بٹیا رانی ہم آپ کو نہیں بھولے . . .

سید زبیر

محفلین
گرچہ خواہی تازہ داشتن داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را
یہ ۲۰ اکتوبر کی سہ پہر تین سوا تین بجے کا واقعہ ہے کے میں گھر میں دفتر سے واپس آکر لیٹا ہوا تھا بڑا بیٹا عبداللہ ، بیٹی سیدہ آمنہ بتول اسلامی یونیورسٹی گئے ہوئے تھے اور تیسرا بیٹا اپنے کالج گیا ہوا تھا ۔ گھر میں میرے علاوہ میری بیگم تھیں کہ فون کی گھنٹی بجی ۔ بیگم نے اٹھایا تو ہم دونوں کی مشترکہ کزن فون پہ تھی اور بچوں کی خیریت پوچھ رہی تھی ۔پھر اس نے بتایا کہ اسلامی یونیورسٹی میں دو خود کش دھماکے ہوئے ہیں ۔ٹی وی آن کیا تو بہت خوفناک منظر تھا ۔ دنوں بچوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو بیٹے سے رابطہ ہوگیا وہ خیریت سے تھا مگر آمنہ بیٹی سے رابطہ نہیں ہورہا تھا پہلا دھماکہ طالبات کے کیمپس میں کیفے ٹیریا میں ہو ا چند لمحوں ہی کے بعد دوسرا دھماکہ طلبا کے بلاک نمبر ۱ امام ابو حنیفہ بلاک میں ہوا ۔ کیفے ٹیری ا میں یونورسٹی کے ملازم پرویز مسیح نے کیفے ٹیریا کے دروازے پر اس خو د کش حملہ آور کو دبوچ لیا جس کی وجہ سے اس نے خود کو وہیں اٹڑا لیا ۔ پرویز مسیح اور خود کش حملہ آور وہیں جاں بحق ہوگئے ۔ اس کی وجہ سے کیفےٹیریا میں نقصان کم ہوا ۔ میں اپنی ویسپا اور بیگم ہمسایوں کے ساتھ گاڑی میں فوراً یونیورسٹی کے لیے نکلے ۔ہر طرف تباہی تھی ۔زخمیوں میتوں کو ایمبولینسیں لے جا رہی تھیں پولیس نے ہر طرف سے راستہ بند کیے ہوئے تھے ۔ کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا ، اب ہسپتالوں کے چکر لگانے شروع کیے ۔نیسکام کے ہسپتال گئے وہاں آمنہ کی گہری سہیلی طیبہ حنیف زخموں سے چور بے ہوش تھی پمز ہسپتال پہنچا جہاں آمنہ کی دوسر ی گہری سہیلی آمنہ طاہر کا جسد خاکی تھا ۔مگ میری بیٹی آمنہ بتول کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا ۔تمام وارڈ اور مردہ خانہ دیکھ لیا ۔ اسی پریشانی کے عالم میں تھا کہ کسی چینل کے رپورٹر نے وجہ پوچھی تو اس نے مجھ سے کوائف لیے کہ میں ٹی وی پر چلا دیتا ہوں کوائف دیتے وقت دیگر رپورٹر بھی آگئے اور مختلف ٹی وی چینلز پر پٹی چلنے لگی شام سات بج گئے تھے میری آمنہ بتول کا کچھ پتہ نہیں تھا میں پمز سے مایوس ہو کر واپس جانے کے لیے نکل رہا تھا کہ موبائل پر کسی خاتون نے میرا نام معلوم کیا ور مجھے پمز کے استقبالیہ پر پہنچنے کو کہا ۔عجیب امید و نا امیدی کی کیفیت تھی ۔ میں وہاں پہنچا تو ایک لیڈی ڈاکٹر نے اپنے موبائل پر آمنہ بتول کی تصویر دکھا کر تصدیق چاہی اس نے بتایاکہ ابھی آپریشن تھیٹر میں ہے اور دعا کریں اس کی گردن کے عقبی حصے میں بم کے چھرے ،ٹوٹے ہوئے بلیڈ لگے تھے ۔اور و ہ کامے میں تھی رات کو آئی سی یو میں لے آئے جہاں چار دن تک موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہ کر ۲۴ اکتوبر کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملی ۔ اور چار دن بعد وہ تیسری سہیلی جو نیسکام کے ہسپتال میں تھی اس نے بھی داعی اجل کو لبیک کہا ۔ یہ تینوں آمنہ طاہر ، آمنہ بتول اور طیبہ حنیف بہت گہری سہیلیاں تھیں ان کی چوتھی سہیلی اس دن آئی نہ تھی جبکہ پانچویں سہیلی کیفے ٹیریا کے کاونٹر پر گئی تھی ۔ وہ بھی زخمی ہوئی ۔ یہ پانچوں بی ایس انگریزی ادب کے پانچویں سمسٹر کی طالبات تھیں اور اپنے کلاس کی ذہین ترین طالبات تھیں ، غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی یہ پیش پیش ہوتیں ۔ میرے پیارے مولا کو یہی منظور تھا ۔ اخبارات میں ان تینوں کی یک جا تصاویر شائع وئیں جس پر مستنصر حسین تارڑ نے اخبار جہاں میں تین عجیب دلہنیں کے عنوان سے ایک اثر انگیز کالم لکھا​
