بابا ویلنٹائن کی غیر مستند تاریخ- قسط نمبر 9
(پچھلی اقساط کا مطالعہ کرنے کے لے میرے بک مارک پر نظر ڈالئے )
"حوالدار صاحب ! آپ کیوں ویلنٹائن سے جان چھڑانا چاہتے ہیں؟" سپاہی نے حوالدار کے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی ہمدردی سے پوچھا۔
"کیونکہ میں خوامخواہ پھنسا ہوا ہوں۔ نا اس پادری پر کوئی کیس ہے اور نا ہی جیلر کا بیٹا اسے جیل سے رہا کرنے دیگا۔ اگر قاضی کو پتہ چلا کہ میں نے ایک بے گناہ کو جیل میں ڈالا ہے تو قاضی مجھے سزا دیگا اور اگر میں نے پادری کو جیل سے چھوڑا تو جیلر کا بیٹا مجھے نوکری سے نکلوا دیگا۔ " حوالدار نے اصل بات بتا دی۔ "سوچ رہا ہوں کہ قاضی کو سچ بتا دوں"۔ حوالدار سوچ کر بولا
سارے سچ بتانے والے نہیں ہوتے سر !! سپاہی بولا
مثلاً؟ حوالدار نے پوچھا
"مثلاً یہ کہ کیا میں آپ کو کبھی بتایا ہے کہ جب آپ کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ آپ بیٹھے نہیں ہوئے بلکہ کرسی پر آپ کا ڈھیر لگا ہوا ہے؟ ہمیشہ آپ سے سچ چھپایا ہی ہے نا!! " سپاہی نے حوالدار کے دل پر چوٹ کرتی ہوئی سیدھی مثال دے ماری۔
حوالدار ایک دم ایسے سپاہی کو دیکھنے لگا کہ جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ مجھے مخلصانہ مشورہ دے رہا ہے یا میرا مذاق اڑا رہا ہے۔
"اگر تم میں دو خوبیاں نا ہوتی تو میں تمہیں ایسی واہیات مثال دینے پر کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیتا" حوالدار نے بیزاری سے کہا
"بھلا کون کون سی خوبیاں؟" سپاہی کا اشتیاق حوالدار کے خراب موڈ کے باوجود متاثر نہیں ہوا۔
"ایک تو یہ کہ تم اس شہر کے سب بڑے ڈفر اور جاہل ہو اور بیوقوف ہو اس لئے تم کو اتنی تمیز نہیں کہ کونسی مثال دینی چاہئے اور کونسی نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ تم میری بیوی کے بھائی ہو" حوالدار تلخ لہجے میں بولا۔
"اور آپ کو میری بہن نے یہ بھی کئی دفعہ یاد کرایا ہے کہ ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف" سپاہی اس دفعہ چہکا
"بھائی جان چھوڑیں ان باتوں کو میرا آئڈیا سنیں آپ کے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔" اس دفعہ سپاہی کے لہجے میں ہمدردی تھی۔
"اچھا تو تم کو آئڈئیے بھی آنے لگے!! اپنا خیال اگلو اور اس کے بعد میرے کمرے سے دفع ہو جاؤ" حوالدار بری طرح بیزار ہو چکا تھا۔
"پادری پر شراب پینے کا کیس ڈال دیتے ہیں۔ تگڑا کیس بن جائے گا کہ پادری ہوکر شرب پیتا ہے، قاضی تو اس کو ڈبل سزا دیگا۔ پھر اسے ہم جیل میں رکھیں گے اور جیلر کا بیٹا بھی خوش اور قاضی بھی ہم سے ناراض نہیں ہوگا۔" سپاہی نے اپنا خیال پیش کر دیا۔
"بول لیا؟ چلو اب نکلو یہاں سے" حوالدار آئڈیا سن کر بھی سپاہی سے خوش نہیں تھا۔
سپاہی منہ بنا کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد پھر حوالدار کے کمرے میں آدھمکا۔
"پادری سو رہا تھا اور میں نے پادری کے قید خانے میں ایک بہت پرانی سڑی ہوئی شراب کی بوتل رکھ دی ہے اتنی سڑی ہوئی کہ اس میں سے بدبو بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اب پادری اسے پئے گا اور ہمارا کام بن جائے گا" سپاہی نے آتے ساتھ ہی اپنا کارنامہ بیان کر دیا۔
"ابے احمق بدبو کسے نظر آتی ہے؟ کیا تھا اس میں؟" حوالدار نے پوچھا
"سڑی ہوئی شراب اور کیا" سپاہی نے پھر زور دیکر کہا
"ان کو شرم نہیں آتی میرے جیسے شریف آدمی کو شراب پلا کر گنہگار کرنا چاہتے ہیں" ویلنٹائن بیزاری سے بولا۔ "اس شراب کو تو ابھی ضائع کردینا چاہئے" ویلنٹائن نے فیصلہ اور بوتل کھول کر الٹی کر دی
شراب بہ گئی اور دھواں جن کی شکل میں ڈھل کر ویلنٹائن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا
"کیا حکم ہے میرے آقا؟"
اور ویلنٹائن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
(پچھلی اقساط کا مطالعہ کرنے کے لے میرے بک مارک پر نظر ڈالئے )
"حوالدار صاحب ! آپ کیوں ویلنٹائن سے جان چھڑانا چاہتے ہیں؟" سپاہی نے حوالدار کے کمرے میں داخل ہوتے ساتھ ہی ہمدردی سے پوچھا۔
"کیونکہ میں خوامخواہ پھنسا ہوا ہوں۔ نا اس پادری پر کوئی کیس ہے اور نا ہی جیلر کا بیٹا اسے جیل سے رہا کرنے دیگا۔ اگر قاضی کو پتہ چلا کہ میں نے ایک بے گناہ کو جیل میں ڈالا ہے تو قاضی مجھے سزا دیگا اور اگر میں نے پادری کو جیل سے چھوڑا تو جیلر کا بیٹا مجھے نوکری سے نکلوا دیگا۔ " حوالدار نے اصل بات بتا دی۔ "سوچ رہا ہوں کہ قاضی کو سچ بتا دوں"۔ حوالدار سوچ کر بولا
سارے سچ بتانے والے نہیں ہوتے سر !! سپاہی بولا
مثلاً؟ حوالدار نے پوچھا
"مثلاً یہ کہ کیا میں آپ کو کبھی بتایا ہے کہ جب آپ کرسی پر بیٹھے ہوتے ہیں تو یوں لگتا ہے کہ آپ بیٹھے نہیں ہوئے بلکہ کرسی پر آپ کا ڈھیر لگا ہوا ہے؟ ہمیشہ آپ سے سچ چھپایا ہی ہے نا!! " سپاہی نے حوالدار کے دل پر چوٹ کرتی ہوئی سیدھی مثال دے ماری۔
حوالدار ایک دم ایسے سپاہی کو دیکھنے لگا کہ جیسے سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو کہ یہ مجھے مخلصانہ مشورہ دے رہا ہے یا میرا مذاق اڑا رہا ہے۔
"اگر تم میں دو خوبیاں نا ہوتی تو میں تمہیں ایسی واہیات مثال دینے پر کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیتا" حوالدار نے بیزاری سے کہا
"بھلا کون کون سی خوبیاں؟" سپاہی کا اشتیاق حوالدار کے خراب موڈ کے باوجود متاثر نہیں ہوا۔
"ایک تو یہ کہ تم اس شہر کے سب بڑے ڈفر اور جاہل ہو اور بیوقوف ہو اس لئے تم کو اتنی تمیز نہیں کہ کونسی مثال دینی چاہئے اور کونسی نہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ تم میری بیوی کے بھائی ہو" حوالدار تلخ لہجے میں بولا۔
"اور آپ کو میری بہن نے یہ بھی کئی دفعہ یاد کرایا ہے کہ ساری خدائی ایک طرف اور جورو کا بھائی ایک طرف" سپاہی اس دفعہ چہکا
"بھائی جان چھوڑیں ان باتوں کو میرا آئڈیا سنیں آپ کے سارے مسئلے حل ہوجائیں گے۔" اس دفعہ سپاہی کے لہجے میں ہمدردی تھی۔
"اچھا تو تم کو آئڈئیے بھی آنے لگے!! اپنا خیال اگلو اور اس کے بعد میرے کمرے سے دفع ہو جاؤ" حوالدار بری طرح بیزار ہو چکا تھا۔
"پادری پر شراب پینے کا کیس ڈال دیتے ہیں۔ تگڑا کیس بن جائے گا کہ پادری ہوکر شرب پیتا ہے، قاضی تو اس کو ڈبل سزا دیگا۔ پھر اسے ہم جیل میں رکھیں گے اور جیلر کا بیٹا بھی خوش اور قاضی بھی ہم سے ناراض نہیں ہوگا۔" سپاہی نے اپنا خیال پیش کر دیا۔
"بول لیا؟ چلو اب نکلو یہاں سے" حوالدار آئڈیا سن کر بھی سپاہی سے خوش نہیں تھا۔
سپاہی منہ بنا کر چلا گیا اور کچھ دیر بعد پھر حوالدار کے کمرے میں آدھمکا۔
"پادری سو رہا تھا اور میں نے پادری کے قید خانے میں ایک بہت پرانی سڑی ہوئی شراب کی بوتل رکھ دی ہے اتنی سڑی ہوئی کہ اس میں سے بدبو بھری ہوئی نظر آتی ہے۔ اب پادری اسے پئے گا اور ہمارا کام بن جائے گا" سپاہی نے آتے ساتھ ہی اپنا کارنامہ بیان کر دیا۔
"ابے احمق بدبو کسے نظر آتی ہے؟ کیا تھا اس میں؟" حوالدار نے پوچھا
"سڑی ہوئی شراب اور کیا" سپاہی نے پھر زور دیکر کہا
-----------------------------------------
پادری کی آنک کھلی تو اس نے اپنے پاس شراب کی بوتل رکھی دیکھی جس میں دھواں دھواں سا بھی نظر آرہا تھا۔"ان کو شرم نہیں آتی میرے جیسے شریف آدمی کو شراب پلا کر گنہگار کرنا چاہتے ہیں" ویلنٹائن بیزاری سے بولا۔ "اس شراب کو تو ابھی ضائع کردینا چاہئے" ویلنٹائن نے فیصلہ اور بوتل کھول کر الٹی کر دی
شراب بہ گئی اور دھواں جن کی شکل میں ڈھل کر ویلنٹائن کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا
"کیا حکم ہے میرے آقا؟"
اور ویلنٹائن کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔
آخری تدوین: