بادِ مخالف سے نہ گھبرا

یوسف-2

محفلین
بادِ مخالف سے نہ گھبرا
کیا آپ کچھ دیر کے لیے یہ تصور کرسکتی ہیں کہ ا ٓپ ماشا ءاللہ سات بھائیوں کی اکلوتی بہن ہیں۔ اسکول میں ہمیشہ پہلی پوزیشن حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اسکول کی بہترین ایتھلیٹ رہی ہیں ۔میٹرک سائنس میں تیسری پوزیشن آتی ہے اور مزیداعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی ہے۔ لیکن شومئی قسمت سے گھریلوحالات کچھ ایسے ہوجاتے ہیں کہ آپ کے گھر والے صرف انٹر کے بعد ہی آپ کی شادی کردیتے ہیں اور سسرال بھی ایسا ملتاہے جو بہو کو مزید تعلیم دلانے کے خلاف ہے۔ میکہ دیندار ہے جبکہ سسرال میں دین کی بجائے بے دینی کا کا بول بالا ہے۔ تو ان حالات میں آپ کیا کریں گی؟ ارے! ارے! آپ تو یہ سارے پریشان کن فرضی حالات سن کر ہی مجھے بُرا بھلا کہنے کی تیاری کرنے لگیں ہیں کہ اللہ نہ کرے کہ کسی کے ساتھ ایسا ہو۔ اور اگر خدا نخواستہ کسی لڑکی کے ساتھ یہ حالات پیش آجائیں تو پھر اس بے چاری کی شخصیت تو کچل کر رہ جائے گی۔بھلا ان حالات میں وہ کیا کرسکتی ہے۔ اب آپ اس پریشان کن تصوراتی صورتحال سے باہر نکل آئیے تاکہ ہم آپ کو ایک ایسی خاتون سے ملواسکیں جو بیک وقت ایک ماہر ارضیات بھی ہیں اور ایک ہومیو ڈاکٹر بھی۔ ایک باعمل عالمہ بھی ہیں اور اور ایک خاتون مدرس بھی۔ اور دلچسپ بات یہ کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود وہ مروجہ ’ورکنگ لیڈی‘ نہیں بلکہ سو فیصد ایک گھریلوخاتون ہیں۔ نسرین فاطمہ کو گھر میں سب پیار سے گڑیا کہتے ہیں۔سات بھائیوں کے بعد بہت دعاؤں سے جب یہ گڑیااس دنیا میں آئی تو بہت خوشیاں منائی گئیں اور بہت لاڈ اور پیار سے ان کی پرورش ہوئی۔بھوپال، بھارت سے ہجرت کرکے حیدر آباد سندھ میں رہائش پذیر ہونے والے والدین ، دینی پس منظر کے حامل تھے۔چنانچہ بچوں نے اپنی شعوری زندگی کا آغازبھی ایک دینی ماحول میں کیا۔نسرین فاطمہ نے ابتدائی تعلیم ناظرہ قرآن پاک کی اپنی والدہ محترمہ سے حاصل کی، جنہوں نے گھر میں ہی مدرسہ کھولا ہوا تھا جہاں صبح و شام سو سے زیادہ بچے پڑھتے تھے۔ چار ساڑھے چار سال کی عمر میں قرآن ناظرہ مکمل کرلیا تو یہ بچی جہاں جاتی لوگوں کی توجہ کا خاص مرکز ہوتی اور کانوں میں یہ آواز آتی کہ اس بچی کی عمر دیکھو اور اس کا قرآن پڑھنا دیکھو۔ والدین یہ سُن کر خوشی سے پھولے نہ سماتے۔نسرین فاطمہ اپنی زندگی کے پُر پیچ راہوں کی داستانِ عزیمت کچھ یوں سناتی ہیں۔

پانچ سال کی عمر میں انگلش میڈیم اسکول میں ون کلاس میں داخل ہوئی ۔پرائمری کے بعدحیدر آباد کے بہترین اسکول، سینٹ میری ہائی اسکول میں آئی۔پرائمری میں ہر کلاس میں ٹاپ کیا اور ساتویں جماعت میں اسکالر شپ کے امتحان میں فرسٹ کلاس پوزیشن حاصل کی۔حافظہ اتنا اچھا تھا کہ میٹرک کی ریاضی اور فزکس کی کتب ازبر تھیں اور یہ تک یاد رہتا تھا کہ کون سا سوال کس صفحہ پر ہے۔ سوال لکھتے ہی جواب ذہن میں آجاتا۔ میٹرک میں حیدرآباد بورڈ سے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ اسکول میں ہر قسم کے کھیلوںمیں بھی بڑھ چڑھ کہ حصہ لیتی کہ میںاسکول کی بہترین ایتھیلیٹ تھی۔ غرضیکہ کامیابی اور خوشیوں کا ایک سنہرا دور تھا جو رب تعالیٰ کا مجھ پہ خاص انعام اور بڑا احسان ہے۔ ابھی فرسٹ ائیر پری میڈیکل میں تھی کہ ابو شدید بیمار ہوگئے اور صرف پندرہ دن کے قلیل عرصے میں وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئے ۔ ابو کی وفات کے بعد زندگی کا رخ ہی تبدیل ہو گیا۔ ذہنی پریشانی کے سبب انٹر صرف بی گریڈ میں پاس ہوئی۔ گھر والوں نے اسی سال میری شادی کردی ۔میں اپنی تعلیم کو خیرباد کہنا نہیں چاہتی تھی اور سسرال والے پڑھانا نہیں چاہتے تھے آخرمیرا رونا دھونا دیکھ کر شوہر نے سندھ یونیورسٹی میں داخلہ دلوادیا تو گھریلو ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بی ایس سی آنرز میں دوسری پوزیشن حاصل کی۔ ساتھ ہی ساتھ ہومیو پیتھک کالج میں بھی شام کی کلاسز اٹینڈ کرتی رہی ۔یوں جب ایم ایس سی جیو لوجی میں فرسٹ کلاس سیکنڈ پوزیشن حاصل کی تو ساتھ ہی ہومیو کورس بھی مکمل ہوگیا۔ پریکٹس کے دوران ہی ایک سال کا الیکٹرو ہومیو میں ڈپلومہ بھی کرلیا۔ گرلز کالج سے ملازمت کی پیشکش بھی ہوئی مگر سسرال والوں کی طرف سے اجازت نہ ملی۔ اب سوچتی ہوں کہ یہ میرے حق میں بہتر ہی ہوا۔اسکول لائف میں گرمیوں کی چھٹیوں میں چھوٹے موٹے کورس بھی کئے، جن میں انٹریرڈیکوریشن ، فلاور میکنگ ، اورپلاسٹر آف پیرس سے اشیاءبنانا شامل ہیں۔ ہر قسم کی سلائی اور کڑھائی امی سے سیکھیں بھی اور ان میں مہارت بھی حاصل کی الحمد اللہ۔

