بلاعنوان۔۔

مقدس

لائبریرین
پچھلے کتنے ہفتوں سے آفس میں اتنا کام تھا کہ سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں مل پا رہی تھی،، سارا دن فائلز میں سر گھسائے گزر جاتا۔۔ اور پھر کتنے ہی دنوں سے میں ان بچوں کی اٹینڈنس بھی چیک نہیں کر پائی تھی، جن کے ساتھ میں کام کر رہی تھی۔

ایسا ہی ایک دن تھا۔۔ جب میں کچھ ڈیٹا انٹر کر رہی تھی تو میرا فون بجا اور ریسپشنسٹ نے کہا کہ ائیر سیون کی Natlie بات کرنا چاہ رہی ہے۔ میں نے اس کو اوپر اپنے آفس ہی میں بلا لیا۔۔ اس نے آتے ہی مجھے سے پوچھا۔۔ Miss! How come Sania isnt coming to school. ثانیہ اس کی بہت اچھی دوست تھی اور گھریلو حالات کی وجہ سے وہ اکثر ڈسٹرب رہتی تھی اور وہ میں ہی اس کے ساتھ اسکول میں کام کر رہی تھی۔۔ اس کے بتانے پر مجھے پتا چلا کہ ثانیہ ایک ہفتے سے اسکول میں نہیں آرہی۔ اس کو یہ کہہ کر کہ میں ابھی پتا کرتی ہوں، اس کو واپس کلاس میں بھیج دیا۔۔ اور فوراً ہی پچھلے ہفتے کا رجسٹر دیکھا کہ وہ کیوں نہیں آ رہی تو وہاں پر یہ لکھا تھا کہ گھر سے فون کال آئی ہے کہ وہ بیمار ہے، اس لیے اسکول نہیں آ رہی۔

ثانیہ کی مدر مسز احمد کو میں بہت اچھے سے جانتی ہوں، ان کے پاس میرا ڈائریکٹ آفس کا نمبر بھی ہے اور آفس موبائل کا بھی۔ کوئی مسئلہ ہو تو وہ مجھے ڈائریکٹ کال کر کے بتا دیتی ہیں کہ ثانیہ کیوں نہیں آرہی۔۔
میں نے گھر فون کیا، کسی نے آنسر نہیں کیا۔۔ مسز احمد کے فون پر میسجز چھوڑے اور کوئی ریپلائی نہیں آیا۔۔

تب میں نے اپنے کولیگ سائمن سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ یہ تو نارمل بات ہے۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔۔ ایویل ایبل نہیں ہوں گے ۔۔ تھوڑا انتظار کر لو۔ لیکن پتا نہیں کیوں۔۔ مجھے اس بات سے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔ آئی واز گٹنگ کنسرن۔ میں نے سائمن سے کہا کہ I want to make a home visit and I want you to come with me. ہوم وزٹس کے لیے ہم آلاؤڈ نہیں ہوتے کہ اکیلے جائیں۔۔

میں اور سائمن ان کے گھر گئے۔ گھر کے سامنے پولیس کی دو گاڑیاں کھڑی ہیں اور گھر کے اندر جانے کا راستہ بلاک کیا ہوا تھا۔۔
اتنے عرصے سے اس جاب میں ہونے کے باوجود میں اس طرح کی سچوئشنز کو پروفیشنلی ہینڈل نہیں کر پاتی۔۔ آئی اسٹارٹڈ ٹو شیک۔۔
مجھے پتا چل چکا تھا کہ سم تھنگ ٹیربل ہیز ہیپن۔ کیا ہوا ہے؟ یہ نہیں پتا تھا۔۔

دو تین گھر چھوڑ کر ایک گھر کے دروازے پر ناک کیا تو ایک ادھیڑ عمر آنٹی نے دروازہ کھولا۔۔ میں نے اپنا بیج دکھا کر ان کو بتایا کہ میں کہاں سے ہوں اور میرے ساتھ کون ہے ۔۔ ان کی اجازت سے ہم اندر آگئے۔
میں نے آنٹی سے کہا کہ ہم ثانیہ کے اسکول سے آئے ہیں اس کا پتا کرنے کے لیے۔۔ اگر آپ کو ان کے بارے میں کچھ پتا ہو تو پلیز ہمیں بتائیں۔۔ اس پر انہوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔ کہ ظالم شخص نے مار دیا۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں اور کیسے کہوں۔۔ بالکل خاموش بیٹھی ان کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔۔ سائمن کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مسز احمد کو ان کے ہسبینڈ نے بچوں کے سامنے بہت بےدردی سے قتل کر دیا۔۔یہ شاید پانچ دن پہلے کی بات تھی۔۔

میرے سامنے اس وقت صرف مسز احمد کا چہرہ اور کانوں میں وہ بھی سوفٹ سی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے۔۔ ہاؤ کین ہی ڈو دیٹ؟

انہوں نے ہمیں بتایا کہ بچے اپنے نانا نانی کے پاس ہیں۔۔ ان سے ہی ایڈریس لے کر ہم بچوں سے ملنے ان کے نانا کے گھر چلے گئے۔۔ وہاں ایک قیامت برپا تھا۔۔ ہر طرف سے رونے کی آوازیں۔۔ مسز احمد کے پانچوں بچے وہی ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے۔۔ سب سے بڑی بیٹی کی عمر 14 سال اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 3 سال ہے۔

ثانیہ کی نانی روتے روتے ایک ہی بات کہے جا رہی تھی کہ ہم نے اپنی بیٹی کو خود ہی مار دیا۔۔ وہ کہتی تھی کہ اماں مجھے ڈر لگتا ہے اس شخص سے۔۔ ایک دن یہ مجھے مار دے گا۔۔ لیکن ہم نے اس کا یقین نہیں کیا۔۔ ہم سوچتے کہ وہ اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس لیے ایسا بول رہی ہے۔۔ اپنی عزت بچانے کے لیے اس کو واپس نہیں آنے دیا ۔۔

مجھے اس عورت پر ذرا ترس نہیں آ رہا تھا۔۔ کیا ان کی عزت، ان کا نام، ان کی بیٹی کی جان سے بڑھ کر تھا۔۔ ایسی عزت کا کیا کرنا کہ بیٹی ہی نہ رہے۔۔

مجھے مسز احمد سے کی گئی وہ باتیں یاد آ رہی تھیں۔۔ جب ثانیہ کی کیس ہسٹری کے متعلق جاننے کے لیے میں نے ان سے ان کے گھر کے حالات پوچھے تھے۔۔ کہ ثانیہ ایسی کیوں ہے؟ خاموش سی۔۔ ڈری ہوئی۔۔ تب انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ

ان کے شوہر ان کے ماموں زاد اور پھوپھوزاد ہیں۔ 16 سال کی عمر میں اس کی شادی پاکستان میں جا کر کی گئی تھی۔۔ تب سے لے کر اب تک وہ خود ہی جاب کر کے خود کو اور بچوں کو پال رہی ہیں۔۔ ان کا شوہر بھی انہی کی تنخواہ پر پلتا رہا۔۔ بچوں پر اور بیوی پر اکثر ہاتھ اٹھاتا تھا۔۔ میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ وائے آر یو ود ہم؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔۔ ابھی بھی خود جاب کر رہی ہیں ، بعد میں بھی خود ہی کریں گئیں تو اس کو چھوڑ دیں اور پرسکون لائف گزاریں بغیر کسی خوف کے۔۔ اینڈ شی سیڈ۔۔ کہ اس کو چھوڑ دوں تو ماں باپ چھوٹ جائیں گے اور ان کے بغیر میں نہیں رہ سکتی۔۔

ماں باپ کو خوش رکھنے والی وہ بیٹی یہ بھول گئی کہ اب وہ صرف بیٹی ہی نہیں "ماں" بھی ہے۔۔

میرا دل کر رہا تھا کہ بین کرتی اس کی ماں سے پوچھوں "اب کیوں رو رہی ہیں؟ وہی تو ہوا جو آپ چاہتے تھے۔۔ بیٹی کا جنازہ اس کے شوہر کے گھر سے نکلا۔۔ اور کیا چاہیے آپ کو۔۔ آپ کی عزت قائم رہی۔۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان کی بیٹی کو طلاق ہو گئی ہے"

دو دن قبل اپنی طرف سے فائنل رپورٹ لکھتے ہوئے میں نے سوشل سروسز سے یہی درخواست کی ہے کہ بچوں کو ان کے گرینڈ پیرنٹس کے حوالے نہ کیا جائے۔۔ بلکہ ان کو سوشل سروسز کی تحویل میں دے دیا جائے۔۔ تاکہ کل یہی نانا نانی ان سے بھی یہی امید لگا کر نہ بیٹھیں کہ جیسے بیٹی مرتے مر گئی پر ماں باپ کی عزت کا خیال رکھا ویسے ہی اس کی اولاد بھی کرے۔۔

آپ لوگ بھی پلیز یہ دعا کیجیئے گا کہ یہ لوگ جہاں بھی جائیں۔۔ ان کو محبت کرنے والے ایسے لوگ ملیں جو ان کے اس درد کا، اس دکھ کا مداوا کر سکیں۔۔ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن شاید کوئی ماں جیسا بن جائے ان کے لیے۔۔ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کچھ تھوڑے سے لمحے ان معصوموں کے نام کر دیں۔۔ شاید ہم سے کسی کی بھی دعا اپنا راستہ بناتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔


(نام تبدیل کر دئیے ہیں)
 
حقیقی زندگی پر جرات سے قلم اٹھانے کا بہت شکریہ مقدس ۔
اتنے عرصے سے اس جاب میں ہونے کے باوجود میں اس طرح کی سچوئشنز کو پروفیشنلی ہینڈل نہیں کر پاتی۔۔ آئی اسٹارٹڈ ٹو شیک۔۔
رقت قلبی اچھی علامت ہے ۔ اللہ تعالی آپ کی رقت قلبی کی حفاظت کرے ۔
ماں باپ کو خوش رکھنے والی وہ بیٹی یہ بھول گئی کہ اب وہ صرف بیٹی ہی نہیں "ماں" بھی ہے۔۔
میرا دل کر رہا تھا کہ بین کرتی اس کی ماں سے پوچھوں "اب کیوں رو رہی ہیں؟ وہی تو ہوا جو آپ چاہتے تھے۔۔ بیٹی کا جنازہ اس کے شوہر کے گھر سے نکلا۔۔ اور کیا چاہیے آپ کو۔۔ آپ کی عزت قائم رہی۔۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان کی بیٹی کو طلاق ہو گئی ہے"
متفق ۔ خود غرض ہوتے ہیں ایسے ماں باپ جو اپنی نام نہاد عزت کو لے کر اولاد کی زندگی جہنم بنا دیتے ہیں ۔ آخر مذہب نے طلاق کا راستہ رکھا کس لیے ہے ؟ مقدس ہمارے لوگ عجیب ہیں نہ دین کا تصور درست ہے نہ دنیا کا ۔ میں اس واقعے کی کردار مسز احمد اور ان بچوں کے لیے دعا ضرور کروں گی لیکن ساتھ میں اس معاشرے کے دوہرے معیاروں کے لیے میری نفرت مزید بڑھ گئی ہے ۔
 
انتہائی افسوس ناک واقعہ۔۔۔
بہرحال اللہ تعالی ان کے لواحقین کو صبر عطا کرے۔
یہاں آپ کی کئی باتوں سے میں متفق اور کئی سے متفق نہیں۔ ذکر بعد میں کروں گا۔
 
پچھلے کتنے ہفتوں سے آفس میں اتنا کام تھا کہ سر اٹھانے کی بھی فرصت نہیں مل پا رہی تھی،، سارا دن فائلز میں سر گھسائے گزر جاتا۔۔ اور پھر کتنے ہی دنوں سے میں ان بچوں کی اٹینڈنس بھی چیک نہیں کر پائی تھی، جن کے ساتھ میں کام کر رہی تھی۔

ایسا ہی ایک دن تھا۔۔ جب میں کچھ ڈیٹا انٹر کر رہی تھی تو میرا فون بجا اور ریسپشنسٹ نے کہا کہ ائیر سیون کی Natlie بات کرنا چاہ رہی ہے۔ میں نے اس کو اوپر اپنے آفس ہی میں بلا لیا۔۔ اس نے آتے ہی مجھے سے پوچھا۔۔ Miss! How come Sania isnt coming to school. ثانیہ اس کی بہت اچھی دوست تھی اور گھریلو حالات کی وجہ سے وہ اکثر ڈسٹرب رہتی تھی اور وہ میں ہی اس کے ساتھ اسکول میں کام کر رہی تھی۔۔ اس کے بتانے پر مجھے پتا چلا کہ ثانیہ ایک ہفتے سے اسکول میں نہیں آرہی۔ اس کو یہ کہہ کر کہ میں ابھی پتا کرتی ہوں، اس کو واپس کلاس میں بھیج دیا۔۔ اور فوراً ہی پچھلے ہفتے کا رجسٹر دیکھا کہ وہ کیوں نہیں آ رہی تو وہاں پر یہ لکھا تھا کہ گھر سے فون کال آئی ہے کہ وہ بیمار ہے، اس لیے اسکول نہیں آ رہی۔

