم کی منتظر تھیں۔ انہیں ہر صورت بیرونی حملہ آور سے اپنی سر زمین ، اپنے دیس کا تحفظ کرنا تھا۔ اسے بچانا تھا۔ اس دریا کے کنارے گھمسان کی لڑائی ہوئی۔ راجہ پورس نے ہر ممکن اپنا ملک اور ریاست بچانے کی کوشش کی لیکن سکندر اعظم کی اعلی قیادت اور مضبوط فوجوں کے آگے پورس کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ شکست خوردہ بادشاہ کو جب سکندر اعظم کے آگے پیش کیا گیا تو فاتح بادشاہ نے پوچھا:
"اب تم سے کیا سلوک کیا جائے؟"
پورس نے جواب دیا:
"جو ایک بادشاہ دوسرے بادشاہ سے کرتا ہے"
سکندر اعظم ایک ذہین اور دور اندیش فاتح تھا وہ پورس کی بات سمجھ گیا اور اسی وقت اس کی سرزمین اسے لوٹا دی۔ اس دن پورس سکندر کا بہت بڑا خیر خواہ اور حامی بن گیا۔
کہانی جاری رکھتے ہوئے میں نے کہا:
"سفیر صاحب ہر چند کہ ہندوستان ایک بہت بڑا ملک ہے اور ہم بہت چھوٹے ہیں۔ اس خیر سگالی کو ہم یقینا خوش آمدید کہیں گے اگر ہندوستان ہمارے ساتھ برابری کا رشتہ قائم کرے ۔ ہم سے وہی سلوک کرے جو سکندر نے پورس کے ساتھ کیا۔ لیکن جناب انہوں نے تو آج تک پاکستان کی جغرافیائی حقیقت اور اسے آزاد اور خودمختار ریاست تسلیم ہی نہیں کیا۔ بلکہ اس کےوجود کو ماننا ہی نہیں چاہتے اور کسی اکھنڈ بھارت کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ کیا وہ ہمیں برابری دیں گے؟
میں نے کہا حضور یہ مشاورت اور میٹنگ جو آپ اسلام آباد میں کر رہے ہیں شاید اس کی افادیت اور ضرورت دہلی میں زیادہ ہو۔ یہ باتیں کہتے کہتے میں کچھ جذباتی سا ہوگیا۔
جناب! یہ جیو والوں کو بڑا ناز ہے کہ امن کی آشا کے تحت امیتابھ جیسی شخصیت پاکستانیوں سے بیس منٹ تک ہم کلام ہوئی۔ یہ پروگرام میری گنہگار آنکھں نے بھی دیکھا تھا لیکن اس وقت میرے دماغ نے یہ سوال بار بار دہرایا کہ کیا کوئی پاکستانی شخصیت بھی اس طرح کسی ہندوستانی چینل پر ایسے ہی ہم کلام ہوئی ہے یا یہ یک طرفہ ٹریفک ہے۔

"If i as Pakistani can not address Indian people through an Indian channel then Ameetab Bachan be damned. What business has he to talk to my nation when I am not given the chance on equal basis"
امریکی سفیر کو میری باتیں سن کر سانپ سونگھ گیا۔ لیکن پاکستانی ٹیلی ویژن کے نمائندے قدرے اضطراب میں بولے:
"حضور پاکستانی معاشرے میں دہشت گردی ہے ، انتہا پسندی ہے ،جارحیت ہے"
امریکی سفیر نے لقمہ دیا :
" ہاں ہاں ہم جانتے ہیں طالبان اور talibanisation ایک بڑا مسئلہ ہے"
میں نے فورا سفیر کی بات کاٹتے ہوئے کہا :
"جناب طالبان کی بات نہ کریں ، طالبان بھی damned ۔ ان کی فکر آپ کیوں کر رہے ہیں ، یہ ہمارا اندرونی مسئلہ ہے۔ اس سے ہم خود نبٹ لیں گے۔ آپ زحمت نہ کریں"
ہندوستان میں نامزد نیا سفیر اسی رات ہندوستان چلا گیا لیکن وہ دن اور آج کا دن پھر کسی امریکی سفیر نے مجھے امریکن کوکیز پر مدعو نہیں کیا۔

