اونٹنی کا پیشاب اور جدید میڈیکل سائنس

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں درج ذیل حدیث مروی ہے ۔

عن أنس أن ناساًاجتووا فی المدینۃ فأمرھم النبی أن یلحقوا براعیہ ۔یعنی الابلفیشربومن ألبانھا وأبوالھا فلحقوا براعیہ فشربوامن ألبانھا وأبوالھاحتٰی صلحت أبدانھم (صحیح بخاری کتاب الطب باب الدواء بأبوال الإ بل رقم الحدیث 5686 )

’’ قبیلہ عکل اور عرینہ کے کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ مدینے کی آب وہواموافق نہ آنے پر وہ لوگ بیمار ہوگئے ۔(ان کو استسقاء یعنی پیٹ میں یا پھیپھڑوں میں پانی بھرنے والی بیماری ہوگئی) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینے کی دوا تجویز فرمائی ۔یہاں تک کہ اسے پی کروہ لوگ تندرست ہوگئے ‘‘۔

حافظ ابن قیم ؒ نے بھی اسی حدیث کے حوالے سے اپنی کتاب زادالمعاد میں لکھا ہے کہ اونٹنی کے تازہ دودھ اور پیشاب کو ملاکر پینا بہت سے امراض کے لئے شافی دوا ہے ۔

قارئین کرام ! بعض لوگوں کی جانب سے اس حدیث پر اعتراض شاید اس وجہ سے کیا گیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اونٹنی کا پیشاب پلوایا جوکہ حرام ہے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکباز ہستی سے ایسا حکم وکلام کا صادر ہونا بعیدازعقل ہے ۔اس اعتراض کے دو جوابات ہیں 1)نقلاً(2)عقلاً۔

قرآن مجید میں حلال وحرام سے متعلق کچھ اشیاکا ذکر ہوا ہے :

إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیکُمُ الْمَیتَۃَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِیْرِ وَمَآ أُہِلَّ بِہِ لِغَیرِ اللّٰہِ (سورۃ البقرۃ ۔آیت 172)

’’ تم پر مردار ،خون ، سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی دوسرے کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے ‘‘

اللہ تعالیٰ نے بالکلیہ اصولی طور پر مندرجہ بالا اشیا کو اہل ایمان پر حرام کر ڈالا ہے مگر اس کے ساتھ ہی کچھ استثنابھی کردیا ۔

فَمَنِ اضْطُرَّ غَیرَ بَاغٍ وَّلاَ عَادٍ فَلٓا إِثْمَ عَلَیہِ ط

’’جو شخص مجبور (بھوک کی شدت سے موت کا خوف)ہوجائے تو اس پر (ان کے کھانے میں)کوئی گناہ نہیں بس وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو ‘‘(سورۃ البقرۃ ۔آیت 173)

اگرضرورت کے وقت حرام جانوروں کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے تو حلال جانور کے پیشاب کو عندالضرورت دوا کے لئے استعمال کرنے کو کس نے روکاہے ؟جب مردار اور حرام جانوروں کو عندالضرورت جائز قرار دیا گیا ہے تو پھر پیشاب کے استعمال میں کیا پریشانی ہے ؟

بعض لوگ حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پرکھنے کے لئے خود ساختہ اصول پیش کرتے ہیں کہ “ہر حدیث کو قرآن پر پیش کیا جائے ” تو گزارش ہے کہ قرآن میں توکسی بھی مقام پر اونٹنی کے پیشاب کو حرام قرار نہیں دیا گیا ۔لہٰذا یہ حدیث قرآن کے متعارض نہیں ہے ۔

خلاصہ:جس طرح اضطراری کیفیت میں قرآن حرام اشیا کی رخصت دیتا ہے اسی طرح حدیث نے بھی اونٹنی کے پیشاب کو اس کے دودھ میں ملاکر ایک مخصوص بیماری میں استعمال کرنے کی اجازت دی ہے ۔
کیمسڑی کے اُ صولوں کو بھی مدنظر رکھیں

