بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر: 12 - پہلی ملاقات
(اب سے پہلے کی اقساط کے لئے میرے عوامی بک مارکس چیک کیجئے)
(یا یہاں تمام اقساط کی فہرست تعارف کے ساتھ ملاحظہ کیجئے)
سپاہی بھاگتا یوا آیا اور آتے ہی ویلنٹائن کے قدموں میں گر کر کہنے لگا۔
"مجھے معاف کردو میں آپ کا مجرم ہوں اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو میں آپ کو آئندہ، ایک نہیں دو ٹکڑوں میں ملوں گا"۔ سپاہی کے جسم میں خوف سے کپکپاہٹ اورلہجے میں منت و سماجت تھی۔
"کیا مطلب؟ کیا ہوا؟ جلدی بتاؤ!" ویلنٹائن نے جلدی جلدی پوچھا، تاکہ تاکہ جلدی جواب مل سکے کیونکہ نسوانی آواز والی کی آمد کسی بھی لمحے متوقع تھی۔
سپاہی نے جلدی جلدی ایک ہی سانس میں تفصیل بتانا شروع کی ۔ ۔ ۔ ۔
"جی آپ کے لمبے کلہاڑے، کھلے ڈلے کپڑوں، اونچی پگڑی اور بڑی بڑی مونچھوں والے دوست نے مجھے دھمکی دی ہے کہ آپ کو پریشان نہ کروں ، نہیں تو مجھے شدید جسمانی نقصان پہنچائے گا جس سے مجھے ذہنی اذیت بونس میں مل جائے گی اور میری حالیہ زندگی تباہ اور مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ میری خفیہ محبوبہ مزید قیمتی تحفے نہ ملنے پرمیرے محلے میں آکر شور مچائے گی اور میری بیوی کو سب بتا دے گی میری بیوی میرا برا حال دیکھ کر مجھے چھوڑ کر میرے کمینے رقیب سے شادی کر لے گی ۔ محلے کی بوڑھیاں مجھے بد دعائیں دیں گی، رشتے دار مجھے چھوڑ دیں گے - - -
"اؤے بس! - بس کرو یار تم نے تو مستقبل کا حال بھی بتانا شروع کر دیا" ویلنٹائن بھی اتنا خوفناک حال اور مستقبل سن کر گھبرا سا گیا تھا۔
"معاف کیا معاف کیا تم فکر نہ کرو" ویلنٹائن نے تسلی دی
"ٹھیک ہے بہت شکریہ ، مجھے آپ اپنا غلام سمجھیں میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا" سپاہی خوش ہو کر بولا
"غلام کیوں یار تم میرے بھائی ہو" ویلنٹائن نے شفقت سے کہا لیکن نظریں ادھر ادھر گھوم کر کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
"یار جن! وہ لڑکی تو معصوم اور نرم و نازک سی ہوگی، میری کسی بات سے اس کا نازک سا دل ٹوٹ نہ جائے، کہیں وہ گھبرا نہ جائے، پریشان نہ ہوجائے ، مجھے دیکھ کر شرما کر بھاگ نہ جائے میں کیسے اس سے بات کروں کہ اس معصوم سی کلی کو کوئی ضرور نہ پہنچے؟" ویلنٹائن نے فکر مند ہوتے ہوئے جن سے مشورہ کیا
"آپ سے کس نے کہا کہ وہ، معصوم، نازک سی ، شرمیلی سی کلی ٹائپ کی ہے، آپ نے تو بتایا تھا کہ آپ نے اسے ایک ہی بار دیکھا ہے؟" جن نے استفسار کیا
"میرا دل کہتا ہے کہ وہ ایسی ہی ہوگی" ویلنٹائن نے آنکھیں بند کر کے مسکرا کر یوں جواب دیا جیسے تصور میں اسے دیکھ رہا ہو۔
"اؤئے پادری! تو تم میرے عشق میں جیل کاٹ رہے ہو" ایک شوخ سی نسوانی آواز سن کر ویلنٹائن نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔
"جج جی!!!" ویلنٹائن کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا
"کیا ہوا، گھبرا کیوں گئے؟" نو آموز لڑکی نے حیرت سے پوچھا
"نن نہیں تو ، بس ایسے ہی" ویلنٹائن کی بوکھلاہٹ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
