اِچھا دھاری ناگن

عمران اسلم

محفلین
وہ چُنی آنکھوں والا مجمع کو ہپناٹائز کیے ہوئے تھا۔ یوں لگتا کہ لوگ سانسیں روکے کھڑے ہوں۔ اس کے ہر ہر فقرے پر رگوں میں گرمی دوڑنے لگتی۔ ہر کلمے پر جسم میں سنسنی دوڑ جاتی۔ اس کی آواز کا زیر و بم ریڑھ کی ہڈی میں عجیب سا احساس بیدار کر رہا تھا۔ اس کے اشارے لوگوں کے چہرے پر شادمانی کے رنگ بکھیر دیتے اور اس کی حرکات سے ان کی ہنسی چھوٹ جاتی۔ وہ بالغوں کے لطیفے سنا سنا کر انہیں اپنی جانب توجہ رکھنے پر مجبور کر دیتا۔ وہ اپنے کام میں ماہر تھا۔ اور اس کے سامنے زندگی کی چکی میں پستے پستے کمر کو دوہرا کئے لوگ۔ اس کو ان کی نفسیات کا بخوبی علم تھا اور یوں لگتا وہ ان کی رگ رگ سے واقف ہے۔ وہ انہیں باتوں باتوں میں باور کراتا جاتا کہ وہ مختلف النوع مردانہ بیماریوں میں مبتلا ہیں اور اس کی وجہ آج کل کی ناخالص ملاوٹ شدہ خوراک، سہل پسندی ، بچپن کی غلط کاریاں اور حالات حاضرہ میں آسانی سے دستیاب فحش مواد ہے۔ ہر کوئی دل ہی دل میں اس کی حکمت کی داد دے رہا تھا۔ لڑکے بالے ایک دوسرے کا ہاتھ دبا کر کھی کھی کر کے ہنس دیتے۔ جوان کن اکھیوں سے اک دوجے کی جانب دیکھتے جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو۔ بوڑھے اپنے گھٹنوں پر ہاتھ رکھے دونوں پیروں کے بَل بیٹھے آہ کہہ کر رہ جاتے۔ وہ انہیں بیماریوں کی آشنائی کے ساتھ ساتھ ان کا علاج بھی تجویز کر رہا تھا۔ مریضوں کی سہولت کے لئے مختلف قسم کے تیل، گولیاں، کیپسول اس کے سامنے پڑی شیشیوں، بوتلوں میں موجود تھے۔ جنہیں وہ وقتا فوقتا طریقہ استعمال بتلاتے ہوئے کسی نہ کسی فرد کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے نقدی وصول کرتا جاتا۔ لوگوں کی دل پشوری کے لئے شیشے کے مرتبان میں کچھ سانڈے بھی موجود تھے۔ سامنے چند پٹاریاں کھلی پڑی تھیں جن میں سے چھوٹے چھوٹے رنگ برنگے سانپ جھانکتے نظر آتے اور وہ انہیں ہر بار ہاتھ سے اندر کر دیتا۔ دوائی بیچنے ، نسخے دینے، لطیفے سنانے کے دوران ہی اس نے ایک دیو مالائی داستان بھی شروع کر رکھی تھی۔ جس میں سے تھوڑا تھوڑا حصہ تجسس بڑھا بڑھا کر مجمع کے سامنے پیش کر رہا تھا۔ اس نے مجمع کا دھیان ایک بڑی پٹاری کی جانب لگا رکھا تھا۔ "سجنو مترو! اس پٹاری میں جو ناگن ہے وہ شیش ناگ کے قبیلے کی ہے اس ناگن کو پکڑ میں لانے کے لئے ہمارے بزرگوں نے بہت جتن کئے۔ یہ ناگن سو سال کی ہو کر اس قابل ہو جاتی ہے کہ انسان کا روپ دھار سکے"۔ اس کی چمکتی جلد سولہ سالہ دوشیزہ کے حسین چہرے کی مانند ہوتی ہے اور اس کی آنکھوں میں ایک جوان حسینہ کی چشم مےگوں کا سا نشہ ہوتا ہے۔ تمہیں اگر اکیلے میں مل جائے تو ایک حسین دوشیزہ کی طرح جلوے دکھا کر تمہارے حؤاس پر قابو پا لے گی اور پھر تمہارا کام تمام کر دے گی"۔ وہ یہ تمام باتیں اس انداز میں کر رہا تھا کہ افراد کا تجسس انتہا کو پہنچ رہا تھا ۔ لوگ بےتاب ہو کر پٹاری کی طرف دیکھتے کہ کب وہ پٹاری کھلے اور وہ اس قاتل حسینہ کا دیدار کر سکیں۔ کچھ منچلے تو ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ۔ "کاش جنگل میں کہیں ملاقات ہو جائے ایسی ناگن سے ،پھر چاہے ڈس ہی لے"۔