اگر آپ کو واقع ہی کیمسٹری کے اصول یاد ہیں تو آپ کو یہ بھی پتہ ہونا چاہئے کہ دو مختلف کیمیکلزکے ملنے سے ایکشن اور ری ایکشن ہوتا ہے۔ یاد دہانی کے لئے میں کچھ مثالیں پیش کرتا ہوں۔
پانی کے لئے H2O ہائیڈروجن کے دو مالیکیول اور اکسیجن کا ایک مالیکیول مل کر پانی بنتا ہے۔
نیلا تھوتھا زہر ہے اور آپ کو پتہ ہو گا کہ اگر نیلا تھوتھا کی قلمیں بنا لی جائیں تو پھر نیلا تھوتھا سے زہر کا اثر ختم ہو جاتا ہے اور اسے پھرکچھ بیماریوں کے علاج کے لئے استعمال کیا جاتا ہے ۔
“سوڈیم” اسے اگر کھولیں تو ہوا سے آکسیجن ملتے ہی اسے آگ لگ جاتی ہے ، اور ” سوڈیم کلورائیڈ” جو ہم روزانہ کھانے میں استعمال کرتے ہیں۔ انسان کو کچھ نہیں ہوتا۔
اونٹنی کے دودھ میں “ پوٹاشیم ” بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ پروٹین، آئرن، فیٹ، پانی، فاسفورس ، کیلشیم، اور وٹامن سی، کیکٹوس/قدرتی مٹھاس اور ڈیوریٹک/پیشاب آور، ہوتے ہیں۔
اب دودھ کے اندر پائی جانے والے یہ کیمیکلز جن کو لال رنگ سے مارکنگ کی ہے اگر انہی کو سامنے رکھیں تو پیشاب کے پائے جانے والے ٹاکسس کے اثر کو ختم کرنے کے لیئے یہی کافی ہیں۔کیمسٹری فارمولہ کے مطابق اونٹنی کا پیشاب اس وقت تک پیشاب رہے گا جب تک وہ دوسرے اجسام کے ساتھ نہیں ملا، جونہی اونٹنی کا پیشاب اونٹنی کے دودھ میں شامل ہوا تو پھر دونوں اجسام میں پائے جانے والے کیمیکلز سے جو ری ایکشن ہو گا اس سے پیشاب نام اور مقام کھو بیٹھے گا۔ اور ایک الگ مکسچر بنے گا۔
اس پر اگر دل میں ایک بات اور آئے تو وہ بھی کلیئر کر دیتا ہوں۔ کہ پانی کے ایک گلاس کو میٹھا کرنے کے لئے چینی کی کچھ مقدار/ ایک چمچ ڈالی جاتی ہے، ایسا نہیں ہوتا کہ پانی کے ایک گلاس میں چینی کا ایک گلاس ڈالا جائے۔ اسی طرح دودھ میں پیشاب ملا کر پینے کا مطلب یہ نہیں کہ دودھ کے ایک گلاس اور پیشاب کا ایک گلاس بلکہ دودھ کے ایک گلاس میں پیشاب کی کچھ مقدار جو کہ ڈراپس بھی ہو سکتے ہیں اور چمچ بھی۔ بالکل اسی طرح جیسے ہائیڈروجن کے دو مالیکول اور آکسیجن کا ایک مالیکیول ان کو اکٹھا کریں تو دونوں اپنی شناخت کھو بیٹھتے ہیں اور اس سے جو تیسری چیز بنتی ہے جسے ہم پانی کہتے ہیں۔
جدید سائنس کے ذریعے علاج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید

عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے (Short Practice of Surgery page 698-703 & 948-950)

اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خیرالقرون میں اس بیماری کا علاج اونٹنی کا دودھ اور پیشاب تجویز فرمایا تھا جو کہ آج بھی کار آمد ہے ۔ڈاکٹر خالد غزنوی اپنی کتاب علاج نبوی اور جدید سائنس میں تحریر فرماتے ہیں :

’’ہمارے پاس اسی طرح کے مریض لائے گئے عموماً۔4 سال سے کم عمر کے بچے اس کا شکار تھے۔ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پر عمل کیا اونٹنی کا دودھ اور پیشاب منگوایا اور دونوں کو ملاکر ان بچوں کا پلادیاکچھ ہی عرصے بعدان کے پھیپھڑوں اور پیٹ کا سارا پانی پیشاب کے ذریعے باہر آگیا اور بچے صحت یاب ہوگئے۔وللہ الحمد،اور آج وہ جوان ہیں‘‘۔ (علاج نبوی اور جدید سائنس جلد 3بابAscites)

محترمہ ڈاکٹر فاتن عبدالرحمٰن خورشیدکا سعودی عرب کی قابل سائنسدانوں میں ہوتا ہے۔ یہ کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی کی فیکلٹی ممبر ہونے کے علاوہ کنگ فہد سنٹر میں طبی تحقیق کے لیے قائم کردہ Tissues Culture Unit کی صدر ہیں ۔ وہ میڈیکل ڈاکٹر تو نہیں ہیں تاہم اسی حدیث سے متاثر ہو کر انہوں نے اس پر تحقیقی کام کیا اور اونٹنی کے دودھ اور پیشاب کو ملا کر کینسر سے متاثرہ افراد کو پلایا ۔ انہوں نے لیب کے اندر اپنے ان تجربات اور ریسرچ کوسات سال تک جاری رکھا اور معلوم کیا کہ کہ اونٹ کے پیشاب میں موجود نانو ذرات کامیابی کے ساتھ کینسر کے خلیات پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اس دوا کا معیار انٹرنیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کی شرائط کو پورا کرتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اس کو کیپسول اور سیرپ کی شکل میں مریضوں کو استعمال کروایا ہے اور اس کا کوئی نقصان د ہ سائیڈ ایکفیکٹ بھی نہیں ہے۔

محترمہ ڈاکٹر خورشید صاحبہ کا کہنا ہے کہ وہ اونٹنی کے دودہ اور پیشاب کو مخصوص مقدارون میں ملا کر مزید تجربات کے ذریعے اپنی دوا کو بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہیں اور اپنی توجہ اس جانب مرکوز کئے ہوئے ہیں کہ اسی دوا سے کینسر کی بعض مخصوص اقسام جیسے پھیپھڑوں کے کینسر، خون کے کینسر، بڑی آنت کے کینسر، دماغ کے ٹیومر اور چھاتی کے کینسر کا علاج تسلی بخش طریقے سے کیا جاسکے۔
ماخذ:۔
http://www.saudigazette.com.sa/index.cfm?method=home.regcon&contentID=2009071143333
 

قیصرانی

لائبریرین
ہممم۔ شکر ہے کہ ہومیوپیتھی تو حلال ہوئی، کہ اس میں معمولی مقدار میں شراب استعمال ہوتی ہے (شاید)
 

S. H. Naqvi

محفلین
عکل اور عرینہ کے لوگوں میں جو بیماری تھی اسے موجودہ طبی سائنس میں پلیورل ایفیوزن (Pleural Effusion) اور ایسائٹیز (Ascites) کہا جاتا ہے ۔یہ انتہائی موذی مرض ہے ۔پلیورل ایفیوزن کے مریض کو بے حس کر کے پسلیوں کے درمیان آپریشن کر کے سوراخ کیا جاتا ہے ۔اس سوراخ سے پھیپھڑوں میں چیسٹ ٹیوب (Chest Tube) داخل کی جاتا ہے اور اس ٹیوب کے ذریعہ سے مریض کے پھیپھڑوں کا پانی آہستہ آہستہ خارج ہوتا ہے ،اس عمل کا دورانیہ 6سے 8ہفتہ ہے(اس مکمل عرصے میں مریض ناقابل برداشت درد کی تکلیف میں مبتلا رہتا ہے ۔ اور بعض اوقات تو وہ موت کی دعائیں مانگ رہا ہوتا ہے۔ یہ حالت میں نے خود کراچی کے ہسپتالوں میں ان وارڈز کے دورے کے دوران دیکھی ہے)۔ایسائٹیز کے مریض کے پیٹ میں موٹی سرنج داخل کر کے پیٹ کا پانی نکالا جاتا ہے ۔یہ عمل باربار دہرایا جاتا ہے ۔ان دونوں طریقوں میں مریض کو مکمل یا جزوی طور پر بے حس کیا جاتا ہے
ان دو بیماریوں اور پھر انٹراوینشنل ریڈیالوجی میں ان کی ڈرینیج تو ہم روز ہی ملاحظہ کرتے ہیں۔ پلولر اسپائریشن انڈر یو ایس جی اینڈ سی ٹی گائیڈنس تو اکثر ہمارے سامنے ہوتی ہے اور اس کے مریض کی اذیت کا بھی یہ بیان کردو عالم ہی ہوتا ہے۔ تاہم مذکورہ طریق علاج پہلی دفعہ سن رہاہوں کاش کے اس کو قومی و بین الاقوامی سطح پر تجربہ کیا جائے اور پھر اس طرح کی بیماریوں میں استعمال کیا جائے۔ بہرحال محفل میں موجود صاحبان سے گزارش ہے کہ اس مفید پوسٹ پر اپنی اپنی فہم وفراست کے مطابق کچھ نہ کچھ ضرور لکھیں اور اگر کوئی ڈاکٹر حضرات موجود ہوں تو وہ بھی اپنا نقطہ نظر بیان کریں۔۔۔۔۔!
 
