بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 1 برے وقت کا آغاز
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 2 جولیا کی آمد
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 3 علی عمران
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 4 ہیر
قسط نمبر 5 لاشعور کی سیر
گھنٹی ہیر کے پراندے کے ساتھ بندھی ہوئی جھول رہی تھی۔ ویلنٹائن اس گھنٹی پر نظریں جمائے ہپناٹزم کے زیر اثر سورہا تھا۔
" تم سو رہے ہو ویلنٹائن ! " ہیر گہری آواز میں کہ رہی تھی۔
"ہاں میں سو رہا ہوں" ویلنٹائن نے نیند سے بھری آواز میں جواب دیا۔
"اپنے اندر جھانکو اور مجھے بتاو تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟" ہیر نے ہدایت دی
"میں اپنے اندر جھانک رہا ہوں۔ مجھے کھیت نظر آرہے ہیں ۔ اور اونچے اونچے درخت ہیں۔ کچھ دور مکانات ہیں۔ اور وہاں کچھ مویشی بندھے ہیں" ویلنٹائن بولنے لگا۔
"یہ کہاں پہنچ گیا ہے؟ شاید بچپن کسی گاؤں میں گزارا ہوگا" ہیر بڑبڑائی۔
"تم ان مکانات کی طرف جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے" ہیر نے ہدایت دی
"میں مکانات کی طرف جارہا ہوں۔ ۔ ۔ لیکن وہ بہت دور ہیں میں کہیں تھک نا جاؤں ؟ "
"تم تیز تیز چلو نہیں تھکو گے" ہیر نے حوصلہ بڑھایا
"میں تیز چل رہا ہوں لیکن ابھی بھی دور ہیں"
"اوہو۔۔ بھاگنا شروع کر دو نا" ہیر جھلا کر بولی
"میں بھاگ نہیں سکتا ۔ میرا جوتا ٹوٹا ہوا ہے" اس دفعہ ویلنٹائن کے لہجے میں بے چارگی تھی۔
"ٹوٹا ہوا جوتا اتار کر پھینک دو۔ "میرے باپ" اور ایسے ہی چلو" ہیر سٹپٹا گئی
"میں ننگے پاؤں چل رہا ہوں میری بیٹی" ویلنٹائن شفقت بھرے لہجے میں بولا
"ارے یہ کیا " ویلنٹائن کے لہجے میں حیرت تھی
"کیا دیکھا تم نے ؟" ہیر نے پوچھا
"کچھ بچھڑے رو رہے ہیں" ویلنٹائن نے بتایا
"کیوں" ؟ ہیر نے پوچھا؟
"وہ کہ رہے ہیں کہ ہم بھوکے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مالک کی بیٹی ہمارے حصے کا دودھ بھی پی جاتی ہے" ویلنٹائن نے بتایا
"آئے ، ہائے۔ کتنی ظالم ہے وہ لڑکی۔ کیا نام ہے اسکا" ہیر بولی
" بچھڑے کہ رہے ہیں کہ وہ دودھ کی شوقین تمہاری بیٹی ہیر ہے" ویلنٹائن نے اطلاع دی۔
"کیا؟" ہیر چلائی
چیخ کی آوز سن کر ویلنٹائن گھبرا کر ہپناٹزم کی نیند سے بیدار ہوگیا۔
"کیا ہوا ہیر" اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا
ہیر نے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا اور بولی۔
" کچھ نہیں، تمہارے سر پر میری دودھ نوشی اتنی سوار ہوگئی تھی کہ تم میرے ہی گاؤں میں پہنچ کر میرے گھرکی جاسوسی کررہے تھے۔ ویسے ایسے کسی کے گھر میں جھانکنا نہیں چاہئے۔ بری بات ہوتی ہے۔"
