یوسف-2
محفلین
باتوں سے خوشبو آئے
پھول ویسے تو گلاب اور موتیا اچھا لگتا ہے لیکن شاعرانہ انداز میں کنول کا پھول اچھا لگتا ہے کہ جو کیچڑ میں کھلنے کے باوجود خوبصورت ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی قدرت ہےکہ خوبصورتی ایسی جگہ بھی موجود ہوتی ہے جہاں ہماراگمان بھی نہ ہو۔ زندگی کا ایک طویل سفر طے کر لیا اور اب پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جن بچوں کو کل گود میں اٹھاتے تھے آج وہ شادی کے لائق ہو چکے ہیں۔اب تو میرے ساس بننے کے دن آگئے ہیں۔ دعا کریں کہ میں ایک شفیق ساس بنوں اور مجھے بھی خوش اخلاق اور ملنسار بہو ملے ۔جب ہم بہو بن کر آتے ہیں تو جو توقعات ہم اپنی ساس سے لگاتے ہیں کہ محبت کرنے والی ہوں زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور اپنی بیٹی کی طرح ہم کو سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ تو میری کوشش یہی ہوگی کہ جو اُمیدیں میں اپنی ساس سے لگاتی تھی اب اپنی بہو کی امیدوں پر پوری اتروںاور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ساس میری سہیلی۔میرے حق میں دعا کیجئے کہ میں اپنی پیاری ماں جیسی شفیق اور نرم خو ساس بنوں۔ سنا ہے کہ ساس بن کر سارے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ خوبصورت باتیں ایک ایسی گھریلو خاتون کی ہیں جن کی شادی میٹرک کے بعدہی کردی گئی تھی۔ باقی علم و دانش انہوں نے کتابوں کے مطالعہ اور زندگی کے تجربات سے سیکھا۔مختلف ملکوں میں موجود مختلفطبقہ فکرسے تعلق رکھنے والے درجنوں خواتین و حضرات کی موجودگی میں محترمہ مہ جبیں صاحبہ کی آن لائن باتیں سنتے ہوئے ایسالگ رہا تھا جیسے ع
رنگ باتیں کرے اور باتوں سے خوشبو آئے
کئی روز تک جاری رہنے والے اس مکالمہ میں آپ نے علم و دانش کی بہت سی ایسی باتیں کیں، جن سے نئی نسل بالخصوص لڑکیوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آئیے محترمہ مہ جبین کی کہانی، انہی کی زبانی سنتے ہیں: میں بچپن سے ہی کم گو اور سنجیدہ قسم کی ہوا کرتی تھی ۔میں جب پرائمری کلاس میں تھی تو پہلی اور آخری بار امی سے ایک جھوٹ بولا تھا اورامی نے وہ جھوٹ پکڑ لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کم گو ، سنجیدہ ، کم فہم ہونے کے علاوہ بھی مجھ میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ آج جو بوئیں گے ، کل وہی کاٹیں گے ۔اس لئے اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر آگے کے لئے اچھا سامان بھیجنا چاہیئے۔کئی سال پہلے سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا ایک ناول ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی“ پڑھا تھا۔ اسے پڑھ کر بہت روئی تھی۔اس ناول کو بار بار پڑھنے کا دل چاہتا ہے ۔ الحمدللہ میں میوزک کا کوئی شوق نہیں رکھتی ، صرف نعتیں سننے کا شوق ہے۔ کسی قسم کی موویز نہیں دیکھتی اور نہ ایسا شوق ہے ، الحمدللہ۔ اللہ سب کو اس بُرے شوق سے بچائے آمین۔لیکن کبھی کبھی جو ڈرامے آج کل اچھے چل رہے ہیں وہ بھی دیکھ لیتی ہوں، حالانکہ یہ بھی اچھی بات نہیں ہے ،اللہ کرے کہ اس سے جلد چھٹکارا مل جائے آمین ہر حساس شخص پر یہ کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے کہ ڈرامے میں ٹریجڈی سین دیکھ کر آنسو خود بخود نکل پڑتے ہیں۔ مجھے گھریلو اور معاشرتی مسائل پر مبنی ڈرامے اچھے لگتے ہیں لیکن ابھی تو کوئی بھی ڈرامہ باقاعدگی سے نہیں دیکھ رہی ہوں ۔جو ڈرامے آجکل چل رہے ہیں ان میں سے تو شاید پانچ فیصدہی ڈرامے معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں دکھاتے ہونگے میں اب تو کوئی ڈرامہ فی الحال نہیں دیکھ رہی ہوں تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، لیکن بچے جب دیکھتے ہیں تو چلتے پھرتے نظر پڑ جاتی ہے تو واقعی میں یہ دیکھ کر سوچتی ہوں کہ ایسے فضول اور واہیات ڈرامے بنانے کا کیا مقصد ہے بھلا؟ اب ہمارے ڈرامے اسلامی کلچر سے بہت دور ہوتے ہیں اور فحاشی ، عریانی اور دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اور رہی بات ڈراموں کے کرداروں کی تو سچ تو ا س میں ہوتا ہے لیکن کہیں کہیں مبالغے سے بھی کام لے لیا جاتا ہے جو شاید ان کی مجبوری ہے۔ڈرامہ دیکھ کر ایسے برے کرداروں کو تحریک ملتی ہے اور انکے اندر جتنی خباثت ہوتی ہے وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ویسے جو برے ہوتے ہیں وہ یہ دیکھے بغیر بھی برے ہی رہتے ہیں ان کے لئے تو بس دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اللہ ہم سب کو نفس و شیطان کے شر سے بچائے آمین