دینی تعلیم تو سوائے ناظرہ قرآن پاک کے کچھ حاصل نہ کی سوائے گھر میں جو ابو ہمیں وعظ و نصیحت کرتے جو حاصل کیا اپنے والدین سے کیا لیکن لاڈ پیا ر کی وجہ سے کوئی روک ٹوک تھی نہ پابندی لہٰذا توجہ لباس کی طرف زیادہ رہتی مطالعہ صرف کہانیوں کی کتابوں کا کرتی تھی بعد میں اخبار جہاں پاکیزہ اور ایسے ہی فضول رسالوں کی طرف توجہ ہوئی البتہ شاعری سے شغف رہا اور مصحفی بہادر شاہ ظفر میر تقی میر ناصر کاظمی اور غالب کو بہت پڑھا۔پھر ابو کے انتقال کے بعد جب دل نرم ہو گیا اور دنیا ویران لگنے لگی تو اسلامی جمعیت طالبات کی چند لڑکیوں سے کالج میں ہی ملاقات ہوئی اور انھوں نے مولانا مودودی کی کتاب دینیات دی جسے پڑھ کہ سوچوں کے زاویہ بدلے اور باقاعدہ میں ان کے درس قرآن کے پروگرام میں شرکت کرنے لگی ورنہ اس سے پہلے جو کالج کا ماحول تھا مہینے میں دو سے تین دفعہ کسی نہ کسی نام سے میوزک کی محفلیں منعقد ہوتیں کالج کی اوپری عمارت میں عیسائی نن رہائش پذیر تھے اور ان کے اعلیٰ اخلاق سے میں اتنی متاثر تھی کہ صبح جب مجھے بڑے بھائی تازہ پھولوں کا گلدستہ گھر میں سجانے کے لئے لاکر دیتے تو میں گھر میں سجانے کی بجائے سسٹر ز کو لاکر دے دیتی ۔اسلامی جمیعت کی طالبات پر پابندی تھی وہ کالج میں کوئی پروگرام نہیں کر سکتی تھیں لہٰذا میں ان سے ملنے ان کے گھر جاتی پردہ میں بالکل نہیں کرتی تھی لیکن انھیں دیکھ کر پردہ کرنا شروع کیا اور یکدم زندگی تبدیل ہوگئی چھوٹی موٹی تحریریں جمعیت کے ماہانہ رسالے میں شائع ہونے لگیں تو ایک سال میں ناظمہ نشر و اشاعت کی ذمہ داری بھی سنبھال لی اب نہ فیشن کی پرواہ نہ اپنی۔ بس یہیں سے تبدیلی کا آغاز ہوا اور دینی تربیت کی ابتدا۔اسلامی کتابیں وجرائد پڑھنے کا شوق ہوا نمازپر پابند ی بچپن سے کی پھر کچھ عرصہ مزید جمعیت اور جماعت اسلامی کے ساتھ کام کیا ۔ہدایت اللہ کی طرف سے آتی ہے، مگر اللہ تعالی ایسے اسباب بنا دیتے ہیں ، جو ہدایت کا باعث بن جاتے ہیں۔گھر کا ماحول تو دینی تھا میں بھی نماز روزے کی پابند تھی مگر لاڈ پیار کی وجہ سے مجھے کوئی روک ٹوک نہ تھی کالج کے فنکشن میں بھی حصہ لیتی حد تو یہ ہے ایک دفعہ ایک فیشنی میگزین میں بھی ماڈل کے طور پہ تصویریں بنوالیں اس طرح ونٹر کمنگ پارٹی میں بھی ایک سویٹر کے اشتہار کی تصویر بنوالی مگر اللہ تعالیٰ مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اللہ نے مجھ سے بھلائی کا ارادہ کیا لہٰذا اسلامی جمعیت کی طا لبات سے ملاقات نے سوچ و فکر کے زاوئیے ہی بدل ڈالے مقصد زندگی کی پہچان ہوئی اور اپنے علاقے میں ایک داعی کی حیثیت سے کام کا آغاز کیا سوچتی ہوں اللہ بڑا غفور الرحیم ہے کس طرح اس نے مجھے بھٹکنے سے بچایا بالکل صحیح وقت پر ایسے اسباب پیدا فرمادیئے کہ میں آج اس کا جتنا بھی شکر کروں کم ہے۔میں نے ایک جگہ پڑھا تھا کہ اسلام کی بلند ترین حقیقتوں کو وہی پاسکتا ہے جو دنیا اور دنیاکی چیزوں سے اپنے آپ کو اوپر اٹھا چکا ہو ،آخرت کا احساس دنیا کی لذتوں و آسائشوں کو غیر اہم بنا دیتا ہے ۔جب ذہن اللہ کی یاد میں مصروف ہو تو دنیا کی باتیں یاد نہیں آتیں جب آخرت کی فکر چھا جائے تو دنیا کے غم غم نہیں رہتے اس لئے اللہ والے لوگ آخرت سے اور نافرماں لوگ دنیا سے محبت کرتے ہیں۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ مطمئن زندگی گزاریں اور ہماری اولاد فرماں بردار ہو دین اسلام کی ترقی و بلندی ہو اور ہر طرف امن و امان کا چرچا ہو عزت و وقار حاصل ہوہمیں سکھ اور چین نصیب ہو اور ہم دنیا پہ غالب آجائیں تو اس کے ضروری ہے کہ ہم اسوہ رسول کو اور مشن رسول کو اپنا کر اس کے مطابق لوگوں کی رہنمائی کریں اسی میں ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔
یونیورسٹی سے فراغت کے دو سال بعد حیدرآباد میں مدرسہ تعلیم القرآن و الحدیث کا افتتاح ہوا تو مجھے میرے بھائی نے درس نظامی کا فارم لادیا کہ آپ چاہو تو داخلہ لے لو۔ مجھے گھر سے اجازت مل گئی اور میں پہلے ایک اور پھر دوسرے بچے کے ہمراہ مدرسہ کی پہلی طالبہ بن گئی چھوٹے بچوں کے ساتھ مشکلات بھی بہت آئیں کئی دفعہ دل چاہ کہ چھوڑ دوں مگر ضمیر نے ایسا نہ کرنے دیا ۔ذمہ داریاں خود تنہا اٹھائیں کوئی ملازمہ یا مددگار نہیں تھا ۔خیر اللہ کا شکر ہے کہ مدرسہ میں بھی ہر سال پوزیشن حاصل کی اور مطالعہ کو وسیع کیا اور بہت کچھ سیکھا ۔ مدرسہ سے سند ملنے میںجب صرف دو ماہ رہ گئے تھے تو چند نا گزیر وجوہات کی وجہ سےشوہر کے حکم پر مدرسہ کو خیر باد کہنا پڑا۔ تاہم کچھ عالموں سے بقیہ کورس گھر میں پڑھا اور اب بھی پڑھ رہی ہوں کیونکہ طالب علمی کی زندگی گزارنا مجھے بہت پسند ہے۔