"اور میں نے غصے میں تمہیں "میرے باپ" کہ دیا تو تم خود کو میرا باپ سمجھنے لگے۔ بس ایسے ہی گھبرا کر میری چیخ نکل گئی۔
اب ہیر پہلے کی طرح مسکرا رہی تھی۔
"کوئی بات نہیں ہم پھر سے کوشش کرتے ہیں۔"
ہیر نے ایک دفعہ پھر اپنی رنگین پراندے والی چٹیا آگے کی اور بھینس کی گھنٹی کو پراندے سے باندھ کر ہلانے لگی۔
ویلنٹائن نے اپنی نظریں گھنٹی پر گاڑھ لیں اور ہیر کی ہدایت کے مطابق سونے لگا۔
"اپنے اندر گہرائی میں جھانک کر بتاؤ کہ تم کیا دیکھ رہے ہو" ؟ ہیر نے ہدایت نامہ پھر سے کھول لیا تھا۔
"گدھوں کی شکلوں والے سپاہی بھاگ رہے ہیں۔۔۔۔ "
"ان سے آگے جیلر کا بیٹا کتے کی شکل میں بھاگ رہا ہے" ویلنٹائن نے منظر بتانا شروع کیا۔
"گدھے سپاہی ، کتے جیلر کے بیٹے کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں" ہیر نے پوچھا
"نہیں گدھے سپاہی ، اسکے پیچھے نہیں بھاگ رہے۔ ان سب کے آگے میں بھاگ رہا ہوں، یہ سب کتے گدھے مجھے پکڑنا چاہتے ہیں" ویلنٹائن نے وضاحت کی۔
" تمہارا جوتا ٹوٹا ہوا نہیں ہے کیا" ہیر نے جوتے کا معاملہ پہلے ہی واضح کرنے کے لئے بروقت پوچھ لیا۔
"وہ تو میں نے پہنا ہی نہیں ہوا" ویلنٹائن نے جوتے کا مسئلہ حل کر دیا
"اچھا کیا" ، "اب کیا نظر آرہا ہے؟ "ہیرنے پوچھا
"میں ایک باغ کے دروازے پر پہنچ گیا ہوں، وہاں سے بہت اچھی خوشبو آرہی ہے"
"کس چیز کی خوشبو" ؟ ہیر نے تجسس سے پوچھا
"یہ خوشبو کبھی سونگھی نہیں پہلے، لیکن بہت دلکش لگ رہی ہے۔ بہت اچھی لگ رہی ہے" ویلنٹائن نے بتایا۔
"جلدی سے اندر جاؤ کہیں تمہارے دشمن یہاں آ نا جائیں" ہیر نے تنبیہ کی
"نہیں وہ دشمن تو اس باغ سے بہت دور ہی رہ گئے تھے"
"لیکن مجھ سے اندر نہیں جایا جا رہا" ویلنٹائن نے بتایا۔
"لیکن کیوں" ؟
"میری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ لیکن اندر جانے کو جی بہت چاہ رہا۔ بہت کشش ہے یہاں" ویلنٹائن نے تفصیلاً بتایا۔
"اوہو کوشش تو کرو اندر جانے کی" ہیر نے زور دیا
ویلنٹائن کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
"مجھے شرم آرہی ہے" وہ لجاتے ہوئے بولا۔
"کیا دیکھ کر شرما رہے ہو" ؟ ہیر نے متجسس لہجے سے پوچھا
"کچھ دیکھ کر نہیں اس باغ میں جانے سے شرما رہا ہوں" اس نے اطلاع دی۔
"کبھی تمہاری ٹانگیں کانپتی ہیں، کبھی تمہارا چہرا شرم سے سرخ ہوجاتا ہے،میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے"۔ ہیر نے سر پکڑ لیا۔
"یہ مردوں کی باتیں ہیں تم نہیں سمجھو گی ہیر، یہ گلشن الفت کے دروازے پر کھڑا ہے" ایک نئی آواز ویلنٹائن کے خواب میں گونجی تو ہیر نے مڑ کر دیکھا اور کہا
