محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
انشاء جی کی مشہور غزل ”ہم رات بہت روئے ، بہت آہ و فغاں کی“ کی پیروڈی:
اک رات بہت روئی ، بہت آہ و فغاں کی
نیند آنکھ سے اوجھل تھی کسی غمزدہ ماں کی
سر زانو پہ رکھے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی
حالت یہی ہوتی ہے سدا غمزدگاں کی
وہ ایک طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھی
یاد آنے لگی تھی اسے ایامِ جواں کی
وہ دن کہ سمجھتی تھی وہ بیٹے کو ہی سب کچھ
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی
بدلے میں ملا اس کو فقط اب تھا بڑھاپا
بیٹے کو تو پروا نہ تھی اس نالہ کناں کی
اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جاکے وہاں بات یہاں کی
برگشتہ ہوا ماں سے یہ مہتاب سا بیٹا
ماں کی نہ سنی ، راہ چلا ’’کاہکشاں‘‘ کی
ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی
فرزندو! سنو ، ماں ہے محبت کا سمندر
تم موجِ گریزاں نہ بنو آبِ رواں کی
اے دوستو! ، اے دوستو! ، اے پیارے سپوتو!
”جنت“ میں چلو ، سیر کریں پیاری سی ماں کی
اللہ کرے انشاء کا بھی جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے راہیں بڑی ہموار عیاں کی
انشا کی غزل پڑھ کے اسامہ کے قلم نے
اس عمدہ تغزل میں بھلی بات بیاں کی
نیند آنکھ سے اوجھل تھی کسی غمزدہ ماں کی
سر زانو پہ رکھے ہوئے کچھ سوچ رہی تھی
حالت یہی ہوتی ہے سدا غمزدگاں کی
وہ ایک طرف دیکھ کے چپ ہو سی گئی تھی
یاد آنے لگی تھی اسے ایامِ جواں کی
وہ دن کہ سمجھتی تھی وہ بیٹے کو ہی سب کچھ
وہ ساعتِ خوش وقت نشاطِ گزراں کی
بدلے میں ملا اس کو فقط اب تھا بڑھاپا
بیٹے کو تو پروا نہ تھی اس نالہ کناں کی
اس گھر کی کھلی چھت پہ چمکتے ہوئے تارو!
کہتے ہو کبھی جاکے وہاں بات یہاں کی
برگشتہ ہوا ماں سے یہ مہتاب سا بیٹا
ماں کی نہ سنی ، راہ چلا ’’کاہکشاں‘‘ کی
ہوتا ہے یہی عشق میں انجام سبھی کا
باتیں یہی دیکھی ہیں محبت زدگاں کی
فرزندو! سنو ، ماں ہے محبت کا سمندر
تم موجِ گریزاں نہ بنو آبِ رواں کی
اے دوستو! ، اے دوستو! ، اے پیارے سپوتو!
”جنت“ میں چلو ، سیر کریں پیاری سی ماں کی
اللہ کرے انشاء کا بھی جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے راہیں بڑی ہموار عیاں کی
انشا کی غزل پڑھ کے اسامہ کے قلم نے
اس عمدہ تغزل میں بھلی بات بیاں کی
آخری تدوین: