باتیں مہ جبین کی

یوسف-2

محفلین
باتوں سے خوشبو آئے
پھول ویسے تو گلاب اور موتیا اچھا لگتا ہے لیکن شاعرانہ انداز میں کنول کا پھول اچھا لگتا ہے کہ جو کیچڑ میں کھلنے کے باوجود خوبصورت ہوتا ہے ۔ یہ اللہ کی قدرت ہےکہ خوبصورتی ایسی جگہ بھی موجود ہوتی ہے جہاں ہماراگمان بھی نہ ہو۔ زندگی کا ایک طویل سفر طے کر لیا اور اب پیچھے مڑکر دیکھتی ہوں تو یوں لگتا ہے کہ ابھی کل کی بات ہے۔ جن بچوں کو کل گود میں اٹھاتے تھے آج وہ شادی کے لائق ہو چکے ہیں۔اب تو میرے ساس بننے کے دن آگئے ہیں۔ دعا کریں کہ میں ایک شفیق ساس بنوں اور مجھے بھی خوش اخلاق اور ملنسار بہو ملے ۔جب ہم بہو بن کر آتے ہیں تو جو توقعات ہم اپنی ساس سے لگاتے ہیں کہ محبت کرنے والی ہوں زیادہ روک ٹوک نہ کریں اور اپنی بیٹی کی طرح ہم کو سمجھیں وغیرہ وغیرہ۔ تو میری کوشش یہی ہوگی کہ جو اُمیدیں میں اپنی ساس سے لگاتی تھی اب اپنی بہو کی امیدوں پر پوری اتروںاور وہ یہ کہنے پر مجبور ہو جائے کہ ساس میری سہیلی۔میرے حق میں دعا کیجئے کہ میں اپنی پیاری ماں جیسی شفیق اور نرم خو ساس بنوں۔ سنا ہے کہ ساس بن کر سارے بلند و بانگ دعوے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔ یہ خوبصورت باتیں ایک ایسی گھریلو خاتون کی ہیں جن کی شادی میٹرک کے بعدہی کردی گئی تھی۔ باقی علم و دانش انہوں نے کتابوں کے مطالعہ اور زندگی کے تجربات سے سیکھا۔مختلف ملکوں میں موجود مختلفطبقہ فکرسے تعلق رکھنے والے درجنوں خواتین و حضرات کی موجودگی میں محترمہ مہ جبیں صاحبہ کی آن لائن باتیں سنتے ہوئے ایسالگ رہا تھا جیسے ع​
رنگ باتیں کرے اور باتوں سے خوشبو آئے​
کئی روز تک جاری رہنے والے اس مکالمہ میں آپ نے علم و دانش کی بہت سی ایسی باتیں کیں، جن سے نئی نسل بالخصوص لڑکیوں کا آگاہ ہونا بہت ضروری ہے۔ آئیے محترمہ مہ جبین کی کہانی، انہی کی زبانی سنتے ہیں: میں بچپن سے ہی کم گو اور سنجیدہ قسم کی ہوا کرتی تھی ۔میں جب پرائمری کلاس میں تھی تو پہلی اور آخری بار امی سے ایک جھوٹ بولا تھا اورامی نے وہ جھوٹ پکڑ لیا تھا۔ لیکن اس کے بعد ایسا سبق ملا کہ کبھی جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ کم گو ، سنجیدہ ، کم فہم ہونے کے علاوہ بھی مجھ میں بہت ساری خامیاں ہیں۔ زندگی آخرت کی کھیتی ہے۔ آج جو بوئیں گے ، کل وہی کاٹیں گے ۔اس لئے اس زندگی کو غنیمت سمجھ کر آگے کے لئے اچھا سامان بھیجنا چاہیئے۔کئی سال پہلے سقوط مشرقی پاکستان کے تناظر میں لکھا گیا ایک ناول ”ذرا نم ہو تو یہ مٹی“ پڑھا تھا۔ اسے پڑھ کر بہت روئی تھی۔اس ناول کو بار بار پڑھنے کا دل چاہتا ہے ۔ الحمدللہ میں میوزک کا کوئی شوق نہیں رکھتی ، صرف نعتیں سننے کا شوق ہے۔ کسی قسم کی موویز نہیں دیکھتی اور نہ ایسا شوق ہے ، الحمدللہ۔ اللہ سب کو اس بُرے شوق سے بچائے آمین۔لیکن کبھی کبھی جو ڈرامے آج کل اچھے چل رہے ہیں وہ بھی دیکھ لیتی ہوں، حالانکہ یہ بھی اچھی بات نہیں ہے ،اللہ کرے کہ اس سے جلد چھٹکارا مل جائے آمین ہر حساس شخص پر یہ کیفیت ضرور طاری ہوتی ہے کہ ڈرامے میں ٹریجڈی سین دیکھ کر آنسو خود بخود نکل پڑتے ہیں۔ مجھے گھریلو اور معاشرتی مسائل پر مبنی ڈرامے اچھے لگتے ہیں لیکن ابھی تو کوئی بھی ڈرامہ باقاعدگی سے نہیں دیکھ رہی ہوں ۔جو ڈرامے آجکل چل رہے ہیں ان میں سے تو شاید پانچ فیصدہی ڈرامے معاشرتی مسائل کو حقیقت پسندانہ انداز میں دکھاتے ہونگے میں اب تو کوئی ڈرامہ فی الحال نہیں دیکھ رہی ہوں تو اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتی ، لیکن بچے جب دیکھتے ہیں تو چلتے پھرتے نظر پڑ جاتی ہے تو واقعی میں یہ دیکھ کر سوچتی ہوں کہ ایسے فضول اور واہیات ڈرامے بنانے کا کیا مقصد ہے بھلا؟ اب ہمارے ڈرامے اسلامی کلچر سے بہت دور ہوتے ہیں اور فحاشی ، عریانی اور دولت کی نمود و نمائش کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ اور رہی بات ڈراموں کے کرداروں کی تو سچ تو ا س میں ہوتا ہے لیکن کہیں کہیں مبالغے سے بھی کام لے لیا جاتا ہے جو شاید ان کی مجبوری ہے۔ڈرامہ دیکھ کر ایسے برے کرداروں کو تحریک ملتی ہے اور انکے اندر جتنی خباثت ہوتی ہے وہ ظاہر ہوجاتی ہے۔ویسے جو برے ہوتے ہیں وہ یہ دیکھے بغیر بھی برے ہی رہتے ہیں ان کے لئے تو بس دعا ہی کی جاسکتی ہے۔ اللہ ہم سب کو نفس و شیطان کے شر سے بچائے آمین
شاعری سے کافی لگاو¿ ہے۔ اور اچھی شاعری ہمیشہ مجھے متاثر کرتی ہے۔ اچھے شاعروں کا کلام پڑھ کر دل خوش ہوتا ہے۔ پسندیدہ شاعروں میں امام احمد رضا خان بریلوی، غالب، امجد اسلام امجد، پروین شاکر، احمد فراز اور نوشی گیلانی۔ اور رائٹرز میں ہاشم ندیم عمیرہ احمد، نرجس ملک فرحت اشتیاق وغیرہ ہیں۔ دوست بنانے میں ہمیشہ کنجوسی کی ، کیونکہ میں بچپن سے ہی کم گو ، سنجیدہ اور بہت لئے دئے رہنے والی تھی اس لئے زیادہ دوست نہیں بنا سکی ۔ جو اسکول کے زمانے میں دوست تھیںوہی آج بھی ہےں، کیونکہ وہ میری عادت کو سمجھتی تھی۔ لیکن بڑی عجیب و غریب بات ہے اس عمر میں آکر اس عادت سے پیچھا چھڑانا چاہتی ہوں، یعنی اچھی سہیلیاں بنانا چاہتی ہوں۔لوگوں کو یہ سن کر بڑی حیرت ہوگی کہ میںنے اپنے کپڑے کبھی خود نہیں خریدے۔ وجہ یہ ہے کہ مجھے خریداری کرنا نہیں آتی۔ ہمیشہ میرے شوہر نے ہی میری خریداری کی ہے کیونکہ وہ بہت اچھی خریداری کرتے ہیں۔ گھر کی ساری خریداری ہمیشہ سے وہی کرتے ہیں اور میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ مجھے گھر بیٹھے ہی سب کچھ مل جاتا ہے۔ سوچتی ہوں کہ اگر ان کو بھی خریداری کرنا نہ آتا تو میرا کیا ہوتا ؟ اللہ کا شکر ہے کہ ان کی پسند بھی اعلیٰ درجے کی ہوتی ہے، ہے نا مزے کی بات ؟ جیولری میں انگوٹھی ، بالیاں اور جھمکے بہت پسند ہیں۔
ماشاءاللہ میری شادی کو 28 سال ہو چکے ہیں۔ الحمد للہ میرے شوہر بہت محبت کرنے والے اور اپنی فیملی کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے ہیں۔انہوں نے ہر وقت میرا بہت خیال رکھا اور مجھے کبھی کسی چیز کی تکلیف یا کمی نہیں ہونے دی الحمدللہ ۔اور شاید میں اس انداز سے ان کا خیال نہ رکھ سکی ہوں۔ لیکن پھر بھی اتنی ساری خوبیوں کے باوجود میں سمجھتی ہوں کہ جب کسی ایک فریق کو غصہ کسی بھی بات پر آجائے تو دوسرے فریق کو مکمل خاموشی اختیار کرنا چاہئے، چاہے غلطی ہو یا نہ ہو ہر صورت میں مکمل خاموشی ہی بڑے سے بڑے طوفان کو ٹال دیتی ہے۔ اگر ایک بات کو دونوں ہی انا کا مسئلہ بنالیں تو بات ختم ہونے کے بجائے بگڑتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دلوں میں گنجائش ختم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو خاموش رہا، وہ نجات پاگیا۔ بالخصوص عورت کو حتی الامکان خلاف مرضی بات پر بھی اپنے شدید ردعمل کے اظہار سے گریز کرکے سب کچھ رب کریم کے سپرد کرکے خاموشی اختیا کرنا چاہئے۔کامیاب ازدواجی زندگی کا راز اسی میں پوشیدہ ہے۔ مجھے اپنے مسلمان عورت ہونے پر بہت بہت فخر ہے کیونکہ اسلام نے عورت کو جو مرتبہ دیا ہے وہ کچھ کم نہیں ہے۔ کسی اورمذہب نے ایسا مقام عورت کو دیا ہی نہیں۔ اور دوسری باعث فخر بات یہ ہے کہ ماں کو جو بلند مقام ملا ہے اس کی وجہ سے بھی مجھے عورت ہونے پر فخر ہے ،۔میرا رواں رواں رب کریم کا شکر گزار ہے کہ اس نے ہمیں یہ عزت بخشی ہے۔ہم ساری زندگی اس رب ذوالجلال کے حضور سجدے میں گزار دیں تب بھی اس کا شکر ادا نہ کرسکیں گے۔الحمدللہ رب العالمین
جیسے وقت گزرتا جاتا ہے بہت سی روایات اور لوگوں کی عادات بدلتی جاتی ہیں جو کل تھیں وہ آج ناپید ہیں اور جو آج رائج ہیں وہ شاید کل نہ ہونگی یہی ریت صدیوں سے چلی آرہی ہے اور شاید صدیوں تک چلتی رہے گی ۔ اصل بات یہ ہے کہ ہم ہمیشہ اپنے کل میں زندہ رہنا چاہتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے ساتھ ہمارے کل میں زندہ رہیں۔ ہمارے والدین بھی یہی چاہتے تھے کہ ہم ان کے ماضی کی طرح زندگی گزاریں۔لیکن ہم زمانے کے ساتھ ساتھ چلتے رہے۔پھرجب ہمارے بچوں کا دور آتا ہے تو ہم ڈکٹیٹر بن کر یہ چاہتے ہیں کہ وہ ویسا کریں جیسا ہمارے ماضی میں ہوتا تھا۔ ایسا ممکن نہیں ہوتا پھر ہم ایسی توقعات کیوں لگاتے ہیں۔ ہمیں اپنے رویے میں لچک رکھنی چاہئے تاکہ زندگی پرسکون رہے اور ہمارے بچے بھی ہم سے خوش رہیں۔ لہٰذا میں ایسی امیدیں نہیں لگاتی جو کبھی پوری نہ ہوں۔ زندگی کا توازن بھی اسی بات میں ہے کہ ماضی کے بجائے حال میں زندہ رہنے کی کوشش کی جائے۔