میں آٹھوں پہر گھریلو امور کی نگراں ہوں ۔یہی میرا پیشہ اور یہی میری ڈیوٹی ہے، اپنی تعلیم کو پیشے کے طورپہ نہیں اپنایا۔گھر میں ہی ہومیو کلینک ہے جہاں ضرورت مند آتے ہیں اور اللہ ا نھیں شفادیتا ہے اپنی فیس یا دوا کے میں نے کبھی بھی کسی مریض سے پیسے نہیں لئے جب کوئی پیسے دینے کی کوشش کرتا ہے تو ان سے ادائیگی دعاو¿ں کی صورت دینے کی گزارش کرتی ہوں۔ شادی تو انٹر میں ہی عبیداللہ لاکھو صاحب سے ہو گئی تھی ،جو پیشے کے لحاظ سے سول انجینئر او رسرکاری افسر ہیں۔ الحمد اللہ اس کے علاوہ پرائیویٹ پروجیکٹس پہ بھی کام کرتے ہیں۔ اللہ رب العالمین کا احسان ہے اللہ نے دو بچے عطا فرمائے ایک بیٹی راؤدہ اور ایک بیٹا محمد عبداللہ ہے۔میری بیٹی بھی اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ اس کے بابا کی کوئی بہن نہیں اس کے دادا کی کوئی بہن نہیں لہذا وہ کئی نسلوں کے بعد پیدا ہونے والی خوش نصیب بچی ہے ما شا ءاللہ اس کی دادی اس سے بہت خوش ہیں۔وہ ابھی پرائمری میں ہے ہمارا ارادہ اسے پیشہ ورانہ تعلیم کی بجائے ہومیو پیتھک اور درس نظامی پڑھانے کا ارادہ ہے۔محمد عبداللہ نے گھر میں ہی قرآن مجید مکمل کیا اور اسے گھر میں ہی حفظ کروا رہی ہوں البتہ سبق سنانے کے لئے حافظ صاحب کے پاس بھیجتی ہوں تاکہ تلفظ میں کو تاہی نہ ۔ہو اسے نیورو سرجن بنانے کا ارادہ ہے ،اللہ کی توفیق سے ان شاءاللہ۔بچوں کو خود ہی پڑھاتی ہوں نورانی قاعدہ سے لے کر قرآن مجید تک خود ہی پڑھایا ہے اور ماشاءاللہ راو¿دہ نے چھ سال کی عمر میں ناظرہ قرآن مجید مکمل کیا اور عبداللہ نے پانچ سال کی عمر میں۔مدرسہ گھر سے بہت دور ہونے کی وجہ سے اب گھر میں حفظ بھی کر وا رہی ہوں۔ماشاءاللہ ایک سال کے عرصے میں دس پاروں سے زیادہ حفظ کر لیا ہے ۔ تاہم سنانے کے لئے ایک قاری صاحب کے پاس بھیجتی ہوں۔انھیں قصص الا انبیاءکے واقعات صحابہ وصحابیات کے واقعات سناتی ہوں تاکہ ان کا کردار بھی ان جیسا مثالی بنے اور بچے بہت متاثر ہوتے ہیں اسی لئے عبد اللہ کسی دن اپنا نام علی مرتضیٰ کسی دن صلاح الدین ایوبی اور کسی دن خالد بن ولید رکھ لیتا ہے اور میرا نام بھی کسی دن بی بی آمنہ اور کسی دن فاطمہ رکھ دیتا ہے۔دین کے معاملے میں آئیڈیل تو ام المومنین اور صحابیات ہی ہیں مگر موجودہ زندگیمیں اپنی ماں کو آئیڈیا لائز کرتی ہوں اس لئے کہ اپنی زندگی میں، میں نے اپنی ماں سے زیادہ نرم خو ،مہرباں ہر ایک کے ساتھ صلح جوئی صلہ رحمی تکلیفات پہ صبر ہر حال میں اللہ کا شکر نہایت صابر کسی کو نہیں پایا ، بچپن میں صبح ہماری آنکھ کھلتی ہی اپنی ماں کی تلاوت کی آواز سے تھی اور ابھی بھی وہ انتہائی عبادت گزار اور تہجد گزار ہیں اس لئے نہیں کہ وہ میری ماں ہیں بلکہ وہ پنی بہوو¿ں کے لئے بھی ایک بہترین ساس ہیں سب سے بڑی خوبی ان کی یہ ہے کہ عام عورتوں کی طرح غیبت جیسی برائی ان میں با لکل نہیں ، مجھ میں تو ان کا تھوڑا بھی عکس نہیں۔ اللہ ہماری ماں کو صحت و ایمان کی حالت میں تا دیر سلامت رکھے۔آمین

بقول گھر والوں کے مزاج ٹھنڈا ہے ۔غصہ بالکل نہیں آتا اور اگر آئے تو خاموشی اختیار کر لیتی ہوں شوہر اس نعمت متبرکہ سے شاکی ہوجاتے ہیں۔ بہت بولتی ہوں مگر بحث و مباحثہ سے دور رہتی ہوں ۔ جن خواتین کی سب سے لڑائی رہتی ہو وہ بھی مجھ سے خوش رہتی ہیں ۔سب سے اہم بات کہ میری ساس کو کبھی کوئی نہیں بھاتا ان کے منہ سے کبھی کسی کی تعریف نہیں سنی مگر وہ محفل یا گھر میں اپنے بیٹوں کے مقابلے میرے قصیدے پڑھتی ہیں ماشاءاللہ۔لیکن طبیعت کے لحاظ سے خوش مزاج ہونے کے باوجود تنہائی میسر ہوتے ہی اکثر کسی کا درد محسوس کر کے اور کبھی اپنی کوتاہیوں پہ رونے لگتی ہوں ۔میں اس بات پہ بھی رو جاتی ہوں جب بچوں کو پڑھنے کا کہوں اور وہ ٹال دیں ۔ہا ہا ہا یعنی اتنی معمولی بات پہ بھی۔میں اجتماعیت پسند ہوں ہم اپنے گھر میں سب بہن بھائی مل کر کھانا کھاتے تھے کہانیاں سناتے مل کر کھیلتے کبھی نہیں لڑتے تھے مگر سسرال میں ایسا ماحول نہیں ملا جس کی وجہ سے طبیعت میں زود حسی آگئی ہے اور اکثر تنہا ہوتی ہوں تو بس مطالعے سے طبیعت کو بہلاتی ہوں یا ذکر اذکار میں مشغول رہتی ہوں پسند اجتماعیت کو ہی کرتی ہوں۔

کمپیوٹر کا شارٹ کورس تو میٹرک کے بعد ہی کر لیا تھا مگرمصروف اتنی رہی کہ پھر اس کی طرف توجہ ہی نہ دی ، میں گھر میں نیٹ کےخلاف تھی شوہر نیٹ کاکام آفس میں ہی کر لیتے تھے ،لوگوں سے اس کے منفی اور مثبت دونوں پہلوو¿ں کے متعلق سن رکھا تھا لہذا میں نیٹ کو نا پسند کرتی تھی میرا خیال یہ تھا کہ نیٹ وہ ذریعہ ہے جو ہماری ذہنی گمراہی کا سبب بن سکتا ہے اور اب جب اللہ نے اپنے رستے کی جانب ہدایت دے ہی دی ہے تو بگاڑ کے تمام دروازوں کو مقفل ہی رہنا چاہیے۔تاہم مدرسہ میں درس کی تیاری اور علمی مواد کے حصول کے لئے چار برس قبل نیٹ کنیکشن لینا پڑا۔ پھر ایک دن اپنے استاد محترم بشیر احمد عسکری صاحب ن کے کہنے پر سوشیل میڈیا میں آئی اور بعد ازاں محدث فورم کو جوائن کیا۔ چنانچہ یہاں مجھے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہوگیا جہاں مجھے ایک ہی وقت میں حا لات حاضرہ سے لیکر ہر قسم کے علمی دینی واصلاحی اور تعمیری سوچ کے حامل مضامین سے مستفید ہونے کا موقع میسر ہوا اور یہیں مجھے اپنی چھوٹی موٹی تحریرات لکھنے اور براہ راست ہمت افزائی کا موقع بھی ملا ورنہ کبھی کبھار مجلہ دعوت اہل حدیث میں کوئی تحریر آجاتی تھی یا کبھی کبھار مقامی اخبارات میں بھی طلبہ کی سر گرمیوں پہ رپورٹ ارسال کرتی تھی۔مگر اس فورم پہ آکر اس سے سیکھا بھی بہت اور شاعری ،ہومیو ، اور ادبی تحریرات کو بھی پذیرائی حاصل ہوئی الحمد اللہ۔ویسے تو بہت سے ایسے کام ہیں جنھیں کر کے قلبی مسرت حاصل ہوتی ہے مگر تدبر کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت ومطالعہ سے جو سکون و طمانیت محسوس ہوتی ہے اسے الفاظ کے پیرائے میں بیان کرنا ممکن نہیں ،کام کاج کے دوران بھی موبائل پہ کسی قاری کی تلاوت کو لگا کر رکھتی ہوں۔فرصت کے اوقات بہت کم میسر آتے ہیں اور جب میسر آجائیں تو گھر کی ڈیکوریٹنگ یا سلائی وغیرہ پہ صرف کرتی ہوں البتہ پریشان کن لمحات قرآن کی تلاوت اور دعاو¿ں میں گزارتی ہوں ،اور الحمد اللہ پریشانی کے اوقات کو اللہ خوشیوں کے لمحات میں تبدیل فرما دیتا ہے۔روز مرہ کے مشاغل کوئی خاص نہیں سارے کام خود کرتی ہوں بازار سے ریڈی میڈ کھانا کبھی نہیں منگواتی۔