بشکریہ راشد اشرف ، پی ڈی ایف ڈاون لوڈ لنک
 
آخری تدوین:

الف نظامی

لائبریرین
پیمرا نے "امن کی آشا" اور" ذرا سوچیئے" پرغیرملکی فنڈنگ کاالزام لگانے پرمعافی مانگ لی ہے۔ جسٹس گلزاراحمدنے ریمارکس دیئے ہیں کہ اگر کسی غیر ملکی فنڈڈ پروگرام سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔ سینئر صحافی حامد میر اور ابصار عالم کی میڈیاکمیشن سے متعلق درخواست پر سماعت جسٹس اعجاز چودھری اورجسٹس جسٹس گلزار احمد پر مشتمل دو رکنی بنچ نے کی۔ پیمرا نے"امن کی آشا" اور" ذرا سوچیئے" پر غیر ملکی فنڈنگ کا الزام لگانے پر معافی مانگ لی۔
جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ یہ اینکر پرسن کی ساکھ کا معاملہ ہے۔ لوگوں میں تاثر ہے کہ معاشرتی اقدارتبدیل کرنے کیلئے یہ پروگرام پیش کیے جارہے ہیں۔ اگر کسی غیر ملکی فنڈڈ پروگرام سے معاشرے میں بگاڑ پیدا نہیں ہوتا تو اس میں کوئی خرابی نہیں۔
 

نایاب

لائبریرین
پیسہ بولتا ہے ۔۔۔۔ ناچ نچاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
زرد صحافت صرف خزاں ہی لاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
کیا خوبصورت تحریر ہے۔۔۔ ممتاز مفتی کا عکس جھلکتا ہے۔۔۔ صحیح نام ہے "عکسی"۔۔۔ رہی بات برابری کے حقوق و دیگر کی۔۔۔ تو عکسی مفتی کی اک اک بات سونے کے پانی سے لکھی جانے والی ہے۔۔۔ پر کیا کریں کہ "مزدور یہاں کے دیوانے، ذیشان یہاں بھی اندھے ہیں" ۔۔۔۔ بقیہ جن کا ایمان صرف "مالی امداد ہی ہے"۔۔۔ وہ بھی کہاں رہیں گے۔۔۔۔ یہ دولت سے بیرونی بینک بھرنے والے کب کے تہہ خاک سو گئے۔۔ جو اب بھر رہے ہیں۔۔۔ وہ بھی سو جائیں گے۔۔۔ حسرت آتی ہے۔۔۔
کہاں سے لائیں چن کر حق بات کرنے والے۔۔۔ کہ اکثر کی زبان پر زر کا پہرا ہے۔۔۔ بہت خوبصورت شراکت ہے نعیم بھائی۔۔۔ بار بار پڑھ رہا ہوں۔۔۔ تین بار پڑھ کر یہ دو جملے تراش پایا ہوں۔۔۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اس کالم کے پس منظر ميں امريکی وزير خارجہ جان کيری کا ايک بيان پيش ہے جو انھوں نے جون 2013 ميں پاکستان ميں عام انتخابات کے فوری بعد خطے کے دورے کے دوران ديا تھا۔

"يہ پاک بھارت تعلقات ميں ايک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔ دنيا بھر ميں عالمگيريت اور بڑھتے ہوئے روابط کے اس دور ميں بڑے پيمانے پر اس بات کا ادراک موجود ہے کہ دونوں ممالک – پاکستان اور بھارت معاشی روابط ميں وسعت کے ساتھ پرانی رکاوٹوں کو گرا کر اور تاريخ کا رخ تبديل کر کے کافی کچھ حاصل کر سکتے ہيں"۔