ایک بات تو یہ ہے کہ میرے اندر قوت فیصلہ بالکل بھی نہیں ہے، ہمیشہ میں فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار رہتی ہوں اس لئے جب ایسا وقت آیا تو میں نے اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور انہوں نے مجھے کبھی اس بات کا طعنہ نہیں دیا کہ تم کو تو کچھ خریدنا ہی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ ایسے وقت میں مجھے ان کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور عید ہو بقرعید ہو یا کوئی اور موقع، ہمیشہ انہوں نے میری بھرپور مدد کی ہے اور مجھے گھر بیٹھے ہی بہترین چیزیں مل جاتی ہیں تو مجھے بازار کے چکر لگانے کی کیا ضرورت ہے؟ اگر تو مجھے انکی سپورٹ نہ ہوتی تو پھر مرتی کیا نہ مرتی خود ہی بازار کے چکر کاٹ کر خریداری کرنا آجاتی، لیکن ان کی اس مدد نے مجھے اس معاملے میں بالکل نکما کر دیا ( اچھا ہی ہے نا ، جان چھٹی سو لاکھوں پائے) ۔ شاپنگ کا بالکل بھی شوق نہیں ہیں۔ کوئی مجھ سے اگر بازار چلنے کا کہہ دے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے یہ میری سزا ہو۔ لیکن اگر مارے باندھے کسی کے ساتھ بازار جانا بھی پڑ جائے تو بس جو لینا ہو لے کر جلد سے جلد گھر واپسی کی فکر ہوتی ہے بس ہے نا مزے کی بات۔
عورت ہر رنگ میں بے مثال ہے ( مرد حضرات اس کو میری خوش فہمی کہیں گے، پرواہ نہیں) لیکن سب سے خوبصورت رشتہ " ماں " کا ہے سب سے پیارا اور سب رشتوں سے اچھا ، خالص محبت کرنے والا رشتہ صرف ماں کا ہی رشتہ ہے، ہر جذبے میں ملاوٹ اور کھوٹ ہو سکتا ہے لیکن اس رشتے میں نہیں۔ سو یہ رشتہ سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے ۔ دیگر رشےوںکا نمبر بعد میں آتا ہے۔ ماں جیسی کوئی اورہستی اس دنیا میں ہے کہاں؟ نہیں ملے گا بدل اس کا،چاہے ڈھونڈ لیں سارا جہاں۔ اور ہاں مردوں میں باپ کا رشتہ سب سے پیارا ہوتا ہے ، کیونکہ وہ اپنی اولاد کے لئے بہت مخلص ہوتا ہے، اور اپنی زندگی میں توازن رکھنے والے مرد بھی قابل احترام ہوتے ہیں۔ یہ زندگی ہے ہمیں یہاں قدم قدم پر ہر قسم کے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کچھ بہت اچھے بھی ہوتے اور کچھ بہت برے بھی ہوتے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم یہ توقع رکھیں کہ سب لوگ ہمیں اچھے ملیں ، ہمیں دوسروں کے لئے اچھا بننے کی کوشش کرنی چاہئے۔ کیا پتہ کہ وہ ہمارے اچھے طرز عمل سے ہمارے لئے اچھا بن جائے۔ بس ہمیشہ خوش اخلاقی سے پیش آنے کی کوشش کرنی چاہئے یہ سوچ کر کہ اچھوں کے ساتھ اچھا بننا کوئی خوبی نہیں بلکہ بُروں کے ساتھ اچھا بننا خوبی ہے۔ ویسے مجھے تعمیری سوچ کے حامل مذہبی لوگ متاثر کرتے ہیں۔ پہلی ہی ملاقات میں یہ اندازہ لگانے کی کوشش کرتی ہوں کہ یہ شخص مذہب سے کتنا قریب ہے؟ باقی باتیں بعد میں دیکھتی ہوں۔ نمود و نمائش کی بڑی وجہ اپنی مذہبی اقدار سے دوری ہے،اور ذرائع ابلاغ کا بھی اس میں اہم کردار ہے۔ہر طرف اندیشہ سود و زیاں ہے زندگی ع
میں نے زندگی میں بہت کچھ پایا ہے، اپنی بساط سے بھی بڑھ کر۔، مجھے میرے رب کریم نے اتنا نوازا ہے کہ اب تو دامن بھی تنگ پڑ گیا ہے۔ بے شک جھولی ہی میری تنگ ہے ، تیرے یہاں کمی نہیں۔ انسان خواہشات کا غلام ہے ، جتنی بھی پوری ہو جائیں پھر بھی یہی سوچتا ہے کہ وہ نہیں ملا، یہ نہیں ملا۔ کسی بزرگ کا قول ہے کہ ضرورتیں تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں لیکن خواہشات بادشاہوں کی بھی باقی رہتی ہیں۔ سو اسی لئے میں نے اپنی زندگی میں بہت زیادہ خواہشات نہیں پالیں اور ہمیشہ اطمینان قلب حاصل رہا الحمدللہ۔ بس پایا ہی پایا ہی کچھ نہیں کھویا۔ ہاں ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ زندگی غفلت میں گزار دی اور اللہ کی بندگی کا حق کماحقہ ادا نہ کر سکی۔ پتہ نہیں میں رب کریم کو راضی بھی کر سکی ہوں کہ نہیں اور آخرت میں میرا کیا ہوگا ، جب اللہ کے حضور میں پیش ہوں گی تو میرے اعمال کے پیش نظر جو ہوگا وہ سوچ کر ہی لرز جاتی ہوں۔ استغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ ۔ ماضی کو یاد رکھ کر مستقبل کی منصوبہ بندی کریں اور اپنے حال کو اچھا بنانے کی کوشش جاری رکھنی چاہئے ۔ یہی کامیاب زندگی کا راز ہے۔ اللہ ہمارے بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ بنائے آمین۔
 