میں روزانہ فجر سے پہلے اٹھتی ہوں نماز اورذکر اذکار کے بعد تفسیر پڑھتی ہوں پھر سات بجے سب کے لیے ناشہ بنا کر بچوں کو اسکول بھیجتی ہوں اور میں گھر کے ضروری کام نمٹا کر اپنا لیپ ٹاپ کھول کے فورم پہ آجاتی ہوں پھر گیارہبجے کے بعد دوپہر کے کھانے کی تیاری میں مشغول ہوجاتی ہوں ،دوپہر کے کھانے ونماز کے بعد مدرسہ کے لئے کچھ مطالعہ کرتی ہوں اور ساتھ ساتھ گھر کے کام بھی کرتی جاتی ہوں پھر سہ پہر چار بجے مدرسہ جاتی ہوں اور وہاں سے سات بجے واپس آتی ہوں تو پھر رات کا کھانا بنانا اور اپنے بچوں کو پڑھانا۔ نیز عبد اللہ سے ایک پارہ اور سبق سننا۔ دس بجے شب بجے تک بچوں کو سلا کر لکھنے لکھانے کا کام کرتی ہوں۔ اس مصروفیات کے دوران بھی بچوں اور شوہر کے درمیان توجہ رہتی ہے۔اگر شوہر فارغ ہوں تو اپنی بہت سی مصروفیات کو بالائے طاق رکھ دیتی ہوں یہی سادی سی زندگی ہے میری۔چھٹی والے دن بچوں کے کہنے پہ امی سے ملنے چلی جاتی ہوں۔میری زندگی کا مقصد صرف رضائے الہٰی کا حصول ہے اور اسی حصول مقصد کی خاطر بہت سی خواہشات سے منہ موڑ لیتی ہوں بہت سے لوگوں کی زیادتیاں اور کڑوی باتیں بھی برداشت کر لیتی ہوں تاکہ یہ سب میرے حق میں آخرت میں دلیل بن جائیں اور میری قبر کو روشن کرنے کا اُخروی ذریعہ بن جائیں ان شاءاللہ ۔ میری خواہش بہت زیادہ علم حاصل کرنا اور کرتے رہنا ی۔ سب سے بڑی خواہش یہ ہے کہ قرآن کی حافظہ بن جاو¿ں۔ دینی شعور آجانے کے بعد یہ خواہش زبردست طریقے سے دل میں پیدا ہوئی کہ میں قرآن مجید کو حفظ کروں اور یہ خواہش دن بدن بڑھتی ہی جا رہی ہے مگر اب تک دنیوی امور میں ہی گرفتار ہوں افسوس بھی ہوتا ہے کہ اتنا اچھا حافظہ ہونے کے باوجود حفظ سے محروم ہوں بحرحال زندگی رہی تو بچوں کی ذمہ داریاں کم ہونے پہ پہلا کام حفظ القرآن کرنا ہے ان شاءاللہ ۔ اگر آخری خواہش پوچھیں گے تو آخری خواہش یہ ہے کہ مدینة النبی میں مدفن ہو۔

نوجوان طبقے کے لیے ضروری ہے کہ وہ سب سے پہلے تو اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ اس نے اپنی رحمتوں اور برکتوں کے سائے تلے پناہ دی اور پھر یہ اس کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں دنیا کے پر فریب دنیا کے فتنوں کے درمیان حق کی سیدھی راہ دکھائی تو ہماری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم دیگر افراد تک اسلام کی دعوت کو پہنچانے کا فریضہ انجام دیں اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادائیگی کے لئے اپنی شخصیت کو بہترین نمونہ بنائیں جس سے لوگ محبت کرنے والے ہوں جو اپنی سیرت کے باعث دوسروں سے ممتاز نظر آئیں جو اپنے فرائض کی ادائیگی کے لئے اپنا حق بھی قربان کردیں جو مخالف سے بھی خیر خواہی کرنے والے ہوں جو بغیر صلہ کہ بھی خدمت میں مصروف رہیں جو ہر آن جدوجہد میں لگے رہیں کہ گزرتے وقت کا ہر پل نیکی کا امین بن جائے۔ہمارے پاس وقت کم ہے اور جو اس وقت کو موڈ بنانے، تھکن اتارنے یا صرف خواہشات جمع کرنے میں گزار دے گا وہ اس نادان مسافر کی طرح ہے جسے ایک صحرا عبور کرنا ہو اور وہ چھاگل میں موجود پانی سے پاو¿ں دھونے بیٹھ جائے ،لہذا ہمیں اپنا وقت اور صلاحیت ایسے کاموں پر خرچ کرنا ہے جو دنیا وآخرت میں منافع بخش ثابت ہوں اللہ ہماری اخلاص نیت سے کی گئی ہر کوشش کو قبول فرمائے۔آمین

ہم نے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی ہے جس کا نام " مدرسہ تفہیم القرآن والحدیث للبنات" ہے۔ اس کا مقصد خواتین و طالبات میں راہ حق و ہدایت کا سامان مہیا کرنا ہے یہ ایک ایسا ادارہ ہو گا جو علم کے ساتھ ساتھ عمل و کردار میں پختگی پیدا کرنے و جذبہ دین سے سرشار ایسی خواتین پیدا کرے گا جو شرک و بدعت کے اندھیروں میں توحید و سنت کی شمع بن جائیں جہاں علم کے ذریعے طالبات کو یقین کی دولت میسر آئے جو وقت کی قیمت سے شناسا کردے جو مقاصد کو شعور بخشے جو دل میں عمل کی محبت ڈال دے جہاں علم کا حصول صداقت دیانت امانت و شجاعت کا سلیقہ عطا کرے جو بے راہ روی اور مایوسی و کاہلی سے گریزاں کردے ان شاءاللہ۔ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کی خواہش ہے جہاں میں اسلامی اقدار کی پاسبان ہونے کے ناطے جہالت کی تاریکیوں کے خاتمے اور دینی تعلیم کے سورج کی روشنی سے اپنے شہر کے ماحول کو جگمگا دوں ،جہاں دینی تعلیم محض کتابی علم تک محدود نہ ہو بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تشکیل سیرت و کردار جیسے اہم ترین ہدف بھی پیش نظر ہو، جہاں تربیت کا مرکزی نکتہ صرف تعلق باللہ ہو جہاں میں تعلیم حاصل کرنے والی ہر طالبہ کو اندر باہر سے سنوار کر اسے اللہ سے جوڑ دوں اوروہ حکمت ،معاملہ فہمی ،تدبر اور راحت ،ایثار و محبت کا مجموعہ بن کر مدرسہ سے فارغ ہو،مجھے طالبات میں اس چیز کی کمی کا بڑا احساس ہوتا ہے لہذا مستقبل میں یہی چاہتی ہوں اور ا یسے دست تعاون کی تلاش میں بھی ہوں کہ میرا بازو بن کے میرے ساتھ اس کار خیر میں برا بر کی شریک ہو ، اور مجھے اللہ پہ پورا بھروسہ بھی ہے کہ زندگی رہی تو ان شاءاللہ اپنے اس مقصد میں ضرور کامیاب ہوجاؤں گی۔ جب انفرادی گناہ مل کر اجتماعی صورت اختیار کرنے لگیں اور برائی کی کثرت عام ہوجائے اور بھلائی کی قوتیں مضمحل ہوجائیں تو پھر ذلت و پستی اور محکومیت قوموں کا مقدر بن جاتی ہے ، یہ سوچ کر میں اپنا بھی جائزہ لیتی ہوں کہ اس اجتماعی غفلت میں کہیں میرا کردار بھی شامل تو نہیں ؟ کہیں برائی کے اس عام چلن میں میں خاموش تماشائی تو نہیں۔لہذا مجھے اپنے حصے کا فرض ادا کرنا ہے اور یہی ذمہ داری دنیا و آخرت میں سرخروئی کا واحد راستہ ہے اسی فرض کو بنھاتے ہوئے اپنے ساتھ ایسی خواتین کا قافلہ تیار کرنا ہے جو اپنے اپنے گلشن میں اپنے سیرت وکردارسے اور تربیت اطفال سے روشنی کے چھوٹے چھوٹے ضو پاش دئے جلائیں۔

