مغزل
محفلین
غزل
خون ہی خون ہے برسات کے آئینے میں
کوئی صورت نہیں حالات کے آئینے میں
میری تصویر سے ملتی نہیں میری صورت
میں نے دیکھا ہے مکافات کے آئینے میں
ایک ہاں ہے مرے انکار کے لہجے میں نہاں
ایک انکار ہے اثبات کے آئینے میں
عمرِ رفتہ ہُوئی آزاد، مگر کیا کیجئے
روح محصور ہے خدشات کے آئینے میں
ایک تصویر خدوخال کی خواہاں ہے مگر
ایک بھی عکس ہیں صدمات کے آئینے میں
کنجِ لب بستہ کی صورت نہ رہیں کیوں محمود
حرف ِ حق کوئی نہیں ذات کے آئینے میں
آپ کی آراء اور بے لاگ تبصروں کا بے چینی سے منتظر
(الف عین اور وارث صاحب کی خصوصی توجہ اور تنقیدی نظر کا طالب )
ارادت کیش
م۔م۔مغل
خون ہی خون ہے برسات کے آئینے میں
کوئی صورت نہیں حالات کے آئینے میں
میری تصویر سے ملتی نہیں میری صورت
میں نے دیکھا ہے مکافات کے آئینے میں
ایک ہاں ہے مرے انکار کے لہجے میں نہاں
ایک انکار ہے اثبات کے آئینے میں
عمرِ رفتہ ہُوئی آزاد، مگر کیا کیجئے
روح محصور ہے خدشات کے آئینے میں
ایک تصویر خدوخال کی خواہاں ہے مگر
ایک بھی عکس ہیں صدمات کے آئینے میں
کنجِ لب بستہ کی صورت نہ رہیں کیوں محمود
حرف ِ حق کوئی نہیں ذات کے آئینے میں
آپ کی آراء اور بے لاگ تبصروں کا بے چینی سے منتظر
(الف عین اور وارث صاحب کی خصوصی توجہ اور تنقیدی نظر کا طالب )
ارادت کیش
م۔م۔مغل