یوسف-2

محفلین
عورتوں پر مردوں کے تشدد کے تو خلاف ہوں لیکن میرا مشاہدہ یہ ہے کہ ایسے پچانوے فیصد واقعاتمیں کہیں نہ کہیں عورتوں کا قصور ہوتا ہے ۔اس بات سے کہیں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ میں شتر بے مہار مَردوں کی حوصلہ افزائی کر رہی ہوں۔ مرد کو اللہ نے حاکمیت بخشی ہے تو اس کی حدود بھی مقرر فرمادی ہیں۔ اسی طرح عورتوں کو اگر کمزور بنایا ہے تو ان کے لئے بھی بہت سی رعایتیں عطا فرمائی ہیں۔ لیکن ساتھ ساتھ شوہر کی اطاعت اور خوشنودی کو ہم پر واجب قرار دیا ہے۔ اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی کے سواجس کام میں شوہرکی خوشنودی ہو، اس کو کرنا ہم پر واجب اور جس میں ناراضگی ہواس سے بچنا لازم ہے۔ لیکن اکثر ہوتا کچھ یوں ہے کہ کہیں ہماری انا ، کہیں ہمارے والدین کی انا اس کام میں بڑی رکاوٹ بن جاتی ہے اور یوں پھر پہلے ایک سرد جنگ کا آغاز ہوتا ہے اور ہوتے ہوتے یہ جنگ توتکار میں بدل جاتی ہے۔، یہ سب مرد کی انا پر کاری ضرب لگاتی ہیں اور پھر یہ سارا لاوا ابل پڑتا ہے۔ مرد اپنی طاقت کے بل پر عورت کو دبانا چاہتا ہے اور عورت اس کو اپنی توہین سمجھ کر اپنی صفائیاں دیتی ہے جو مرد برداشت نہیں کرتا ۔ نتیجہ پھر ذہنی جسمانی تشدد کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ اس لئے ہم صرف مرد کو اس کا ذمہ دار قرار نہیں دے سکتے۔ اگر عورت اپنی انا کو ہمیشہ کے لئے دفن کردے اور شوہر کی خوشنودی کو ہی اپنی زندگی کا مقصد بنالے تو شوہر کو ہاتھ اٹھانے کا موقعہ بھی نہیں ملے گا ۔ اس طرح صرف خاموشی سے ہی اس تشدد کا راستہ روکا جاسکتا ہے اور دوسرا راستہ تو تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ میں اپنی بہنوں اور بیٹیوں کو یہی پیغام دینا چاہوں گی کہ آزمائشوں کی بھٹی میں پک کر ہی کندن بنا جاسکتا ہے اور اللہ کی بارگاہ میں قرب حاصل کرنے بھی یہی ایک راستہ ہے۔ آج کی تکلیفیں کل کی راحتوں میں بدل جائیں گی انشا ءاللہ
مجھے تدریسکا شوق تھا اور یہی ارادہ تھا کہ اسی شعبہ میں آگے جانا ہے لیکن پھر میٹرک کے فوراً بعد ہی شادی ہوگئی۔ مجھے اپنی پیاری امی کی شخصیت نے بہت زیادہ متاثر کیا اور تا زندگی ان کی شخصیت کا عکس میرے دل پر نقش رہے گا۔ میری ذات میں تعریف کے لائق کچھ بھی نہیں۔ میں ایک خالی خولی ڈبہ ہوں اور کچھ نہیں۔ ویسے تو میری خامیوں کی فہرست کافی لمبی ہے لیکن ایک قابل ذکر خامی جس سے چھٹکارا چاہتی ہوں وہ ہے راستے یاد نہ رہنا۔ مجھے بہت کوفت ہوتی ہے اپنی اس عادت سے ، دل چاہتا ہے کہ بغیر کسی کی مدد کے ہر جگہ چلی جاو¿ں ، مگر ایسا نا ممکن ہے۔
جن بھائیوں اور بہنوں کو میری بہت ساری باتوں سے اختلاف ہے یا انہیں میری بہت سی باتیں ہضم نہیں ہو رہی ہیں تو ان کی خدمت میں نہایت ادب کے ساتھ یہ عرض ہے کہ میں نے زندگی کو جس طرح سمجھا ، جانا یا جو بھی میرے نظریات اور مشاہدات ہیں وہ میں نے نہایت سچائی کے ساتھ لکھ دئے ہیں ۔ ان کو زبردستی کسی پر ٹھونسنا یا اپنی بات کو ہر ایک سے منوانا میرا مقصد تھا ، نہ ہے۔ اختلاف رائے تو ہر ایک کا بنیادی حق ہے اس سے کوئی کسی کو کیسے روک سکتا ہے،۔جو لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی بیویاں اپنی انا کو پس پشت نہ ڈالیں اور ان کی خوشی کو مقدم نہ رکھیں تو یہ ان کی اپنی زندگی ہے وہ جیسا چاہیں کریں ، میں نے تو بھائیوں یا بیٹوں کو کوئی نصیحت نہیں کی صرف اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے اپنے خیالات کو شئیر کیا ہے ان پر بھی کوئی زبردستی نہیں کی ہے ، عمل کرنا نہ کرنا انکےا ختیار میں ہے
کراچی میں تو مجھے بس اپنا گوشئہ عافیت اپنا پیارا گھر سب سے زیادہ اچھا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ سی ویو بہت اچھا لگتا ہے ۔ اپنا ملک پاکستان بڑا ہی خوبصورت ہے لیکن ابھی تک اس کی سیر کا موقعہ ٹھیک سے نہیں ملا ۔ بہت مختصر قیام لاہور، ملتان اور حیدرآباد میں رہا۔لیکن کراچی تو کراچی ہے اس کے علاوہ کہیں دل نہیں لگتا۔ میرے بچے ماشاءاللہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور انکی مطالعہ کی عادت مجھے بہت اچھی لگتی ہے
اچھائی اور برائی اس دنیا میں موجود ایسی حقیقتیں ہیں کہ جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب ہماری آزمائشیں ہیں کہیں ہم اس میں پورے اترتے ہیں اور کہیں ہم شیطان کا آلہ کار بن جاتے ہیں۔ ہر خاندان میں اچھے اور برے لوگ موجود ہوتے ہیں ، پہلے کے مقابلے میں اس وقت برائی کا تناسب زیادہ ہوگیا ہے یا پہلے لوگ ڈھکے چھپے برے کام کرتے تھے اب کھلم کھلا کرتے ہیں بہرحال شیطان کا مکرو فریب تو صدیوں سے جاری ہے اور قیامت تک کے لئے اس کو اللہ نے چھوٹ بھی دی ہے اور طاقت و قوت بھی۔ لیکن جو اللہ کے نیک بندے ہیں وہ اسکے بہکاوے میں نہیں آتے۔ جہاں تک رشتہ داریوں میں دراڑیں ڈالنے والی بات ہے تو یہ تو شیطان کا محبوب مشغلہ ہے ، قریبی عزیزوں میں جدائی ڈالنا۔اور اس کے آلہءکار یہ کام ہر وقت کرتے ہی رہتے ہیں اور خاندانی سیاست کا بازار ہر جگہ گرم رہتا ہے تو کبھی کوئی اسکا نشانہ بنتا ہے تو کبھی کوئی۔ ہمارا مذہب ہمیں آپس کے میل جول کی تعلیم دیتا ہے اور بنیادی طور پر ہمیں گناہ سے نفرت کا درس ملتا ہے گناہ گار سے نہیں، اس لئے ملنا جلنا بھی بہت ضروری ہے بس ایسے شخص سے ملنے میں احتیاط لازم ہے اور اپنا رویہ بالکل لئے دیئے رکھنا ضروری ہے کہ وہ ہماری کمزوریوں کو پکڑ کر ہمیں بلیک میل نہ کر سکے اور یہ کہ کسی اور کو بتا کر ہمیں نقصان نہ پہنچا سکے
میرا خیال ہے کہ لڑکیوں کو بلا ضرورت ملازمت نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر کوئی مجبوری ہو یا معاشی طور پر تنگی ہو تب ایسا کرنا ٹھیک ہے لیکن اگر معاشی الجھنیں نہ ہوں اور بظاہر کوئی مجبوری بھی نہ ہو تو پھر بلاوجہ گھر سے باہر نکل کر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے سے کیا حاصل ہے؟ عورت کا اصل مقام اس کا گھر ہی ہے ، چاہے وہ ماں باپ کا گھر ہو یا شوہر کا ، اسی پر توجہ دینا ہماری زندگی کا نصب العین ہے ۔ شوقیہ ملازمت اختیار کرکے ہم اپنے سر دوہری ذمہ داریاں ڈال رہے ہوتے ہیں اور پھر اس زعم میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ ہم مردوں سے کسی طور کم تھوڑی ہیں۔ یہی زعم تو معاشرتی بگاڑ کا نقطہءآغاز ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ہر لڑکی یا عورت اس زعم میں مبتلا نہیں ہوتی ، لیکن اکثریت اس نظریے کی یا تو حامی ہوتی ہے یا پھر یہ معاشرہ اس کو باغی کردیتا ہے تو وہ ایسا سوچنے میں اپنے آپ کو حق بجانب سمجھنے لگتی ہے بہرحال کچھ مثبت سوچ کی حامل لڑکیاں اور عورتیں اب بھی ہیں جو بے لوث کام کرتی ہیں اور صلہ کچھ بھی نہیں مانگتیں ۔مگر ایسی خواتین کی تعداد کم ہے۔
 