اب اس کی کیا کیا باتیں کروں ۔۲۴ اکتوبر ہی و ظہر کی نماز کے بعد اس کو اسکے ابدی گھر چھوڑ آئے جنازے میں یونیورسٹی کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگوں نے شرکت کی ۔چار ٹی وی چینل جیو،دنیا،سما،ایکسپریس براہ راست دکھا رہے تھے ۔ ہم اہل خانہ نے تو نہیں دیکھا مگر ان کی گاڑیاں آئی ہوی تھیں جس طرح وہ گئی ہے اس طرح تو شائد میں اسے رخصت نہ کرسکتا ۔ انتقال کے چار دن بعد چترال سے قاری محمد شاہ صاحب ،جنہوں نے آمنہ بتول کو آٹھ سال کی عمر میں قران پڑھایا تھا ۔صبح فجر کی نماز کے فوراً بعد فون کیا کہ آج میں نے خواب دیکھا ہے کہ آپ میرے پاس بیٹھے ہیں اور آمنہ کی فوتگی کی اطلاع دے رہے ہیں (ان کو اطلاع پہلے مل چکی تھی)کہ آمنہ سبز جوڑے میں آتی ہے اور کہتی ہے کہ ابو میں مری نہیں میں زندہ ہوں ۔ اسی طرح گھر میں کام کرنے والی خادمہ نے خواب میں دیکھا کہ سڑک پر ایک سوگوار جلوس جا رہا ہے آگے کھلی جیپ میں آمنہ بیٹھی ہے تو خادمہ اپنے ساتھ آئ ہوئ عورت سے کہتی ہے کہ یہ تو آمنہ ہے مر گئی ہے جس پر ساتھ والی عورت اس کا ہاتھ پکڑ کر آہستہ سے کہتی ہے کہ نہیں یہ مری نہیں ہے ہم اسے کھانا پینا دیتے ہیں بس بولتی نہیں ہے ۔آمنہ کی باتیں لکھنے لگوں تو شاید کبھی ختم نہ ہوں ۔ اس کی دوستوں اور اساتذہ نے جو نظمیں لکھیں تھیں وہ بھی شئیر کر رہا ہوں۔گھر میں میری ایک ہی بیٹی تھی اب تو گھر بالکل سونا ہے ۔بیٹے تعلیم اور ملازمت کے سلسلے میں باہر رہتے ہیں اور میں اردو محفل میں بھلانے کی سعی نا تمام کرتا ہوں ۔ شکر ہے مولا تیرا شکر ہے ۔ بارہ سال کی عمر میں والدہ ، پھر والد پھر گیارہ ماہ کا ایک مسکراتا بیٹا جدا ہوگئے اب یہ ۔ ۔ ۔​
شکر ہے ۔ جی رہا ہوں جو اس بات کی گواہی ہے کہ اللہ کسی پر اس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔​
بہت طویل ہو گیا ۔ اس سانحہ میں اسلامی یونیورسٹی کی چھے طالبات ، دو طالبعلم شہید ہوئے ۔ دونوں طالب علم قاری حافظ خلیل الرحمٰن اور قاری حافظ نفیس ، نہائت خوش شکل ، خوب سیرت خوش الحان قاری اور حفاظ تھے ۔ زخمیوں میں ۲۸ طالبات ، ایک پروفیسر اور پانچ طالب علم تھے ۔​
اس سانحہ سے جو میں نے سبق حاصل کیا ۔ کہ جس طرح ہم اپنے پیاروں کے ذکر سے آسودگی حاصل کرتے یں اس سے کئی گنا زیادہ میرا رب اپنے حبیبﷺ اور ان کے پیاروں کے ذکر سے خوش ہوتا ہے۔ اللہ کریم ہمیں اپنے ، اپنے محبوب ﷺ ،اہل بیت رضوان اللہ الاجمعین،صحابہ کرام رضوان اللہ الاجمعین کے زیادہ سے زیادہ ذکر کی تو فیق عطا فرمائے (آمین)​
شکستِ دل کی حکایات، حسرتوں کے بیاںفسانہ ہائے الم کی کتاب ہے دنیا​
The Last Conversation with my Beloved, Amna
Ramla Rizvi Class fellow in Fazaia College –Islamabad Published in “Margalla Vision 2010”