ہممم ۔ شکر ہے کہ ہومیوپیتھی تو حلال ہوئی، کہ اس میں معمولی مقدار میں شراب استعمال ہوتی ہے (شاید)
شراب میں الکوحل پائی جاتی ہے۔ اور ہومیو پیتھک کی دوائی میں بھی۔ اور بہت سی ایلوپیتھک کی دوائیوں میں بھی۔
الکوحل شراب نہیں ہوتی۔۔۔
m6EUe.png
 

شمشاد

لائبریرین
برادران یہ انتہائی سنجیدہ اور اہم دھاگہ ہے۔ اس میں غیر ضروری باتوں سے اجتناب فرمائیں۔​
 

arifkarim

معطل
ہر اسلامی چیز کو سائنس کا ٹھپا لگا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام کوئی سائنسی چیز نہیں بلکہ دینی اور مذہبی شے ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
ہندوؤں کیلئے گائے کا موتر جبکہ مسلمانوں کیلئے اونٹ کا پیشاب آب حیات کا درجہ رکھتا ہے۔ سبحان اللہ
لاحول ولا قوۃ الا باللہ ۔ اگر آپ کا قرآن مجید کی آیات اور صحیح بخاری کی صحیح احادیث پر ایمان ہی نہیں ہے تو آپ جو چاہے ارشاد فرماسکتے ہیں۔ قرآن و حدیث کے ایمان سے خالی لوگ دین اسلام پر اور جدید سائنسی علوم وعقل سے عاری لوگ طب و صحت پر اسی قسم کے بے تکے تبصرے کر سکتے ہیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
 

یوسف-2

محفلین
ہممم ۔ شکر ہے کہ ہومیوپیتھی تو حلال ہوئی، کہ اس میں معمولی مقدار میں شراب استعمال ہوتی ہے (شاید)
ہومیو پیتھی کو کب اور کس نے حرام قرار دیاہے :( حرام اور حلال کا اختیار صرف قرآن و صحیح احادیث کو حاصل ہے۔ البتہ اگر کسی معاملہ (جیسے ہومیو پیتھی) کے بارے میں قرآن و احادیث خاموش ہوں تو پھر یہ حق مفتیان کرام کو منتقل ہوجاتا ہے۔ ہم جیسے عوام الناس کو حرام و حلال پر تبصرہ کرتے ہوئے احتیاط کرنا چاہئے۔ آپ کی اطلاع کے لئے ہومیو پیتھی اور الکحل سے متعلق مندرجہ ذیل معلومات فراہم کی جاتی ہیں، جن سے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ قطع نظر اس کے کہ آپ کے متفق ہونے اور نہ ہونے سے حلال اور حرام کی حیثیت پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔:)
انگریزی زبان میں ’’الکحل‘‘ شراب یعنی وائن کو بھی کہتے ہیں۔ شراب یعنی وائن عموما" اجناس یا پھلوں سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ صرف اور صرف پینے کے لئے استعمال ہوتی ہے۔ اس قسم کی تمام شراب (وائن) کو کھانے پینے کے طور پر استعمال کرنامتفقہ طور پر حرام ہے۔

"الکحل" کا معاملہ دوسرا ہے۔ یہ ایک ’’کیمیکل‘‘ کا نام ہے۔ ’’کیمیکل الکحل‘‘ کی بہت سی اقسام ہیں۔ جیسے ایتھے نال (ایتھائل الکحل)، میتھے نال ( میتھائل الکحل)، پرو پے نال، بیو ٹے نال وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب اقسام الکحل کی ہیں، جوکیمیا وی طور پر تیار کی جاتی ہیں۔ انہیں ’’سینتھے ٹک الکحل‘‘ بھی کہتے ہیں۔ صنعتوں میں ان کا بڑے پیمانے پر استعمال ہوتا ہے اور بالعموم یہ استعمال غیر غذائی صنعتوں میں ہوتا ہے۔ الکحل کی مندرجہ بالا اقسام میں صرف اور صرف ’’ ایتھے نال‘‘ یا ایتھائل الکحل کو ہی بطور غذا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اب اس کا نیا استعمال پیٹرول کے متبادل کے طورپر بھی کیا جانے لگا ہے۔ اجناس یا پھلوں سے تیار شدہ شراب یا وائن بھی کیمیاوی طور پر ’’ایتھے نال‘‘ ہی ہے۔