یوسف-2

محفلین
بچپن میں اشیاق احمد کے ناول میں انسپکٹر جمشید کا کردار مجھے بہت پسند تھا اور ہمیشہ اس کے بہادری کے قصے پڑھتے ہوئے میں بہت پرجوش ہوجاتی تھی اور وہ تخیلاتی خاکہ مجھے اتنا اچھا لگتا تھا کہ میں سمجھتی تھی کہ میرے ملک کا ہر شہری اور خصوصاً دفاع کے محکموں سے متعلقہ ہر شخص اتنا ہی محب وطن ہوتا ہے۔ لیکن جب شعور کی دنیا میں قدم رکھا اور اپنے ملک کے شہریوں اور دفاع سے متعلق محکموں کی کارکردگی ملاحظہ کی تو یہ تخیلاتی خاکہ ٹوٹ کے چکنا چور ہو گیا اور اب تو دور دور تک ایسا کردار کہیں نظر نہیں آتا۔ میں سوچتی ہوں کہ نہ جاننے کا تو ایک ہی دکھ ہے، پر آگہی کے ہزار دکھ ہیں۔
اپنے شعبے کا چناو¿ اور شادی کے معاملات میں بالکل بچوں کی رائے اور مرضی کی بہت اہمیت ہوتی ہے، لیکن اپنے بچوں کو صحیح رہنمائی دینا بھی تو والدین کے فرائض میں شامل ہے۔ میرا خیال ہے کہ بچے جس عمر میں ہوتے ہیں وہاں جذبات زیادہ اور عقل کم استعمال ہوتی ہے ، اس وقت بچوں کو زمانے کی اونچ نیچ سمجھا کر انکی مرضی پر چھوڑ دینا چاہئے۔ آگے جو ان کا نصیب۔لیکن کچھ جگہ پر بچوں کو ان کی مرضی کے مطابق چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں ہوتا۔ حتی الا امکان انہیں سمجھانا ہی چاہئے ۔ والدین نے ایک طویل عمر گزاری ہوتی ہے اور اپنے تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر جو بھی اپنے بچوں کو سمجھائیں گے، وہ غلط نہیں ہوگا۔ اب یہ بچوں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے فیصلوں سے استفادہ کرتے ہیں یا نہیں۔
مجھے صبح کا وقت اچھا لگتا ہے اس لئے کہ اس وقت تازگی کا احساس بہت ہوتا ہے۔ جب بہت بوریت ہورہی ہوتی ہے تو کبھی کبھار کوئی سا بھی چینل لگا لیتی ہوں۔ جب سیاستدانوں کو آپس میں باہم دست و گریباں دیکھوں تو طبیعت اور مکدر ہو جاتی ہے ۔ پھر کسی کتاب کا مطالعہ کرکے یا نیٹ کھول کر اپنا دھیان بٹاتی ہوں۔ ویسے ٹاک شوز بھی کوئی دیکھنے کی چیز ہیں بھلا؟ جہاں سب ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں ہی مصروف ہوتے ہیں۔ قوم کو کیا مسائل درپیش ہیں اس کا تو انہیں رتی برابر بھی احساس نہیں ہے۔ اسی لئے مجھے ان ٹاک شوز سے بہت چڑ ہے۔ ہاں کوکنگ شوز میں شوق سے دیکھتی ہوں اور جو ترکیب اچھی لگے وہ لکھ لیتی ہوں۔ اور جب ضرورت پڑتی ہے تو اسے آزما کر داد بھی وصول کرتی ہوں۔شیفسارہ ریاض کی ترکیبیں اچھی لگتی ہیں وہی آزماتی رہتی ہوں۔میں نے بیکنگ بھی انہی سے سیکھی ہے الحمدللہ
کراچی کے حالات ہوں یا پورے ملک کے۔ اب ان میں سدھار آنا بظاہر بہت مشکل ہے، کیونکہ دن بدن ہم اخلاقی پستیوں کا شکار ہوتے جارہے ہیں ، ہر شخص خود کو غلطیوں سے مبرا سمجھتا ہے اور حق لینا تو جانتے ہیں لیکن دینا نہیں۔ ہر برائی کی جڑجھوٹ اوربددیانتی ہے ، جومعاشرے میں عام ہے۔ ساری بات یہی ہے کہ اپنے دین کے اصولوں کی خلاف ورزی نے ہمیں کمزور اور رو بہ زوال کر دیا ہے۔ بس اب تو صرف ربِ کریم کی بارگاہ میں عاجزی کے ساتھ آہ و زاری کی ضرورت ہے کہ وہی ہمیں ان پستیوں سے نکال سکتا ہے۔ عام خواتین ہوں یا مرد ہم سب ایک ہی جیسے تعصب میں مبتلا ہیں ، سیاسی پارٹیاں بھی اپنے سوا سب کو غلط سمجھتی ہیں۔ یہی عمومی رویہ ہے جو بد امنی کا سبب ہے اور یہی وجہ ہے کہ خاندان میں بھی آپس کی محبتیں اور اتفاق سرے سے کہیں نظر نہیں آتا اور چھوٹی چھوٹی باتیں رنجشوں کا سبب بن جاتی ہیں اور پھر مدتوں تک ہم اپنے دل میں عداوتوں کو پالتے رہتے ہیں۔ اللہ ہم سب کے حال پر رحم فرمائے آمین
موجودہ پود بہت ذہین و فطین ہے۔ میں اپنی نسل سے نئی نسل کا مقابلہ کرتی ہوں تو سوچتی ہوں کہ اس عمر میں تو ہم بالکل بدھو اور احمق تھے۔ جس عمر میں ہمارے بچے ہم سے دس گنا زیادہ بہتر سوچ سکتے ہیں ا ور بہتر طریقے سے چیزوں کو استعمال کرنے کا فن جانتے ہیں ہم تو آج اس عمر میں بھی کورے کے کورے ہی ہیں۔ ویسے ہماری نسل میں سادگی بہت تھی لیکن آج کا زمانہ بہت نمائشی گلیمرائزڈ ہو گیا ہے معیارِ زندگی بہت زیادہ بلند ہو گیا ہے جس کی وجہ سے رشتوں کی مٹھاس اور خوبصورتی ختم ہو گئی ہے ۔ ہمارے زمانے میں بے شک اتنی زیادہ سہولتیں نہیں تھیں لیکن رشتوں میں خلوص اور محبت تھی، اس لئے بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ زندگی کی آسائشیں تو مل گئیں لیکن اخلاص رخصت ہو گیا۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں زمانے کے چال چلن بہت بدل گئے ہیں اور ایسا تو ہوتا ہی رہے گا ۔جب تم لوگ ہماری عمروں کو پہنچو گے تو اپنے بچوں سے ایسے ہی کہوگے کہ ہمارے زمانے میں تو ایسا نہیں ہوتا تھا اور وہ کہیں گے کہ آپ کا زمانہ اور تھا ہمارا زمانہ اور ہے۔ دنیا اسی کا نام ہے یہ اسی طرح بدلتی رہے گی جسے لوگ ترقی کا نام دیتے ہیں ،ہماری نسل کے لوگ اس کو اپنی اقدار سے دوری کہتے ہیں پتہ نہیں ہم صحیح ہیں یا ہمارے بچے؟
 

