بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر 8- درد سے دماغ تک

بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 1 برے وقت کا آغاز
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 2 جولیا کی آمد
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 3 علی عمران
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 4 ہیر
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 5 لاشعور کی سیر
ویلنٹائن کے نام مکتوب (قسط نمبر6)
بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 7 مکتوب کا اثر


بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر- 8- درد سے دماغ تک

جیلر
کے بیٹے سے پر تشدد ملاقات کے نتیجے میں ویلنٹائن کا حوصلہ تو زخمی ہوا لیکن دل نہیں! کیونکہ دل کے زخمی ہونے کے لئے جیلر کی بیٹی کا اس ساری پر تشدد سازش میں شریک ہونا ضروری تھا۔ لیکن ابھی تک ایسی کسی سازش کا شائبہ بھی سامنے نہیں آیا تھا۔
جیلر کے بیٹے کی ملاقات کے بعد ویلنٹائن کے لئے فوری طور پر کوئی کام موجود نہیں تھا تو سوچا کہ مکھیاں ہوتیں تو انہی کو مار کر ٹائم پاس کر لیتا مگر مکھیوں کی عدم موجودگی کیا ہو سکتا ہے؟ یہی سوچتے سوچتے ایک کروٹ بدلی تو پہلو میں درد سے ایک ٹیس اٹھی۔ سوچا چلو ٹائم پاس کرنے کے لئے اپنے زخم ہی گن لیتے ہیں! پاؤں سے گننا شروع کیا لیکن کمر تک پہنچتے پہنچتے یہ ارادہ بھی ترک کرنا پڑا کیونکہ کسی بھی زخم کو گنتی میں شامل کرنے سے پہلے اسے ہاتھ لگا کر دیکھنا پڑتا تھا کہ واقعی وہاں درد ہو رہی ہے اور یہ جگہ زخموں کی گنتی میں شمولیت کی اہل ہے بھی یا نہیں مگر یہ دھاندلی سے پاک درد کی گنتی اتنی پر درد ثابت ہوئی کہ کمر تک پہنچتے پہنچتے ہی برداشت سے باہر ہوگئی۔ اور ویلنٹائن نے اسی پریشانی سے ہاتھ سر پر دے مارا اور زخموں کی گنتی میں ایک اور پر درد اضافہ ہوگیا۔
مگر یہ کیا!!
یوں لگا کہ سر پر ہاتھ مارنے سے کوئی ایسی رگ دب گئی جس سے دماغ میں حالات کا ایک نیا رخ سامنے آگیا۔
حوالدار کو گرج کا پکارنے کا ارادہ کرتے ہوئے منہ کھولا۔
"اؤے حوالدارا" درد بھرے جبڑے سے گرج تو نا نکل سکی البتہ ایک چیخ ضرور نکل کر گونج گئی۔
جیل کا سپاہی پھر آٹپکا۔ "حوالدار صاحب!" سپاہی نے "صاحب پر زور دیکر کہا
"وہ ڈاکٹر نہیں ہیں ۔ ان دردوں کا آرام اب ذرا آرام سے ہی آئے گا۔ شاباش سکون سے بیٹھ جاؤ"
"مجھے حوالدار سے ہی بات کرنی ہے، میں نے ڈاکٹر کے لئے آواز نہیں دی اگرچہ مجھے اس کی بھی ضرورت ہے" ویلنٹائن نے حقیقت اور ضرورت دونوں بیان کر دیں۔
"کیا بات کرنی ہے؟ " سپاہی نے لاپروائی دکھاتے ہوئے پوچھا؟ تجسس تو تھوڑا سا سپاہی کے دل میں بھی محسوس ہوا۔
"یہ تو میں تمہیں حوالدار کے سامنے ہی بتاؤں گا" ویلنٹائن نے آفر کر دی۔
"یہ کیا بات ہوئی؟ تم۔۔ مجھے۔۔ حوالدار کے سامنے بتاؤ گے کہ تم نے حوالدار سے کیا بات کرنی ہے؟" تم ساری بات حوالدار سے ہی کیوں نا کر لوگے ؟ مجھے بتا کر کیا کروگے؟" سپاہی نے کنفیوژ ہوتے ہوئے کہا؟
"چلو ٹھیک ہے مسئلہ حل ہوگیا ، تم حوالدار کو بلا لو ، میں اس سے بات کر لوں گا، تم وہاں نا رکنا چلے جانا ۔ تمہیں میری بات سننے کی ٹینشن نہیں ہوگی" ویلنٹائن نے خوشی خوشی آفر میں ترمیم کر دی
"مجھے کس بات کی ٹینشن؟ درد ، تکلیف، ٹینشن تو تمہیں ہونی چاہئے۔ جیل میں تو تم ہو میں نہیں" سپاہی، ویلنٹائن کی لفاظی سے الجھ کر غصے میں آگیا۔ اور طعنہ دے مارا
"جیل میں تو تم بھی ہو" ویلنٹائن نے بھی جوابًا لفظی حملہ کر دیا۔
"مگر تم قید ہو، میں یہاں ڈیوٹی دے رہا ہوں"۔ سپاہی بولا
"میں جب باہر تھا تب بھی کچھ نہیں کرتا تھا ، ایک ہی جگہ بیٹھا رہتا تھا۔ مجھے تو جیل میں ڈیوٹی کی بھی تکلیف نہیں ہے۔ مفت کی روٹیاں توڑ رہا ہوں۔" ویلنٹائن نے جیل کی سہولتیں بیان کر دیں۔
"مگر میں جب بھی چاہوں جیسی خواہش ہو وہاں جا سکتا ہوں" سپاہی نے اپنی آزادی کی وضاحت کی
"تم یعنی اصل میں اپنی خواہش کی قید میں ہو، تمہاری خواہشیں ہی تم کو جگہ جگہ گھماتی رہتی ہیں" ویلنٹائن نے اسے کچھ باور کرانے کی کوشش کی مگر بے سود
"میں قید میں نہیں ہوں، تم قید میں ہو" سپاہی جھلا کر بولا
"اگر تم نے چار جماعتیں پڑھی ہوتیں تو تمہیں میری باتوں کی سمجھ آجاتی" اب تو ویلنٹئن نے سیدھا سیدھا طعنہ دے مارا
"میں ابھی حوالدار صاحب کو بلا کر لاتا ہوں وہی تمہاری عقل ٹھکانے لگائیں گے" سپاہی پاؤں پٹخ کر جاتے ہوئے بولا
"حوالدار کو ہی تو میں بلا رہا ہوں" ویلنٹائن نے سپاہی کو آواز دے کر یاد دلایا۔
کچھ دیر میں حوالدار وارد ہوگیا۔
"کیا تکلیف ہے اؤئے تم کو؟ کیوں سپاہی کو پاگل بنا رہے ہو" حوالدار نے آتے ہی تفتیش شروع کر دی
"پہلے تم یہ بتاؤ کہ میں نے تو تم سے کہا تھا کہ میں نے جیلر سے ملنا ہے۔ مگر تم اس کے بیٹے کو کیوں لے آئے؟" ویلنٹائن نے وقت ضایع کئے بغیر اصل سوال پوچھ لیا
"جیلر کا بیٹا خود ہی آیا تھا۔" حوالدار نے دفاعی جواب دیا
"میں نے کب کہا کہ تم اسے گود میں اٹھا کر لائے تھے"
"دوسری بات یہ بتاؤ کہ مجھے یہاں کس عدالت کے حکم سے قید کیا گیا ہے؟" ویلنٹائن نے جواب و سوال دونوں کر دئیے
"تم نے تو کہا تھا کہ تم یہاں بہت خوش ہو اب کیوں اعتراض کر رہے ہو" سپاہی فورًا ویلنٹائن کی غلطی پکڑ کر چہکا
"جب سے مجھے احساس ہوا ہے کہ میں یہاں رہتے ہوئے رنگ کائنات کی زیارت کے شرف سے محروم ہوں تب سے یہ جگہ مجھے بری لگنے لگی ہے" ویلنٹائن نے جیلر کی بیٹی جولیا کی یادوں سے مسحور ہو کر مسکرا کر کہا۔
"کیا مطلب" سپاہی نے کچھ نا سمجھتے ہوئے کہا۔
"تم کبھی کسی سکول ، مدرسے میں کیوں نا گئے" ؟ ویلنٹائن اب سپاہی کی جہالت سے چڑ گیا
" تم چاہتے کیا ہو؟ جیل سے رہائی؟" حوالدار نے آفر دینے کے انداز میں پوچھا
"میں جیلر سے ملنا چاہتا ہوں یا پھر قاضی سے " ویلنٹائن نے ذرا سوچ کر کہا
"قاضی سے کیوں" ؟ حوالدار کو اس بات کی توقع نہیں تھی
"کیونکہ ، میں قاضی کو بتاؤں گا کہ تم لوگوں نے مجھے بغیر کسی جرم اور عدالتی حکم کے یہاں قید کر رکھا ہے" ویلنٹائن نے طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا
"تمہارا کام ہو جائے گا" حوالدار سوچ کر جواب دیا
"کونسا والا کام" ویلنٹائن نے پوچھا
"جس سے میری جان چھوٹ جائے" حوالدار جھلا کر چل دیا
 

عبد الرحمن

لائبریرین
:)طوفان کے ساتھ "بد تمیزی"لکھنا بھول گئے آپ



















لیئق بھائی بہت مزا آیا پڑھ کر ۔۔۔ دیوتا کی طرح چھتیس سال چلنی چاہیے اس کی اقساط:cool:
لئیق بھائی ! میں نے کہا تھا نا طوفان آتا ہی ہوگا، لیجے آ گیا۔ :)

اور دیکھیے آتے ساتھ ہی توڑ پھوڑ شروع کردی۔ :)
 

عبد الرحمن

لائبریرین
یار دیوتا تو ہر مہینے پابندی سے آجاتا تھا مگر میرا نکما ویلنٹائن کئی کئی مہینے غائب رہتا ہے۔ اصولًا تو اسے ہر ہفتے آنا چاہئے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ اب ہر ویک اینڈ پر آپ کے پیچھے ڈنڈا لے کر دوڑنا پڑے گا ۔:)
 
Top