Bidding goodbye at the gate,
Secretly she fixed a date with her fate.
Taking its hand, she turned around and said …
Looking very pretty and fair,
“See you again in Heavenly air”
I said, “But wait you just had a deadly defeat.”
She smiled,” Worry not my friend! I am a martyr. “
Lo! The angels are gathering for the warm greet.
“Do not drop tears,
Celebrate, laugh and scream.
I am noble now.
T’was my vision and my dream.
Tell Ammi, I am happy as I go,
Tell Osama those squabbles were my love I never showed.
Ask Abbu with his hands, to lay me down in grave.
Ask Bhai to display courage for I knew he is brave.
Weep not dear!
I had to walk this way, I bore so much pain.
Be glad your friend did not lose her divine gain.
But please. O please
Let not expend this ruthless game,
It is a shame
Be off now, I have to leave.
O! Can’t you see my gleaming face with no regrets?
Not any grief.
Daughter of a soldier, for a martyr I was born”
Suddenly opened the door to heaven,
And Amna was gone
تذکرہ شہدائے جامعہ ۔ ۔ ۔ شہیدان وفا
لہو میں ڈوبا قلم تو کیا ہے کتاب خوں سے لکھا کریں گے​
ملائکہ کے جلو میں ہم تو سبق بھی اپنا پڑھا کریں گے​
نثار اپنے وطن پہ یارو ! ہزار جانیں بھی ہوں تو قرباں​
حیات فانی کی منزلوں میں قدم قدم ہم وفا کریں گے​
یہ آگہی کا سفر رہے گا سدا سلامت ہر اک سطر میں​
کتاب انمول کی کہانی ، زبان دل سے پڑھا کریں گے​
رفو گری کے نہیں ہیں قائل کہ دنیا دیوانہ جانتی ہے​
ستم سے جغروں کے چاک داماں محبتوں سے سیا کریں گے​
لگائے نشتر ہزار دشمن ، اٹھائے خنجر دل و جگر پر​
تلاش علم و شعور و عرفاں میں ، مسکرا کے سہا کریں گے​
فگار ہاتھوں کی انگلیاں ، پر خلوص اشکوں کی روشنائی​
ہمارے ساتھی ہماری یادوں میں جب غزل اک لکھا کریں گے​
رسولیاں نفرتوں کی کب تک خودی ہماری کریں گی گھائل​
تماشا کب تک رہے گا جاری کہ فرقہ فرقہ بٹا کریں گے​
غلام ذہنوں میں فکر ناقص جو پل رہی ہے بمثل دیمک​
نمود و نام اور جاہ و منصب کے حاشئے کب سوا کریں گے​
سلام تم پر شہید بہنو ! سحاب رحمت شہید بھائیو!​
ہماری آنکھوں کے آنسووں میںدیے تمہارے جلا کریں گے​
تمہارا منصب جدا ہے ہم سے کہ تم شہیدان با وفا ہو​
مقام راحت عطا ہو دائم قلوب محزوں دعا کریں گے​
میرے وطن کا ہر ایک پرندہ اڑے گا آزاد رفعتوں میں​
پیام احسن تو بس یہی ہے کہ سچ ہمیشہ کہا کریں گے​
محمد نصیر احسن
لیکچرر، شعبہ انوائرمنٹل سائنس​
بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ ۔ ۔ اسلام آباد​
یونیورسٹی کے نام
میرا دانش کدہ ہے عزیمت نشاں​
ان ہواووں میں رقصاں کئی کارواں​
رنگ و خوشبو کے ، ایمان و عرفاں کے​
خواب کے ، ،فکر کے ،علم و برہاں کے​
اس کی مٹی میں بوئے ہیں صبحوں کے بیج​
" آمنہ" اور "حنا " اور "سدرہ" کا دل​
اور "نفیس" و " خلیل" جواں عزم کی جاں​
اس کی ذروں پہ لکھی عجب داستاں​
میرا دانش کدہ ہے عزیمت نشاں​
ڈاکٹر نجیبہ عارف
شعبہ اردو​
بین الا قوامی اسلامی یونیورسٹی ۔ ۔ ۔ اسلام آباد
Tarrer%20Column
 

زبیر مرزا

محفلین
جوں جوں پڑھتا گیا آنکھیں دھندلاتی گئیں ، سیدسرکارمیں سلام پیش کرتا ہوں شہیدسیدہ آمنہ بتول اور ان کے ساتھی شہیدہم مکتبوں کو
اللہ کریم شہیدسیدہ آمنہ بتول کے درجات بلند فرمائے
آپ کی استقامت اورصبر تو پہاڑوں سے بلند ہے آپ سے ہی لوگوں کے لیے فرمان الہی ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
صبرکی تلقین آسان ہے لیکن صبرکرنا آسان نہیں یہ عام انسان کے بس کی بات نہیں انبیاء کا شیوہ ہے اور اس کے منتخب بندوں کا
 

یوسف-2

محفلین
زبیر بھائی ! کیا لکھوں اور کیسے لکھوں، کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ یہ آپ ہی کی ہمت ہے کہ آپ نے اس سانحہ کو اس مؤثر طریقہ سے قلمبند کیا۔ اللہ آمنہ بتول کے درجات میں اضافہ کرے اور وہ اپنے والدین کے اُخروی درجات میں بلندی کا سبب بنے۔ آمین ثم آمین۔ موت کا وقت تو مقرر ہے اور ہم سب نے موت کا مزہ اپنے اپنے مقررہ وقت پر چکھنا ہی ہے۔ لیکن اگر کوئی اس شان سے شہادت کو گلے لگائے تو یہ یقیناً سعادت کی بات ہے۔ اور آپ کو جو یہ حوصلہ ملا ہے، یہ بھی یقیناً بیٹی کی شہادت کی سعادت کے سبب ہے۔ اللہ ہم سب کو جب تک زندہ رکھے، دین و ایمان پر زندہ رکھےاور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہوں تو دین و ایمان کے ساتھ رخصت ہوں۔ اللہ ہمارے ملک پر رحمتیں نازل کرے اور ملک کی جڑوں کو کھوکھلی کرنے والوں کوہدایت دے اور اگر ہدایت ان کے نصیب میں نہیں ہے تو انہین دنیا ہی میں باعث عبرت بنادے یا رب العالمین۔ آمین ثم آمین
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
میں کسی بھی قسم کا تسلی بخش جملہ کہنے سے قاصر ہوں۔ اس دکھ کو کوئی کیسے الفاظ میں بیان کر سکتا ہے۔ یہ برچھیاں تو سینے کے آر پار ہو گئیں تھیں اس دن بھی۔ اس دن بھی ٹی-وی نہ دیکھا تھا۔ کوئی کیا مرہم رکھے ان پر۔ اللہ آپ کو صبر جمیل عطا فرمائے۔
 

سید ذیشان

محفلین
کہنے کو الفاظ نہیں ہیں، کچھ سمجھ نہیں آ رہا کیا کہوں اور کیسے کہوں۔ آمنہ بتول کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں، کہ شہیدوں کا جو مقام ہے وہ ہماری سمجھ میں نہیں آ سکتا۔ ہاں اتنا ضرور کہوں گا کہ خدا آپ کو صبر کرنے کی توفیق دے۔ یہ سوچ کر آپ مطمئن ہو سکتے ہیں کہ وہ جہاں بھی ہوگی مطمئن ہو گی اور آپ کو چاہتی ہو گی۔ خدا آمنہ اور باقی شہداء کے درجات بلند کرے آمین!
 