اللہ تعالیٰ نے بلا تخصیص ہر مرد وعورت کو یہ خوش خبری سنائی کہ کہ جو بھی نیک اعمال کا اہتمام کرے گا وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا حق دار ٹہرے گا (النحل۔97) ۔نیک اعمال اور درجات حاصل کرنے کے لئے میں سب سے زیادہ توجہ اپنی ذاتی تربیت پہ دیتی ہوں جب میری تربیت ٹھیک ہوگی تو ذمہ داری بھی درست انجام دے سکوں گی اس حوالے سے میں دو چیزوں کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں ایک تو نماز،جس کے متعلق کہا گیا کہ پیارے رسول مشکل وقت میں نماز سے مدد حاصل کرتے ،اور دوسرے قرآن جس میں تسلی و تشفی کا سامان ہی نہیں اہم معاملات کے لئے رہنمائی بھی ملتی ہے ان دو چیزوں کے علاوہ جس چیز کو اپنے لئے ہمہ وقتی مددگار پایا وہ تھیں دعائیں،ان امور کے علاوہ شوہر کی خدمت و فرماں برداری ،وقت کی پابندی کے ساتھ گھر کی صفائی ستھرائی سے لیکر تمام کام انجام دینا کسی موقع پہ بھی شوہر کو شکایت کا موقع نہ دینا ،ان سب باتوں کا میں بہت خیال رکھتی ہوں۔جب گھر ، شوہر ، بچے ، رشتہ داریاں متاثر ہو رہی ہوں ، تومیری پہلی ترجیح تو ہمیشہ شوہر ہی ہوتے ہیں کیونکہ اگر ان کا دست تعاون نہ ہوتا تو میں آج کچھ بھی نہ ہوتی۔ اس کے بعد بچے اور گھر ،اللہ کا شکر ہے اللہ نے عورت میں اتنی لچک و نرمی رکھی ہے کہ وہ ہر قسم کے حالات میں خود کو ایڈ جسٹ کرلیتی ہے شائد اسی خوبی کی بنا پہ امی نے میرا نام ہی نسرین رکھا تھا۔کامیاب شادی کا مطلب آپس میں سچی محبت ،احترام اور ایک دوسرے کو خوبیوں اور خامیوں سمیت قبول کرناہے کامیاب شادی کے پیچھے ذہنی ہم آہنگی یا عمر میں فرق یا مزاج کی مطابقت ضروری نہیں میرے خیال میں کوئی دوسرا اس سے اختلاف بھی کر سکتا ہے حالانکہ ہم دونوں عمر سے لیکر مزاج پسند نا پسند میل جول عادات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں مگر باہمی احترام اور حقیقی محبت کے سبب اپنی لائف سے خوش ہیں الحمد اللہ۔یہ بات تو گھر والے ہی بتا سکتے ہیں کہ میں اچھی کک ہوں یا اچھی ڈیکوریٹر۔ کھانے کی تعریف تو سب ہی کرتے ہیں سب سے بڑے بھائی کو میرے ہاتھ کے پائے پسند ہیں دوسرے بھائی کو چکن کڑھائی تیسرے بھائی کو اچار گوشت اور چوتھے بھائی کو بریانی اسی طرح شوہر کو سب کھانے پسند ہیں خصوصاََ چائے جب تک میرے ہاتھ کی نہ پئیں انھیں نیند نہیں آتی ۔لیکن میں سمجھتی ہوں کہ میں کڑھائی (ایمبرائیڈی) ہر قسم کی بہت اچھی کر لیتی ہوں ماشاءاللہ۔

امور خانہ داری میں چھوٹے سے چھوٹا کام مجھے ہی کرنا ہوتاہے ۔گھر کے کام، شوہر کے کام، بچوں کے کام میری ہی ذمہ داری ہیں ۔کھانے کی میں زیادہ شوقین نہیں ہوں بھوک کے وقت جو میسر آجائے مزیدار بنا ہو وہ کھا لیتی ہوں اور الحمد اللہ کھانے میں کسی چیز کو نا پسند بھی نہیں کرتی۔ گھر کے تمام کاموں میں سب سے زیادہ پسندیدہ کام ہی مجھے کھانا بنانا لگتا ہے ایک وقت میں کئی ڈشز بنانے کا اہتمام کرتی ہوں نئی نئی ڈشز تلاش کرتی ہوں کیونکہ شوہر کے معدہ کی جگہ تو معدہ کام کرتا ہے مگر دل کی جگہ بھی معدہ ہی لگا ہوا ہے۔ اور وہ تین وقت کھانے کے علاوہ چوتھے وقت ہلکا پھلکا بھی کھاتے ہیں۔ایک آئیڈیل بیوی حدیث کی رو سے ایسی ہونی چاہئے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا میں تمہیں کسی مرد کے بہترین خزانے کے متعلّق نہ بتاو¿ں: وہ نیک بیوی کہ جب شوہر اسے دیکھے تو وہ اسے خوش کر دے، جب اسے حکم دے تو بیوی اس کی اطاعت کرے، اور جب وہ اس سے غائب ہو تو اس کی چیزوںکی حفاظت کرے (سنن ابو داؤد) ۔نیزاپنے اخلاق و حسن سلوک سے اس کا دل جیت لے اور اس کی محبت کی دل سے قدر کرے اور شوہر کو خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے ہر جائز معاملے میں شوہر کی اطاعت اس کی محبت کی بجائے اللہ کی اطاعت میں کرے اس سے گھر جنت کا نمونہ ہوگا ۔ ایک آئیدیل شوہر کو قرآن کے اس فرمان پر عمل کرنا چاہئے کہ: بیویوں کے ساتھ اچھی طرح سے زندگی بسر کرو۔( النساء۔آیت19)۔بیوی سے محبت کرنے والا اس کی ضروریات کا خیال رکھنے والا اچھے اخلاق والا اور بیوی کی خامیوں یا نا سمجھی سے ہونے والی غلطیوں کو خردبین سے دیکھنے کی بجائے صرف نظر کرنے والا ، گھر میں اچھے موڈ سے داخل ہونے والا ہو۔ خواتین میں سب سے زیادہ جو برائی موجود ہوتی ہے وہ زبان پہ کنٹرول نہ ہونا ہے اور اس کی بنیادی وجہ دین کا علم نہ ہونا ہے اگر دینی اداروں میں اس چیز کی طرف خصوصی توجہ رکھی جائے تو بہترین نتائج برآمد ہوں گے ان شا ءاللہ لہذا میرا مقصد یہی ہو گا کہ میں طالبات میں ان کی سیرت و کردار کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ان کی ایسی تر بیت کروں کہ وہ زبان کا بہترین استعمال سیکھیں اور عملی طور پہ خلق نمایاں نظر آئے۔

امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا فریضہ عورت کو بھی ضرور انجام دینا چاہئے۔انسانی فطرت ہے کہ اسے کوئی چیز پسند ہوتی ہے تو اسے اختیار کر لیتا ہے اور جب محبت کرتا ہے تو اسے دیکھنے اور سننے میں مسرت محسوس کرتا ہے اور جب یہ محبت بڑھ جائے تو زندگی کا کوئی لمحہ بھی غیر کو دیکھنے یا سننے میں ضائع نہیں کرتا اور اگر یہ محبت فدائیت کی حد تک بڑھ جائے تو وہ اپنی زندگی کو اسی کی خدمت کے لئے وقف کر دیتا ہے اپنی جان مال عیش و آرام ،صلاحیت غرض سب کچھ اسی پہ نثار کردیتا ہے میری اس سلسلے میں کوشش حتی المقدور ہوتی ہے سب سے پہلے میں اپنے گھر میں امر با لمعروف کے فریضے کو انجام دینے کی سعی کرتی ہوں اس سلسلے میں اپنا کردار ہی سامنے رکھتی ہوں کیونکہ بچوں کو جو چیز سکھائی جائے وہ نہیں سیکھتے بلکہ کرتا ہوا دیکھ کر سیکھتے ہیں اس لئے ایسی برائیاں جن سے نفرت ہو اس سے پرہیز کرتی ہوں اور نماز و قرآن کی طرف انھیں عملی طور پہ بلاتی ہوں۔اسی طرح انسان کو کوئی چیز نا پسند ہوتی ہے تو اسے چھوڑدیتا ہے اگر نفرت ہو تو سننا یا دیکھنا بھی برداشت نہیں کرتا اس سے بھی آگے دشمنی ہو تو مٹانے کے درپے ہوجاتا ہے اگر بغض و عناد ہو تو اسے مٹانے کو زندگی کا مشن بنا لیتا ہے بس یہی مشن میری زندگی کا بھی ہے کہ برائی کو میں اپنے گھر اور معاشرے سے مٹانے کے لئے ہر وقت تنگ و دو میں مصروف رہوں۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے کہ آدمی دین کا کام کرے اور مشکلات اس کا راستہ نہ رو کیں خصوصاََجب یہی کام عورت کرے تو ہمارا معا شرہ کیسے کیسے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے کہ بس اللہ کی پناہ میں ہی عافیت محسوس ہوتی ہے عورت کا معاشرہ اس کے گھر تک ہی محدود ہوتا ہے لہذا اس کے لئے آسانیاں یا مشکلات بھی گھر والے ہی پیدا کرتے ہیں ،میرا معاملہ بھی یہی رہا کہ جب دنیاوی سوچ پہ دینی سوچ غالب آئی تو اسی عرصے میں ایک ایسے گھر میں شادی ہوئی جہاں دین کا نام لیوا کوئی نہ تھا جہاں مجھے بے دین سمجھا گیا۔چونکہ تعلیم بھی جاری تھی اس میں بھی رکا وٹیں ڈالی گئیں سسرال میں ساس سسر کے علاوہ دو دیور اور دو دیورانیاں تھیں اور ان سب میں اختلاف تھا مگر دین کے معاملے میں وہ سب ایک تھے اور میں اکیلی۔شوہر کی اخلاقی مدد حاصل تھی لہذا سب سے پہلے ان ہی کو ٹارگٹ کیا ہوا تھا اور اللہ سے رو رو کر یہی دعا مانگتی کہ یا اللہ تو ان کے دلوں کو پھیر دے اور اللہ نے بہت جلد شوہر کو میرا ہمنوا بنا دیا۔گھر والے نہ صرف میری تعلیم کے حصول سے خائف تھے بلکہ میرے دین کے بھی سخت مخالف۔مجھے گھر کے ایسے ایسے فضول کا موں میں الجھایا جاتا کہ میں پڑھ نہ سکوں یہاں تک کہ جب سارے کاموں سے فارغ ہو کر میں دوپہر کو پڑھنے کا سوچتی تو امی مجھے پرانے کپڑوں کو ادھیڑ کر دوبارہ سینے میں لگا دیتیں۔میرا شعبہ چونکہ ارضیات تھا اس کے باوجود مجھے ریگولر کلاس اٹینڈ کرنے کا موقع نہ ملتا جب امی کے گھر رہنے آتی تب کلاس اٹینڈ کرتی۔درس کے لئے مجھے جمیعت والے اپنے پروگراموں میں بلاتے تو مجھ پر پابندی لگائی جاتی اگر گھر میں شوہر ہوتے تو وہ مجھے لے جاتے ورنہ مجھے ان سے معذرت کرنا پڑتی۔میں اس وقت ناظمہ شہر نشر واشاعت تھی مجھے استعفیٰ دینا پڑا۔ اب خاص پروگراموں میں درس کے لئے شریک ہوتی۔اچھی بھلی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی کہ دونوں عزیز چیزیں تعلیم اوردین دونوں میں آزمائشیں شروع ہوگئیں۔

