بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 1 برے وقت کا آغاز
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 2 جولیا کی آمد
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 3 علی عمران
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 4 ہیر
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 5 لاشعور کی سیر
ویلنٹائن کے نام مکتوب (قسط نمبر6)
قسط نمبر 7: مکتوب کا اثر
اس بات کو چھوڑیں کہ مکتوب ویلنٹائن تک کیسے پہنچا یہ دیکھیں کہ ویلنٹائن پر اس کا اثر کیا ہوا!
ویلنٹائن اٹھ کر اپنے قید خانے کے کمرے کی سلاخوں کے قریب آگیا اور باہر جھانکنے لگا تاکہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کر کے دوسروں کو اپنا حق مارنے سے روک سکے۔ اتنے میں اسے ایک قیدی نظر آیا جو چلا رہا تھا "میں باغی ہوں"، "ہاں! میں باغی ہوں" لیکن ویلنٹائن کے غور کرنے پر پتہ چلا کہ باغی ہونے اور چلانے کے باوجود وہ پھنسا پھنسا سا اس لئے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی گردن ساتھ ساتھ چلنے والے سپاہی نے اپنے ہاتھوں میں دبوچ رکھی تھی۔
"اوئے! ہیلو" ولینٹائن نے اپنی طرف سے گرج کر بولنے کی کوشش کی لیکن چونکہ زندگی میں پہلی دفعہ گرجنے کی کوشش کی تھی اس لئے زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی اور گرجنے کی گرج تقریباً آدھی رہ گئی۔
"اس بے چارے کو کہاں لے جارہے ہو؟"
"تم کیوں ایسے رعب جما کر پوچھ رہے ہو؟ تم کوئی سیاسی قیدی ہو کیا؟ " سپاہی نے ویلنٹائن کے سوال کا برا مناتے ہوئے پوچھا؟
"سیاسی قیدی نا سہی بے قصور تو ہوں، یہ بھی بے قصور پکڑا ہے یا یہ سیاسی قیدی ہے" ویلنٹائن نے اپنے دفاع میں دلیل پیش کرکے دوسرا سوال بھی داغ ڈالا۔
"یہ سیاسی قیدی نہیں پاگل ہے" قاضی نے اس کا دماغ درست ہونے تک جیل میں ڈالنے کا کہا ہے۔
"کیوں کیا پاگل پن کیا ہے اس نے" ویلنٹائن کو تجسس ہوگیا۔
"گرجے کے سامنے جا کرزاروقطار رو رو کر خدا سے بچہ مانگ رہا تھا۔ قاضی نے اسے دیکھ کر ترس کھا کر کہا کہ اپنی بیوی کو لیجا کر سرکاری شفا خانے سے مفت علاج کرا لو، تو کہنے لگا میری شادی نہیں ہوئی مجھے بغیر عورت کے بچہ چاہئے۔ قاضی نے ڈانٹ کر کہا پاگل ہو کیا تو آگے سے کہنے لگا میں پاگل نہیں ہوں میں باغی ہوں۔ تو قاضی نے اسے یہاں جیل میں بھیج دیا۔" سپاہی نے اس قیدی کا کیس بیان کر دیا۔
"اے باغی تم پاگلوں والی بات کرکے خود کو باغی کیوں کہ رہے ہو؟" ویلنٹائن قیدی سے مخاطب ہوا
"میں پاگل نہیں ہوں میں باغی ہوں اس دنیا کے نظام کا باغی ہوں۔" قیدی ابھی تک چلا چلا کر اپنا مؤقف بیان کر رہا تھا۔
"اوئے سپاہی اس پاگل نما باغی کو چھوڑ کر آنے کے بعد میری بات سننا" ویلنٹائن نے سنجیدگی سے سپاہی سےکہا۔
جواباً سپاہی نے ویلنٹائن کو گھور کر دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک حوالدار آیا اور ویلنٹائن سے پوچھنے لگا۔
"کیا تکلیف ہے تمہیں"
"میری تکلیفوں کو چھوڑو میرا ایک کام کرو" ویلنٹائن کے لہجے میں معصومیت کی جگہ سنجیدگی عادت بنتی جارہی تھی۔
"کونسا کام" ؟ حوالدار نے منہ بسور کر پوچھا قیدی کے لہجے میں یہ نئی تبدیلی حوالدار کو اچھی نہیں لگی۔