نایاب

لائبریرین
محترم سید بھائی
بلا شبہ " شہید زندہ اور اپنے رب سے رزق پاتے ہیں "
اس وقت تو لفظ ساتھ چھوڑ گئے ہیں ۔ سوا اس کے کہ
وَالْعَصْرِ * إِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ * إِلاَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ۔۔۔۔۔
 

علی خان

محفلین
بہت ہی محترم سید صاحب۔
آپکا درد بہت ہی زیادہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اپکو صبر جمیل دے۔ آمین۔
اس پوسٹ کو پڑھ کر میری تو آنکھیں بھر آئی۔
 

باباجی

محفلین
@ Syed Zubair سرکار
گو میں کسی بیٹی یا بیٹے کا باپ نہیں
لیکن
میری چھوٹی چھوٹی کزنز ہیں 2 مجھے بیٹیوں کی طرح بہت عزیز ہیں
اُن کی چھوٹی بڑی خواہشیں پوری کرنا میرا فرض ہوتا ہے
ان کی چھوٹی سی تکلیف پر میرا آرام حرام ہوتا ہے

اور آپ کی تو اپنی بیٹی تھی آپ کے ہاتھوں میں پلی بڑھی
آپ سے ضد کرکے بات منوانا آپ کی خدمت کرنا
تو سرکار واقعی شیر کا کلیجہ چاہیئے
جو میرے سید صاحب کا ہے

کیا رتبہ پایا ہے آپ کی شہزادی نے
تحصیل علم
شہادت

ذرا راہِ شہادت تو دیکھیں
اللہ

مجھ سے رونا دھونا ہوتا نہیں ہے
بہت سخت دل آدمی ہوں
لیکن جہاں بیٹی کی بات ہے
تو آپ کے لیئے ایک شعر آیا ہے ذہن میں قتیل صاحب کا

"وہ حیراں ہیں ہمارے ضبط پہ کہہ دہ قتیل اُن سے"
"جو دامن میں نہیں گرتا وہ آنسو دل پہ گرتا ہے"
 
وقت کی پھلواری میں نہیں
دامن میں تھے ایسے پھول
کیسے اندھے ہیں وہ ہاتھ۔۔
جن ہاتھوں نے توڑے پھول
مٹی ہی سے نکلے تھے۔۔۔۔
مٹی ہوگئے سارے پھول
کانٹے چھوڑ گئی آندھی
لے گئی اچھے اچھے پھول
مہک اٹھی پھر دل کی کتاب
یاد آئے یہ کیسے پھول
 

شمشاد

لائبریرین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔

الفاظ کم پڑ گئے ہیں، آنکھیں نمناک ہیں۔

والدین کے لیے اس سے بڑا دکھ اور کیا ہو گا کہ اپنی جوان اولاد کو کندھا دے کر قبر میں اتارے۔

اللہ تعالٰی سے دعا ہے کہ شہیدوں پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور آپ سبکو صبر عطا فرمائے۔
 
سمجھ نہیں آرہا کیا لکھوں۔میرے لفظ آپکے غم کے مقابلے میں کم پڑ جائیں گے
مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یہاں پر ہنسی خوشی باتیں کرنیوالا انسان سینے میں کیسے غم چھپائے بیٹھا ہے
سید کا تو ویسے ہی رتبہ بہت بڑا ہوتا ہے لیکن اب پتہ چلا کہ آپ کتنے عظیم ہیں
میں آپکو سلام پیش کرتا ہوں
بلاشبہ اللہ تعالیٰ شہادت کیلیے اپنے پیارے بندوں کا انتخاب کرتا ہے
اللہ تعالیٰ پیاری بہن اور اسکی سہیلیوں کے درجات بلند فرمائے۔اور آپکو صبر جمیل عطا فرمائے
آمین ثم آمین
 

عاطف بٹ

محفلین
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
سر، آپ بہت ہی باہمت انسان ہیں۔
اللہ تعالیٰ آپ کو صبر عطا کرے اور آپ کی بیٹی سمیت تمام شہداء کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
 
Top