جن اپنے آقا کی حالت دیکھ کربڑبڑایا "اسی لئے تو پوچھا تھا کہ کس نے کہا کہ وہ معصوم، نازک سی ، شرمیلی سی کلی ٹائپ کی ہے"
"ارے پیار کیا تو ڈرنا کیا!! " لڑکی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
"تم نے کوئی چوری کی ہے کیا؟" لڑکی نے مزید حوصلہ دیا
"دیکھنا ایک دن میرے ان مکالموں کو دنیا یاد کیا کرے گی" لڑکی کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا
"جی بالکل ان مکالموں پر گانے بن چکے ہیں" مولا جٹ جو وہاں پہنچ چکا تھا اس نے اپنی جنرل نالج کا اظہار کیا
لڑکی نے ایک نظر مولا جٹ پر ڈالی اور پھر ویلنٹائن کی طرف متوجہ ہوئی۔
"اچھا ! پادری یہ تو بتاؤ تم میرے لئے کیا قربانی دے سکتے ہو" لڑکی سیدھا سیدھا امتحانی سوال داغ دیا
"ہیں جی" ویلنٹائن کے منہ سے اب بھی صرف اتنا ہی نکلا
"اچھا پیار کرنے کا پتہ ہے اتنا نہیں پتا کہ محبت میں قربانی بھی دینی پڑتی ہے؟ اچھا بتاؤ میرے لئے کیا قربانی دے سکتے ہو" لڑکی تو امتحان لینے کے پورے موڈ میں آگئی
"میں آپ کے لئے اپنا بھائی قربان کر سکتا ہوں، بالکل ابھی ابھی تازہ تازہ بھائی ملا ہے، آپ چاہیں تو ابھی اسی وقت میری نظروں کے سامنے اس کی قربانی کر دیں" ویلنٹائن نے سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھرپور پیشکش کر دی۔ اور سپاہی نے پہلے حیرت سے ویلنٹائن اور پھر بے بسی سے مولا جٹ کو دیکھا۔ مولا جٹ نے معنی خیز نظروں سے سپاہی کو دیکھ کر سر کو ہلکا سے گھمایا
"بھلا بھائی سے بڑی قربانی کیا ہوگی" ویلنٹائن نے اپنی پیشکش کی قدروقیمت بتائی
"کیا" لڑکی اس دفعہ شوخی بھول کر حیرت سے بولی
(اب سے پہلے کی اقساط کے لئے میرے عوامی بک مارکس چیک کیجئے)
(یا یہاں تمام اقساط کی فہرست تعارف کے ساتھ ملاحظہ کیجئے)
سپاہی بھاگتا یوا آیا اور آتے ہی ویلنٹائن کے قدموں میں گر کر کہنے لگا۔
"مجھے معاف کردو میں آپ کا مجرم ہوں اگر آپ نے مجھے معاف نہ کیا تو میں آپ کو آئندہ، ایک نہیں دو ٹکڑوں میں ملوں گا"۔ سپاہی کے جسم میں خوف سے کپکپاہٹ اورلہجے میں منت و سماجت تھی۔
"کیا مطلب؟ کیا ہوا؟ جلدی بتاؤ!" ویلنٹائن نے جلدی جلدی پوچھا، تاکہ تاکہ جلدی جواب مل سکے کیونکہ نسوانی آواز والی کی آمد کسی بھی لمحے متوقع تھی۔
سپاہی نے جلدی جلدی ایک ہی سانس میں تفصیل بتانا شروع کی ۔ ۔ ۔ ۔
"جی آپ کے لمبے کلہاڑے، کھلے ڈلے کپڑوں، اونچی پگڑی اور بڑی بڑی مونچھوں والے دوست نے مجھے دھمکی دی ہے کہ آپ کو پریشان نہ کروں ، نہیں تو مجھے شدید جسمانی نقصان پہنچائے گا جس سے مجھے ذہنی اذیت بونس میں مل جائے گی اور میری حالیہ زندگی تباہ اور مستقبل تاریک ہوجائے گا۔ میری خفیہ محبوبہ مزید قیمتی تحفے نہ ملنے پرمیرے محلے میں آکر شور مچائے گی اور میری بیوی کو سب بتا دے گی میری بیوی میرا برا حال دیکھ کر مجھے چھوڑ کر میرے کمینے رقیب سے شادی کر لے گی ۔ محلے کی بوڑھیاں مجھے بد دعائیں دیں گی، رشتے دار مجھے چھوڑ دیں گے - - -
"اؤے بس! - بس کرو یار تم نے تو مستقبل کا حال بھی بتانا شروع کر دیا" ویلنٹائن بھی اتنا خوفناک حال اور مستقبل سن کر گھبرا سا گیا تھا۔
