ایک انڈا وہ بھی گندا ۔۔۔۔۔ از س ن مخمور

loneliness4ever

محفلین

مخمور کی خماریاں
ایک انڈا وہ بھی گندا
از س ن مخمور



”انکل ! انڈے کیا حساب ہیں؟“

” منے انڈے ڈیڑھ سو روپے درجن ہیں “

ہم نے حیرت سے دوکاندارانکل کو دیکھا جو ہماری سماعت پر انڈوں کے نرخ اسکڈ میزائل کی صورت داغ کر اپنی دوکان میں دودھ اتروانے میں مصروف ہو گئے، ہم نے دودھیا قمقموں سے نہائی دوکان میں لگے آئینے پر نظر ڈالی تو یہ تو یقین ہو گیا کہ اب ہم منے نہیںرہے ہیں، بھلا چہرے پر کھیتی لئے کبھی کوئی منا ہو سکتا ہے ؟پھر انہوں نے ہم کو منا کیوں کہا؟؟ذہن نے فوراََ ہم سے ہی سوال کر لیا حتی کہ وہ باخوبی جانتا ہے کہ جواب چاہے نصابی دینا ہو یاغیر نصابی ہم کو آگے سے جواب دینے کی بری عادت سے اللہ واسطے کا بیر ہے اور ہم اس بری عادت سے کوسوں دور بھاگتے ہیں اوراس بری عادت کے مقابل ہماری استقامت ہی کا نتیجہ رہا کہ ہم عالمی ریکارڈ ہولڈر کے اعزاز کے حقدار ہوئے جس نے پانچویں کوپاس کر نے میں پورے پانچ سال لگائے حتی کہ اسوقت بھی ابتدائی جماعتوں میں ہم جیسے طا لبعلموں کو اضافی نمبر دے کر کامیاب قرار دینے کا سلسلہ ہر اسکول میں ہی جاری تھا مگراس کے باوجود ہر سال اسکول کی انتظامیہ ہمارے والدین سے معذرت کر لےتی ،آخر کوری کاپی پر بھلا کیسے اضافی نمبر دےکر پاس کیا جاتا؟اور یوں ہم پوری مستعدی اور مستقل مزاجی سے پانچویں سے پانچ سال تک چمٹے رہے مگر افسوس ہماری مستقل مزاجی کو بھی زمانے کی نظر لگ گئی اور ہم پھر کسی جماعت میں دو سال سے زیادہ عرصہ قیام نہ کر سکے اور قربان جائیںاپنے ذہن پر کہ یہ سب جاننے کے باوجود اس نے ہم سے ہی سوال کر لیا اور جب کوئی جواب نہیں بن پایا تو ہم نے اپنے ساتھ ہونے والی گھر والوں کی ناانصافی ہی کو مورد ِ الزام قرار دیا کہ یہ زمانہ ہم کو منا اس لئے کہتا ہے کہ ہم اب تلک کنوارے ہیں اور لوگ منا منا کہہ کر ہمارا مذاق اڑاتے ہیں،یقینا یہ ہی راز پوشیدہ ہے اس ”منا“کہنے کے پیچھے ۔یہ سوچ ذہن میںآتے ہی ہمارا موڈ خراب ہونے لگا کہ آخر گھر والوں کو ہماری شادی کی فکر کیوں نہیں ہے ہم نے ذہن میں آتی ان تما م سوچوں سے چھٹکارے کہ لئے سر کو زور سے جو جھٹکا تو خودہی لڑکھڑا گئے اور دوکاندار کے ملازم سے جاٹکرائے وہ تو خیر ہوئی کہ اس تصادم میں کوئی مالی نقصان نہیں ہوا ورنہ دوکان کا مالک ابا جی سے پچھلے ہفتے کی طرح اس ہفتے بھی ہماری شکایت لگا دیتا اور ابا جی بے بھاﺅ کی ہم کو سناتے ۔ شکر اسطرح کی صورتحال میں گھر والے ہم کو بڑا کہہ کر فقط آڑھے ہاتھوں ہی لیتے ہیں اور کہتے کہ اب تو تُو بڑا ہو گیا ہے اب تو یہ نالائقی مت کیا کر، اور ہم انکی اس عنایت پر صد شکر کرتے ہیں، کیونکہ شادی کی بات میں یہ ہی گھر والے کہتے ہیں بیٹا ابھی تو تو بچہ ہے تو شکر کر بچا ہوا ہے، ہمارے گھر والے بھی بڑے سیاسی ذہن کے مالک ہیں موقعہ کی مناسبت سے ہم کو کبھی بڑا اور کبھی چھوٹا بنا دیتے ہیں ، مگر ہم اس سیاست کو غنیمت سمجھتے ہیں کیونکہ اگر ابا جی محلے والوں کی شکایت پر بھی ہم کو بچہ کہتے تو ابا جی کا جوتا ہوتا اور ہم، آخر ابا کے جوتے اور امّاں کی جوتی دونوں کا ذائقہ ہم خوب سیر ہو کر چکھ چکے ہیں۔اور اب دل بلکل مائل نہیں ہوتا کہ یہ ذائقہ پھر سے چکھیں۔ چنانچہ ہم نے فورا جھک کر دکاندار کے ملازم سے معذرت کی اور پھر انڈوں کو دیکھنے لگے۔

”یہ سفید سفید انڈے کیا شے ہوتے ہیں ، یار ! سرما ابھی شروع ہوا نہیں کہ ان کی قیمت آسمان کی سیر کو نکل گئی۔“