ثانیہ کی مدر مسز احمد کو میں بہت اچھے سے جانتی ہوں، ان کے پاس میرا ڈائریکٹ آفس کا نمبر بھی ہے اور آفس موبائل کا بھی۔ کوئی مسئلہ ہو تو وہ مجھے ڈائریکٹ کال کر کے بتا دیتی ہیں کہ ثانیہ کیوں نہیں آرہی۔۔
میں نے گھر فون کیا، کسی نے آنسر نہیں کیا۔۔ مسز احمد کے فون پر میسجز چھوڑے اور کوئی ریپلائی نہیں آیا۔۔

تب میں نے اپنے کولیگ سائمن سے اس کا ذکر کیا تو اس نے کہا کہ یہ تو نارمل بات ہے۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے۔۔ ایویل ایبل نہیں ہوں گے ۔۔ تھوڑا انتظار کر لو۔ لیکن پتا نہیں کیوں۔۔ مجھے اس بات سے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔۔ آئی واز گٹنگ کنسرن۔ میں نے سائمن سے کہا کہ I want to make a home visit and I want you to come with me. ہوم وزٹس کے لیے ہم آلاؤڈ نہیں ہوتے کہ اکیلے جائیں۔۔

میں اور سائمن ان کے گھر گئے۔ گھر کے سامنے پولیس کی دو گاڑیاں کھڑی ہیں اور گھر کے اندر جانے کا راستہ بلاک کیا ہوا تھا۔۔
اتنے عرصے سے اس جاب میں ہونے کے باوجود میں اس طرح کی سچوئشنز کو پروفیشنلی ہینڈل نہیں کر پاتی۔۔ آئی اسٹارٹڈ ٹو شیک۔۔
مجھے پتا چل چکا تھا کہ سم تھنگ ٹیربل ہیز ہیپن۔ کیا ہوا ہے؟ یہ نہیں پتا تھا۔۔

دو تین گھر چھوڑ کر ایک گھر کے دروازے پر ناک کیا تو ایک ادھیڑ عمر آنٹی نے دروازہ کھولا۔۔ میں نے اپنا بیج دکھا کر ان کو بتایا کہ میں کہاں سے ہوں اور میرے ساتھ کون ہے ۔۔ ان کی اجازت سے ہم اندر آگئے۔
میں نے آنٹی سے کہا کہ ہم ثانیہ کے اسکول سے آئے ہیں اس کا پتا کرنے کے لیے۔۔ اگر آپ کو ان کے بارے میں کچھ پتا ہو تو پلیز ہمیں بتائیں۔۔ اس پر انہوں نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔۔ کہ ظالم شخص نے مار دیا۔۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ میں کیا کہوں اور کیسے کہوں۔۔ بالکل خاموش بیٹھی ان کا چہرہ دیکھے جا رہی تھی۔۔ سائمن کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ مسز احمد کو ان کے ہسبینڈ نے بچوں کے سامنے بہت بےدردی سے قتل کر دیا۔۔یہ شاید پانچ دن پہلے کی بات تھی۔۔

میرے سامنے اس وقت صرف مسز احمد کا چہرہ اور کانوں میں وہ بھی سوفٹ سی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔ کوئی اتنا ظالم کیسے ہو سکتا ہے۔۔ ہاؤ کین ہی ڈو دیٹ؟

انہوں نے ہمیں بتایا کہ بچے اپنے نانا نانی کے پاس ہیں۔۔ ان سے ہی ایڈریس لے کر ہم بچوں سے ملنے ان کے نانا کے گھر چلے گئے۔۔ وہاں ایک قیامت برپا تھا۔۔ ہر طرف سے رونے کی آوازیں۔۔ مسز احمد کے پانچوں بچے وہی ایک کونے میں دبکے بیٹھے تھے۔۔ سب سے بڑی بیٹی کی عمر 14 سال اور سب سے چھوٹے بیٹے کی عمر 3 سال ہے۔