"مجھے جیلر کی بیٹی سے ملنا ہے" ویلنٹائن نے بتایا
"کیوں" تم کیا کرو گے مل کر" ؟ حوالدار کے لہجے میں اس بار حیرت تھی۔
"ہو سکتا ہے وہ مجھے اچھی لگتی ہو۔
اور
یہ بھی ہوسکتا ہے میرا اس سے شادی کا پروگرام بن جائے" ویلنٹائن نے ذرا رک رک کر تفصیل بیان کر دی۔
حوالدار کو ویلنٹائن کی حماقت کے اعتماد پر حیرت ہونے لگی لیکن جب اس نے ساتھ والی بیرک میں پاگل قیدی کو دیکھا تو اس کی حیرت قدرے کم ہوگئی۔ حوالدار نے سپاہی کو بلا ویلنٹائن کے بارے میں پوچھا کہ "کیا یہ بھی پاگل پن کے کیس میں اندر ہوا ہے؟" سپاہی نے ویلنٹائن کا کیس حوالدار کو بتا دیا۔
حوالدار سر ہلاتا ہلاتا وہاں سے چل دیا۔
ویلنٹائن سارا دن اپنی بات کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔
شام کو جیلر کا بیٹا آیا اور آتے ویلنٹائن سے غصے سے پوچھا۔ "یہ کیا سن رہا ہوں میں؟ " جیل میں رہ کر دماغ ٹھکانے پر نہیں آیا کیا؟ یا اور خراب ہوگیا ہے" ؟
"کیا ہوا جناب؟" اس موقع پر شریفانہ لہجہ اپنانا زیادہ مناسب سمجھا کیونکہ مستقبل پر یہ ملاقات اثر انداز ہوسکتی تھی۔
"تو میری بہن سے ملنا چاہتا ہے؟ " جیلر کے بیٹے کے لہجے میں تلخی بڑھتی جارہی تھی۔
"جی بالکل، شاید شادی کا پروگرام بھی بن جائے" ویلنٹائن کے لہجے میں ذرا شرمیلا پن بھی تھا اس بار۔
یہ سن کر جیلر کے بیٹے کا پارہ اور چڑھ گیا غصے سے ویلنٹائن کی بیرک میں گھس کراس پر لاٹھیاں برسانے لگا۔ جب مار مار کر وہ تھک کررکا تو ویلنٹائن نے ہانپتے ہوئے معصومیت سے جیلر کے بیٹے سے پوچھا
"تو پھر میں انکار ہی سمجھوں"
یہ سن کر جیلر کے بیٹے نے ایک لاٹھی اور جھاڑ دی۔
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 2 جولیا کی آمد
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 3 علی عمران
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 4 ہیر
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 5 لاشعور کی سیر
ویلنٹائن کے نام مکتوب (قسط نمبر6)
قسط نمبر 7: مکتوب کا اثر
اس بات کو چھوڑیں کہ مکتوب ویلنٹائن تک کیسے پہنچا یہ دیکھیں کہ ویلنٹائن پر اس کا اثر کیا ہوا!
ویلنٹائن اٹھ کر اپنے قید خانے کے کمرے کی سلاخوں کے قریب آگیا اور باہر جھانکنے لگا تاکہ دنیا سے اپنا حصہ وصول کر کے دوسروں کو اپنا حق مارنے سے روک سکے۔ اتنے میں اسے ایک قیدی نظر آیا جو چلا رہا تھا "میں باغی ہوں"، "ہاں! میں باغی ہوں" لیکن ویلنٹائن کے غور کرنے پر پتہ چلا کہ باغی ہونے اور چلانے کے باوجود وہ پھنسا پھنسا سا اس لئے محسوس ہو رہا تھا کہ اس کی گردن ساتھ ساتھ چلنے والے سپاہی نے اپنے ہاتھوں میں دبوچ رکھی تھی۔
"اوئے! ہیلو" ولینٹائن نے اپنی طرف سے گرج کر بولنے کی کوشش کی لیکن چونکہ زندگی میں پہلی دفعہ گرجنے کی کوشش کی تھی اس لئے زیادہ کامیاب نہیں ہو سکی اور گرجنے کی گرج تقریباً آدھی رہ گئی۔
"اس بے چارے کو کہاں لے جارہے ہو؟"
"تم کیوں ایسے رعب جما کر پوچھ رہے ہو؟ تم کوئی سیاسی قیدی ہو کیا؟ " سپاہی نے ویلنٹائن کے سوال کا برا مناتے ہوئے پوچھا؟
"سیاسی قیدی نا سہی بے قصور تو ہوں، یہ بھی بے قصور پکڑا ہے یا یہ سیاسی قیدی ہے" ویلنٹائن نے اپنے دفاع میں دلیل پیش کرکے دوسرا سوال بھی داغ ڈالا۔
"یہ سیاسی قیدی نہیں پاگل ہے" قاضی نے اس کا دماغ درست ہونے تک جیل میں ڈالنے کا کہا ہے۔
"کیوں کیا پاگل پن کیا ہے اس نے" ویلنٹائن کو تجسس ہوگیا۔
"گرجے کے سامنے جا کرزاروقطار رو رو کر خدا سے بچہ مانگ رہا تھا۔ قاضی نے اسے دیکھ کر ترس کھا کر کہا کہ اپنی بیوی کو لیجا کر سرکاری شفا خانے سے مفت علاج کرا لو، تو کہنے لگا میری شادی نہیں ہوئی مجھے بغیر عورت کے بچہ چاہئے۔ قاضی نے ڈانٹ کر کہا پاگل ہو کیا تو آگے سے کہنے لگا میں پاگل نہیں ہوں میں باغی ہوں۔ تو قاضی نے اسے یہاں جیل میں بھیج دیا۔" سپاہی نے اس قیدی کا کیس بیان کر دیا۔
"اے باغی تم پاگلوں والی بات کرکے خود کو باغی کیوں کہ رہے ہو؟" ویلنٹائن قیدی سے مخاطب ہوا
"میں پاگل نہیں ہوں میں باغی ہوں اس دنیا کے نظام کا باغی ہوں۔" قیدی ابھی تک چلا چلا کر اپنا مؤقف بیان کر رہا تھا۔
"اوئے سپاہی اس پاگل نما باغی کو چھوڑ کر آنے کے بعد میری بات سننا" ویلنٹائن نے سنجیدگی سے سپاہی سےکہا۔
جواباً سپاہی نے ویلنٹائن کو گھور کر دیکھا اور آگے بڑھ گیا۔
تھوڑی دیر بعد ایک حوالدار آیا اور ویلنٹائن سے پوچھنے لگا۔
"کیا تکلیف ہے تمہیں"
"میری تکلیفوں کو چھوڑو میرا ایک کام کرو" ویلنٹائن کے لہجے میں معصومیت کی جگہ سنجیدگی عادت بنتی جارہی تھی۔
"کونسا کام" ؟ حوالدار نے منہ بسور کر پوچھا قیدی کے لہجے میں یہ نئی تبدیلی حوالدار کو اچھی نہیں لگی۔
"مجھے جیلر کی بیٹی سے ملنا ہے" ویلنٹائن نے بتایا
"کیوں" تم کیا کرو گے مل کر" ؟ حوالدار کے لہجے میں اس بار حیرت تھی۔
"ہو سکتا ہے وہ مجھے اچھی لگتی ہو۔
اور
یہ بھی ہوسکتا ہے میرا اس سے شادی کا پروگرام بن جائے" ویلنٹائن نے ذرا رک رک کر تفصیل بیان کر دی۔
حوالدار کو ویلنٹائن کی حماقت کے اعتماد پر حیرت ہونے لگی لیکن جب اس نے ساتھ والی بیرک میں پاگل قیدی کو دیکھا تو اس کی حیرت قدرے کم ہوگئی۔ حوالدار نے سپاہی کو بلا ویلنٹائن کے بارے میں پوچھا کہ "کیا یہ بھی پاگل پن کے کیس میں اندر ہوا ہے؟" سپاہی نے ویلنٹائن کا کیس حوالدار کو بتا دیا۔
حوالدار سر ہلاتا ہلاتا وہاں سے چل دیا۔
ویلنٹائن سارا دن اپنی بات کے جواب کا انتظار کرتا رہا۔
شام کو جیلر کا بیٹا آیا اور آتے ویلنٹائن سے غصے سے پوچھا۔ "یہ کیا سن رہا ہوں میں؟ " جیل میں رہ کر دماغ ٹھکانے پر نہیں آیا کیا؟ یا اور خراب ہوگیا ہے" ؟
"کیا ہوا جناب؟" اس موقع پر شریفانہ لہجہ اپنانا زیادہ مناسب سمجھا کیونکہ مستقبل پر یہ ملاقات اثر انداز ہوسکتی تھی۔
"تو میری بہن سے ملنا چاہتا ہے؟ " جیلر کے بیٹے کے لہجے میں تلخی بڑھتی جارہی تھی۔
"جی بالکل، شاید شادی کا پروگرام بھی بن جائے" ویلنٹائن کے لہجے میں ذرا شرمیلا پن بھی تھا اس بار۔
یہ سن کر جیلر کے بیٹے کا پارہ اور چڑھ گیا غصے سے ویلنٹائن کی بیرک میں گھس کراس پر لاٹھیاں برسانے لگا۔ جب مار مار کر وہ تھک کررکا تو ویلنٹائن نے ہانپتے ہوئے معصومیت سے جیلر کے بیٹے سے پوچھا
"تو پھر میں انکار ہی سمجھوں"
یہ سن کر جیلر کے بیٹے نے ایک لاٹھی اور جھاڑ دی۔