یوسف-2

محفلین
زیادہ بولنے سے صحت پرتو کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن خود ہم اپنے الفاظ کے پھیر میں اکثر پھنس جاتے ہیں۔ گھر کے کاموں میں سب ہی کام کر لیتی ہوں خوشی سے لیکن گھر کی صفائی ستھرائی کرکے زیادہ خوشی محسوس ہوتی ہے۔اور جب کھانا پکانا نہیں آتا تھا تو بورنگ لگتا تھا لیکن جب سنجیدگی سے سیکھا تو یہی کام اچھا لگنے لگاہے۔ پرانی چیزوں کو سنبھال کر رکھنے کی عادت ہے، جس سے میری بیٹی بہت الجھتی ہے۔ اصل میں چیزیں سنبھال کر رکھنے سے ہوتا یہ ہے کہ ہم اپنے ماضی کی یادوں میں رہنا چاہتے ہیں اور پرانی چیزیں ہمیں ماضی کی یاد دلاتی رہتی ہیں۔ جب ہم کئی سال پرانی چیزیں دیکھتے ہیں تو اس سے جڑی کئی خوشگوار باتیں ایک عجیب سی خوشی کا احساس دلاتی ہیں۔شادی بیاہ میں ایسی کوئی خاص رسم یا چیز نہیں ہے جو نہ ہو تو کوئی بد شگونی کہلائے ۔اس لئے کہ یہ سب بیکار کی باتیں ہیں کہ یہ ہو ، وہ ہو۔ جتنی فضول رسموں سے بچیں اتنا ہی اچھا ہے تاکہ کسی پر بلاوجہ کا بار نہ ہو اور کوئی ہماری بے جا خواہشات سے تنگی کا شکار نہ ہو۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں میں آسانیاں بانٹنی چاہئیں تاکہ اللہ ہمیں آسانیاں عطا فرمائے۔ صفائی والی سے کام کی ٹپس یہ کہ اس کے پیچھے پیچھے رہو اور اس کے کاموں پر کڑی نظر رکھو نرمی اور سختی دونوں ہی کی ضرورت ہوتی ہے اگر صرف نرمی سے کام لیں گے تو وہ آہستہ آہستہ کاموں سے غافل ہوتی جائے گی اور اگر صرف سختی ہی کرتے رہیں تو وہ گھبرا کے کام چھوڑ کر چلی جائے گی لہٰذا کبھی نرم اور کبھی گرم!
میرے خیال میں لڑکیوں کی شادی کےلئے بہترین عمر 20 سے 25 کے درمیان ہوتی ہے ، اِس سے چھوٹی عمر کی لڑکیاں ذہنی طور پر ناپختہ ہوتی ہیں تو سسرال کے معاملات کو ٹھیک طریقے سے سمجھ نہیں پاتیں۔ اور قدم قدم پر پریشانیوں کا سامنا کرتی ہیں جس کی وجہ سے وہ ذہنی انتشار کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جب کہ 20 سے 25 کے درمیان لڑکیوں میں ذہنی طور پر پختگی آجاتی ہے اور وہ سسرال کے معاملات کو اچھے طریقے سے سمجھ لیتی ہیں اور پھر سمجھداری سے اپنے گھر کو چلاتی ہیں۔ ویسے سمجھداری کا تعلق عمر سے ہی نہیں ہوتا بلکہ تعلیم و تربیت بھی اس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم تو ہمیشہ ہی بہت ضروری رہی ہے لیکن آج کے دور میں تو بے حد اہم ہے، کم از کم بی اے تو ضرور مکمل ہونا چاہئے اور ایم اے کر لیں تو اور بھی اچھا ہے ، کیونکہ مہنگائی کے اِس دور میں صرف شوہر کی کمائی پر گھر کو چلانا انتہائی دشوار ہو گیا ہے ، یہ وہ وقت ہے کہ میا ں بیوی کو مل کر گھر کی گاڑی کو چلانا پڑتا ہے، اگر تو لڑکی کی تعلیم ادھوری رہ جائے تو بعد میں ا±س کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ۔، حالانکہ میںبلا ضرورت لڑکیوں کی ملازمت کے سخت خلاف ہوں ۔ اگر دوران تعلیم کوئی اچھا رشتہ آتا ہے تو باہمی مشاورت سے اس بات پر سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے کہ پہلے تعلیم مکمل ہوجائے یا شادی کے بعد لڑکی اپنی تعلیم مکمل کرے ۔ لڑکی کی خود اعتمادی کے لئے بھی تعلیم کی بڑی اہمیت ہے۔ لیکن اگر لڑکی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کر رہی ہو، جیسے، طب، انجینئرنگ، قانون وغیرہ تو میرا خیال ہے گریجویشن کرتے ہی شادی کرنا مناسب ہوتا ہے کیونکہ لڑکیوں پر جتنی جلدی جوانی آتی ہے تو واپسی کا سفر بھی ا±سی مناسبت سے شروع ہوجاتا ہے۔ پھر لڑکیوں کے رشتے بھی ایک مناسب وقت تک آتے ہیں اور پھر عمر ذرا بھی زیادہ ہوجائے تو لڑکوں کے تو نہیں پھر "بابوں" کے رشتے آتے ہیں یا پھر آتے ہی نہیں۔اسپیشلائزیشن ، پریکٹس اور کیرئیر میں "قدم جمانے" کے بعد لڑکی کی عمر یقینا اتنی زیادہ ہوجاتی ہے کہ کبھی قسمت ہی سے کوئی اچھا رشتہ آ سکتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ پھر آڑھے ٹیڑھے رشتے آئیں جو لڑکی اور اس کے گھر والوں کے لئے ذہنی اذیت کا سبب بن سکتے ہیں۔ اس لئے مناسب یہی ہے کہ مناسب عمر میں اچھے رشتوں کو انکار محض اس بنیاد پر نہ کیا جائے۔ اللہ کا نام لے کر شادی کردینا ہی اچھا ہوتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر اچھے رشتوں کو ٹھکرانا کفرانِ نعمت بھی ہوتا ہے جس سے حتی الامکان بچنا بہتر ہے۔
شادی کرنا تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اس مذہبی فریضے کو ادا کرنا اس لئے بھی ضروری ہے۔ ویسے بھی یہ معاشرہ اکیلی عورت کا جینا محال کردیتا ہے قدم قدم پر ایک تنہا عورت کو مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور وہ ایک اکیلی اس معاشرے کے ناسوروں سے نہیں نمٹ سکتی، وہ چاہے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہو اور بظاہر خوش و خرم اور مطمئن ہو تب بھی اس کو مرد کے سہارے کی ضرورت رہے گی ۔ میری یہبات آزادی حقوقِ نسواں کی تنظیموں کو بُری لگے گی اور کچھ ایسے مرد حضرات بھی بہت جز بز ہونگے جنہوں نے عورت کو ان کے حقوق کے نام پر مادر پدر آزاد بنادیا ہے۔ہم عورتیں برابری کے بلند وبانگ دعوے تو کرتی ہیں لیکن مرد کی طرح بوجھ نہیں اٹھا سکتی ہیں۔ جہاں بھاری کام کی بات آجائے تو کسی مرد کو دیکھتی ہیں کہ کوئی ہمارا بوجھ اٹھا کر رکھ دے۔ ایسے ہی گاڑی تو ہم چلالیتی ہیں لیکن راستے میں گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جائے تو راہ چلتے "بھائیوں " کو آوازیں لگائیں گی کہ ذرا ٹائر بدل دیں اور "بھائی" حضرات فوراً دوڑے چلے آتے ہیں۔ تلخ نوائی کی معذرت، مگر یہ حقیقت تسلیم کر لینا چاہئے کہ مرد کے بغیر عورت ادھوری اور عورت کے بغیر مرد۔ لہٰذا عورت کو تنہا رہنے کے بجائے شادی کرلینی چاہئے کہ دنیا کی کڑی دھوپ میں شوہر ایک سائبان کی مانند ہوتا ہے ۔
جن لڑکیوں کی کسی بھی وجہ سے شادی نہ ہوسکی ہوایسی لڑکیوں اور عورتوں کو سماجی بہبود کے کاموں میں تن من دھن سے مشغول ہوجانا چاہئے کہ یہ ہماری زندگی کا بہترین مصرف ہے کسی کی فلاح و بہبود کے کاموں میں لگ جانا بذاتِ خود بہت بڑی نیکی ہے ، یہ کام صرف ایسے ہی لوگوں کے لئے ہی نہیں بلکہ معاشرے کے تمام افراد کو بقدرِ استطاعت اپنا حصہ ڈالنا چاہئے لیکن چونکہ شادی شدہ افراد اپنے گھر گرہستی میں جڑ جاتے ہیں تو وہ ذمہ داریاں انکی پہلی ترجیح ہوجاتی ہیں ، اس لئے غیر شادی شدہ لوگ اس کام کو خوش اسلوبی سے نبھا سکتے ہیں تو اس میں وقت کا زیاں بھی نہیں ہے اور دین و دنیا میں فلاح کا باعث بھی ہے۔ اللہ ایسی لڑکیوں اور عورتوں پر اپنا فضل و کرم فرمائے اور انکی جان ، مال، عزت و آبرو کی حفاظت فرمائے آمین ()
 
