برکات نبوتﷺ

ابن محمد جی

محفلین
برکات نبوتﷺ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔

برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے1،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔
اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔

چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو

ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
 
آخری تدوین:

ابن حسیم

محفلین
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔​
اللہ رب العزت کا یہ فرمان بالکل اس صاحب مضمون پر فٹ آتا ہے کہ:
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ
"وه کلمات کے اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں تبدیل کردیا کرتے ہیں"

یہی کام موصوف نے یہاں کیا کہ "یزکیھم" کی وہ تفسیر پیش کی جو آج تک کسی مفسر نے تو کجا کسی ادنی سے طالب علم نے بھی نہیں سمجھی۔ قارئین آئیے ذرا اس مضمون کا جائیزہ مفسرین کی تفاسیر کی روشنی میں لیتے ہیں۔

"یزکیھم" کا لفظ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر فرمایا اور ہر جگہ اس کے ساتھ آیات قرآنیۃ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کو ذکر فرمایا یعنی کہ تزکیہ نفس صرف اور صرف تمسک بالقرآن والسنۃ کے ساتھ ہی ممکن ہے اورتزکیۃ نفس سے مراد ہے کہ تمام منکرات کو چھوڑ کر احکامات الہی پر گامزن ہو جانا۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

سورۃ البقرہ آیت 129

لَقَدْ مَنَّ اللَّ۔هُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ آل عمران آیت 164

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ الجمعۃ آیت 2

اگر آپ مذکورہ تینوں مقامات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تزکیۃ نفس صرف اور صرف آیت الہی کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم سے ہی ممکن ہے اور حکمت سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

موصوف فرماتے ہیں:
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے

تو جناب پھر منافقین کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟؟ انہوں نے تو تعلیمات کو سنا بھی جانا بھی اور فیض صحبت میں بھی رہے۔ یہ گمنامی فیض "جو کہ بقول آپ کے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے" ان لوگوں کے دلوں کو کیوں نہ بدل سکا جو منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں پڑھتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ڈائیرکٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنتے رہے؟؟

لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی طرف سے یزکیھم کو "برکات نبوت" کی تحریف کے ساتھ لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ قبل اس سے کہ میں یزکیھم کی تفسیر مفسرین قرآن کے الفاظ سے پیش کروں یہاں اس تحریف کو ایک اور نقطہ سے باطل ثابت کرتا چلوں۔

یہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔

تو پھر اللہ رب العزت کے اس فرمان پر آپ کیا کہیں گے کہ "قد افلح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی " "فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور اپنے پروردگار کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا" یہاں تو اللہ رب العزت نے مطلقا ہر اس انسان کی کامیابی بتا دی جس نے اللہ کا ذکر کیا اور نماز ادا کی" خواہ وہ کسی اہل اللہ کی صحبت میں گیا یا نہیں گیا۔

اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔

تو اسکا مطلب کہ کتابت قرآن و کتب احادیث سب بے کار؟؟ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ ان کتب احا دیث کا مطالعہ کرے جو عامائے کرام نے اسکے لیے اسکی اپنی زبان میں مترجم کر رکھی ہیں۔۔۔ اور پھر "روشن دل" کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟؟

حالانکہ دل کا جاننا صرف اور صرف اللہ رب العزت کا خاصہ ہے کسی مخلوق کے لیے یہ لائیق نہیں کہ وہ کسی کے دل کی روشنی یا سیاہی کو جان سکے۔ تبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود منافقین کے دلوں کو نہ جان سکے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّ۔هِ كَذِبًا ۖفَإِن يَشَإِ اللَّ۔هُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗوَيَمْحُ اللَّ۔هُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚإِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
سورۃ الشوری آیت 24
"کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے؟ اگر اللہ چاہے تو (اے محمدﷺ) تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ اور اللہ جھوٹ کو نابود کرتا اور اپنی باتوں سے حق کو ثابت کرتا ہے۔ بےشک وہ سینے تک کی باتوں سے واقف ہے"

اور یہی بات اللہ رب العزت نے بے شمار مقامات پر ذکر کی کہ دلوں کے بھید صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ تو جناب اب ایک انسان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی کے دل کی روشنی یا سیاہی کو جان لے؟؟

محترم قارئین آئیے اب ذرا "یزکیھم" کی تفسیر مفسرین قرآن کی روشنی میں دیکھ لیں تاکہ آپ پر صاحب مضمون کی تحریف واضح ہو سکے:

امام ابن کثیر فرماتے ہیں:
{ وَيُزَكِّيهِمْ } أي: يأمرهم بالمعروف وينهاهم عن المنكر لتزكُوَ نفوسهم وتطهر من الدَّنَسِ والخَبَث الذي كانوا متلبسين به في حال شركهم وجاهليتهم
" یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دے تا کہ وہ اپنے نفسوں کو پاک کرلیں اور اپنی شرک و جہالت کی اس میل اور خباثت کو دھو دیں جسے وہ تزکیۃ نفس سے پہلے ملبوس کیے ہوئے تھے۔"

صاحب تفسیر ابن عباس فرماتے ہیں۔
{ وَيُزَكِّيهِمْ } يطهرهم بالتوحيد في الشرك
"یزکیھم سے مراد ہے انہیں توحید کے ساتھ شرک سے پاک کرے"

صاحب فتح البیان فرماتے ہیں۔
(ويزكيهم) أي يطهرهم من نجاسة الكفر والذنوب، ودنس المحرمات والخبائت
"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں نجاست کفر، گناہوں، محرمات کی میل اور خبائث سے پاک کر دے"

صاحب اوضح التفاسیر فرماتے ہیں۔
{وَيُزَكِّيهِمْ} يطهرهم من دنس الكفر والمعاصي
"انہیں کفر کی میل اور گناہوں سے پاک کردے"

تفسیر ایسر التفاسیر میں ہے۔
{ يزكيهم } : بما يرشدهم إليه من الأعمال الصالحة الأخلاق الفاضلة والآداب العالية
"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں اعمال صالحہ، اخلاق فاضلہ اور آداب عالیہ کی طرف آگاہ کرے"

امام الطبری فرماتے ہیں۔
"ويزكيهم"، يعني: يطهّرهم من ذنوبهم باتباعهم إياه وطاعتهم له فيما أمرهم ونهاهم
"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں گناہوں سے اپنی اتباع کی طرف پاک کریں اور انہیں ہر اس بات پر اطاعت کا درس دیں جسکا انہیں حکم دیا جائے اور جس سے انہیں روکا جائے"

امام خازن المتوفى: 741ه۔ فرماتے ہیں۔
وَيُزَكِّيهِمْ أي ويطهرهم من دنس الكفر ونجاسة المحرمات والخبائث

امام ماوردی المتوفی 450ھ فرماتے ہیں۔
{يَتْلُو عَلَيهِمْءَآيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ} فيه ثلاث تأويلات: أحدها: أنه يشهد لهم بأنهم أزكياء في الدين. والثاني: أن يدعوهم إلى ما يكونون به أزكياء. والثالث: أنه يأخذ منهم الزكاة التي يطهرهم بها۔

ابو السعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
{ وَيُزَكّيهِمْ } عطفٌ على يتلو أي يطهرهم من دنس الطبائعِ وسوءِ العقائدِ وأوضارِ الأوزار

ابن تمام بن عطية المحاربي فرماتے ہیں۔
{ ويزكيهم } معناه : يطهرهم من دنس الكفر والمعاصي ، قال بعض المفسرين : معناه يأخذ منهم الزكاة ، وهذا ضعيف

شهاب الدين محمود ابن عبدالله الحسيني الألوسي فرماتے ہیں۔
{ وَيُزَكّيهِمْ } أي يدعوهم إلى ما يكونون به زاكين طاهرين مما كان فيهم من دنس الجاهلية أو من خبائث الاعتقادات الفاسدة كالاعتقادات التي كان عليها مشركو العرب وأهل الكتابين ، أو يشهد بأنهم أزكياء في الدين