وہ مجمع سے مخاطب تھا۔ "میرے بزرگو! دوستو یہ ناگن ہمارے بزرگوں نے بڑی مشکلوں سے بس میں کی تھی۔ سکندر اعظم کی بادشاہت کا زمانہ تھا۔ بادشاہ ایک بار جنگل میں شکار کھیلنے گیا اور دوستوں سے بچھڑ کر راستہ بھٹک گیا۔ بادشاہ جب سخت گرمی سے نڈھال، پیاس سے بے حال ہو کر بے ہوش ہو گیا ۔ تو ہوش میں آنے کے بعد کیا دیکھتا ہے کہ ایک خؤبصورت ، حسین، جوان ، ماہ پارہ عورت اس کے سرہانے بیٹھی ہے۔ خیر جی بادشاہ اسے بھی ساتھ ہی اپنے محل میں لے آیا اور شادی رچا لی"۔ چُنے نے اپنے الفاظ میں ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ سبھی لوگ ٹک دیدم ہو رہے تھے۔ " جناب من عورت خؤبصورت ہو، جوان ہو، ناز نخرے جانتی ہو ۔ گفتگو کا سلیقہ اسے معلوم ہو تو مرد کے دل میں اتر جاتی ہے۔ وہ عورت بھی بادشاہ کے دل میں کُھب گئی۔ بادشاہ دن رات اس کے گن گاتا اور صبح شام اس ساتھ گزارتا۔ کچھ عرصہ گزرا ۔ بادشاہ کی صحت گرنا شروع ہو گئی۔ دن بدن اعضاء میں کمزوری آتی گئی اور تھوڑے دنوں میں ہی بادشاہ بستر سے جالگا۔ بہت علاج ہوا۔ بہت حکیم آئے لیکن کچھ کارگر نہ ہوا۔ آخر ایک سیانے بوڑھے کو بلایا گیا۔ اس بابے نے آتے ہی بادشاہ کے پاس سے سب کو ہٹا دیا"۔ چُنا آدمی کہانی سنا رہا تھا اور دم سادھے لوگ اس داستان کے خاتمے کوبےتاب۔ " اس بوڑھے نے بادشاہ سے عرض کیا کہ تمہارے محل میں کسی باہر والی شے کا سایہ ہے۔ بادشاہ نے حیران ہو کر کہا کہ میرے نوکروں اور میری بیوی کے علاوہ یہاں کوئی نہیں۔ خیر بوڑھے نے اپنا حساب لگایا اور بادشاہ کو حیران کن خبر سنائی کہ تمہاری بیوی انسان نہیں بلکہ ایک ناگن ہے۔ بادشاہ نے ماننے سے انکار کیا تو بوڑھے نے کہا " تم خود اس کا اندازہ کر سکتے ہو"۔ بوڑھے نے بادشاہ کو ایک قیمتی راز بتلاتے ہوئے کہا"۔ چُنے نے وقفہ کرتے ہوئے مجمع کی طرف غور سے دیکھا جیسے اندازہ لگا رہا ہو زور خطابت کا۔ اور پھر بادشاہ کے قصہ کہنے لگا۔ " بوڑھے نے بادشاہ کو ران میں موجود ایک خفیہ رگ کے بارے میں بتلایا اور کہا کہ آج رات جب تمہاری بیوی تمہارے پاس آئے ، اور تم پیار کرتے ہوئے اسے بےلباس کرو تو اس رگ کو مسلنا اگر وہ اصلی عورت ہوئی تو تمہارے ساتھ لپٹ جائے گی۔ تم سے اور زیادہ پیار کرے گی۔ اس کی آنکھوں میں لالی آجائے گی اور اس کی سانسیں تیز تیز چلنے لگیں گی"۔ چُنا دیکھ رہا تھا کہ مجمع کے تمام افراد خیالوں ہی خیالوں میں بادشاہ کی خلوت گاہ میں پہنچے ہوئے تھے۔ اس نے لوگوں کو ایک خوشخبری سنائی۔ "سوہنے بھرائو۔ ہمارے بزرگوں، پرکھوں سے وہ راز ہمیں بھی معلوم ہے۔ وہ خفیہ رگ کہ جس کو چھونے سے عورت مرد کی غلام بن جاتی ہے۔ اس کے لئے اپنی جان بھی نکال دیتی ہے۔ میں بعد میں آپ کو اس رگ کا بتاتا ہوں"۔ اس دوران مجمع میں موجود افراد کی تعداد سو تک جا پہنچی پندرہ بیس بچے بھی بڑوں کی بغلوں سے جھانک رہے تھے۔ چُنے نے خدا رسول کے واسطے دے کر بچوں کو باہر نکلنے کا کہا اور پھر جنسی تلذذ سے بھرپور کچھ فقرے کسے۔ مجمع میں قہقہے پھوٹے اور انتظار کا وہ تنائو جو لوگ اپنی رگوں میں محسوس کر رہے تھے کچھ کم ہوا۔ لوگوں میں اب ناگن کے دیدار کے ساتھ ساتھ اس رگ کے بارے جاننے کا اشتیاق بھی پیدا ہو گیا تھا۔ چُنا پھر سے تقریر کرنے لگا۔" میرے بھائیو میں آپ کو سکندر اعظم کا قصہ سنا رہا تھا۔ تو ہوا یوں کہ رات کو بادشاہ نے بوڑھے کے سمجھائے ہوئے طریقے پر عمل کرتے ہوئے اپنی ملکہ سے خوب پیار کیا، اسے بےلباس کر دیا اور پھر دھیرے دھیرے اس کی رگ تک ہاتھ لے جا کر اس کومسل دیا۔ اسی وقت ہمارے بزرگ جو کھڑکی میں سے چھپ کر سارا معاملہ دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے کیمرے سے اس کی ران کی فوٹو کھینچ لی۔ رگ مسلتے ہی اس حسین عورت کی جون بدلنے لگی اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ناگن بن گئی۔ سکندر اعظم دکھ اور خیرت کے مارے بےہوش ہو گیا۔ ناگن جوں ہی کھڑکی کے راستے باہر نکلنے لگی۔ ہمارے بزرگوں نے اسے پر پانی سفید چادر ڈال کر پکڑ لیا۔ یوں یہ اچھا دارھی ناگن ہمارے خاندان کے قبضے میں آگئی"۔ مداری سانپوں کا تماشہ دکھا کر پیسہ کماتے ہیں۔ حرام ہے ہم نے کبھی اس کی کمائی کھائی ہو۔ ہم محنت کر کے آپ کی صحت کے لئے دوائی بناتے ہیں"۔ چُنے کی دوائی کی پڑیا، طاقت والے کیپسول اور سانڈے کے تیل والی شیشیاں دھڑا دھڑ بک رہی تھیں۔
ایک منچلے نے آواز لگائی۔ "سرکار وہ خفیہ رگ تو دکھائو"۔ چُنے نے فورا قریب دھری ایک بڑی سی کتاب کھولی اور اس میں فریم شدہ تصویروں میں سے ایک ڈھونڈ کر نکالی اور مجمع کو دکھانے لگا۔ "یہ دیکھئے سارے انسانی بدن کی رگیں"۔ اور پھر انگلی پھیر پھیر کر اہم حصے گنوانے لگا۔ سبھی حاضرین اشتیاق اور غور سے تصویر کو دیکھ رہے تھے۔ ران کی ایک رگ پر اس نے زور سے انگلی جمائی اور بولا" یہ رگ ،جنسیات کی شہ رگ ہے۔"
دوائی خرید لینے اور تصویر دیکھنے کے بعد ہر کوئی جلدی نکلنے کے چکروں میں تھا۔ ہر کوئی اس خیال سے سرشار آگے کو چل دیتا کہ اب میری بیماری جڑ سے کٹ گئی اور اتنی اہم بات بھی معلوم پڑ گئی۔ دس بیس منٹ میں مجمع چَھٹ گیا۔ چند ہی لوگ باقی بچ رہے۔ کچھ تو چُنے کے ساتھ کھسر پھسر کر کے اپنی مردانہ بیماریوں کے لئے رازدارانہ مشورے لے رہے تھے اور کچھ اشتیاق سے پٹاریوں میں موجود سانپوں کو دیکھ رہے تھے۔ ایک اسکولیا لڑکا چُنے کے پاس آیا اور بولا ۔ " استاد جی وہ شکل بدلنے والی ناگن تو دکھا دو"۔ چُنے نے ناگواری کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور ایک چھوٹے لڑکے کو اسے اسکولئے کو پٹاری کھول کر شیش ناگ دکھانے کو کہہ کر اپنے گاہکوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔
پٹاری کھلی اور اس میں سے پھن والا کوبرا سانپ شوں شون کرتا باہر نکلا۔ اسکولیا لڑکا قدرے غصے اور ناامیدی کے انداز میں چلایا۔ "استاد دو گھنٹے زلیل کرنے کے بعد دکھائی تو تصویر بھی بیالوجی والی اور سانپ بھی میرے اسکول کی لیبارٹری والا۔
 
تحریر شاندار اور جاندار ہے ۔۔۔
یہ سکندر اعظم کے دور میں کیمرے سے فوٹو بات اتری نہیں حلق سے ۔۔۔
کوئی بتلائے گا یہ کیمرہ کب ایجاد ہواتھا۔۔۔؟؟
 
80 کی دہائی کے آخر میں صدر راولپنڈی میں دو سوزوکیاں جی پی او چوک کے ساتھ مستقل سڑک کنارے کھڑی رہتی تھیں اور پورا دن گھنٹے گھنٹے کے وقفے سے ایسے مداریوں کے شو چلا کرتے تھے۔ جہاں پہلے منجن بیچنے والا دانتوں کے جملہ امراض پر ایک لیکچر دے رہا ہوتا تھا وہیں کچھ دیر بعد اسی سوزوکی پر کالے بچھو کی بنی کوئی دوا تیار ہورہی ہوتی تھی، سارا دن وہاں مجمع لگا رہتا تھا۔
یاز
 
Top