بہت خوب! اسے کارنامہ کہیے یا کیا کہیے؟ اسے پڑھنے کی کو بالکل ضرورت نہ تھی کیوں کہ سب کچھ تو پڑھ چکے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر دہرا رہے ہیں کہ آپ نے گھنٹوں صرف کیے ہوں گے اس کو کمپائل کرنے میں تو امی جان کی خوبصورت باتیں دہرانے میں کیا جاتا ہے۔ :) :) :)

ہمارا خیال ہے کہ اسے بجائے تعارف کے "ذکر محفلین" زمرے میں جانا چاہئے۔ :)
 

یوسف-2

محفلین
بہت خوب! اسے کارنامہ کہیے یا کیا کہیے؟ اسے پڑھنے کی کو بالکل ضرورت نہ تھی کیوں کہ سب کچھ تو پڑھ چکے ہیں۔ لیکن یہ سوچ کر دہرا رہے ہیں کہ آپ نے گھنٹوں صرف کیے ہوں گے اس کو کمپائل کرنے میں تو امی جان کی خوبصورت باتیں دہرانے میں کیا جاتا ہے۔ :) :) :)

ہمارا خیال ہے کہ اسے بجائے تعارف کے "ذکر محفلین" زمرے میں جانا چاہئے۔ :)
میری سمجھ میں نہیں آیا کہ اسے کہاں پوسٹ کروں؟ آپ اسے ”ذکر محفلین“ میں منتقل کردیجئے۔
اور ہاں یہ نہ تو میراکوئی کارنامہ ہے، نہ اس کام میں گھنٹوں صرف ہوئے ہیں :) اصل کارنامہ تو چھوٹی بہنا @ مہ جبین کا ہے، جنہوں نے اتنی خوبصورت باتیں اتنی روانی سے تحریر کیں ہیں۔ ان کی اجازت سے ہم نے ان کے یہ زریں خیالات کئی دیگر فورمز پر بھی نقل کئے ہیں تاکہ مستقبل میں گھریلو ذمہ داریاں سنبھالنے والی بچیاں اس سے سبق سیکھ سکیں۔ آپ کو (اور سسٹر مہ جبین کو بھی :D )شاید اندازہ نہیں ہے کہ اس انٹرویو میں خواتین کے لئے کتنی ”نعمتیں“ چھپی ہوئی ہیں۔ میرا ارداہ تو ہے کہ اسے پرنٹ میڈیم کی خواتین ریڈرز کے لئے بھی ”قابل پڑھ“ بنایا جائے۔تاکہ وہ بھی زندگی کےاِن سنہرے اصولوں سے واقف ہوسکیں۔یہ صرف کہنے، لکھنے اور پڑھنے کی باتیں نہیں ہیں بلکہ ان پر عمل کرکے زندگی کو سنوارنے والی باتیں ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
بہت خوبصورت، بہت خوب یوسف بھائی۔ زبردست۔
شمشاد بھائی ! اس دھاگہ کی ساری خوبی و خوبصورتی بہن مہ جبین کے دم سے ہے۔ میں نے تو صرف کاپی پیسٹ کے ذریعہ علم و دانش کے بکھرے موتی پروکر ایک مالا کی صورت دیدی ہے۔ تاکہ جس خوبرو کا جی چاہے اس مالا کو پہن کر مہ جبین سی بن جائے۔ :) اور اپنی عملی زندگی کو مسرت و کامیابی سے ہمکنار کر لے۔ :)
 

نایاب

لائبریرین
بہت خوب مخلصی سے بھرپور شراکت
بکھرے موتی اکٹھے کر مالا بنانا آسان ہے کیا ۔۔۔۔۔ ؟
محترم یوسف ثانی بھائی
 

یوسف-2

محفلین
بہت خوب مخلصی سے بھرپور شراکت
بکھرے موتی اکٹھے کر مالا بنانا آسان ہے کیا ۔۔۔ ۔۔ ؟
محترم یوسف ثانی بھائی
آسان بھی ہے اور مشکل بھی ۔ ۔ ۔ :D
اگر آپ مالا بنانے کے ”فن“ سے آشنا ہیں تو یہ بہت آسان کام ہے۔ اور اگر نا آشنا ہیں تو بہت مشکل۔ میں ”درمیان“ میں کہیں ہوں۔:D

اس سے قبل عبداللہ بھائی عرف ایتھیسٹ کے انٹرویو نے ”ایٹریکٹ“ کیا تھا۔ چنانچہ وہاں اُن سے بھرپور سوال و جواب بھی ہوئے تھے اور انٹرویو کے ”اختتام“ پر ان کی فکر کے بکھرے موتیوں کی مالا بنانے کابھی خیال آیا تھا۔ ابھی ایک ہی لڑی تیار کی تھی کہ ”خبر“ آئی موصوف (یعنی کہ ایتھیسٹ صاحب بقلم خود :D ) اپنے دوست کے ساتھ عمرہ کرنے کعبۃ اللہ پہنچ گئے۔ بس پھر اس مالا کو ”نامکمل“ ہی چھوڑ دیا کہ ”مقصد“ تو ویسے ہی پورا ہوگیا، اب مالا بنانے کا کیا فائدہ :D
 

مہ جبین

محفلین
یوسف ثانی بھائی ، میں آپکی اس قدر عزت افزائی پر تہِ دل سے مشکور ہوں، کہ آپ نے میری اِن باتوں کو بہت سارے فورم تک پہنچایا ( جب کہ مجھے تو اس میں کوئی دانش مندی نظر نہیں آتی)
میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری عام سی باتوں کو اتنی پذیرائی ملے گی ۔۔۔۔! یہ آپ سب کا حسنِ نظر ہے شاید ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔

خاک مجھ میں کمال رکھا ہے
مصطفیٰ نے سنبھال رکھا ہے

میرے عیبوں پہ ڈال کر پردہ
مجھ کو اچھوں میں ڈال رکھا ہے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سب اراکینِ محفل کی تہِ دل سے مشکور و ممنون ہوں
جزاک اللہ خیراً کثیراً
 

یوسف-2

محفلین
یوسف ثانی بھائی ، میں آپکی اس قدر عزت افزائی پر تہِ دل سے مشکور ہوں، کہ آپ نے میری اِن باتوں کو بہت سارے فورم تک پہنچایا ( جب کہ مجھے تو اس میں کوئی دانش مندی نظر نہیں آتی)
میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میری عام سی باتوں کو اتنی پذیرائی ملے گی ۔۔۔ ۔! یہ آپ سب کا حسنِ نظر ہے شاید ورنہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔

خاک مجھ میں کمال رکھا ہے
مصطفیٰ نے سنبھال رکھا ہے

میرے عیبوں پہ ڈال کر پردہ
مجھ کو اچھوں میں ڈال رکھا ہے
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

