فارسی شاعری بر تربتِ خواہر - نعیم فراشری (شاعرِ ملیِ البانیہ)

حسان خان

لائبریرین
البانیہ کے قومی شاعر نعیم فراشری اپنی مادری زبان البانوی کے علاوہ فارسی زبان کے بھی شاعر تھے اور اُن کا سب سے پہلا شعری مجموعہ 'تخیلات' کے نام سے فارسی ہی میں استانبول سے شائع ہوا تھا۔ اُن کی ایک فارسی نظم اردو ترجمے کے ساتھ پیشِ خدمت ہے:

(بر تربتِ خواهر)
نزدِ گورت باز می‌آیم کنون
با دلِ بیمار و بیزار و زبون
از تو اینجا می‌نیابم یادگار
ای دریغا! جز بدین خاکِ مزار
لیک از هجر و فراقِ هشت سال
می‌شمارم این زیارت را وصال!
بعد از آن کز تو شدم مهجور و دور
گشته بودم دور نیز از خاکِ گور
می‌شناسی خواهرا! من کیستم؟
من ترا آخر برادر نیستم؟
چونکه از هجرت دلم گشتست زار
آمدم بهرِ تسلی بر مزار!
آه اگر لفظی ز تو بشنیدمی!
مر ترا گر بارِ دیگر دیدمی!
نیست آواه! رسم و راهی در جهان
در میانِ مردگان و زندگان!
اندرونم آتش است از اشتیاق
از غم و اندوه و اکدارِ فراق
پرِ جان از مرگ خواهم، تا پرم
تا بیایم نزدِ تو، ای خواهرم!
تا بیابم مر ترا اندر سما
در میانِ نور، نزدیکِ خدا
(نعیم فراشری)
۱۲۹۶ هجری

ترجمہ: (بہن کی قبر پر) میں بیمار، بیزار اور زبوں دل کے ساتھ اب دوبارہ تمہاری قبر کے پاس آ رہا ہوں۔۔۔ افسوس! اس خاکِ مزار کے سوا یہاں تمہاری کوئی یادگار نہیں پاتا۔۔۔ لیکن پھر بھی آٹھ سال کے ہجر و فراق کے بعد میں اس زیارت کو وصال کی طرح شمار کر رہا ہوں۔۔۔ تم سے جدا اور دور ہونے کے بعد میں تمہاری قبر کی خاک سے بھی دور ہو گیا تھا۔۔۔ اے بہن! پہچانتی ہو میں کون ہوں؟ آخر میں تمہارا بھائی نہیں ہوں؟ چونکہ تمہارے ہجر سے میرا دل بدحال ہو گیا ہے اس لیے تمہارے مزار پر تسلی کے لیے آیا ہوں۔۔۔ آہ اگر ایک لفظ تم سے سن پاتا! آہ اگر تمہیں ایک بار پھر دیکھ پاتا!۔۔۔ افسوس! اس جہاں میں مُردوں اور زندوں کے بیچ رسم و راہ نہیں ہوا کرتی۔۔۔ میرے اندر شوق، غم، اندوہ اور فراق کی تاریکی کے سبب آگ لگی ہوئی ہے۔۔۔ اے میری بہن! میں موت سے زندگی کے پر چاہتا ہوں، تاکہ اڑ کر تمہارے پاس آ سکوں، اور تمہیں آسمان میں خدا کے پاس اور نور کے درمیان دیکھ سکوں۔۔۔​
 
آخری تدوین:

mohsin ali razvi

محفلین
ترجمه اعلا از فارسی به اردو نموداید جناب حسان خان
مردمان گویند فارسی شکر است عامل این گوید اردو قند و عسل است
عامل شیرازی
 

mohsin ali razvi

محفلین
یےجو اردو ھے زبان لشکر مثل قند ھے مثال امرت
عاملا لیکھ تو اردو میں کلامھو تو جائگی مثال اختر
عامل شیرازی
 
نظم اس قدر خوبصورت اور دل کو چھوجانے والی تھی،بھائی حسان خان آپ کا ترجمہ اس طور دلکش اور سادہ تھا کہ دل کے تار جھنجھنا اُٹھے۔ یہ ترجمہ آپ کی نذر ہے۔

استادِ محترم محمد وارث صاحب ، سید عاطف علی بھائی محمد ریحان قریشی بھائی سے خصوصی توجہ اور نظرِ ثانی کی درخواست کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔واضح رہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی بھی کی ہے۔ اپنے میلانِ طبعی کے لحاظ سے ماں کے نام ترجمہ کیا ہے۔

ماں کی لحد پر
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن

قبر پر تیری میں لوٹ آیا تو ہوں
با دلِ بیمار اور خوار و زبوں

میں یہاں پاتا نہیں کچھ یادگار
اے مری ماں! جُز تری خاکِ مزار

گرچہ دوری کے یہ گُزرے آٹھ سال
اس زیارت کو میں گنتا ہوں وصال

دور اور مہجور تجھ سے جوں ہوا
دور اِس خاکِ لحد سے بھی رہا

مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!

دِل شکستہ ہجر میں تیرے ہوا
اور تسلی کے لیے یاں آگیا

آہ ! گر اک لفظ ہی تمُ سے سنوں
ایک پل کے واسطے ہی دیکھ لوں

اِس جہاں میں رسم و راہِ دل کہاں
مردگاں اور زندگاں کے درمیاں

میرے اندر جل رہا ہے اشتیاق
اک غم و اندوہ کی صورت فراق

کاش! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں
تُم سے ملنے کے لیے میں آسکوں

اور تُم سے مل سکوں میں اک ذرا
درمیانِ نور، نزدیکِ خدا
۔۔۔۔۔

 

حسان خان

لائبریرین
آخری تدوین:

حسان خان

لائبریرین
البانیہ کے ایک نقدی ورق پر نعیم فراشری کی تصویر:
albanien_200_leke_1996.jpg


ایران نے بھی نعیم فراشری کی یاد میں ایک یادگاری ٹکٹ جاری کیا تھا:
naim-frasheri-iran.jpg
 

حسان خان

لائبریرین
نعیم فراشری کی سب سے پہلی کتاب کا نام 'قواعدِ فارسیه بر طرزِ نوین' (تُرکی) تھا، جو ۱۸۷۱ء میں استانبول سے شائع ہوئی تھی۔ :)
اّن کا فارسی شعری مجموعہ 'تخیّلات' ۱۸۸۴ء میں شائع ہوا تھا۔
 
آخری تدوین:

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
از تو اینجا می نیابم یادگار
ای دریغا! جز بدیں خاکِ مزار

پرِ جاں از مرگ خواھم تا پرم
تا بیایم نزدِ تو، ای خواھرم!
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
نظم اس قدر خوبصورت اور دل کو چھوجانے والی تھی،بھائی حسان خان آپ کا ترجمہ اس طور دلکش اور سادہ تھا کہ دل کے تار جھنجھنا اُٹھے۔ یہ ترجمہ آپ کی نذر ہے۔

استادِ محترم محمد وارث صاحب ، سید عاطف علی بھائی محمد ریحان قریشی بھائی سے خصوصی توجہ اور نظرِ ثانی کی درخواست کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔واضح رہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی بھی کی ہے۔ اپنے میلانِ طبعی کے لحاظ سے ماں کے نام ترجمہ کیا ہے۔

ماں کی لحد پر
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن

قبر پر تیری میں لوٹ آیا تو ہوں
با دلِ بیمار اور خوار و زبوں

میں یہاں پاتا نہیں کچھ یادگار
اے مری ماں! جُز تری خاکِ مزار

گرچہ دوری کے یہ گُزرے آٹھ سال
اس زیارت کو میں گنتا ہوں وصال

دور اور مہجور تجھ سے جوں ہوا
دور اِس خاکِ لحد سے بھی رہا

مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!

دِل شکستہ ہجر میں تیرے ہوا
اور تسلی کے لیے یاں آگیا

آہ ! گر اک لفظ ہی تمُ سے سنوں
ایک پل کے واسطے ہی دیکھ لوں

اِس جہاں میں رسم و راہِ دل کہاں
مردگاں اور زندگاں کے درمیاں

میرے اندر جل رہا ہے اشتیاق
اک غم و اندوہ کی صورت فراق

کاش! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں
تُم سے ملنے کے لیے میں آسکوں

اور تُم سے مل سکوں میں اک ذرا
درمیانِ نور، نزدیکِ خدا
۔۔۔۔۔
بہت عمدہ!
 
نظم اس قدر خوبصورت اور دل کو چھوجانے والی تھی،بھائی حسان خان آپ کا ترجمہ اس طور دلکش اور سادہ تھا کہ دل کے تار جھنجھنا اُٹھے۔ یہ ترجمہ آپ کی نذر ہے۔

استادِ محترم محمد وارث صاحب ، سید عاطف علی بھائی محمد ریحان قریشی بھائی سے خصوصی توجہ اور نظرِ ثانی کی درخواست کے ساتھ پیشِ خدمت ہے۔واضح رہے کہ ایک چھوٹی سی تبدیلی بھی کی ہے۔ اپنے میلانِ طبعی کے لحاظ سے ماں کے نام ترجمہ کیا ہے۔

ماں کی لحد پر
ترجمہ محمد خلیل الرحمٰن

قبر پر تیری میں لوٹ آیا تو ہوں
با دلِ بیمار اور خوار و زبوں

میں یہاں پاتا نہیں کچھ یادگار
اے مری ماں! جُز تری خاکِ مزار

گرچہ دوری کے یہ گُزرے آٹھ سال
اس زیارت کو میں گنتا ہوں وصال

دور اور مہجور تجھ سے جوں ہوا
دور اِس خاکِ لحد سے بھی رہا

مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!

دِل شکستہ ہجر میں تیرے ہوا
اور تسلی کے لیے یاں آگیا

آہ ! گر اک لفظ ہی تمُ سے سنوں
ایک پل کے واسطے ہی دیکھ لوں

اِس جہاں میں رسم و راہِ دل کہاں
مردگاں اور زندگاں کے درمیاں

میرے اندر جل رہا ہے اشتیاق
اک غم و اندوہ کی صورت فراق

کاش! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں
تُم سے ملنے کے لیے میں آسکوں

اور تُم سے مل سکوں میں اک ذرا
درمیانِ نور، نزدیکِ خدا
۔۔۔۔۔

واہ واہ واہ سبحان اللہ۔
بہت عمدہ خلیل الرحمن بھیا، سلامت رہیں۔ ماں سے محبت اور عقیدت کا بھرپور اظہار۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
بہت خوب خلیل بھائی ! اچھا ترجمہ کیا ہے ، معنوی طور پر آزاد لیکن ہیئتی اعتبار سے منظوم !
آپ کے حسبِ حکم ایک دو تجاویز پیش کرتا ہوں ۔ شاید آ پ کو بہتر لگیں ۔
گرچہ دوری کے یہ گُزرے آٹھ سال
اس زیارت کو میں گنتا ہوں وصال

ملاقات کے لئے وصال کا لفظ یہاں دو اعتبار سے مناسب نہیں لگ رہا ۔ ایک تو یہ کہ زیارتِ قبر کے لئے آئے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ وصال کا لفظ اردو شاعری میں محبوبہ کے لئے تقریبا مختص ہوچکا ہے ۔ سو یہاں اس سے پرہیز کریں ۔
دور اور مہجور تجھ سے جوں ہوا
دور اِس خاکِ لحد سے بھی رہا
جوں کو جب سے بدل دیجئے ۔
مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!
’’ماں مری‘‘ صوتی اعتبار سے ٹھیک نہیں لگ رہا ۔ اس میں تعقید کا امکان ہے ۔ ایک تجویز جو فی البدیہہ ذہن میں آئی ہے: کیوں نہیں پہچانے گی تو مجھ کو ہاں ۔۔۔ میں ترا بیٹا ہوں آخر میری ماں
اِس جہاں میں رسم و راہِ دل کہاں
مردگاں اور زندگاں کے درمیاں
دوسرا مصرع ڈھیلا سا ہے ۔ ایک تجویز: حیف ! ممکن راہ و رسمِ دل کہاں ۔۔۔ اِس جہاں اور اُس جہاں کے درمیاں
کاش! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں
تُم سے ملنے کے لیے میں آسکوں
یوں دیکھئے: کاش ! پر لگ جائیں مجھ کو اور اُڑوں ۔۔۔ تجھ سے ملنے آسماں تک جا سکوں

خلیل بھائی ، جلدی میں ہوں ۔ قلم برداشتہ لکھا ہے ۔ کوئی گستاخی ہوگئی ہو تو درگزر سے کام لیجئے گا ۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے !
نیاز مند
ظہیر
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آخر کے چند اشعار میں تم سے کو تجھ سے کر دیا جائے کہ مختصر نظم ہےاور تقریبا مسلسل خطاب ہی کا سلوب نمایاں ہے سو آغازوالا اسلوب ہی چلے۔
مجھ کو تو پہچانتی ہے ناں ! مری
میں ترا بیٹا ہوں آخر ماں مری!
یہاں ماں اور ناں کو مقفی کر نا کچھ تکلف لگ رہا ہے اس کی ضرورت نہیں اسے نظم کے مضمون کی کیفیت کےموافق ہی رکھیں مثلا" ۔
مجھ کو تو پہچانتی ہے ماں بتا!
میں ترابیٹاہوں ماں آخر بتا!
 

حسان خان

لائبریرین
البانیہ کے قومی شاعر محمد نعیم فراشری نے اپنی اوّلین کتاب 'قواعدِ فارسیه بر طرزِ نوین' (۱۸۷۱ء) کے مقدّمے میں فارسی زبان کو 'زبانِ شَکَرفشاں' کہا ہے:
"قواعد هر لسانڭ اناختاری و سهولتله تحصیلنڭ اعظم مداری اولوب بزجه اهمیتی مسلم اولان زبان شکرفشان فارسینڭ طرز نوین اوزره قیلقلوسی بولنمدیغندن ترتیبنه عاجزانه ابتدار قلندی."
"قواعد ہر زبان کی کلید اور اُس کی سہولت کے ساتھ تحصیل کا مدارِ اعظم ہوتے ہیں۔ چونکہ زبانِ شَکَرفشانِ فارسی، کہ جس کی اہمیّت ہماری نظر میں مُسلّم ہے، کے طرزِ نو پر مرتّب کردہ عملی قواعد موجود نہیں تھے، لہٰذا اُن کی ترتیب کی غرَض سے عاجزانہ تعجیل و کوشش کی گئی ہے۔"
 
آخری تدوین:
Top