"رانجھے تم یہاں"
"ویلنٹائن نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو وہاں "گلشن الفت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 2 جولیا کی آمد
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 3 علی عمران
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 4 ہیر
قسط نمبر 5 لاشعور کی سیر
گھنٹی ہیر کے پراندے کے ساتھ بندھی ہوئی جھول رہی تھی۔ ویلنٹائن اس گھنٹی پر نظریں جمائے ہپناٹزم کے زیر اثر سورہا تھا۔
" تم سو رہے ہو ویلنٹائن ! " ہیر گہری آواز میں کہ رہی تھی۔
"ہاں میں سو رہا ہوں" ویلنٹائن نے نیند سے بھری آواز میں جواب دیا۔
"اپنے اندر جھانکو اور مجھے بتاو تمہیں کیا نظر آرہا ہے؟" ہیر نے ہدایت دی
"میں اپنے اندر جھانک رہا ہوں۔ مجھے کھیت نظر آرہے ہیں ۔ اور اونچے اونچے درخت ہیں۔ کچھ دور مکانات ہیں۔ اور وہاں کچھ مویشی بندھے ہیں" ویلنٹائن بولنے لگا۔
"یہ کہاں پہنچ گیا ہے؟ شاید بچپن کسی گاؤں میں گزارا ہوگا" ہیر بڑبڑائی۔
"تم ان مکانات کی طرف جاؤ اور دیکھو وہاں کیا ہے" ہیر نے ہدایت دی
"میں مکانات کی طرف جارہا ہوں۔ ۔ ۔ لیکن وہ بہت دور ہیں میں کہیں تھک نا جاؤں ؟ "
"تم تیز تیز چلو نہیں تھکو گے" ہیر نے حوصلہ بڑھایا
"میں تیز چل رہا ہوں لیکن ابھی بھی دور ہیں"
"اوہو۔۔ بھاگنا شروع کر دو نا" ہیر جھلا کر بولی
"میں بھاگ نہیں سکتا ۔ میرا جوتا ٹوٹا ہوا ہے" اس دفعہ ویلنٹائن کے لہجے میں بے چارگی تھی۔
"ٹوٹا ہوا جوتا اتار کر پھینک دو۔ "میرے باپ" اور ایسے ہی چلو" ہیر سٹپٹا گئی
"میں ننگے پاؤں چل رہا ہوں میری بیٹی" ویلنٹائن شفقت بھرے لہجے میں بولا
"ارے یہ کیا " ویلنٹائن کے لہجے میں حیرت تھی
"کیا دیکھا تم نے ؟" ہیر نے پوچھا
"کچھ بچھڑے رو رہے ہیں" ویلنٹائن نے بتایا
"کیوں" ؟ ہیر نے پوچھا؟
"وہ کہ رہے ہیں کہ ہم بھوکے رہتے ہیں۔ کیونکہ ہمارے مالک کی بیٹی ہمارے حصے کا دودھ بھی پی جاتی ہے" ویلنٹائن نے بتایا
"آئے ، ہائے۔ کتنی ظالم ہے وہ لڑکی۔ کیا نام ہے اسکا" ہیر بولی
" بچھڑے کہ رہے ہیں کہ وہ دودھ کی شوقین تمہاری بیٹی ہیر ہے" ویلنٹائن نے اطلاع دی۔
"کیا؟" ہیر چلائی
چیخ کی آوز سن کر ویلنٹائن گھبرا کر ہپناٹزم کی نیند سے بیدار ہوگیا۔
"کیا ہوا ہیر" اس نے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا
ہیر نے اپنے سر کو ایک جھٹکا دیا اور بولی۔
" کچھ نہیں، تمہارے سر پر میری دودھ نوشی اتنی سوار ہوگئی تھی کہ تم میرے ہی گاؤں میں پہنچ کر میرے گھرکی جاسوسی کررہے تھے۔ ویسے ایسے کسی کے گھر میں جھانکنا نہیں چاہئے۔ بری بات ہوتی ہے۔"