امام الزمخشری فرماتے ہیں۔
{ وَيُزَكّيهِمْ } ويطهرهم من دنس القلوب بالكفر ونجاسة سائر الجوارح بملابسة المحرمات وسائر الخبائث

تو جناب، یہ تو میں نے چند نمونے مفسرین قرآن کے کلام سے آپ کے سامنے اس لیے پیش کیے تاکہ آپ جان سکیں کہ مفسرین کے نزدیک پاکیزگی اتباع قرآن سنت کا نام ہے یا کہ گمنام بے معنی "فیض صحبت" کا؟

امید ہے کہ دلائیل بالا کی روشنی میں قارئین کو یزکیھم کے اصل معانی اور تحریف قرآن کی سمجھ آ گئی ہو گی۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر قسم کی تحریفات منکرات تاویلات سے بچا کر خالص قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔

 
برکات نبوتﷺ
ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔
لقد من الله على المؤمنين إذ بعث فيهم رسولا من أنفسهم يتلو عليهم آياته ويزكيهم ويعلمهم الكتاب والحكمة وإن كانوا من قبل لفي ضلال مبين
جو علوم انبیاء علیہ الصلوۃ و السلام تقسیم فرماتے ہیں ،اس میں دو چیزیں ہو تی ہیں ،یا دوطرح کا فیض نصیب ہوتا ہے،ایک حصہ کو تعلیمات نبوت کہتےہیں، اور دوسرا حصہ برکات نبوت کہلاتا ہے۔
تعلیمات نبوت:۔تعلیمات نبوت ارشادات ظاہری ۔اقوال و افعال و رسولﷺ کا مرقع ہے،قرآن وحدیث و فقہ سب اسی قبیل سے ہیں۔تعلیمات نبوتﷺ کا یہ پہلو حروف والفاظ کی شکل میں قلم بند ہوا، اور سیکھا سکھایا جاتا ہے۔

برکات نبوت:۔انبیاء علیہ الصلوۃ والسلام سے جب قلبی تعلق بنتا ہے تو قلب اطہر پیغمبرعلیہ الصلوۃ والسلام سے فیض پانے والے کے قلب پر وہ کفیت آ جاتی ہے جو دیکھی نہیں جا سکتی ،بیان نہیں کی جا سکتی ،جس کے لئے کوئی الفاظ نہیں ملتے جو صرف محسوس کی جا سکتی ہے ،اسکو برکات نبوت کہتے ہیں۔دین مبین کا یہ شعبہ تصوف وسلوک ،احسان ،اسرار شریعت،طریقت وغیرہ کے الفاط سے بھی گردانا گیا ہے۔اور ہمارے عرف عام میں اسکو پیری مریدی بھی کہا جاتا ہے۔
"يتلو عليهمآيا تہ "دعوت الی اللہ ہے ،"یزکیھم "برکات نبوت ہے، "و یعلمھم الکتاب و لحکمۃ" تعلیمات نبوت ہے۔اب یہ قرآن نے علیحدہ سے یزکیھم کا ذکر کیا ہے ۔یعنی آپﷺ تزکیہ فرماتے تھے،یہ تزکیہ کیا ہے۔یہی ہمارا موضوع ہے۔اور اس شعبے کو آج تصوف و احسان یا طریقت وغیرہ کہا جاتا ہے۔
حصول تزکیہ:۔تزکیہ کیا ہے ؟ ایک قلبی اور روحانی کفیت کا نام ہے1،جس کے طفیل دل میں خلوص اور اطاعت الٰہی کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور گناہ اور معصیت سے نفرت ہونے لگتی ہے۔اسکا ثبوت صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین کی مقدس زندگیاں ہیں کہ آپﷺ کی بعثت کے وقت دنیا کی اخلاقی حالت عموماً اور اہل عرب کی خصوصاً تباہی کےآخری کنارے پر پہنچ چکی تھی کہ آپ ﷺ کی بعثت نے انسانیت کی حیات نو بخشی اور ان ہی لوگوں کو وہ اخلاقی عظمت اور خلو ص للہیت عطا فرمائی کہ تاریخ انسانی اسکی مثال پیش نہیں کر سکتی۔

آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی صحبت میں آنے والے تابعین کہلائے اور ان سے تبع تابعین مستفید ہوئے پھر اہل اللہ نے اسی نعمت کو ان مقدس سینوں سے حاصل کیا اور خلق خدا کے دلوں کو روشن کرتے رہے اور کرتے رہے گے،انشاء اللہ،کہ اسی کی برکت سے کتاب وحکمت یا کتاب وسنت کی تعلیم حاصل کی جا سکتی ہےیہ تزکیہ یا فیض صحبت ہی اصول تعلیم کی اساس ہے ،کتاب وحکمت کی وہ تعلیم جو انسان کے لئے راہ عمل آسان کر دے جو اسکی عملی زندگی بن جائے ورنہ پھرمحض حروف کی شناخت رہ جائے گی،اسے تعلیم کہنا درست نہ ہو گا۔
یہ بھی وضاحت فرما دی کہ کتاب کے ساتھ مفہوم کتاب یا حکمت بھی ہےیعنی حدیث مبارک اور کتاب اللہ کی وہ شرح جوآپﷺنےفرمائی۔ورنہ قبل ازیں تولوگ ایسی گمراہی میںمبتلاء تھے،جسے وہ خود بھی جانتے تھے،یعنی اپنے گمراہ ہونے کا خود انھیں بھی علم تھا۔اور غالباً آج کے دور کی مصیببت بھی یہی ہے کہ کفیات باطنی دنیا میں بہت کم نصیب ہوتی ہیں ۔ایسے لوگ جن کے نہ صرف دل روشن ہوں بلکہ دوسرے دلوں کو روشن کرنے کی ہمت بھی رکھتے ہوں ،دنیا میں نطر نہیں آتے ہیں۔اورجب یہ نعمت نصیب نہیں ہوتی ،تو قوت عمل نصیب نہیں ہوتی۔لوگ کتاب اللہ پرھتے بھی ہیں ۔پڑھاتے بھی ہیں ،مگر عمل بہت کم نصیب ہوتا ہے ،اللہ کریم دلوں کو روشنی نصیب فرمائیں،آمین۔
اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ایسے لوگ تلاش کیا جائے جو ایک روشن دل رکھتے ہوں ۔آور آپ ﷺ کی عطا کردہ کفیات کے نہ صرف امین ہوں بلکہ انھیں تقسیم بھی کر سکے اور دوسروں کے دلوں میںبھی وہ روشنی منتقل کر سکے جس کے وہ امین ہوں ۔

چنیں مردے کہ یابی خاک او شو
اسیر حلقہ فتر اک او شو

ایسے ہی مردوں کی غلامی حیات آفریں ہو اکرتی ہے اور حقیقی علم ست آشنائی نصیب کرتی ہیں ،یہی ترتیب قرآنی سے بھی مترشخ ہو تا ہے کہ تلاوت آیات، پھر تزکیہ اور اسکے بعد تعلیم کتاب وحکمت ۔(تفسیراسرار التنزیل 421)
جزاک اللہ خیراّ۔۔۔بہت خوبصورت اور عمدہ پوسٹ۔
 

ابن محمد جی

محفلین
خود بدلتے نہیں قرآں کو بدل دیتے ہیں۔​
اللہ رب العزت کا یہ فرمان بالکل اس صاحب مضمون پر فٹ آتا ہے کہ:
يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ
"وه کلمات کے اصلی موقعہ کو چھوڑ کر انہیں تبدیل کردیا کرتے ہیں"

یہی کام موصوف نے یہاں کیا کہ "یزکیھم" کی وہ تفسیر پیش کی جو آج تک کسی مفسر نے تو کجا کسی ادنی سے طالب علم نے بھی نہیں سمجھی۔ قارئین آئیے ذرا اس مضمون کا جائیزہ مفسرین کی تفاسیر کی روشنی میں لیتے ہیں۔

"یزکیھم" کا لفظ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ذکر فرمایا اور ہر جگہ اس کے ساتھ آیات قرآنیۃ اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کو ذکر فرمایا یعنی کہ تزکیہ نفس صرف اور صرف تمسک بالقرآن والسنۃ کے ساتھ ہی ممکن ہے اورتزکیۃ نفس سے مراد ہے کہ تمام منکرات کو چھوڑ کر احکامات الہی پر گامزن ہو جانا۔

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ ۚإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ

سورۃ البقرہ آیت 129

لَقَدْ مَنَّ اللَّ۔هُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ آل عمران آیت 164

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ
سورۃ الجمعۃ آیت 2

اگر آپ مذکورہ تینوں مقامات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تزکیۃ نفس صرف اور صرف آیت الہی کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم سے ہی ممکن ہے اور حکمت سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔

موصوف فرماتے ہیں:


تو جناب پھر منافقین کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟؟ انہوں نے تو تعلیمات کو سنا بھی جانا بھی اور فیض صحبت میں بھی رہے۔ یہ گمنامی فیض "جو کہ بقول آپ کے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے" ان لوگوں کے دلوں کو کیوں نہ بدل سکا جو منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں پڑھتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ڈائیرکٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنتے رہے؟؟

لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی طرف سے یزکیھم کو "برکات نبوت" کی تحریف کے ساتھ لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ قبل اس سے کہ میں یزکیھم کی تفسیر مفسرین قرآن کے الفاظ سے پیش کروں یہاں اس تحریف کو ایک اور نقطہ سے باطل ثابت کرتا چلوں۔



تو پھر اللہ رب العزت کے اس فرمان پر آپ کیا کہیں گے کہ "قد افلح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی " "فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور اپنے پروردگار کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا" یہاں تو اللہ رب العزت نے مطلقا ہر اس انسان کی کامیابی بتا دی جس نے اللہ کا ذکر کیا اور نماز ادا کی" خواہ وہ کسی اہل اللہ کی صحبت میں گیا یا نہیں گیا۔



تو اسکا مطلب کہ کتابت قرآن و کتب احادیث سب بے کار؟؟ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ ان کتب احا دیث کا مطالعہ کرے جو عامائے کرام نے اسکے لیے اسکی اپنی زبان میں مترجم کر رکھی ہیں۔۔۔ اور پھر "روشن دل" کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟؟

حالانکہ دل کا جاننا صرف اور صرف اللہ رب العزت کا خاصہ ہے کسی مخلوق کے لیے یہ لائیق نہیں کہ وہ کسی کے دل کی روشنی یا سیاہی کو جان سکے۔ تبھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود منافقین کے دلوں کو نہ جان سکے۔

أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّ۔هِ كَذِبًا ۖفَإِن يَشَإِ اللَّ۔هُ يَخْتِمْ عَلَىٰ قَلْبِكَ ۗوَيَمْحُ اللَّ۔هُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمَاتِهِ ۚإِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
سورۃ الشوری آیت 24
"کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ پیغمبر نے اللہ پر جھوٹ باندھ لیا ہے؟ اگر اللہ چاہے تو (اے محمدﷺ) تمہارے دل پر مہر لگا دے۔ اور اللہ جھوٹ کو نابود کرتا اور اپنی باتوں سے حق کو ثابت کرتا ہے۔ بےشک وہ سینے تک کی باتوں سے واقف ہے"

اور یہی بات اللہ رب العزت نے بے شمار مقامات پر ذکر کی کہ دلوں کے بھید صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ تو جناب اب ایک انسان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی کے دل کی روشنی یا سیاہی کو جان لے؟؟

محترم قارئین آئیے اب ذرا "یزکیھم" کی تفسیر مفسرین قرآن کی روشنی میں دیکھ لیں تاکہ آپ پر صاحب مضمون کی تحریف واضح ہو سکے:

امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

" یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دے تا کہ وہ اپنے نفسوں کو پاک کرلیں اور اپنی شرک و جہالت کی اس میل اور خباثت کو دھو دیں جسے وہ تزکیۃ نفس سے پہلے ملبوس کیے ہوئے تھے۔"

صاحب تفسیر ابن عباس فرماتے ہیں۔
"یزکیھم سے مراد ہے انہیں توحید کے ساتھ شرک سے پاک کرے"

صاحب فتح البیان فرماتے ہیں۔
"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں نجاست کفر، گناہوں، محرمات کی میل اور خبائث سے پاک کر دے"

صاحب اوضح التفاسیر فرماتے ہیں۔

"انہیں کفر کی میل اور گناہوں سے پاک کردے"

تفسیر ایسر التفاسیر میں ہے۔

"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں اعمال صالحہ، اخلاق فاضلہ اور آداب عالیہ کی طرف آگاہ کرے"

امام الطبری فرماتے ہیں۔

"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں گناہوں سے اپنی اتباع کی طرف پاک کریں اور انہیں ہر اس بات پر اطاعت کا درس دیں جسکا انہیں حکم دیا جائے اور جس سے انہیں روکا جائے"

امام خازن المتوفى: 741ه۔ فرماتے ہیں۔


امام ماوردی المتوفی 450ھ فرماتے ہیں۔


ابو السعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔


ابن تمام بن عطية المحاربي فرماتے ہیں۔


شهاب الدين محمود ابن عبدالله الحسيني الألوسي فرماتے ہیں۔


امام الزمخشری فرماتے ہیں۔

تو جناب، یہ تو میں نے چند نمونے مفسرین قرآن کے کلام سے آپ کے سامنے اس لیے پیش کیے تاکہ آپ جان سکیں کہ مفسرین کے نزدیک پاکیزگی اتباع قرآن سنت کا نام ہے یا کہ گمنام بے معنی "فیض صحبت" کا؟

امید ہے کہ دلائیل بالا کی روشنی میں قارئین کو یزکیھم کے اصل معانی اور تحریف قرآن کی سمجھ آ گئی ہو گی۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر قسم کی تحریفات منکرات تاویلات سے بچا کر خالص قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے۔
بہت افسوس کی بات ہے کہ آپ بات کو پوچھنے کے بجائے فتوی سے زیادہ کام لے رہے،اور دوسری طرف آپ یہ بھی کہتے ہیں کہ مجھے تصوف کا علم بھی نہیں،اصول تو یہ ہے کہ بندہ جس بات کا علم نہیں رکھتا اسکو سیکھتا ہے ،لیکن آپ تو تحریف قرآن کا فتوی صادر کر چکے ہیں۔محترم کاش فتوی دینے کے بجائے یہ پوچھ لیتے کہ بتائیں کہ کون سا علم ہے جو کفیات کہلاتا ہے اور اسکا شرعی ثبوت کیا ہے؟
تو پھر میں آپکے سامنے دلائل رکھتا ہے مگر افسوس ہے کہّ دین ملا فساد فی سبیل اللہ۔
مگر آپ کی حالت یہ ہے کہ صحبت پیغمبرﷺ کے فیوضات سے انکاری ہیں،محترم ایمان میں ایک لذت ہے ،کیف ہے دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو عجب چیز ہے لذت آشنائی،آپ اگر محروم ہیں تو انکار نہ کرو،پوچھو سیکھو فتوی نہ دو۔
گر آپ مذکورہ تینوں مقامات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ تزکیۃ نفس صرف اور صرف آیت الہی کی تلاوت اور کتاب و حکمت کی تعلیم سے ہی ممکن ہے اور حکمت سے مراد تمام مفسرین کے نزدیک سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔
یعنی آپ ﷺ کی صحبت کا کمال نہیں ،ارے وہ سنت کہاں سے سیکھتے تھے،صحبت سے،حکمت صحبت سے،تلاوت قرآن صحبت سے۔مگر تزکیہ کا اصل سبب صحبت ہی تھا،ورنہ آج یہ علوم عام میں مگر عمل ناپید۔
تو اسکا مطلب کہ کتابت قرآن و کتب احادیث سب بے کار؟؟ کسی انسان کو یہ روا نہیں کہ وہ ان کتب احا دیث کا مطالعہ کرے جو عامائے کرام نے اسکے لیے اسکی اپنی زبان میں مترجم کر رکھی ہیں۔۔۔ اور پھر "روشن دل" کو جانچنے کا پیمانہ کیا ہے؟؟
کس نے کہا ہے کہ بے کار ہیں ،اللہ سے ڈرو۔

تو جناب پھر منافقین کے بارے میں کیا فرمائیں گے؟؟ انہوں نے تو تعلیمات کو سنا بھی جانا بھی اور فیض صحبت میں بھی رہے۔ یہ گمنامی فیض "جو کہ بقول آپ کے صرف محسوس کیا جاسکتا ہے" ان لوگوں کے دلوں کو کیوں نہ بدل سکا جو منافقین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امامت میں نمازیں پڑھتے رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ڈائیرکٹ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنتے رہے؟؟

لیکن افسوس کہ آپ نے اپنی طرف سے یزکیھم کو "برکات نبوت" کی تحریف کے ساتھ لوگوں کو دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ قبل اس سے کہ میں یزکیھم کی تفسیر مفسرین قرآن کے الفاظ سے پیش کروں یہاں اس تحریف کو ایک اور نقطہ سے باطل ثابت کرتا چلوں۔
جی منافق جو ہوا اس لئے کیسے مستفید ہوتا ،آج کا منافق بھی اس طرح کی صورتحال سے دوچار ہے۔ ذرا یہ آنکھیں کھول کر پڑحیں۔
آپ ﷺ کی تعلیمات ،ارشادات اور اسکے ساتھ فیض صحبت تزکیہ کی اصل ہے صرف تعلیمات تو کا فر بھی سنتا اور جانتا ہے مگر ایمان نہ ہونے کی وجہ سے فیض صحبت سے محروم ہو کر تزکیہ سے محروم رہتا ہے اور مومن ایمان لاکر ان کفیات کو حاصل کرتا ہے ،جو آپ ﷺ کی صحبت میں بٹتی ہیں چنا نچہ ایک نگاہ پانے والا صحابیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہوا اور یہ نعمت عظمیٰ بٹتی رہی ۔
ت
و پھر اللہ رب العزت کے اس فرمان پر آپ کیا کہیں گے کہ "قد افلح من تزکی۔ وذکر اسم ربہ فصلی " "فلاح پا گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور اپنے پروردگار کا ذکر کرتا رہا اور نماز پڑھتا رہا" یہاں تو اللہ رب العزت نے مطلقا ہر اس انسان کی کامیابی بتا دی جس نے اللہ کا ذکر کیا اور نماز ادا کی" خواہ وہ کسی اہل اللہ کی صحبت میں گیا یا نہیں گیا۔
اوہ میرے بھائی تصوف کا حصول بھی تو کثرت ذکر ہے،اور کثرت ذکر سے مراد صرف چند تسبیحات نہیں ہیں 24 گھنٹوں جو سب سے زیادہ عمل ہو وہ کثرت ذکر ہو،یہ کیسے ہو گا؟ یہ برکات نبوت سے ہو گا۔
دوسرا قرآن کی تفسیر کی نرالی منطق آپ نے نکالی ہے تحریف کا نہیں کہوں گا ،کیونکہ مجھے اللہ سے ڈر لگتاہے اور میرا مقصد دعوت فکر ہے۔کل کلاں آپ جہاد کی ایت لیکر کہیں گے ،اس میں تو یہ نہیں لکھا ہوا ہے کہ فلاں جگہ سے ٹرینینگ حاصل کرنی ہے،اب نماز کے لئے بھی استاد کی ضرورت اور درجہ احسان جو نماز میں مقصود ہے ،جس کے لئے تزکیہ نفس شرط ہے،اور احصول کثرت ذکر ہے ،تو اسکے لئےاہل اللہ کی صحبت ضروری ہے۔شکر ہوا آپ نے یہ نہیں کہاں کہ نماز سیکھنے کا تو ذکر نہیں ہے،بس پڑھنے کا حکم ہے۔
ور یہی بات اللہ رب العزت نے بے شمار مقامات پر ذکر کی کہ دلوں کے بھید صرف اور صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ تو جناب اب ایک انسان کے لیے کیسے ممکن ہے کہ وہ کسی کے دل کی روشنی یا سیاہی کو جان لے؟؟
بھائی اہل اللہ کی محافل بھید کے لئے نہیں ہوتی بلکہ دلوں کو منور کرنے کے لئے ہوتی ہے،اور اسکا پتہ بندہ اپنے کردار سے لگا لیتا ہے۔
محترم قارئین آئیے اب ذرا "یزکیھم" کی تفسیر مفسرین قرآن کی روشنی میں دیکھ لیں تاکہ آپ پر صاحب مضمون کی تحریف واضح ہو سکے:

امام ابن کثیر فرماتے ہیں:

" یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دے تا کہ وہ اپنے نفسوں کو پاک کرلیں اور اپنی شرک و جہالت کی اس میل اور خباثت کو دھو دیں جسے وہ تزکیۃ نفس سے پہلے ملبوس کیے ہوئے تھے۔"

صاحب تفسیر ابن عباس فرماتے ہیں۔
"یزکیھم سے مراد ہے انہیں توحید کے ساتھ شرک سے پاک کرے"

صاحب فتح البیان فرماتے ہیں۔
"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں نجاست کفر، گناہوں، محرمات کی میل اور خبائث سے پاک کر دے"

صاحب اوضح التفاسیر فرماتے ہیں۔

"انہیں کفر کی میل اور گناہوں سے پاک کردے"

تفسیر ایسر التفاسیر میں ہے۔

"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں اعمال صالحہ، اخلاق فاضلہ اور آداب عالیہ کی طرف آگاہ کرے"

امام الطبری فرماتے ہیں۔

"یزکیھم سے مراد ہے کہ انہیں گناہوں سے اپنی اتباع کی طرف پاک کریں اور انہیں ہر اس بات پر اطاعت کا درس دیں جسکا انہیں حکم دیا جائے اور جس سے انہیں روکا جائے"

امام خازن المتوفى: 741ه۔ فرماتے ہیں۔


امام ماوردی المتوفی 450ھ فرماتے ہیں۔


ابو السعود اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں۔


ابن تمام بن عطية المحاربي فرماتے ہیں۔


شهاب الدين محمود ابن عبدالله الحسيني الألوسي فرماتے ہیں۔


امام الزمخشری فرماتے ہیں۔

تو جناب، یہ تو میں نے چند نمونے مفسرین قرآن کے کلام سے آپ کے سامنے اس لیے پیش کیے تاکہ آپ جان سکیں کہ مفسرین کے نزدیک پاکیزگی اتباع قرآن سنت کا نام ہے یا کہ گمنام بے معنی "فیض صحبت" کا؟

امید ہے کہ دلائیل بالا کی روشنی میں قارئین کو یزکیھم کے اصل معانی اور تحریف قرآن کی سمجھ آ گئی ہو گی۔
اللہ رب العزت ہمیں ہر قسم کی تحریفات منکرات تاویلات سے بچا کر خالص قرآن و سنت پر عمل پیرا ہونے کی تو فیق عطا فرمائے
میرے بھائی یہی تو بات آپ کو کہہ رہا ہوں کہ تزکیہ مقصود ہے ،اور تزکیہ کا اعلی مقام صحابہ کو نصیب ہوا،تبھی تو عام امتی سونے کا پہاڑ دے اور صحابی کی ایک لپ جو کے برابر بھی نہیں،تو کیا خیال ہے صحبت کا کوئی کمال نہیں افسوس آپپکی ضد پر۔صحبت پیغمبر ﷺ سے بڑا کوئی انعام نہیں،یہ میرا ایمان ہے
محترم بجائے فتوی دینے کے آپ ٖ صرف اتنا لکھ دیتے کہ قرآن وحدیث سے دلیل چاہے تو بات ختم ہوجاتی بجائے الزام تراشی کے۔باقی رہا گمنام بے معنی فیض،آپ اگر اپنی ضد میں آکر محروم رہ جائے تو اس میں برکات نبوتﷺ پر انگلی اٹھانے کے بجائے،اپنے ضمیر میں جھانکھیں گا۔
میں الحمد للہ قرآن وسنت سے اور دعوت عملی سے ثابت کر دونگا کہ یہ فیض نبوت برحق ہے۔
 
Top