"معاف کیا معاف کیا تم فکر نہ کرو" ویلنٹائن نے تسلی دی
"ٹھیک ہے بہت شکریہ ، مجھے آپ اپنا غلام سمجھیں میں آپ کے لئے کچھ بھی کروں گا" سپاہی خوش ہو کر بولا
"غلام کیوں یار تم میرے بھائی ہو" ویلنٹائن نے شفقت سے کہا لیکن نظریں ادھر ادھر گھوم کر کسی کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
"یار جن! وہ لڑکی تو معصوم اور نرم و نازک سی ہوگی، میری کسی بات سے اس کا نازک سا دل ٹوٹ نہ جائے، کہیں وہ گھبرا نہ جائے، پریشان نہ ہوجائے ، مجھے دیکھ کر شرما کر بھاگ نہ جائے میں کیسے اس سے بات کروں کہ اس معصوم سی کلی کو کوئی ضرور نہ پہنچے؟" ویلنٹائن نے فکر مند ہوتے ہوئے جن سے مشورہ کیا
"آپ سے کس نے کہا کہ وہ، معصوم، نازک سی ، شرمیلی سی کلی ٹائپ کی ہے، آپ نے تو بتایا تھا کہ آپ نے اسے ایک ہی بار دیکھا ہے؟" جن نے استفسار کیا
"میرا دل کہتا ہے کہ وہ ایسی ہی ہوگی" ویلنٹائن نے آنکھیں بند کر کے مسکرا کر یوں جواب دیا جیسے تصور میں اسے دیکھ رہا ہو۔
"اؤئے پادری! تو تم میرے عشق میں جیل کاٹ رہے ہو" ایک شوخ سی نسوانی آواز سن کر ویلنٹائن نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔
"جج جی!!!" ویلنٹائن کے منہ سے صرف اتنا ہی نکلا
"کیا ہوا، گھبرا کیوں گئے؟" نو آموز لڑکی نے حیرت سے پوچھا
"نن نہیں تو ، بس ایسے ہی" ویلنٹائن کی بوکھلاہٹ ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔
جن اپنے آقا کی حالت دیکھ کربڑبڑایا "اسی لئے تو پوچھا تھا کہ کس نے کہا کہ وہ معصوم، نازک سی ، شرمیلی سی کلی ٹائپ کی ہے"
"ارے پیار کیا تو ڈرنا کیا!! " لڑکی نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا
"تم نے کوئی چوری کی ہے کیا؟" لڑکی نے مزید حوصلہ دیا
"دیکھنا ایک دن میرے ان مکالموں کو دنیا یاد کیا کرے گی" لڑکی کے لہجے میں بلا کا اعتماد تھا
"جی بالکل ان مکالموں پر گانے بن چکے ہیں" مولا جٹ جو وہاں پہنچ چکا تھا اس نے اپنی جنرل نالج کا اظہار کیا
لڑکی نے ایک نظر مولا جٹ پر ڈالی اور پھر ویلنٹائن کی طرف متوجہ ہوئی۔
"اچھا ! پادری یہ تو بتاؤ تم میرے لئے کیا قربانی دے سکتے ہو" لڑکی سیدھا سیدھا امتحانی سوال داغ دیا
"ہیں جی" ویلنٹائن کے منہ سے اب بھی صرف اتنا ہی نکلا
"اچھا پیار کرنے کا پتہ ہے اتنا نہیں پتا کہ محبت میں قربانی بھی دینی پڑتی ہے؟ اچھا بتاؤ میرے لئے کیا قربانی دے سکتے ہو" لڑکی تو امتحان لینے کے پورے موڈ میں آگئی
"میں آپ کے لئے اپنا بھائی قربان کر سکتا ہوں، بالکل ابھی ابھی تازہ تازہ بھائی ملا ہے، آپ چاہیں تو ابھی اسی وقت میری نظروں کے سامنے اس کی قربانی کر دیں" ویلنٹائن نے سپاہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بھرپور پیشکش کر دی۔ اور سپاہی نے پہلے حیرت سے ویلنٹائن اور پھر بے بسی سے مولا جٹ کو دیکھا۔ مولا جٹ نے معنی خیز نظروں سے سپاہی کو دیکھ کر سر کو ہلکا سے گھمایا
"بھلا بھائی سے بڑی قربانی کیا ہوگی" ویلنٹائن نے اپنی پیشکش کی قدروقیمت بتائی
"کیا" لڑکی اس دفعہ شوخی بھول کر حیرت سے بولی
آخری تدوین: