برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قرآن پاک کاقدیم ترین نسخہ برآمد، 14 سو سال میں ایک بھی تبدیلی نہیں

برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی میں قرآن پاک کاقدیم ترین نسخہ برآمد، 14 سو سال میں ایک بھی تبدیلی نہیں ہوئی
news-1437581643-2108_large.jpg

لندن(اے این این) برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی قدیم ترین قرآنی نسخہ برآمد ہوا ہے اور یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اسلام کے ابتدائی چند سالوں کا یہ نسخہ 1370ءسال پرانا ہے جویونیورسٹی کی لائبریری میں مشرق وسطیٰ کی کتابوں اور دستاویزات کے ساتھ ایک صدی سے پڑا ہے۔
برطانوی میڈیا کے مطابق برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کو لائبریری میں ممکنہ طور پر قرآن کا قدیم ترین نسخہ ملا ہے۔یونیورسٹی کے مطابق ٹیسٹ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے جسے اس سے پہلے کسی نے نہیں دیکھا۔ پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم کی جانب سے اس نسخے کی نشاندہی کے بعد اس کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کرایا گیا جس کے دوران یہ انکشاف ہوا کہ یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھا گیا ہے اور یہ نسخہ یونیورسٹی کی لائبریری میں تقریبا ایک صدی سے پڑا ہوا ہے۔ اس نسخے کو ایک پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم نے دیکھا اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ اس کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کرایا جائے۔ جب یہ ٹیسٹ کیا گیا تو اس کے نتیجے نے سب کو حیران کر دیا۔
یونیورسٹی کی ڈائریکٹر سوزن وورل کا کہنا ہے کہ تحقیق دانوں کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ دستاویز اتنی قدیم ہو گی۔یہ معلوم ہونا کہ ہمارے پاس قرآن کا دنیا میں قدیم ترین نسخہ موجود ہے بہت خاص ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلیریٹر یونٹ میں کیے گئے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھا گیا ہے اور قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔ اس ٹیسٹ سے اس نسخے کے قدیم ہونے کا اندازے کے مطابق یہ 568 اور 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔ برمنگھم یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔
پروفیسر تھامس کا کہنا ہے اس نسخے سے اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ جس نے بھی یہ لکھا وہ شخص پیغمبر اسلام کے وقت حیات تھااور ممکنہ طور پر انہوں نے پیغمبر کو دیکھا ہو گا اور ان کو تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہو گا جبکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ پیغمبر کو قریب سے جانتے بھی ہوں گے۔ پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ قرآن کو کتاب کی صورت میں 650 میں مکمل کیا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ یہ کافی اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کا جو حصہ اس چمڑے پر لکھا گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے گزر جانے کے دو دہائیوں کے بعد کا ہے۔
جو نسخہ ملا ہے وہ موجودہ قرآن کے قریب تر ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور وہ ویسا ہی جیسے کہ نازل ہوا۔قرآن کا یہ نسخہ حجازی لکھائی میں لکھا گیا ہے جس طرح عربی پہلے لکھی جاتی تھی،اس پر اعراب نہیں ہیں جس کے باعث اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ قدیم ترین نسخہ ہے۔
ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے مختلف تاریخیں سامنے آتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس بھی قدیم نسخے موجود ہیں جس کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان نسخوں میں سے کوئی بھی قدیم ترین ہو سکتا ہے تاہم یونیورسٹی کے کیے گئے ٹیسٹ سے 645 کی تاریخ سامنے آئی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہی قدیم ترین نسخہ ہے۔
برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسی کا کہنا ہے کہ خوبصورت اور واضح حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفہ کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔ڈاکٹر محمد عیسی کا کہنا ہے کہ تیسرے خلیفہ کے زمانے میں قرآن کا حتمی نسخہ منظر عام پر لایا گیا۔ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی۔ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے ملنے والا یہ نسخہ یا تو اس زمانے کا ہے یا اس سے بھی پہلے کا۔
بہرحال اس نسخے کا ملنا اور اس پر خوبصورت حجازی لکھائی سے مسلمان بہت خوش ہوں گے۔یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطی کے دستاویزات کے منگانا مجموعے کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید عراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے۔ان کو چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کے ایڈورڈ کیڈبری نے سپانسر کیا تھا کہ وہ مشرق وسطی جائیں اور دستاویزات اکٹھی کریں۔برمنگھم کی مقامی مسلمان آبادی نے اس نسخے کی دریافت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نسخے کی نمایش کی جائے گی۔
 

زیک

مسافر
اس ٹیسٹ سے اس نسخے کے قدیم ہونے کا اندازے کے مطابق یہ 568 اور 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔
خیال رہے کہ 568 سے 610 تک اسلام کا وجود نہ تھا۔ دوسری اہم بات یہ کہ یہ قدامت اس کھال کی ہے جس پر یہ آیات لکھی ہیں۔ ہمیں یہ علم نہیں کہ اس پر قرآن کب لکھا گیا۔
 

فاتح

لائبریرین
بی بی سی کی خبر
پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ ’اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔‘
برطانیہ کی برمنگھم یونیورسٹی کی لائبریری سے ممکنہ طور پر قرآن کا قدیم ترین نسخہ برآمد ہوا ہے۔

یونیورسٹی کے مطابق ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے یہ معلوم ہوا ہے کہ یہ نسخہ کم از کم 1370 سال پرانا ہے اور اگر یہ دعویٰ درست ہے تو یہ نسخہ قدیم ترین قرآنی نسخہ ہے۔

قرآن کا یہ نسخہ یونیورسٹی کی لائبریری میں تقریباً ایک صدی سے پڑا ہوا تھا۔

برٹش لائبریری میں ایسے نسخوں کے ماہر ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یہ بہت ’دلچسپ دریافت‘ ہے اور ’مسلمان بہت خوش‘ ہوں گے۔

یہ نسخہ مشرق وسطیٰ کی کتابوں اور دیگر دستاویزات کے ساتھ پڑا ہوا تھا اور کسی نے اس کی پہچان نہیں کی۔

اس نسخے کو ایک پی ایچ ڈی کرنے والے طالب علم نے دیکھا اور پھر فیصلہ کیا گیا کہ اس کا ریڈیو کاربن ٹیسٹ کرایا جائے اور اس ٹیسٹ کے نتیجے نے سب کو حیران کردیا۔

یونیورسٹی کی ڈائریکٹر سوزن وورل کا کہنا ہے کہ تحقیق دانوں کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ دستاویز اتنی قدیم ہو گی۔ انھوں نے کہا کہ ’یہ معلوم ہونا کہ ہمارے پاس قرآن کا دنیا میں قدیم ترین نسخہ موجود ہے بہت خاص ہے۔‘

آکسفرڈ یونیورسٹی کے ریڈیو کاربن ایکسلیریٹر یونٹ میں کیے گئے ٹیسٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ نسخہ بھیڑ یا بکری کی کھال پر لکھا گیا ہے۔ یہ قدیم ترین نسخوں میں سے ایک ہے۔

150722023945_oldest_koran_fragments_624x351_bbc_nocredit.jpg

یونیورسٹی کی ڈایریکٹر سوزن وورل کا کہنا ہے کہ تحقیق دانوں کو اندازہ بھی نہ تھا کہ یہ دستاویز اتنی قدیم ہو گی
اس ٹیسٹ کے مطابق یہ سنہ 568 اور سنہ 645 کے درمیان کا نسخہ ہے۔

برمنگھم یونیورسٹی کے عیسائیت اور اسلام کے پروفیسر ڈیوڈ تھامس کا کہنا ہے کہ ’اس تاریخ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام کے چند سال بعد کا نسخہ ہے۔‘

پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ اس بات کے بھی قوی امکانات ہیں کہ جس نے بھی یہ لکھا وہ شخص پیغمبر اسلام کے وقت حیات تھا۔

’جس نے یہ لکھا ہے ممکن ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے قریب تھے۔ ممکنہ طور پر انھوں نے پیغمبر کو دیکھا ہو گا اور ان کو تبلیغ کرتے ہوئے سنا ہو گا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ پیغمبر کو قریب سے جانتے ہوں گے۔ اور یہ ایک اہم بات ہے۔‘

پروفیسر تھامس کا کہنا ہے کہ قرآن کو کتاب کی صورت میں 650 میں مکمل کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ کافی اعتماد سے کہا جا سکتا ہے کہ قرآن کا جو حصہ اس چمڑے پر لکھا گیا ہے کہ وہ پیغمبر اسلام کے گزر جانے کے دو دہائیوں کے بعد کا ہے۔‘

’جو نسخہ ملا ہے وہ موجودہ قرآن کے قریب تر ہے جس سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ قرآن میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی اور وہ ویسا ہی جیسے کہ نازل ہوا۔‘

قرآن کا یہ نسخہ ’حجازی لکھائی‘ میں لکھا گیا ہے جس طرح عربی پہلے لکھی جاتی تھی۔ جس کے باعث اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ قدیم ترین نسخہ ہے۔

ریڈیو کاربن ٹیسٹ سے مختلف تاریخیں سامنے آتی ہیں۔ کچھ لوگوں کے پاس بھی قدیم نسخے موجود ہیں جس کے باعث یہ کہا جا سکتا ہے کہ ان نسخوں میں سے کوئی بھی قدیم ترین ہو سکتا ہے۔

150722040641__84297101_thomas624.jpg

قرآن کا یہ نسخہ ’حجازی لکھائی‘ میں لکھا گیا ہے جس طرح عربی پہلے لکھی جاتی تھی۔ جس کے باعث اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ یہ قدیم ترین نسخہ ہے: پروفیسر تھامس
تاہم یونیورسٹی کے کیے گئے ٹیسٹ سے 645 کی تاریخ سامنے آئی ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہی قدیم ترین نسخہ ہے۔

برٹش لائبریری کے ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ ’خوبصورت اور واضح حجازی لکھائی میں لکھے گئے یہ نسخے یقینی طور پر پہلے تین خلفا کے زمانے کے ہیں یعنی 632 اور 656 کے عرصے کے۔‘

ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ تیسرے خلیفہ کے زمانے میں قرآن کا حتمی نسخہ منظر عام پر لایا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ مسلمان اس وقت اتنے امیر نہیں تھے کہ وہ دہائیوں تک کھالوں کو محفوظ کر کے رکھتے اور قرآن کی ایک مکمل نسخے کے لیے کھالوں کی بڑی تعداد درکار تھی۔

ڈاکٹر محمد عیسیٰ کا کہنا ہے کہ یونیورسٹی سے ملنے والا یہ نسخہ یا تو اس زمانے کا ہے یا اس سے بھی پہلے کا۔

’بہرحال اس نسخے کا ملنا اور اس پر خوبصورت حجازی لکھائی سے مسلمان بہت خوش ہوں گے۔‘

یہ نسخہ 3000 سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے دستاویزات کے ’منگانا مجموعے‘ کا حصہ ہے جو 1920 کی دہائی میں جدید عراق کے شہر موصل سے پادری الفونسے منگانا لائے تھے۔

ان کو چاکلیٹ بنانے والی کمپنی کے ایڈورڈ کیڈبری نے سپانسر کیا تھا کہ وہ مشرق وسطیٰ جائیں اور دستاویزات اکٹھی کریں۔

برمنگھم کی مقامی مسلمان آبادی نے اس نسخے کی دریافت پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نسخے کی نمائش کی جائے گی۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
مجھے ایک آیت کافی واضح طور پر سمجھ آئی ۔ بائیں ہاتھ والے صفحے پر آخری دو سطروں میں ۔
فالخلع نعلیک انک بالوادی المقدس طوی۔
"اپنے دونوں جوتے اتاردو ،تم ایک مقدس وادی طویٰ میں ہو"۔
واللہ اعلم۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
رپورٹ میں یہ بات شامل کر نے کے لائق نہیں سمجھی گئی کہ یہ نسخہ کتنے حصے پر مشتمل ہے۔تصویر میں تو لگتا ہے کہ یہ نسخہ نہیں بلکہ کچھ کٹے پھٹے سےفریگمنٹس ہیں ۔واللہ اعلم
 

زیک

مسافر
رپورٹ میں یہ بات شامل کر نے کے لائق نہیں سمجھی گئی کہ یہ نسخہ کتنے حصے پر مشتمل ہے۔تصویر میں تو لگتا ہے کہ یہ نسخہ نہیں بلکہ کچھ کٹے پھٹے سےفریگمنٹس ہیں ۔واللہ اعلم
سورہ ۱۸ سے ۲۰ سے کچھ آیات ہیں۔ مکمل سورتیں نہیں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
متن کے مطابق "قریب تر" اور عنوان کے مطابق "ایک بھی تبدیلی نہیں"۔۔۔ سمجھ میں نہیں آیا
عربی کتابت کی بھی قرآنی شکل بعض عربی قرائتوں کی طرح متنوع ہے۔ ۔مثلا ً نماز کو صلاۃ معیاری عربی کتابت میں لکھا جاتا ہے اور زکاۃ بھی(زکوٰۃ کو)۔ لیکن قرآنی کتابت میں صلوٰۃاور زکوٰۃ لکھا جاتا ہے اور دونوں کو درست سمجھا جاتا ہے۔کئی اور مثالیں دوسرے الفاظ میں بھی ملتی ہیں مثلا ۔ یدرکّم الموت (عام معیاری عربی میں ) ۔ کو قران مجید میں ید رککم الموت لکھا جاتا ہے۔ یعنی ایک کاف کتابت میں زیادہ آتا ہے( پڑھنے میں ایک ہی آوازہے)۔اسی طرح کوئی کوئی قرائت بھی اتنی مختلف ہوتی ہے کہ ہم جیسے سطحی علم رکھنے والوں کو اپنے مروج طریقے کے لحآظ سے بالکل فاش غلطی کی طرح محسوس ہوتی ہیں جو دوسرے قاعدے کی مطابق دراصل بالکل درست ہوتی ہیں۔
میرے ذاتی خیال میں فرق اور" قریب تر "سے ایسے ہی تنوع کی طرف اشارہ کیا گیا ہوگا۔
واللہ اعلم
 

arifkarim

معطل
یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اس نسخے کی نمائش کی جائے گی۔
امید ہے یہ یونی ورسٹی اس تاریخی اسلامی ورثہ کو کسی مالدار عربی شیخ کے ہاتھ فروخت نہیں کرے گی۔ گو کہ یہ سعودی عرب کا تاریخی ورثہ بھی ہے۔ یوں بہتر ہوگا کہ اسے حکومت السعودیہ کے کسی عجائب گھر میں نمائش کیلئے رکھ دیا جائے تاکہ دنیا بھر سے آنے والے مسلمان اسے ہر سال دیکھ سکیں۔
 
Top