کیمیکل الکحل کو نیل پالش، فرنیچر پالش، اور پرفیوم وغیرہ میں بھی ( بطورنان فوڈ آئٹم) استعمال کیا جاتا ہے۔ الکحل کیمیکل سے تیار کیا جائے یا اجناس اور پھل وغیرہ سے، یہ ناپاک یا پلید نہیں ہوتا۔ ناپاک اور پلید ہونا ایک الگ بات ہے اور کسی شئے کا بطور غذا حرام ہونا الگ بات۔ جیسے اگر مردار (حلال) جانور کا کھانا حرام ہے۔ لیکن مردار جانور ناپاک یا پلید نہیں ہوتا۔ اس کی کھال اور چربی کا غیر غذائی استعمال بلا شک و شبہ حلال ہے۔ اسی طرح کتے کا گوشت کھانا حرام ہے۔ لیکن یہ ’’ناپاک‘‘ نہییں کیونکہ اس کے ذریعہ کیا گیا شکار حلال ہوتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ

گویا الکحل بذات خود نجس، ناپاک نہیں ہے کہ اگر کپڑے کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک ہوجائے، نیل پالش کے ذریعہ ناخن کو لگ جائے تو ناخن ناپاک ہوجائے، اس سے فرنیچر کو پالش کیا جائے تو فرنیچر ناپاک ہوجائے وغیرہ وغیرہ۔ اسی طرح پرفیوم میں شامل الکحل کپڑوں کو لگ جائے تو کپڑا ناپاک نہیں ہوتا۔ یعنی الکحل پرفیوم کا استعمال بلا شک و شبہ جائز ہے۔

اس عہد کے بہت سے اسلامک اکالرز بشمول ڈاکٹر مفتی تقی عثمانی نے ہومیو پیتھک ادویات کے استعمال کو جائز قرار دیا ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ تمام ہومیو پیتھک ادویات صرف اور صرف (سینتھے ٹک) الکحل میں تیار کی جاتی ہیں۔ یہی مصنوعی یا کیمیاوی الکحل بعض ایلو پیتھک ادویات یعنی سیرپ وغیرہ میں بھی استعمال ہوتی ہیں۔ چنانچہ جب یہ ہومیو میں جائز ہیں تو ایلو پیتھک میں بھی جائز ہیں۔ ایک بار پھر واضح رہے کہ دواؤں میں صرف اور صرف کیمیاوی الکحل (ایتھے نال) استعمال ہوتی ہے،اجناس یا پھلوں سے بننے والی شراب یا وائن نہیں، جس کا پینا متفقہ طور پر حرام ہے
 

یوسف-2

محفلین
برادران یہ انتہائی سنجیدہ اور اہم دھاگہ ہے۔ اس میں غیر ضروری باتوں سے اجتناب فرمائیں۔​
برادر منتظم! کیا اس قسم کے انتہائی سنجیدہ اور اہم دھاگوں سے اس طرح کی غیر ضروری اور ”بے فضول“ باتوں کے ”اخراج“ کا کوئی طریقہ یا قانون نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے اور بن بھی نہیں سکتا تو آپ کی یہ ”وارننگ“ بھی غیر ضروری باتوں کے درمیان غیر ضروری ہی قرار پائے گی:D
 

