مقدس
لائبریرین
میں بہت دیر سے سر جھکائے اپنے کام میں مصروف تھی۔ میرا سارا دھیان صرف اور صرف اپنے سامنے رکھے کاغذوں پہ تھا کہ اچانک ایک آواز نے مجھے ڈسٹرب کیا۔۔ ٹپ ٹپ ٹپ۔۔ میں نے بار ہا اپنا سر جھٹک کر واپس اپنے کام میں مصروف ہونے کی ناکام کوشش کی ۔۔۔۔
ٹپ ٹپ ٹپ۔۔۔۔ یہ کیسی آواز ہے؟ کہاں سے آ رہی ہے؟
میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ یہ آواز تو کہیں پاس سے ہی آ رہی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھی کہ باہر جھانک کر دیکھوں ۔
ارے یہ آواز تو کھڑکی پر پڑنے والے بارش کی بوندوں کی ہے۔ میں نے جھٹ سے کھڑکی کھولی اور اپنی ہتھیلیوں کو جوڑ کر بارش کی بوندوں کو جمع کرنے لگی۔ میری یہ بےساختہ حرکت مجھے بہت سال پیچھے لے گئی۔
سردیوں کا موسم، بارش زوروں پر اور ۔۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی بچی اپنے بابا کا ہاتھ تھامے بارش کی بوندوں کو جمع کرنے کی ضد کر رہی ہے۔ بابا ہنستے جا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹا! بارش کو کبھی کوئی مٹھی میں قید کر سکتا ہے کیا؟ پانی نے تو بہہ جانا ہے۔ اور میرا بچہ بھیگ کر بیمار ہو جائے گا، کوئی اور کھیل کھیلتے ہیں۔
لیکن وہ بچی آنکھوں میں آنسوؤں لیے ایک ہی ضد کیے جا رہی ہے کہ اس نے بارش کے ان قطروں کو پکڑنا ہے۔
اور آخرکار اس کے بابا اس کی اس ضد کے آگے ہار مان لیتے ہیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گارڈن میں لے جاتے ہیں، جہاں وہ اپنے چھوٹے سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر پانی جمع کے اپنے بابا پر اچھال دیتی ہے، ہر بار ایسا کرتے ہوئے اس کی ہنسی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
بابا اور میں، بارش کو کتنے سال ایسے ہی انجوائے کرتے رہے، وقت گزرتا رہا اور ۔۔۔
کیا وقت اتنا جلدی بیت جاتا ہے۔
آج وہی بارش ہے، اُسی کمرے کی وہی کھڑکی ہے، کھڑکی پر گرنے والی بارش کی بوندوں کی آواز بھی ویسی ہی ہے، میں بھی ہوں
پر ایک کمی ہے۔۔۔
بابا! آج آپ نہیں ہیں۔۔
ٹپ ٹپ ٹپ۔۔۔۔ یہ کیسی آواز ہے؟ کہاں سے آ رہی ہے؟
میں نے سر اٹھا کر دیکھا۔۔ یہ آواز تو کہیں پاس سے ہی آ رہی تھی۔ میں اٹھ کر کھڑکی کی طرف بڑھی کہ باہر جھانک کر دیکھوں ۔
ارے یہ آواز تو کھڑکی پر پڑنے والے بارش کی بوندوں کی ہے۔ میں نے جھٹ سے کھڑکی کھولی اور اپنی ہتھیلیوں کو جوڑ کر بارش کی بوندوں کو جمع کرنے لگی۔ میری یہ بےساختہ حرکت مجھے بہت سال پیچھے لے گئی۔
سردیوں کا موسم، بارش زوروں پر اور ۔۔۔۔۔ ایک چھوٹی سی بچی اپنے بابا کا ہاتھ تھامے بارش کی بوندوں کو جمع کرنے کی ضد کر رہی ہے۔ بابا ہنستے جا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹا! بارش کو کبھی کوئی مٹھی میں قید کر سکتا ہے کیا؟ پانی نے تو بہہ جانا ہے۔ اور میرا بچہ بھیگ کر بیمار ہو جائے گا، کوئی اور کھیل کھیلتے ہیں۔
لیکن وہ بچی آنکھوں میں آنسوؤں لیے ایک ہی ضد کیے جا رہی ہے کہ اس نے بارش کے ان قطروں کو پکڑنا ہے۔
اور آخرکار اس کے بابا اس کی اس ضد کے آگے ہار مان لیتے ہیں اور اس کا ہاتھ پکڑ کر گارڈن میں لے جاتے ہیں، جہاں وہ اپنے چھوٹے سے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کو جوڑ کر پانی جمع کے اپنے بابا پر اچھال دیتی ہے، ہر بار ایسا کرتے ہوئے اس کی ہنسی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
بابا اور میں، بارش کو کتنے سال ایسے ہی انجوائے کرتے رہے، وقت گزرتا رہا اور ۔۔۔
کیا وقت اتنا جلدی بیت جاتا ہے۔
آج وہی بارش ہے، اُسی کمرے کی وہی کھڑکی ہے، کھڑکی پر گرنے والی بارش کی بوندوں کی آواز بھی ویسی ہی ہے، میں بھی ہوں
پر ایک کمی ہے۔۔۔
بابا! آج آپ نہیں ہیں۔۔