يہ کوئ ايک ہی بيان نہيں ہے۔ امريکہ کے اعلی ترين عہديداروں کی جانب سے ريکارڈ پر کئ سرکاری بيان موجود ہيں جن ميں ہماری اس خواہش کو واضح طور پر اجاگر کيا گيا ہے کہ ہم خطے کے اہم ترين فريقين اور اپنے قريب ترين شراکت داروں کے باہم تعلقات ميں بہتری چاہتے ہيں۔

اب اس سرکاری موقف کا امريکی سفارت خانے کے عہديداروں کی جانب سے بيان کردہ ان آراء سے موازنہ کريں جنھيں اس کالم ميں اجاگر کيا گيا ہے۔ اگر امريکی سفارت خانے کے عہديدار پاکستان اور بھارت کے درميان بہتر تعلقات کی ضرورت پر زور دے رہے تھے تو وہ محض امريکی حکومت کے سرکاری موقف کی ترويج ہی کر رہے تھے۔ يہ دلچسپ امر ہے کہ کالم نگار نے کچھ اس قسم کا تاثر دينے کی کوشش کی ہے کہ جيسے امريکی عہديدار پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے کسی خفيہ نظريے يا سوچ کو پروان چڑھانے کے خواہش مند تھے۔

ميں نے ماضی ميں بھی کئ بار يہ واضح کيا ہے کہ تعنيات کردہ سفارت کاروں کی يہ ذمہ داری اور فرائض ہوتے ہيں کہ وہ عام لوگوں کے نمايندوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے اہم افراد اور رائے عامہ سے منسلک لوگوں سے مستقل رابطے ميں رہتے ہيں۔ مختلف ميڈيا گروپس سے منسلک افراد دنيا بھر ميں سفارت کاروں سے روزمرہ کے معمولات ميں ملتے رہتے ہيں۔ ايسی کوئ سازش يا خفيہ ايجنڈہ نہيں ہے جسے ان عوامی سطح پر ہونے ملاقاتوں اور افراد سے براہراست رابطوں کے ذريعے پايہ تکميل تک پہنچايا جا سکے۔

ميں يہ بھی باور کروانا چاہوں گا کہ امريکی سفارت کاروں اور حکومتی عہديداران کے ليے يہ کوئ غير معمولی امر نہيں ہے کہ وہ مختلف اين جی اوز، حکومتی اکابرين اور ميڈيا گروپس سے روابط کے ذريعے ايسے منصوبوں اور اقدامات کی ترويج، تشہير، حمايت اور يہاں تک کہ مالی مدد بھی کريں جو اس سرکاری امريکی موقف سے متعلق ہوں جنھيں عوامی سطح پر تسليم کيا جا چکا ہو۔ عرف عام ميں اس عمل کو "لابنگ" کہا جاتا ہے – نا کہ کسی خفيہ سوچ کی ترويج يا کٹھ پتليوں کی تخليق کے ليے کی جانے والی مکروہ کاوشيں۔

مذکورہ ملاقات جس کا کالم ميں حوالہ ديا گيا ہے، اس ميں لکھاری کو بھی دی جانے والی دعوت اور ان کے ديگر ساتھيوں کی طرح انھيں بھی "امريکی کوکيز" کی پيشکش اور اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کا موقع اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف نوعيت کی آراء اور سوچ جو ايک مجموعی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرے، لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اسے ايک ناقابل قبول سوچ کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

الف نظامی

لائبریرین
ميں يہ بھی باور کروانا چاہوں گا کہ امريکی سفارت کاروں اور حکومتی عہديداران کے ليے يہ کوئ غير معمولی امر نہيں ہے کہ وہ مختلف اين جی اوز، حکومتی اکابرين اور ميڈيا گروپس سے روابط کے ذريعے ايسے منصوبوں اور اقدامات کی ترويج، تشہير، حمايت اور يہاں تک کہ مالی مدد بھی کريں جو اس سرکاری امريکی موقف سے متعلق ہوں جنھيں عوامی سطح پر تسليم کيا جا چکا ہو۔ عرف عام ميں اس عمل کو "لابنگ" کہا جاتا ہے – نا کہ کسی خفيہ سوچ کی ترويج يا کٹھ پتليوں کی تخليق کے ليے کی جانے والی مکروہ کاوشيں۔
عرف عام میں اس عمل کو رشوت کہا جاتا ہے۔

مذکورہ ملاقات جس کا کالم ميں حوالہ ديا گيا ہے، اس ميں لکھاری کو بھی دی جانے والی دعوت اور ان کے ديگر ساتھيوں کی طرح انھيں بھی "امريکی کوکيز" کی پيشکش اور اپنا نقطہ نظر بيان کرنے کا موقع اس بات کا ثبوت ہے کہ مختلف نوعيت کی آراء اور سوچ جو ايک مجموعی اتفاق رائے کی راہ ہموار کرے، لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اسے ايک ناقابل قبول سوچ کو زبردستی مسلط کرنے کی کوشش سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔
مجموعی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرنا لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اس کا کوئی حوالہ؟

پاکستان میں کسی ایشو پر مجموعی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرنا پاکستانی پارلیمان کا مینڈیٹ ہے۔ امریکی سفارت خانے کا نہیں۔
-
 

Fawad -

محفلین
عرف عام میں اس عمل کو رشوت کہا جاتا ہے۔


مجموعی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرنا لابنگ کے عمل کا حصہ ہے۔ اس کا کوئی حوالہ؟

پاکستان میں کسی ایشو پر مجموعی اتفاقِ رائے کی راہ ہموار کرنا پاکستانی پارلیمان کا مینڈیٹ ہے۔ امریکی سفارت خانے کا نہیں۔
-

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

محترم الف نظامی صاحب،

زير بحث کالم بھارت ميں نئ تعنيات ہونے والی امريکی سفارت کار کے بارے ميں ہے جو پاکستانی ميڈيا کے مختلف نمايندوں سے ملاقاتوں کے ذريعے خطے کے دونوں ممالک پر اثراندازہونے والے متعلقہ معاملات پر مختلف آراء کو جاننے اور ايسی حکمت عملی وضع کی سعی کر رہی تھيں جو اجتماعی اتفاق رائے کا پيش خيمہ ثابت ہو۔

اسی تناظر ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے سابق سفير حسين حقانی نے جب واشنگٹن ميں اپنے عہدے پر کام شروع کيا تھا تو اس وقت امريکہ ميں صدارتی انتخابات کا دور دورہ تھا۔ پاکستان کے سفير حسين حقانی نے تينوں اہم امريکی صدارتی اميدواروں سے عليحدہ ملاقاتيں کی اور مستقبل ميں پاکستان اور امريکہ کے مابين تعلقات کے حوالے سے تبادلہ خيال کيا تھا۔

يہ بھی ان کی جانب سے لابنگ کا حصہ تھا، جسے رشوت ستانی يا پس پردہ خفيہ معاہدے سے تعبير نہيں کيا جا سکتا ہے۔

کسی امريکی اخبار نے يہ الزام نہيں لگايا کہ پاکستان امريکہ کے اندرونی معاملات ميں مداخلت کر رہا ہے يا پاکستان امريکہ کی مستقبل کی خارجہ پاليسيوں پر اثرانداز ہو رہا ہے۔ اس کے برعکس واشنگٹن پوسٹ نے حسين حقانی کے بارے میں ايک اداريہ لکھا تھا جس ميں واشنگٹن ميں مختلف امریکی اہلکاروں سے ان کی مسلسل ملاقاتوں اور پاکستان کے موقف کے ليے ان کی لابنگ کی تعريف کی گئ ۔ سفارت کاروں سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ مسلسل رابطے اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھيں۔

http://www.washingtonpost.com/wp-dyn/content/article/2008/05/15/AR2008051503401.html?tid=informbox

امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں کام کرنے کے اپنے ذاتی تجربے کی بنياد پر ميں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ ميڈيا کے ادارے، اين جی اوز دنيا بھر کے بے شمار ممالک سے متعلق سرکاری اور غير سرکاری اداروں کے نمايندے مختلف کانفرنسوں، سيمينارز اور تھنک ٹينک فورمز کے ذريعے امريکی حکومتی کے اہم عہديداروں کے ساتھ مسلسل روابط کے عمل کو جاری رکھتے ہيں اور بے شمار ايسے معاملات کو اجاگر کرنے يا ان کی ترويج اور تشہير کے ليے کاوشيں کرتے ہيں جو سياست، انسانی حقوق، معاشی اصلاحات اور ارضی سياسيات اور سفارت کاری سے متعلق ہوتے ہيں۔

اس ميں کوئ شک نہيں ہے کہ کوئ بھی ايسا معاملہ جو کسی بھی مخصوص ملک يا خطے کے عوام پر اثرانداز ہو، اس سے متعلق حتمی فيصلہ سازی اور اختیار انھی ممالک کے منتخب نمايندوں اور قيادت کے پاس ہے۔ امريکی حکومت کے لیے يہ ممکن اور قابل عمل نہيں ہے کہ وہ کسی بھی ملک ميں طرز حکومت کو کنٹرول کرے۔ اس طرح کی کوشش کو عملی جامہ پہنانے کے ليے امريکہ کے پاس نہ تو وسائل ہيں اور نہ ہی ايسی کوئ خواہش۔ ليکن امريکہ سميت کسی بھی ملک کے سينير سفارت کاروں کے لیے يہ کوئ انہونی بات نہيں ہے کہ وہ خاص تناظر ميں يا براہراست سوال کے جواب ميں کسی ايشو پر خيالات کے تبادلے سے متعلق مشترکہ فورم پر اپنا نقطہ نظر پيش کريں، خاص طور پر ان سياسی تعلقات کے ضمن ميں جو کئ فريقين پر اثرانداز ہوتے ہيں۔ حقیقت يہ ہے کہ ہميں بھی پبلک فورمز پر غير ملکی عہديداروں کی طرف سے اکثر يہ سننے کو ملتا ہے کہ مختلف ايشوز کے حوالے سے امريکہ کو کيا کرنا چاہيے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا تھا کہ يہ عالمی سطح پر رائج اور تسليم شدہ "لابنگ" کا عمل ہے جس پر نا تو اعتراض کيا جاتا ہے اور نا ہی اسے مقامی عہديداروں کے اختيارات کو زير کرنے کی مذموم کوشش کہا جاتا ہے۔

امريکی عہديداروں کی جانب سے امن کے فروغ اور ديرپا سیاسی حل کے ليے سفارتی کوششيں جو عوام سطح پر ہمارے واضح کردہ موقف سے مطابقت بھی رکھتی ہوں اس بات کی غمازی نہيں کرتيں کہ ہم زبردستی سياسی عمل کو کنٹرول کرنے يا اس ميں جوڑتوڑ کے ذريعے کوئ پاليسی يا فيصلہ مسلط کرنے کی کوشش کر رہے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

الف نظامی

لائبریرین
1- امریکیوں کے لیے :-
لابنگ موجود ہے تو؛
کاونٹر لابنگ یا اینٹی لابنگ موجود ہے؛

2- ہمارے میڈیا کے لیے:-
ہمارے لیے ضروری یہ ہے کہ ہم اپنے مسائل کا تجزیہ اور تشخیص خود کریں۔
مالی امداد کے حوالے سے:-
آزادی کے سر پہ خاک نہ ڈالو
بھیک نہ مانگو!
 

Fawad -

محفلین
1-
مالی امداد کے حوالے سے:-
آزادی کے سر پہ خاک نہ ڈالو
بھیک نہ مانگو!

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

امريکی امداد کو وصول کرنا اگر آپ کے نزديک درست نہيں ہے تو پھر آپ اس بارے ميں کيا کہيں گے کہ تربيلہ ڈيم جس سے لاکھوں پاکستانيوں کی توانائ کی ضروريات پوری ہوتی ہيں، وہ بھی يو ايس ايڈ کے تعاون سے ہی وجود ميں آيا تھا۔ کيااسے بھی آپ غلط قرار ديں گے؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
Top