یوسف-2

محفلین
ہر اسلامی چیز کو سائنس کا ٹھپا لگا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اسلام کوئی سائنسی چیز نہیں بلکہ دینی اور مذہبی شے ہے۔
اسلام بلا شبہ سائنسی نہیں بلکہ دینی اور مذہبی شئے ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کی کوئی بھی بات کسی بھی مستند سائنسی علم (سائنسی نظریہ نہیں) کے خلاف نہیں ہے۔ اس دھاگہ میں صحیح بخاری کی ایک مستند حدیث (جس کا تعلق میڈیکل سائنس اور ٹریٹمنٹ سے ہے) کا ذکر ہے، جس پر قرآن و حدیث کے علم و ایمان سے دور ”مسلمان“ اعتراضات کرتے رہتے ہیں، جس کی مثال اس دھاگہ میں بھی موجود ہے۔ جب قرآن و حدیث میں کسی سائنسی علم کا ذکر ہو تو اس کی ”وضاحت و تائید“ میں اگر مروجہ سائنسی حقیقت کو بیان کردیا جائے تو اسے ”اسلامی چیز پر سائنس کا ٹھپا لگانا “ نہیں کہتے میرے بھائی۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
میرے کہنے کا مقصد تو یہ تھا کہ اگر ایلو ڈاکٹر اسے تحقیق کر کے شرف قبولیت بخشیں اور پلولر ایفیوژن اور اسائیٹیز کے علاج کے لیے اسے استعمال کریں تو یقین جانیئے یہ ایک انقلاب ہو، مگر تجربے کی بھٹی سے گزارے کون؟
 

قیصرانی

لائبریرین
میرے کہنے کا مقصد تو یہ تھا کہ اگر ایلو ڈاکٹر اسے تحقیق کر کے شرف قبولیت بخشیں اور پلولر ایفیوژن اور اسائیٹیز کے علاج کے لیے اسے استعمال کریں تو یقین جانیئے یہ ایک انقلاب ہو، مگر تجربے کی بھٹی سے گزارے کون؟
ایلوپیتھک نظام میں اگر اس کی تحقیق ہوئی تو وہ یہ دیکھیں گے کہ اونٹنی یا اونٹ، کس کے پیشاب کا اثر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ پیشاب کا کون سا یا کون سے جزو ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ اس طرح جب یہ بات واضح ہو جائے گی تو پھر وہ اجزاء یا تو پیشاب سے الگ کر کے یا پھر کیمیائی طور پر تیار کر کے دوائی کی شکل میں بیچے جائیں گے
 

arifkarim

معطل
جب قرآن و حدیث میں کسی سائنسی علم کا ذکر ہو تو اس کی ”وضاحت و تائید“ میں اگر مروجہ سائنسی حقیقت کو بیان کردیا جائے تو اسے ”اسلامی چیز پر سائنس کا ٹھپا لگانا “ نہیں کہتے میرے بھائی۔
ہاہاہا۔ سائنسی علوم کوئی دائمی حتمی علوم نہیں ہیں۔ جو سائنسدان آج کہتے ہیں وہ کل نہیں کہیں گے۔ جیسے آئن اسٹائن کے نظریہ اضافیت سے پہلے تمام سائنس دان کلاسیکل فزیکس کو ہی حقیقی فزکس سمجھتے تھے۔ اسوقت ہمارے علماء بھی اسی ڈگر پر قرآن و حدیث کے ذریعے کلاسکل فزکس کی اسلامی ”تائید“ کرتے نظر آتے تھے۔ اور اب جبکہ وہ سائنسی نظریہ پرانا ہو گیا ہے اور نظریہ اضافیت نے اسکی جگہ لے لی ہے تو پھر اسی قرآن و حدیث سے اس نظریے کی تائید میں تاویلیں گھڑنا شروع کر دی گئیں ہیں۔ کل کلاں کو اگر نظریہ اضافیت بھی غلط ثابت ہوگیا یا اس سے بہتر تھیوری سامنے آگئی تو پھر کیا ہوگا؟ وہی پرانا ڈرامہ؟
 

S. H. Naqvi

محفلین
ایلوپیتھک نظام میں اگر اس کی تحقیق ہوئی تو وہ یہ دیکھیں گے کہ اونٹنی یا اونٹ، کس کے پیشاب کا اثر ہوتا ہے اور پھر یہ بھی کہ پیشاب کا کون سا یا کون سے جزو ہیں جو یہ کام کرتے ہیں۔ اس طرح جب یہ بات واضح ہو جائے گی تو پھر وہ اجزاء یا تو پیشاب سے الگ کر کے یا پھر کیمیائی طور پر تیار کر کے دوائی کی شکل میں بیچے جائیں گے
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق ایلو کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی تحقیق کرتی ہیں اور پھر اسے مثبت نتائج ملنے کے بعد بغیر کسی چرچے کے کسی نئی میڈیسن کے نام سے مارکیٹ میں چلا دیتی ہیں؟؟؟ جیسے اسی فورم پر ایک جگہ پپیتے کے پتوں سے ڈینگی کو کنٹرول کرنے اور پلیٹ لٹس بڑھانے کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا گیا ہے، اب ہو سکتا ہے کہ ایلو کی ٹھیکیدار ملٹی نیشنل کمپنیاں اسی کو مدنظر رکھ کر کوئی گولی یا کیپسول متعارف کروائیں اور اسکا اصل ماخذ "کاروباری اصولوں" کے مطابق چھپا جائیں؟؟ ہونے کو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی ایلو میڈیسنز کے پیچے کچھ ایسے ہی ٹوٹکے چھپے ہوئے ہوں؟
 