اللہ رب العالمین بڑا کار ساز ہے اس مشکل وقت میں اللہ نے بڑی ہمت اور حوصلہ عطا کیا سسرال والے میرے حسن سلوک و خدمت سے متاثر تھے مگر اس کے باوجود دینی مخالفت میں پیش پیش۔گھر میں مشرکانہ نیازوں کا اہتمام ہوتا۔ دو دو دن وہی کھانا گھر میں چلتا میری غیرت کھانے کو گوارا نہ کرتی مجھے بھوکا رہنا پڑتا ۔بعد میں شوہر بھی بھوکے رہ جاتے مگر نیاز کا کھانا نہ کھاتے۔ اب گھر والوں کی مخالفت کھل کر سامنے آگئی اور اس مخالفت میں سسر سب سے آگے تھے۔ایک عجیب بات بتاو¿ں کہ سسرال والے میرے حسن سلوک و خدمت سے تو خوش تھے اور مجھ سے کبھی کوئی شکایت نہ تھی اگر شکایت تھی تو صرف میری نماز اور میرے دین سے تھی۔ انا للہ و انا الیہ را جعون میرے لئے یہ چیلنج بڑا تھا میں اکثر ساس کو قران کے حوالے سے سمجھانے کی کوشش کرتی جس کے نتیجے میں دوسرے سال انھوں نے ایک وقت کی نماز کی ابتدا کی تیسرے سال دو وقت کی نماز پہ آگئیں باقی خیالات میں تبدیلی نہ آئی میں اس سلو پروسیس سے بھی خوش تھی کہ آہستہ آہستہ ہی سہی اچھی تبدیلی ہے۔میں اس چیز سے بے خبر تھی کہ میرے خلاف خفیہ سازششیں ہو رہی ہیں۔سسر جو مخالفت میں سب سے آگے تھے ان کے بھائی جو دیورانی کے والد بھی ہیں اور "پہنچے ہوئے پیر" بھی ہیں ان دونوں کی گٹھ جوڑ سے ایک سازش کی گئی میرے خلاف کے کہ میں اسے بیان کرنے سے قاصر ہوں ہمیں اپنی شیر خوار بیٹی کے ہمراہ گھر اور سب کچھ خیر آباد کہنا پڑا اور آکر دو کمروں کے کرائے کے گھر میں چند مہینے گزارے ان حالات میں میں نے ایم ایس سی کیسے کیا ہوگا بتانا مشکل ہے۔

میرا رب جو ستر ماو¿ں سے بڑھ کر رحیم و شفیق ہے اس نے مجھے ان سب پریشانیوں سے نہ صرف محفوظ کر دیا بلکہ رزق کے دروازے بھی کھول دیئے اور ہم نے ایک سال میں ہی اپنا گھر بھی بنا لیا دوسرے سال گاڑی بھی اگئی اور ہم نے اسی سال رمضان کا عمرہ بچوں کے ہمراہ کر لیا۔زیادتی و سازشیں سسرال والوں نے کیں مگر اللہ کو ہماری بھلائی منظور تھی اس نے صبر و استقامت کا اتنا بڑا انعام دیا کہ میں اکثر تنہائی میں سوچ کر رو پڑتی ہوں اس کے بعد میں نے درس نظامی بھی پڑھی اور اللہ نے اس دوراں کئی بار حج و عمرہ کے گرینڈ پرائز سے بھی نوازا۔ رب العالمین کا وعدہ سچا ہے اس نے اپنے بندوں کو رسوا نہیں ہونے دیااور اس کے راستے میں جو پایہ استقامت پہ جم جاتا ہے اسے رب بہترین انعام سے نوازتا ہے مشکل وقت اس وقت لمبا اور طویل محسوس ہوتا ہے جس وقت گزر رہا ہو مگر گزر جانے کے بعد آسانیاں اور رب تعالٰی کی مہربانیاں حقیقت میں دیر پا ہوتی ہیں ساس اب ہمارے گھر آجاتی ہیں اب مجھے نہ میرے دین کو کچھ کہتی ہیں بلکہ اب گزرے وقت پہ انھیں افسوس ہوتا ہے اب اللہ سے دعا ہے کہ اللہ سسر اور دیور کو بھی ہدایت کی روشنی سے فیضیاب فرمائے۔

تھوڑی دیر کے لیے ذرا تصورکیجئے کہ ا ٓپ نے میٹرک سائنس میں تیسری پوزیشن حاصل کی ہے اور مزیداعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق بھی ہے۔ لیکن شومئی قسمت سے گھریلوحالات کچھ ایسے ہوجائیں کہ آپ کے گھر والے صرف انٹر کے بعد ہی آپ کی شادی کردیں اور سسرال بھی ایسا ملے جو بہو کو مزید تعلیم دلانے کے خلاف ہو تو آپ ایسے میں کیا کریں گی؟ جی ہاں! ان حالات میں بھی آپ ایم ایس سی میں پوزیشن حاصل کرسکتی ہیں۔ درس نظامی کا کورس کرکے عالمہ بن سکتی ہیں، ہومیو ڈاکٹر بن سکتی ہیں۔کمپیوٹر کے کورسز کرکے انٹرنیٹ کی دنیا میں دعوت دین کا فریضہ سنبھال سکتی ہیں۔ طالبات کی دینی تعلیم کے لئے مدرسہ قائم کرسکتی ہیں۔ بے دین سسرالی ماحول میں نہ صرف خود کو بلکہ اپنے شوہر اور بچوں کو بھی دین حق پہ قائم رکھ سکتی ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ سسرال والوں کو بھی اپنے حسن عمل سے اپنا گرویدہ بنا سکتی ہیں۔ نسرین فاطمہ کی یہ ولولہ انگیز داستان سن کر اس شاعرانہ کلام پرسو فیصداعتبار آجاتا ہے کہ ع

تندئی بادِ مخالف سے نہ گھبرا ،اے عقاب!
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اُڑانے کے لئے
 
Top