سب اراکینِ محفل کی تہِ دل سے مشکور و ممنون ہوں
جزاک اللہ خیراً کثیراً
یہ لیجئے آپ کی باتیں کہاں سے کہاں تک پہنچ گئیں۔ معروف خاتون ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے اسے اپنے ماہنامہ پرچہ میں دو قسطوں میں شائع کیا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ، معاف کیجئے گا میرا مطلب زمانہ قبل از شادی (اپنی) یہ احقر محترمہ کے پرچوں سمیت کئی پرچوں میں باقاعدگی سے لکھا کرتا تھا۔ سلمیٰ یاسمین کے کئی ناول، سفر نامے اور مزاحیہ کتب شائع ہو چکی ہیں اور کئی عشروں سے خواتین کے پرچوں کی ادارت فرما رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے فون پر بات ہوئی اور میں نےا پنے کئی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریر انہیں ارسال کی تو اُس میں آپ کی یہ باتیں بھی، باتوں سے خوشبو آئے کےنام سے بھیج دیا۔ پہلی قسط والا شمارہ میں دیکھ نہیں پایا، ملا تو اس کے عکس بھی یہاں لگانے کی کوشش کروں گا۔ ”احتیاطاً “ :) میں نے انٹرو میں آپکانام مختصر کرکے ”محترمہ میم جیم“ لکھ دیا ہے، تاکہ ”اعتراض“ کی کوئی صورت بنے بغیر اچھی اچھی باتوں کا ابلاغ ہوجائے۔ اس کا اصل ”ثواب“ تو یقیناً آپ کو ہی ملے گا، لیکن ”راوی“ کی حیثیت سے شاید تھوڑا بہت ثواب مجھے بھی مل جائے۔

iffat+1.jpg


iffat+4.jpg

iffat+3.jpg
 
یہ لیجئے آپ کی باتیں کہاں سے کہاں تک پہنچ گئیں۔ معروف خاتون ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے اسے اپنے ماہنامہ پرچہ میں دو قسطوں میں شائع کیا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ، معاف کیجئے گا میرا مطلب زمانہ قبل از شادی (اپنی) یہ احقر محترمہ کے پرچوں سمیت کئی پرچوں میں باقاعدگی سے لکھا کرتا تھا۔ سلمیٰ یاسمین کے کئی ناول، سفر نامے اور مزاحیہ کتب شائع ہو چکی ہیں اور کئی عشروں سے خواتین کے پرچوں کی ادارت فرما رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے فون پر بات ہوئی اور میں نےا پنے کئی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریر انہیں ارسال کی تو اُس میں آپ کی یہ باتیں بھی، باتوں سے خوشبو آئے کےنام سے بھیج دیا۔ پہلی قسط والا شمارہ میں دیکھ نہیں پایا، ملا تو اس کے عکس بھی یہاں لگانے کی کوشش کروں گا۔ ”احتیاطاً “ :) میں نے انٹرو میں آپکانام مختصر کرکے ”محترمہ میم جیم“ لکھ دیا ہے، تاکہ ”اعتراض“ کی کوئی صورت بنے بغیر اچھی اچھی باتوں کا ابلاغ ہوجائے۔ اس کا اصل ”ثواب“ تو یقیناً آپ کو ہی ملے گا، لیکن ”راوی“ کی حیثیت سے شاید تھوڑا بہت ثواب مجھے بھی مل جائے۔

iffat+1.jpg


iffat+4.jpg

iffat+3.jpg
بہت ہی اچھا کام کیا ہے آپ نے یوسف انکل(y)
 

مہ جبین

محفلین
یہ لیجئے آپ کی باتیں کہاں سے کہاں تک پہنچ گئیں۔ معروف خاتون ادیبہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ نے اسے اپنے ماہنامہ پرچہ میں دو قسطوں میں شائع کیا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ، معاف کیجئے گا میرا مطلب زمانہ قبل از شادی (اپنی) یہ احقر محترمہ کے پرچوں سمیت کئی پرچوں میں باقاعدگی سے لکھا کرتا تھا۔ سلمیٰ یاسمین کے کئی ناول، سفر نامے اور مزاحیہ کتب شائع ہو چکی ہیں اور کئی عشروں سے خواتین کے پرچوں کی ادارت فرما رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں ان سے فون پر بات ہوئی اور میں نےا پنے کئی مطبوعہ و غیر مطبوعہ تحریر انہیں ارسال کی تو اُس میں آپ کی یہ باتیں بھی، باتوں سے خوشبو آئے کےنام سے بھیج دیا۔ پہلی قسط والا شمارہ میں دیکھ نہیں پایا، ملا تو اس کے عکس بھی یہاں لگانے کی کوشش کروں گا۔ ”احتیاطاً “
:)
میں نے انٹرو میں آپکانام مختصر کرکے ”محترمہ میم جیم“ لکھ دیا ہے، تاکہ ”اعتراض“ کی کوئی صورت بنے بغیر اچھی اچھی باتوں کا ابلاغ ہوجائے۔ اس کا اصل ”ثواب“ تو یقیناً آپ کو ہی ملے گا، لیکن ”راوی“ کی حیثیت سے شاید تھوڑا بہت ثواب مجھے بھی مل جائے۔


الحمدللہ رب العالمین
اللہ رب العزت کا جتنا بھی شکر ادا کروں کم ہے کہ اس نے مجھ نکمی اور سیہ کار کو اپنے فضل و کرم سے اس قدر نوازا ہے کہ اسکے احسانات اور لطف و کرم کی شکر گزاری کے لئے میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں جو کماحقہ ادا کرسکوں۔ وہ رحیم و کریم ہے ، بڑائی صرف اُسی کو زیبا ہے اور وہ بے شک بے نیاز ہے ، بے شک تمام تعریف اُسی کے لئے ہے ۔ ہم اسکے عاجز اور حقیر بندے اسکی بے حد و بے شمار نعمتوں کا شکر ادا کر ہی نہیں سکتے
" اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے "
ہم دن رات اسکی نافرمانیاں کرتے نہیں تھکتے اور وہ رحیم و کریم ذات ہمیں قدم قدم پر عزت و سرفرازی کی دولت سے مالامال فرماتا رہتا ہے
یا اللہ مجھے غرور ، تکبر ، خود پسندی ، دکھاوا ، نمود و نمائش اور ریاکاری کی لعنت سے ہمیشہ ہمیشہ محفوظ و مامون رکھنا ، ایمان اور عبادت کی حلاوتیں نصیب فرمانا اور خاتمہ بالخیر کرنا آمین

میں رب کریم کی بارگاہ میں ہدیہء تشکر پیش کرنے کے بعد اپنے محسنین محترم بھائی یوسف ۔ 2 اور محترمہ سلمیٰ یاسمین نجمی صاحبہ کی بہت شکرگزار ہوں کہ انہوں نے میری بیکار باتوں کو درخورِ اعتنا جان کر پذیرائی فرمائی ۔ آپ دونوں کی اس قدر عزت افزائی پر بہت ممنون ہوں ۔ اللہ آپ دونوں کو اس چھوٹی سی نیکی کا بہت بڑا اجر عطا فرمائے ۔ آمین
جزاکم اللہ خیراً کثیراً

یوسف بھائی میں آپکی شفقتوں اور محبتوں پر تہہِ دل سے آپکی احسانمند ہوں۔ آپکا دیا ہوا نام "میم جیم " بھی خوب لگا :)
 
Top