ہم آپ ہی آپ بڑبڑانے لگے، آخر یہ انڈے اتنے مہنگے کیوں ہیں؟؟؟ مرغیاں تو وہ ہی کچرے میں سے دانہ چن چن کر کھاتی ہیںپھر ان انڈوں میں ایسے کیا سرخاب کے پر لگ گئے ہیں کہ انکی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ آخر ایسا کیوں ہے؟؟؟ ہمارے نامعقول ذہن نے پھر ہم سے ہی سوال داغ دیا، اور ہم نے بھی سوچ لیا کہ اس بار ہم شرمندہ نہیں ہونگے بلکہ سوالی کو لاجواب کر دینگے۔تھوڑا سوچا اس سے پہلے جواب دے پاتے ذہن نے خود ہی جواب عنایت فرما دیا، عجب بات ہے دوست بھلا انڈے کی اہمیت اور اس کی فضیلت سے کون واقف نہیں، بھائی انڈابہت ہی سود مند شے ہے کیونکہ یہ ہر جگہ باخوبی استعمال ہو جاتا ہے، بھوک لگے تو کھا لو، کو ئی اسٹیج پربُرا لگے تو اس کو یہ ہی انڈا مار دو ، اور اگرامتحان کا نتیجہ والد گرامی دریافت فرمائیں تو ایک عدد انڈے والا برگر انکی خدمت میں پیش کر دو ، اپنے سوال کا جواب وہ با خوبی سمجھ جائیں گے، یوں پردہ پوشی بھی رہتی ہے ، ہم انڈے کی افادیت اپنے ذہن سے سن کر بہت خوش ہوئے اور سوچنے لگے کہ جب ہی دادی جان ہمیں کہتی ہیں ایک انڈ اوہ بھی گندا،یقینا وہ انڈا تو ہمیں ہی کہتی ہیں آخر ہم انڈے ہی کی مانند خوب سودمند جو ٹھہرے مگر ۔۔۔۔ دادی ہم کو گنداکیوں کہتی ہیں؟ ارے ہاں وہ ہم کو بہت چاہتی جو ہیں، اس لئے نہیں چاہتیں کہ ہم کو نظر لگے ، وہ پیار میں ہم کو انڈا تو کہتی ہیں مگر ساتھ میں جسطرح چھوٹے بچوں کی پیشانی پر سرمے سے نظرکا ٹیکا لگایا جاتا ہے دادی ویسے ہی صبح شام انڈے کے ساتھ گندے کو بطور نظر کا ٹیکا استعمال کرتی ہیں۔ آخر ہم بڑے ہو گئے ہیں اچھا تھوڑی لگے گا کہ وہ ہماری پیشانی پر اب بھی سرمے سے نظر کا ٹیکا لگائیں ، بہت خوب دادی جان آپ ہم کو بہت چاہتی ہیں، آج ہم جان گئے کہ دادی جان ہم کو انڈاوہ بھی گندا کیوں کہتی ہیں، کتنی پیاری ہیں ، اور ان کے اس ہی پیار کی وجہ سے ہماری تینوں آپا ئیں ہم سے جلتی ہیں۔ ہم نے آپ ہی آپ تمام اسرار پر سے پردہ اٹھا دیا اور اپنی ذہانت پر مسرور ہوگئے ۔ ہماری خوشی اس سوچ کے ساتھ دوبالا ہوگئی کہ آج یہ بات تو طے ہے کہ اب تین میں سے دو آپائیں رہ جائیں گی، اپنی ایک عدد آپا جان سے پیچھاچھٹنے کے خیال سے ہم مسکرا دئیے، آخر ہمارے دشمنوں کی طاقت میں کمی واقع ہونے جا رہی ہے وہ بھی بڑے اہتمام سے، قصہ کچھ یوں ہے کہ چچا جان کے دوستوں میں سے ہیںوہ صاحب جو آپانسرین کے لئے اپنے بیٹے کا پیام لارہے ہیں ۔اور امّاں خاص چچا جان کے دوست کی فرمائش پرہی انڈوں کا حلوہ بنا رہی ہیں اس ہی سلسلے میں انھوں نے ہم کو دودھ لا نے کو بھیجا ، مگر اجلے اجلے انڈوں کی سفید رنگت نے ہم کو اپنی جانب کھینچ لیا اور ہم دوکاندار انکل سے انڈوں کے نرخ پوچھ بیٹھے۔ اور اب مصمم ارادہ بھی کر لیا کہ دودھ اتنی افادیت والا اور سود مند نہیں جتنے انڈے ہیں اور عقلمندی کا تقاضہ ہے کہ دودھ کے بجائے امّاں کے دئیے تمام روپوں کے انڈے خریدیں جائیں۔ چنانچہ شامت کے مارے اوراس بات سے مکمل بے خبرکہ ہماری اس حرکت پر ہم کو ابھی پھر دادی جان سے ”ایک انڈاوہ بھی گندا“ سننے کو ملے گا اور ابا کے جوتے اور اماں کی جوتی کا ذائقہ برسوں بعددوبارہ چکھنا پڑے گا اور چچا جان کا مولا بخش بھی ہماری اس عقلمندی پرہماری مزاج پرسی کر ے گا اور اپنی تین عدد آپاﺅں کی جھڑکیاں اور صلواتیں بھی اس بار ہمارے دماغ کی دھول خوب صفائی سے جھاڑ دینگی ،غرض ان تمام خوفناک اور اذیت ناک نتائج سے انجان ہم اپنے ارادے کو عملی جامہ پہناکر خوشی خوشی گھر کو روانہ ہو گئے۔

س ن مخمور
امرتنہائی
 

سلمان حمید

محفلین
بہت خوب۔ مزاح بھی اچھا لکھتے ہیں آپ۔ بہت سی داد قبول کریں :)
ویسے اگر اس کو ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس کو گندا انڈہ کیوں کہا جاتا ہے توپھر اس کو منا کہنا حق بجانب ہے :p
 
Top