ثانیہ کی نانی روتے روتے ایک ہی بات کہے جا رہی تھی کہ ہم نے اپنی بیٹی کو خود ہی مار دیا۔۔ وہ کہتی تھی کہ اماں مجھے ڈر لگتا ہے اس شخص سے۔۔ ایک دن یہ مجھے مار دے گا۔۔ لیکن ہم نے اس کا یقین نہیں کیا۔۔ ہم سوچتے کہ وہ اس کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی اس لیے ایسا بول رہی ہے۔۔ اپنی عزت بچانے کے لیے اس کو واپس نہیں آنے دیا ۔۔

مجھے اس عورت پر ذرا ترس نہیں آ رہا تھا۔۔ کیا ان کی عزت، ان کا نام، ان کی بیٹی کی جان سے بڑھ کر تھا۔۔ ایسی عزت کا کیا کرنا کہ بیٹی ہی نہ رہے۔۔

مجھے مسز احمد سے کی گئی وہ باتیں یاد آ رہی تھیں۔۔ جب ثانیہ کی کیس ہسٹری کے متعلق جاننے کے لیے میں نے ان سے ان کے گھر کے حالات پوچھے تھے۔۔ کہ ثانیہ ایسی کیوں ہے؟ خاموش سی۔۔ ڈری ہوئی۔۔ تب انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ

ان کے شوہر ان کے ماموں زاد اور پھوپھوزاد ہیں۔ 16 سال کی عمر میں اس کی شادی پاکستان میں جا کر کی گئی تھی۔۔ تب سے لے کر اب تک وہ خود ہی جاب کر کے خود کو اور بچوں کو پال رہی ہیں۔۔ ان کا شوہر بھی انہی کی تنخواہ پر پلتا رہا۔۔ بچوں پر اور بیوی پر اکثر ہاتھ اٹھاتا تھا۔۔ میں نے ان کو یہی کہا تھا کہ وائے آر یو ود ہم؟ چھوڑ کیوں نہیں دیتیں۔۔ ابھی بھی خود جاب کر رہی ہیں ، بعد میں بھی خود ہی کریں گئیں تو اس کو چھوڑ دیں اور پرسکون لائف گزاریں بغیر کسی خوف کے۔۔ اینڈ شی سیڈ۔۔ کہ اس کو چھوڑ دوں تو ماں باپ چھوٹ جائیں گے اور ان کے بغیر میں نہیں رہ سکتی۔۔

ماں باپ کو خوش رکھنے والی وہ بیٹی یہ بھول گئی کہ اب وہ صرف بیٹی ہی نہیں "ماں" بھی ہے۔۔

میرا دل کر رہا تھا کہ بین کرتی اس کی ماں سے پوچھوں "اب کیوں رو رہی ہیں؟ وہی تو ہوا جو آپ چاہتے تھے۔۔ بیٹی کا جنازہ اس کے شوہر کے گھر سے نکلا۔۔ اور کیا چاہیے آپ کو۔۔ آپ کی عزت قائم رہی۔۔ کسی نے یہ نہیں کہا کہ ان کی بیٹی کو طلاق ہو گئی ہے"

دو دن قبل اپنی طرف سے فائنل رپورٹ لکھتے ہوئے میں نے سوشل سروسز سے یہی درخواست کی ہے کہ بچوں کو ان کے گرینڈ پیرنٹس کے حوالے نہ کیا جائے۔۔ بلکہ ان کو سوشل سروسز کی تحویل میں دے دیا جائے۔۔ تاکہ کل یہی نانا نانی ان سے بھی یہی امید لگا کر نہ بیٹھیں کہ جیسے بیٹی مرتے مر گئی پر ماں باپ کی عزت کا خیال رکھا ویسے ہی اس کی اولاد بھی کرے۔۔

آپ لوگ بھی پلیز یہ دعا کیجیئے گا کہ یہ لوگ جہاں بھی جائیں۔۔ ان کو محبت کرنے والے ایسے لوگ ملیں جو ان کے اس درد کا، اس دکھ کا مداوا کر سکیں۔۔ ماں کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا لیکن شاید کوئی ماں جیسا بن جائے ان کے لیے۔۔ اپنے بچوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کچھ تھوڑے سے لمحے ان معصوموں کے نام کر دیں۔۔ شاید ہم سے کسی کی بھی دعا اپنا راستہ بناتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں پہنچ جائے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔


(نام تبدیل کر دئیے ہیں)

لعنت ہو ایسے بے غیرت ماں باپ پر جو ایسی دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں اور جھوٹی عزت کو انسانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
یہ کام آپ نے بہت ہی اچھا کیا ہے۔
میرے بھی ایسے ہی جذبات ہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
حقیقی زندگی پر جرات سے قلم اٹھانے کا بہت شکریہ مقدس ۔

رقت قلبی اچھی علامت ہے ۔ اللہ تعالی آپ کی رقت قلبی کی حفاظت کرے ۔

متفق ۔ خود غرض ہوتے ہیں ایسے ماں باپ جو اپنی نام نہاد عزت کو لے کر اولاد کی زندگی جہنم بنا دیتے ہیں ۔ آخر مذہب نے طلاق کا راستہ رکھا کس لیے ہے ؟ مقدس ہمارے لوگ عجیب ہیں نہ دین کا تصور درست ہے نہ دنیا کا ۔ میں اس واقعے کی کردار مسز احمد اور ان بچوں کے لیے دعا ضرور کروں گی لیکن ساتھ میں اس معاشرے کے دوہرے معیاروں کے لیے میری نفرت مزید بڑھ گئی ہے ۔

مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔۔ کہ طلاق لینے کو اتنا برا کیوں سمجھا جاتا ہے۔۔ اگر حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ واقعی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو کیوں نہیں۔۔
 

مقدس

لائبریرین
انتہائی افسوس ناک واقعہ۔۔۔
بہرحال اللہ تعالی ان کے لواحقین کو صبر عطا کرے۔
یہاں آپ کی کئی باتوں سے میں متفق اور کئی سے متفق نہیں۔ ذکر بعد میں کروں گا۔

یہ آخر میں میرا نام ضرور لکھ چھوڑا آپ نے۔ لوگ مجھ پر شک نہ کریں کہیں۔۔:D

کن باتوں سے متفق نہیں ہیں انیس بھائی۔۔ ضرور بتائیے گا۔
 

نایاب

لائبریرین
بلاشبہ بہت افسوس ناک اور المناک واقعہ ہے ۔
معصوم بچے سدا کے لیئے اک خوف کے اسیر ہوگئے ۔
ماں کی جدائی اور باپ جرم دار ۔ اپنا دکھ کس سے کہیں گے ۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟
والدین کی غلطی نسلوں کو خمیازہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی ان بچوں پر اپنا کرم فرمائے ۔ صبر سے نوازتے اس دنیا میں اپنا مقام بنانے کی ہمت سے نوازے آمین
 

ساجد

محفلین
مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔۔ کہ طلاق لینے کو اتنا برا کیوں سمجھا جاتا ہے۔۔ اگر حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ واقعی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو کیوں نہیں۔۔
بالکل درست کہا، جب مذہب اور قانون نے اس کی گنجائش دی ہے تو زندگی کو عذاب کیوں بنا کر رکھا جاتا ہے؟۔
 

مقدس

لائبریرین
لعنت ہو ایسے بے غیرت ماں باپ پر جو ایسی دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں اور جھوٹی عزت کو انسانوں پر ترجیح دیتے ہیں۔
یہ کام آپ نے بہت ہی اچھا کیا ہے۔
میرے بھی ایسے ہی جذبات ہیں۔

جی بھیا۔۔ اپنے حد تک تو میں کوشش کر سکتی ہوں ناں
 
مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی۔۔ کہ طلاق لینے کو اتنا برا کیوں سمجھا جاتا ہے۔۔ اگر حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ واقعی میں اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تو کیوں نہیں۔۔
دراصل یہاں بہت کچھ سمجھ سے بالاتر ہے ، بیوہ یا مطلقہ کی دوسری شادی ، سمیت ۔
بالکل یہ ایک مذہبی حق ہے ، جس مذہب نے شادی کا نظام بنایا ہے اسی نے یہ نظام بنایا ہے ۔ اور کیا صحابہ کرام اور صحابیات رضی اللہ عنہم کی زندگی ہمارے سامنے نہیں ؟ کیا ایک طلاق ان میں سے کسی کی پوری زندگی لے ڈوبی؟ لیکن ہمارے یہاں یہ سب مذہب کے نام پر ہوتا ہے ۔ نہیں تو عزت کے نام پر۔
 

مقدس

لائبریرین
Top