قیصرانی

لائبریرین
کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ کے بیان کردہ طریقہ کار کے مطابق ایلو کی ملٹی نیشنل کمپنیاں ایسی تحقیق کرتی ہیں اور پھر اسے مثبت نتائج ملنے کے بعد بغیر کسی چرچے کے کسی نئی میڈیسن کے نام سے مارکیٹ میں چلا دیتی ہیں؟؟؟ جیسے اسی فورم پر ایک جگہ پپیتے کے پتوں سے ڈینگی کو کنٹرول کرنے اور پلیٹ لٹس بڑھانے کے طریقہ کار کے بارے میں بتایا گیا ہے، اب ہو سکتا ہے کہ ایلو کی ٹھیکیدار ملٹی نیشنل کمپنیاں اسی کو مدنظر رکھ کر کوئی گولی یا کیپسول متعارف کروائیں اور اسکا اصل ماخذ "کاروباری اصولوں" کے مطابق چھپا جائیں؟؟ ہونے کو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کئی ایلو میڈیسنز کے پیچے کچھ ایسے ہی ٹوٹکے چھپے ہوئے ہوں؟
ایسا بالکل ممکن ہے۔ ایلو پیتھک نظام کی سب سے بڑی خرابی اس کا مطمع نظر دولت ہونا ہے۔ تاہم اس کے اپنے فوائد بھی ہیں۔ اب اگر یہ دیکھیں کہ ایک دوا آپ بطور دوا فروخت کریں تو لوگ الجھے بغیر اسے قبول کر لیں گے۔ اگر اس کا ماخذ بتایا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کو پسند نہ آئے

ایک مثال یہ دیکھیں کہ انسان میں دل کی شریانوں میں ہونے والی رکاوٹ کے لئے جو مصنوعی والو ہوتے ہیں وہ اکثر سور کے اجزاء سے تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات عام پھیل جائے تو کتنے مسلمان محض اس وجہ سے اس علاج سے گریز کریں گے کہ اس طرح سور کا کچھ حصہ مستقل طور پر ان کے جسم میں موجود رہے گا
 
ایسا بالکل ممکن ہے۔ ایلو پیتھک نظام کی سب سے بڑی خرابی اس کا مطمع نظر دولت ہونا ہے۔ تاہم اس کے اپنے فوائد بھی ہیں۔ اب اگر یہ دیکھیں کہ ایک دوا آپ بطور دوا فروخت کریں تو لوگ الجھے بغیر اسے قبول کر لیں گے۔ اگر اس کا ماخذ بتایا جائے تو ہو سکتا ہے کہ کئی لوگوں کو پسند نہ آئے

ایک مثال یہ دیکھیں کہ انسان میں دل کی شریانوں میں ہونے والی رکاوٹ کے لئے جو مصنوعی والو ہوتے ہیں وہ اکثر سور کے اجزاء سے تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات عام پھیل جائے تو کتنے مسلمان محض اس وجہ سے اس علاج سے گریز کریں گے کہ اس طرح سور کا کچھ حصہ مستقل طور پر ان کے جسم میں موجود رہے گا
گورے ہندوستان سے طب کا جو خزانہ لوٹ کر گیے تھے اس پر آج تک تحقیق جاری ہے. ہمارے حکیموں کے کارنامے خود سے منسوب کرتے ہیں.
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ایک مثال یہ دیکھیں کہ انسان میں دل کی شریانوں میں ہونے والی رکاوٹ کے لئے جو مصنوعی والو ہوتے ہیں وہ اکثر سور کے اجزاء سے تیار ہوتے ہیں۔ اگر یہ بات عام پھیل جائے تو کتنے مسلمان محض اس وجہ سے اس علاج سے گریز کریں گے کہ اس طرح سور کا کچھ حصہ مستقل طور پر ان کے جسم میں موجود رہے گا
اسی لیے کہتے ہین لا علمی رحمت ہے
 
Top