مقدس
لائبریرین
آج کتنے دنوں بعد دل کر رہا ہے۔۔۔ کہ کچھ لکھوں۔۔۔ پر سمجھ نہیں آرہا۔۔ کیا لکھوں۔۔۔۔۔ لفظوں سے دوستی ختم ہوتی جا رہی ہے ۔۔اور یہ مجھ سے روٹھتے جا رہے ہیں شاید۔۔۔۔ کتنا مشکل ہوتا ہے ناں۔۔ جب ہم جانتے ہیں کہ ہمیں کچھ کہنا ہے۔۔۔ لیکن کہنے کے لیے الفاظ ملنا مشکل لگتا ہے۔۔ وہ الفاظ جو سچ میں ہمارے اندر کی فیلنگز کو نکال کر باہر لے آئیں اور ہم کہہ سکیں کہ واقعی یہ تو ہم کہنا چاہ رہے تھے۔
پچھلے کچھ دنوں سے میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی ہے۔۔۔ کوئی سکون نہیں ہے۔۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ بہت کچھ چھننے والا ہے مجھ سے۔۔ اپنے اندر کے اس خوف کو چھپانے کے لیے میں بلاسبب ہنستی ہوں، ڈھیروں باتیں کرتی ہوں۔۔۔ قہقے لگاتی ہوں۔۔ الٹی سیدھی باتیں کر کے دوسروں کو ہنساتی ہوں۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن جب چپ ہوتی ہوں تو یہ خوف دوبارہ سے امڈ آتا ہے۔۔ باہر آوازوں کا ایک ڈھیر ہے اور میرے اندر ایک گہری خاموشی۔۔۔ ایک ایسی خاموشی جس میں ایک طوفان چھپا ہے۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ چھپنا چاہتی ہوں کہیں پر۔۔ لیکن ۔۔
مجھے بہت سارا رونا ہے۔۔ تاکہ آنسوؤں کے ساتھ اندر کا سارا ڈر سارا خوف آنکھوں کے رستے بہہ جائے اور میں ایک بار پھر سے پرسکون ہو جاوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔یہ آنسو کبھی تو بلا سبب بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ اور ابھی میرے چاہنے کے باوجود۔۔ میں رو نہیں پا رہی۔۔ وقت پڑنے پر یہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔ باہر نکلنے کے بجائے ۔۔ کہیں اندر گرنا شروع کر دیا انہوں نے۔۔۔
ابھی امی کی آواز آ رہی ہے مجھے۔۔ اوو۔۔ میں جلدی سے آنکھیں بند کر لوں۔۔ تاکہ انہیں لگیں کہ میں سو رہی ہوں۔۔۔
مقدس! بیٹا ابھی تک سو رہی ہو آپ۔۔ اٹھ جاؤ اب!
مقدس!
امی واپس جا رہی ہیں شاید۔۔ ان کے قدموں کی آواز دور ہوتی جا رہی ہے۔۔ اور۔۔۔ میں ایک بار پھر سے اپنی سوچوں میں گم۔
آج کل میرا دل نہیں کر رہا کسی سے بولنے کا۔۔ اپنی آواز بہت بری لگنے لگی ہے مجھے۔۔ بہت ڈراونی۔۔ خوف آتا ہے مجھے خود سے۔ اپنی آواز سے۔۔۔ ۔۔ لیکن ۔۔۔ ۔۔ میں اب بدل گئی ہوں۔۔۔ سر سے پیر تک۔۔۔ اپنے چہرے پر ماسک چڑھا لیا میں نے بھی۔۔ ایک چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ۔۔ اس کے پیچھے ایک اور۔۔ اور پھر ایک اور۔۔۔۔۔۔ مجھے اس نئے چہرے سے ڈر لگتا ہے۔۔
اس کی ہنسی سے مجھے عجیب سے وحشت چھلکتی نظر آتی ہے۔۔ ایک بےبسی کا احساس۔۔۔ کچھ نہ کر پانے کی کیفیت۔۔۔
پتا نہیں۔۔ میں لکھنا کیا چاہ رہی تھی اور لکھ کیا دیا۔۔ دیکھیں ناں ۔۔ آج الفاظ بھی دھوکہ دے گئے مجھے۔۔
پچھلے کچھ دنوں سے میرے اندر ایک عجیب سی بےچینی ہے۔۔۔ کوئی سکون نہیں ہے۔۔ کچھ اچھا نہیں لگ رہا۔۔ ایسا لگتا ہے کہ بہت کچھ غلط ہونے والا ہے۔۔ بہت کچھ چھننے والا ہے مجھ سے۔۔ اپنے اندر کے اس خوف کو چھپانے کے لیے میں بلاسبب ہنستی ہوں، ڈھیروں باتیں کرتی ہوں۔۔۔ قہقے لگاتی ہوں۔۔ الٹی سیدھی باتیں کر کے دوسروں کو ہنساتی ہوں۔۔۔ لیکن ۔۔۔ لیکن جب چپ ہوتی ہوں تو یہ خوف دوبارہ سے امڈ آتا ہے۔۔ باہر آوازوں کا ایک ڈھیر ہے اور میرے اندر ایک گہری خاموشی۔۔۔ ایک ایسی خاموشی جس میں ایک طوفان چھپا ہے۔۔ مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ چھپنا چاہتی ہوں کہیں پر۔۔ لیکن ۔۔
مجھے بہت سارا رونا ہے۔۔ تاکہ آنسوؤں کے ساتھ اندر کا سارا ڈر سارا خوف آنکھوں کے رستے بہہ جائے اور میں ایک بار پھر سے پرسکون ہو جاوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔یہ آنسو کبھی تو بلا سبب بہنا شروع ہو جاتے ہیں۔۔ اور ابھی میرے چاہنے کے باوجود۔۔ میں رو نہیں پا رہی۔۔ وقت پڑنے پر یہ بھی ساتھ چھوڑ گئے۔۔۔ باہر نکلنے کے بجائے ۔۔ کہیں اندر گرنا شروع کر دیا انہوں نے۔۔۔
ابھی امی کی آواز آ رہی ہے مجھے۔۔ اوو۔۔ میں جلدی سے آنکھیں بند کر لوں۔۔ تاکہ انہیں لگیں کہ میں سو رہی ہوں۔۔۔
مقدس! بیٹا ابھی تک سو رہی ہو آپ۔۔ اٹھ جاؤ اب!
مقدس!
امی واپس جا رہی ہیں شاید۔۔ ان کے قدموں کی آواز دور ہوتی جا رہی ہے۔۔ اور۔۔۔ میں ایک بار پھر سے اپنی سوچوں میں گم۔
آج کل میرا دل نہیں کر رہا کسی سے بولنے کا۔۔ اپنی آواز بہت بری لگنے لگی ہے مجھے۔۔ بہت ڈراونی۔۔ خوف آتا ہے مجھے خود سے۔ اپنی آواز سے۔۔۔ ۔۔ لیکن ۔۔۔ ۔۔ میں اب بدل گئی ہوں۔۔۔ سر سے پیر تک۔۔۔ اپنے چہرے پر ماسک چڑھا لیا میں نے بھی۔۔ ایک چہرے کے پیچھے ایک اور چہرہ۔۔ اس کے پیچھے ایک اور۔۔ اور پھر ایک اور۔۔۔۔۔۔ مجھے اس نئے چہرے سے ڈر لگتا ہے۔۔
اس کی ہنسی سے مجھے عجیب سے وحشت چھلکتی نظر آتی ہے۔۔ ایک بےبسی کا احساس۔۔۔ کچھ نہ کر پانے کی کیفیت۔۔۔
پتا نہیں۔۔ میں لکھنا کیا چاہ رہی تھی اور لکھ کیا دیا۔۔ دیکھیں ناں ۔۔ آج الفاظ بھی دھوکہ دے گئے مجھے۔۔