"اور میں نے غصے میں تمہیں "میرے باپ" کہ دیا تو تم خود کو میرا باپ سمجھنے لگے۔ بس ایسے ہی گھبرا کر میری چیخ نکل گئی۔
اب ہیر پہلے کی طرح مسکرا رہی تھی۔
"کوئی بات نہیں ہم پھر سے کوشش کرتے ہیں۔"
ہیر نے ایک دفعہ پھر اپنی رنگین پراندے والی چٹیا آگے کی اور بھینس کی گھنٹی کو پراندے سے باندھ کر ہلانے لگی۔
ویلنٹائن نے اپنی نظریں گھنٹی پر گاڑھ لیں اور ہیر کی ہدایت کے مطابق سونے لگا۔
"اپنے اندر گہرائی میں جھانک کر بتاؤ کہ تم کیا دیکھ رہے ہو" ؟ ہیر نے ہدایت نامہ پھر سے کھول لیا تھا۔
"گدھوں کی شکلوں والے سپاہی بھاگ رہے ہیں۔۔۔۔ "
"ان سے آگے جیلر کا بیٹا کتے کی شکل میں بھاگ رہا ہے" ویلنٹائن نے منظر بتانا شروع کیا۔
"گدھے سپاہی ، کتے جیلر کے بیٹے کے پیچھے کیوں بھاگ رہے ہیں" ہیر نے پوچھا
"نہیں گدھے سپاہی ، اسکے پیچھے نہیں بھاگ رہے۔ ان سب کے آگے میں بھاگ رہا ہوں، یہ سب کتے گدھے مجھے پکڑنا چاہتے ہیں" ویلنٹائن نے وضاحت کی۔
" تمہارا جوتا ٹوٹا ہوا نہیں ہے کیا" ہیر نے جوتے کا معاملہ پہلے ہی واضح کرنے کے لئے بروقت پوچھ لیا۔
"وہ تو میں نے پہنا ہی نہیں ہوا" ویلنٹائن نے جوتے کا مسئلہ حل کر دیا
"اچھا کیا" ، "اب کیا نظر آرہا ہے؟ "ہیرنے پوچھا
"میں ایک باغ کے دروازے پر پہنچ گیا ہوں، وہاں سے بہت اچھی خوشبو آرہی ہے"
"کس چیز کی خوشبو" ؟ ہیر نے تجسس سے پوچھا
"یہ خوشبو کبھی سونگھی نہیں پہلے، لیکن بہت دلکش لگ رہی ہے۔ بہت اچھی لگ رہی ہے" ویلنٹائن نے بتایا۔
"جلدی سے اندر جاؤ کہیں تمہارے دشمن یہاں آ نا جائیں" ہیر نے تنبیہ کی
"نہیں وہ دشمن تو اس باغ سے بہت دور ہی رہ گئے تھے"
"لیکن مجھ سے اندر نہیں جایا جا رہا" ویلنٹائن نے بتایا۔
"لیکن کیوں" ؟
"میری ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔ لیکن اندر جانے کو جی بہت چاہ رہا۔ بہت کشش ہے یہاں" ویلنٹائن نے تفصیلاً بتایا۔
"اوہو کوشش تو کرو اندر جانے کی" ہیر نے زور دیا
ویلنٹائن کا چہرہ سرخ ہوگیا۔
"مجھے شرم آرہی ہے" وہ لجاتے ہوئے بولا۔
"کیا دیکھ کر شرما رہے ہو" ؟ ہیر نے متجسس لہجے سے پوچھا
"کچھ دیکھ کر نہیں اس باغ میں جانے سے شرما رہا ہوں" اس نے اطلاع دی۔
"کبھی تمہاری ٹانگیں کانپتی ہیں، کبھی تمہارا چہرا شرم سے سرخ ہوجاتا ہے،میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، آخر تمہارے ساتھ مسئلہ کیا ہے"۔ ہیر نے سر پکڑ لیا۔
"یہ مردوں کی باتیں ہیں تم نہیں سمجھو گی ہیر، یہ گلشن الفت کے دروازے پر کھڑا ہے" ایک نئی آواز ویلنٹائن کے خواب میں گونجی تو ہیر نے مڑ کر دیکھا اور کہا
"رانجھے تم یہاں"
"ویلنٹائن نے سر اٹھا کر اوپر دیکھا تو وہاں "گلشن الفت کا بورڈ لگا ہوا تھا۔