فرحان محمد خان
محفلین
بہت عرصہ گنہگاروں میں پیغمبر نہیں رہتے
کہ سنک و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی !
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو گوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مُردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے
بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
نازؔ خیالوی
کہ سنک و خشت کی بستی میں شیشہ گر نہیں رہتے
ادھوری ہر کہانی ہے یہاں ذوقِ تماشہ کی
کبھی نظریں نہیں رہتیں کبھی منظر نہیں رہتے
بہت مہنگی پڑے گی پاسبانی تم کو غیرت کی !
جو دستاریں بچا لیتے ہیں ان کے سر نہیں رہتے
مجھے نادم کیا کل رات دروازے نے یہ کہہ کر
شریف انسان گھر سے دیر تک باہر نہیں رہتے
خود آگاہی کی منزل عمر بھر ان کو نہیں ملتی
جو گوچہ گرد اپنی ذات کے اندر نہیں رہتے
پٹخ دیتا ہے ساحل پر سمندر مُردہ جسموں کو
زیادہ دیر تک اندر کے کھوٹ اندر نہیں رہتے
بجا ہے زعم سورج کو بھی نازؔ اپنی تمازت پر
ہمارے شہر میں بھی موم کے پیکر نہیں رہتے
نازؔ خیالوی