شاعری سے کافی لگاو¿ ہے۔ اور اچھی شاعری ہمیشہ مجھے متاثر کرتی ہے۔ اچھے شاعروں کا کلام پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ پسندیدہ شاعروں میں امام احمد رضا خان بریلوی، غالب، امجد اسلام امجد، پروین شاکر، احمد فراز اور نوشی گیلانی۔ اور رائٹرز میں ہاشم ندیم عمیرہ احمد، نرجس ملک فرحت اشتیاق وغیرہ ہیں۔ دوست بنانے میں ہمیشہ کنجوسی کی ، کیونکہ میں بچپن سے ہی کم گو ، سنجیدہ اور بہت لئے دئے رہنے والی تھی اس لئے زیادہ دوست نہیں بنا سکی ۔ جو اسکول کے زمانے میں دوست تھیںوہی آج بھی ہےں، کیونکہ وہ میری عادت کو سمجھتی تھی۔ لیکن بڑی عجیب و غریب بات ہے اس عمر میں آکر اس عادت سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں، یعنی اچھی سہیلیاں بنانا چاہتی ہوں۔لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میںنے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ؟ جیولری میں انگوٹھی ، بالیاں اور جھمکے بہت پسند ہیں۔
ماشاءاللہ میری شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ میرے شوہر بہت محبت کرنے والے اور اپنی فیملی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔انہوں نے ہر وقت میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف یا کمی نہیں ہونے دی الحمدللہ ۔اور شاید میں اس انداز سے ان کا خیال نہ رکھ سکی ہوں۔ لیکن پھر بھی اتنی ساری خوبیوں کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ جب کسی ایک فریق کو غصہ کسی بھی بات پر آجائے تو دوسرے فریق کو مکمل خاموشی اختیار کرنا چاہئے، چاہے غلطی ہو یا نہ ہو ہر صورت میں مکمل خاموشی ہی بڑے سے بڑے طوفان کو ٹال دیتی ہے۔ اگر ایک بات کو دونوں ہی انا کا مسئلہ بنالیں تو بات ختم ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلوں میں گنجائش ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا۔ بالخصوص عورت کو حتی الامکان خلاف مرضی بات پر بھی اپنے شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرکے سب کچھ رب کریم کے سپرد کرکے خاموشی اختیا کرنا چاہئے۔کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے اپنے مسلمان عورت ہونے پر بہت بہت فخر ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ کسی اورمذہب نے ایسا مقام عورت کو دیا ہی نہیں۔ اور دوسری باعث فخر بات یہ ہے کہ ماں کو جو بلند مقام ملا ہے اس کی وجہ سے بھی مجھے عورت ہونے پر فخر ہے ،۔میرا رواں رواں رب کریم کا شکر گزار ہے کہ اس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔ہم ساری زندگی اس رب ذوالجلال کے حضور سجدے میں گزار دیں تب بھی اس کا شکر ادا نہ کرسکیں گے۔الحمدللہ رب العالمین
جیسے وقت گزرتا جاتا ہے بہت سی روایات اور لوگوں کی عادات بدلتی جاتی ہیں جو کل تھیں وہ آج ناپید ہیں اور جو آج رائج ہیں وہ شاید کل نہ ہونگی یہی ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور شاید صدیوں تک چلتی رہے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے کل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمارے کل میں زندہ رہیں۔ ہمارے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے ماضی کی طرح زندگی گزاریں۔لیکن ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔پھرجب ہمارے بچوں کا دور آتا ہے تو ہم ڈکٹیٹر بن کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ویسا کریں جیسا ہمارے ماضی میں ہوتا تھا۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا پھر ہم ایسی توقعات کیوں لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں لچک رکھنی چاہئے تاکہ زندگی پرسکون رہے اور ہمارے بچے بھی ہم سے خوش رہیں۔ لہٰذا میں ایسی امیدیں نہیں لگاتی جو کبھی پوری نہ ہوں۔ زندگی کا توازن بھی اسی بات میں ہے کہ ماضی کے بجائے حال میں زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے، ہمیشہ میں فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور انہوں نے مجھے کبھی اس بات کا طعنہ نہیں دیا کہ تم کو تو کچھ خریدنا ہی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور عید ہو بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے انکی سپورٹ نہ ہوتی تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن ان کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ شاپنگ کا بالکل بھی شوق نہیں ہیں۔ کوئی مجھ سے اگر بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔
عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ( مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، پرواہ نہیں) لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ سو یہ رشتہ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ دیگر رشےوںکا نمبر بعد میں آتا ہے۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا،چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ اور ہاں مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے ، کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے، اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے،اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔ہر طرف اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ع
میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے، اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔، مجھے میرے رب کریم نے اتنا نوازا ہے کہ اب تو دامن بھی تنگ پڑ گیا ہے۔ بے شک جھولی ہی میری تنگ ہے ، تیرے یہاں کمی نہیں۔ انسان خواہشات کا غلام ہے ، جتنی بھی پوری ہو جائیں پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ وہ نہیں ملا، یہ نہیں ملا۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہوں کی بھی باقی رہتی ہیں۔ سو اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خواہشات نہیں پالیں اور ہمیشہ اطمینان قلب حاصل رہا الحمدللہ۔ بس پایا ہی پایا ہی کچھ نہیں کھویا۔ ہاں ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزار دی اور اللہ کی بندگی کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکی۔ پتہ نہیں میں رب کریم کو راضی بھی کر سکی ہوں کہ نہیں اور آخرت میں میرا کیا ہوگا ، جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گی تو میرے اعمال کے پیش نظر جو ہوگا وہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہوں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔ ماضی کو یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے ۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
شاعری سے کافی لگاو¿ ہے۔ اور اچھی شاعری ہمیشہ مجھے متاثر کرتی ہے۔ اچھے شاعروں کا کلام پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ پسندیدہ شاعروں میں امام احمد رضا خان بریلوی، غالب، امجد اسلام امجد، پروین شاکر، احمد فراز اور نوشی گیلانی۔ اور رائٹرز میں ہاشم ندیم عمیرہ احمد، نرجس ملک فرحت اشتیاق وغیرہ ہیں۔ دوست بنانے میں ہمیشہ کنجوسی کی ، کیونکہ میں بچپن سے ہی کم گو ، سنجیدہ اور بہت لئے دئے رہنے والی تھی اس لئے زیادہ دوست نہیں بنا سکی ۔ جو اسکول کے زمانے میں دوست تھیںوہی آج بھی ہےں، کیونکہ وہ میری عادت کو سمجھتی تھی۔ لیکن بڑی عجیب و غریب بات ہے اس عمر میں آکر اس عادت سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں، یعنی اچھی سہیلیاں بنانا چاہتی ہوں۔لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میںنے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ؟ جیولری میں انگوٹھی ، بالیاں اور جھمکے بہت پسند ہیں۔
ماشاءاللہ میری شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ میرے شوہر بہت محبت کرنے والے اور اپنی فیملی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔انہوں نے ہر وقت میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف یا کمی نہیں ہونے دی الحمدللہ ۔اور شاید میں اس انداز سے ان کا خیال نہ رکھ سکی ہوں۔ لیکن پھر بھی اتنی ساری خوبیوں کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ جب کسی ایک فریق کو غصہ کسی بھی بات پر آجائے تو دوسرے فریق کو مکمل خاموشی اختیار کرنا چاہئے، چاہے غلطی ہو یا نہ ہو ہر صورت میں مکمل خاموشی ہی بڑے سے بڑے طوفان کو ٹال دیتی ہے۔ اگر ایک بات کو دونوں ہی انا کا مسئلہ بنالیں تو بات ختم ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلوں میں گنجائش ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا۔ بالخصوص عورت کو حتی الامکان خلاف مرضی بات پر بھی اپنے شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرکے سب کچھ رب کریم کے سپرد کرکے خاموشی اختیا کرنا چاہئے۔کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے اپنے مسلمان عورت ہونے پر بہت بہت فخر ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ کسی اورمذہب نے ایسا مقام عورت کو دیا ہی نہیں۔ اور دوسری باعث فخر بات یہ ہے کہ ماں کو جو بلند مقام ملا ہے اس کی وجہ سے بھی مجھے عورت ہونے پر فخر ہے ،۔میرا رواں رواں رب کریم کا شکر گزار ہے کہ اس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔ہم ساری زندگی اس رب ذوالجلال کے حضور سجدے میں گزار دیں تب بھی اس کا شکر ادا نہ کرسکیں گے۔الحمدللہ رب العالمین
