تلخیص:ترقی پسند ادب
مصنفہ:ممتاز شیریں
تلخیص:محمد خلیل الرحمٰن
ترقی پسند تحریک ایک وسیع ، عالمگیر اور زبردست تحریک ہے۔ ترقی پسند ادب کی مختصر تعریف یوں کی جاسکتی ہے۔
’’وہ ادب جو زندگی کو اپنے حقیقی روپ میں پیش کرے جس میں زندگی کی تفسیر ہی نہیں تنقید بھی ہو اور جس میں زندگی کو بہتر بنانے کی صلاحیت ہو۔‘‘
یہ کہنا غلط ہوگا کہ اس تحریک سے پہلے ادب میں زندگی کی صحیح عکاسی نہیں ہوتی تھی۔ ہر دور کا بڑا ادب زندگی کا آئینہ ہوتا ہے۔ حقیقت نگاری صرف ترقی پسند ادب کی خصوصیت نہیں کہی جاسکتی خصوصاً جب یہ ہر دور کے ساتھ پہلو بدلتی آرہی ہے۔ مغربی ادب میں انیسویں صدی میں معاشرتی حقیقت نگاری تھی تو ۱۹۲۰ء کے جنسی حقیقت نگاری اور آج سیاسی۔
بعض لوگ ترقی پسندی کو مارکسیت کے مترادف سمجھتے ہیں۔ یہ نظریہ ادب کو تنگ داماں بنادیتا ہے۔ بعض نے محض پرانی روایات اور پرانی قدروں کے مٹانے، ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی اور سماج سے بغاوت کو ترقی پسندی سمجھ لیا ہے۔ پرانی روایات، رواج اور قانون بجائے خود قابلِ ملامت نہیں ہیں۔ پرانے زمانے میں ان کا اثر اس لیے مہلک نہیں تھا کہ ان پابندیوں کے ساتھ مخصوص اخلاق و اقدار جن سے ایک آئین، ایک نظام کی تشکیل ہوئی تھی، مضبوط جال میں بٹے ہوئے تھے۔ لیکن اب زندگی پیچیدہ ہوگئی ہے۔ یہ پرانے قانون اس میں جڑ نہیں سکتے۔ لوگوں کو اب ان سے عقیدت نہیں رہی۔ انہیں آج محسوس ہورہا ہے کہ یہ رواج، یہ قانونان کی آزادی کو سلب کررہے ہیں اور افیونی دواؤں سے( جیسے مذہب، اخلاقیات) ان کے احساس کو مردہ کیا گیا ہے۔
ترقی پسند چاہتے ہیں کہ ان تمام پرانی رویتوں کو مٹا ڈالیں ، اس جال کی دھجیاں اُڑا ڈالیں، ساری پابندیوں سے آزاد ہوجائیں۔ لیکن یہ مکمل آزادی ہمیں کہاں لے جائے گی؟ کون جانے! شاید انارکی کا دور دورہ ہوجائے اور یہ مکمل شخصی آزادی پابندیوں سے بھی خطرناک ثابت ہو۔
ترقی پسند تحریک کے مقاصد نیک ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک کے زیرِ اثر اردو میں آج جو ادب تخلیق ہورہا ہے وہ کہاں تک ان مقاصد کی تکمیل میں مدد دے رہا ہے اور کہاں تک یہ سب کچھ جو ترقی پسند ادب کہا جاتا ہےادب ہے؟ لیکن ہم اس سے انکار نہیں کرسکتے کہ بہت سارا رطب و یابس بھی جمع ہوگیا ہے۔ اسکا بہت بڑا سبب یہ ہے کہ ترقی پسند ادب ایک بہت بڑی حد تک مقصدی ادب ہےاور مقاصد کے پرچار کے لیے پروپیگنڈا بھی ادب میں شامل ہوتا جارہا ہے حالانکہ پروپیگنڈے کی سطح تک گرائے بغیر بھی ادب میں افادیت کا عنصر لایا جاسکتا ہے۔
ادب کو مقصدی سمجھنے کا ایک اثر یہ بھی ہورہا ہے کہ ہمارے ادیب کسی سماجی حقیقت کو بحیثیت مجموعی دیکھنے کی بجائےصرف بعض پہلوؤں پر زور دیتے ہیں اور انھیں ایک حد تک بڑھا چڑھا کر بھی پیش کرتے ہیں۔
یہی حال جنسی ادب کا ہے۔ ہمارے ہان جنس پر بہت لکھا جارہا ہے۔جنس زندگی کا ایک بہت اہم جزو ضرور ہے لیکن اس پر ضرورت سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔ جنسی بھوک، جنسی ناآسودگی، جنسی بے راہ روی بس انھیں کے ذکر سے ہمارا ادب بھرا پڑا ہے مرد کی تصویر بھی سیاہ ہےاور عورت کی بھی۔ افسوس تو یہ ہے کہ عورت کے قلم سے کھینچی ہوئی عورت کی تصویر بھی سیاہ ہے ۔
ترقی پسند ادب پر فحاشی کے الزام کے جواب میں ترقی پسند اکثر یہ کہتے ہیں کہ لوگ ایسے افسانے پڑھ کر اس لیے جھنجھلا اُٹھتے ہیں کہ یہ ان کا پول کھولتے ہیں، یہ محض چور کی داڑھی میں تنکے والا معاملہ نہیں ہے۔
آپ ہی کا لحاف گندہ ہے، آپ ہی کے جسم سے یہ بو آتی ہے کہہ کر چپ ہونے کی بجائے ہمیں چاہیے کہ اس شکایت پر غور کریں ۔ اس معاملے پر زیادہ توجہ دیں اور جنسی ادب میں سنجیدگی ،توازن، اور اعتدال پیدا کریں ۔ جنس میں لتھڑے ہوئے افسانے کے بجائے جنس میں زندگی کو پیش کریں۔
لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ترقی پسند ادب میں بغاوت کا عنصر بہت زیادہ ہے۔ پرانے نظام کی ہر چیز پر محض اس لیے کہ وہ اسے فرسودہ خیال کرتے ہیں حملہ کیا جاتا ہے، یہاں تک کہ مذہب و اخلاق پر بھی۔ مذہبی عقائد کا ٹھٹھا اُڑایا جاتا ہے ، خدا کو گالیاں دی جاتی ہیں۔ ہائے ترقی پسندی تیرے نام پر کیا کیا لکھا جارہا ہے ۔یہ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ خدا کو پرانے نظام سے وابستہ کیوں کیا جاتا ہے؟ اور خدا کو گالیاں دینے سے نئے نظام کی تعمیر میں کیا مدد ملتی ہے۔؟
اب ہمارے ادب پر یاسیت اور قنوطیت چھائی ہوتی ہے۔ بے چینی ہے، الجھنیں ہیں، شکوک ہیں۔ کوئی رجائی پیغام نہیں۔ یہ بڑھتی ہوئی یاسیت امید کا گلا گھونٹ رہی ہے۔ ترقی کی راہ میں حائل ہورہی ہے۔ ہمارے ادب میں بلا کی تیزی ہے، قوت ہے ، جوش ہے، لیکن یہ سب کچھ ایک بغاوت میں استعمال ہورہے ہیں۔
ادب میں ایک ہی رجحان کبھی قائم نہیں رہتا۔ ایک دور میں ایک رجحان ہوتا ہے تو اس کے بعد کے دور میں ردِ عمل بالکل متضاد قسم کا۔
ادب کے نظریئے بدلتے رہتے ہیں، رجحان بدلتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ مخصوص نظریئے اور رجحانات ادب کے احاطے کو محدود کردیتے ہیں۔ ادب کو وسیع ہونا چاہئیے تاکہ داخلی ، خارجی، انفرادی، اجتماعی، لمحاتی، ابدی، روایاتی حدوں اور خصوصیتوں سے نکل کر اور ان سب کو اپنے دامن میں سمیٹ کر زندگی کی ترجمانی کرے۔ زندگی جو اس لمحے ہمارے سامنے ہے، زندگی جو ازل سے ہے، فرد کی زندگی، جماعت کی زندگی، ہر طبقے کی زندگی، ہر قوم کی زندگی، زندگی اپنی مصیبتوں اور مسرتوں کے ساتھ، اپنی نیکیوں اور اپنی برائیوں کے ساتھ، غلاظت اور پاکی کے ساتھ، اپنی امیدوں اور مایوسیوں کے ساتھ، زندگی اپنی کشمکش ، اپنی کامیابیوں اور ناکامیوں کے ساتھ ، اپنی ساری وسعتوں اور پیچیدگیوں کے ساتھاپنے تناسب اور توازن کے ساتھ۔
نوٹ: ہم نے ممتاز شیریں کے اس خوبصورت مضمون کی تلخیص پیش کی ہے ۔ جو محفلین مجموعی تاثر چاہتے ہیں انھیں چاہیے کہ مکمل مضمون ملاحظہ فرمائیں۔ شکریہ