جیسے وقت گزرتا جاتا ہے بہت سی روایات اور لوگوں کی عادات بدلتی جاتی ہیں جو کل تھیں وہ آج ناپید ہیں اور جو آج رائج ہیں وہ شاید کل نہ ہونگی یہی ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور شاید صدیوں تک چلتی رہے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے کل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمارے کل میں زندہ رہیں۔ ہمارے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے ماضی کی طرح زندگی گزاریں۔لیکن ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔پھرجب ہمارے بچوں کا دور آتا ہے تو ہم ڈکٹیٹر بن کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ویسا کریں جیسا ہمارے ماضی میں ہوتا تھا۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا پھر ہم ایسی توقعات کیوں لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں لچک رکھنی چاہئے تاکہ زندگی پرسکون رہے اور ہمارے بچے بھی ہم سے خوش رہیں۔ لہٰذا میں ایسی امیدیں نہیں لگاتی جو کبھی پوری نہ ہوں۔ زندگی کا توازن بھی اسی بات میں ہے کہ ماضی کے بجائے حال میں زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے، ہمیشہ میں فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور انہوں نے مجھے کبھی اس بات کا طعنہ نہیں دیا کہ تم کو تو کچھ خریدنا ہی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور عید ہو بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے انکی سپورٹ نہ ہوتی تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن ان کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ شاپنگ کا بالکل بھی شوق نہیں ہیں۔ کوئی مجھ سے اگر بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔
عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ( مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، پرواہ نہیں) لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ سو یہ رشتہ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ دیگر رشےوںکا نمبر بعد میں آتا ہے۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا،چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ اور ہاں مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے ، کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے، اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے،اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔ہر طرف اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ع
میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے، اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔، مجھے میرے رب کریم نے اتنا نوازا ہے کہ اب تو دامن بھی تنگ پڑ گیا ہے۔ بے شک جھولی ہی میری تنگ ہے ، تیرے یہاں کمی نہیں۔ انسان خواہشات کا غلام ہے ، جتنی بھی پوری ہو جائیں پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ وہ نہیں ملا، یہ نہیں ملا۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہوں کی بھی باقی رہتی ہیں۔ سو اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خواہشات نہیں پالیں اور ہمیشہ اطمینان قلب حاصل رہا الحمدللہ۔ بس پایا ہی پایا ہی کچھ نہیں کھویا۔ ہاں ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزار دی اور اللہ کی بندگی کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکی۔ پتہ نہیں میں رب کریم کو راضی بھی کر سکی ہوں کہ نہیں اور آخرت میں میرا کیا ہوگا ، جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گی تو میرے اعمال کے پیش نظر جو ہوگا وہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہوں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔ ماضی کو یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے ۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