میر انیس
لائبریرین
کافی عرصے سے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا پر فرقہ واریت کچھ اسطرح بڑھ گئی ہے کہ سوچتا تھا کہ میں کچھ لکھوں تو اس پر اعتراضات شروع نہ ہوجائیں اور پھر وہی بحث برائے بحث کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے ویسے بھی یہ بات ہماری رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ ہم کسی بھی تحریر یا تقریر کو سُنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ ہمارے مخالف فرقے کی طرف سے تو نہیں آئی اور پھر اصل بات چھوڑ کر جو بات کہنے والے کا اصل مُدعا تھا وہ ان چند باتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنے عقیدے کے مطابق کہیں تھیں ۔ اور تو اور پہلےخود مجھ میں ہی یہ خامی تھی پر مجھ کو اپنے مسلک کے ایک جید عالم مولانا حسن صادق اوراہلِ سنت کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل مل گئے جو بات ایسی کرتے ہیں کہ چاہے کسی بھی مسلک کا مسلمان ہو اگر انکی بات تعصب سے بالا تر ہوکر سنے گا تو بات اس کے دل میں اتر جائے گی میں یہاں مولانا صادق حسن کی ایک تقریر کو جو میں نے سنی ہے اور یقین کریں اتنی بھائی کہ آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کا قصد کر بیٹھا ۔ پر میری گذارش ہے کہ جب تک یہ مکمل نہ ہوجائے اس پر یا اسکے کسی بھی حصے کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں یہ بھی ہوسکتا ہے میں یہ 2 یا 3 دن میں مکمل کردوں مگر زیادہ دن بھی لگ سکتے ہیں پر یہ میرا دعوٰی ہے کہ اگر آپ نے توجہ سے پڑھی تو یقیناَ پسند ضرور آئے گی۔
یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔
حضرت علی (ع) کا قیامت کے خوف سے گریہ
قران پاک میں پروردگارِعالم نے میدانِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے نی صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کو منتخب کیا ہے اور ارشاد ہوا کہ " یا ایھاالناس اتقو اربکم" اےانسانوں اپنے پروردگار سے ڈرو اور یاد رکھو کہ "انازلۃ الساعۃ شیءَ عظیم" قیامت کے میدان کی منزل اور قیامت کے میدان کا مرحلہ اور میدانِ قیامت کا آنا انتہائی عظیم امر ہے اور وہ ایسا امر ہے کہ اس دن ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے بچوں کو فراموش کردے گی ۔ تو قیامت کا میدان وہ مشکل ترین میدان ہے اور اہم ترین گھڑی ہے کہ جس میں ہر انسان کو بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر اپنے پروردگار کے سامنے زندگی کے ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ مولائے کائینات حضرت علی ابن ابی طالب (ع) جب اس میدان کو یاد کرتے ہیں تو کہتے ہیں آہ علی(ع) کے پاس میدانِ قیامت میں جانے کیلئے سامان کتنا کم ہے۔ جب کہ علی(ع) کو قبر جیسے تنگ و تاریک اور مشکل ترین جگہ سے ہوکر پروردگار کی بارگاہ میں کھڑا ہونا ہے " جو تمام مومنین کے امیر ہیں جن کی نماز کی یہ حالت کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر جو کسی طرح نکل نہیں پارہا ہو نماز کی حالت میں نکال لیا جائے اور پتہ بھی نہ چلے جن کے روزے کی یہ کیفیت ہے کہ تین دن روزہ رکھا تو سورہِ ھل اتٰی نازل ہوگئی زکواۃ کی یہ حالت کہ حالت رکوع میں زکواۃ دیں اور قران کی آیت "انماالولی کم اللہ "نازل ہوجائے۔ جہاد کی یہ کیفیت کہ فاتح خیبر، بدرو حنین کہلاتے ہیں جن کی زندگی کے ایک ایک عمل کو کیا بتایا جائے ایک ضربت ہوتی ہے اور عبادت ثقلین سے برتر ہوجاتی ہے وہ حضرت علی(ع) فرمارہے ہیں کہ قیامت کے میدان میں جانا کوئی آسان مرحلہ اور آسان کام نہیں ہےجب میدانِ قیامت میں جبار و قہار بادشاہ کو دیکھتا ہوں تو اپنے اعمال تو بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ اور یہی نہیں آپ اولیاء اللہ کو دیکھیں یا انبیاء مرسلین کو دیکھیں یا ملائکہ مقربین کو ہی دیکھیں ہر کسی کو میدانِ قیامت کا خوف ہی خوف ہے۔
تین قسم کی عورتوں کو خوش خبری
مگر اس منزل پر عورتوں کیلئے آنحضرت (ص) کی ایک بشارت ہمارے سامنے آئی ہے۔ کہ ہر شخص گھبرائے ہر شخص پریشان ہو ہر مومن کی حالت میں تغیر آئے مگر ان عورتوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں جنکے لئے آنحضرت (ص) کی یہ حدیث موجود ہے کہ تین عورتیں ایسی ہیں جو میدان قیامت کی سخت ترین منزلوں میں قبر سے اٹھائے جانے سے حشر کے میدان تک اور پھر پلِ صراط سے جنت میں داخل ہونے تک میری بیٹی فاطمہ (س) کی ساتھی ہونگی بس شرط ایک ہی ہے اور وہ ہے کہ ان کے پاس ایمان ہو۔
اب یہ تین عورتیں کونسی ہیں جو بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کیے ساتھ محشور ہونگی۔
1-اپنے شوہر کی غربت پر صبر کرنے والی
پہلی وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی غربت پر صبر کیا اور اپنے شوہر سے کوئی ایسی خواہش نہ کی جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ جب باپ اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے تو کتنی تمنائیں ہوتی ہیں نا اسکا اسوقت بس چلے تو دنیا کی ساری آسائشیں اپنی بیٹی کو دیکر اپنے گھر سے رخصت کرے اور جب باپ ایسا باپ ہو جو سردارِ انبیاء جسکی بادشاہی کی ہر زمانہ گواہی دے جسکا اقتدار پوری کائنات پر چلتا ہو اگر وہ جو کچھ بھی اسوقت اپنی بیٹی کو دیدے تو کم ہے مگر مختصر سے سامانِ زندگی کے بعد آپ(ص) نے فرمایاکہ بیٹی تو جس گھر میں جارہی ہے وہاں تجھ کو دولت دنیا میں سے تو کچھ نہیں ملے گا مگر تیرا شوہر وہ ہے جو تیرے باپ کے بعد کائنات کےافضل ترین افراد میں سے ہے ۔ پس اپنے شوہر سے ایسی کوئی فرمائش نہ کرنا کہ جسے وہ پورا نہ کرسکے اور پھر اسے دکھ ہو کہ میں اپنی بیوی کی ایک چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہیں کرسکا۔
وہ تحفہ جو رسول اللہ (ص) نے شہزادی فاطمہ(س) کو دیا
یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کے رسول(ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو دیا اور بتایا کہ باپ ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ تم دنیاوی دولت سے اپنی بیٹی کا دامن بھردویا یہ کہ تم دنیا کے سازو سامان جائیداد اور دولت کے انبار اپنی بیٹی کے حوالے کردو نہیں اگر تم ایک اچھے باپ ہو تو تم کو اپنی بیٹی کی دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کی فکرہونی چاہیئے۔
شہزادی فاطمہ (س) ایک دن آنحضرت (ص) کی خدمت میں آتی ہیں اور آنے کے بعد سوال کرتی ہیں کہ بابا یہ تو بتایئے کہ جنات کی غذا کیا ہے آنحضرت (ص) نے جنات کی غذا ارشاد فرمائی پھر بی بی فاطمہ نے سوال کیا کہ فرشتوں کی غذا کیا ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمادیا۔ پھر پوچھا مومنوں کی غذا کیا ہے آپ (ص) نے ارشاد فرمادیا پھر بی بی فاطمہ(ص) نے سوال کیا کہاب یہ بتائیں آلِ محمد کی غذا کیا ہے کہ آج تین دن ہوگئے کہ گھر میں چولہا نہیں جل سکا ہم فقر و فاقہ میں زندگی گذار رہے ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا بیٹا تیرا باپ تیرے اس سوال کے جواب میں پانچ کلمے اور پانچ جملے عطا کرتا ہے یہ تیرے باپ کا جواب ہے اس سوال کے جواب میں جو تو نے کیا۔ بیٹی یہ کہتی رہو"یا رب الاولین و یا رب الآخرین و یا ذوالقوۃالمتین و یا راحم المساکین" روایت یہ بتاتی ہے کہ شہزادی اپنے گھر واپس جاتی ہیں اور حضرت علی(ع) سے سامنا ہوتا ہے آپ ان سے سوال کرتے ہیں کہ بنتِ رسول (ص) آپ اپنے والد کے پاس گئیں تھیں انہوں نے کیا جواب دیا ۔ تو بس شہزادی کا یہ فقرہ بتارہا ہے کہ باپ کی ذمہ داری کیا ہے اور ایک بیٹی کا فریضہ کیا ہے شہزادی بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ میں اپنے باب کے پاس گئی تھی دنیاوی مسئلے کے حل کیلئے مگر اپنے باپ سے آخرت کا سامان لے کر آرہی ہوں۔ اور پھر حضرت علی (ع) کا جواب سنیں اور آج کل کے شوہر سے موازنہ کریں اپ نے فرمایا بے شک آپ کے بابا دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں ۔ اور یہ سن کر بی بی زہرا کا سر فخر سے اور اونچا ہوجاتا ہے۔ بی زہرا کا یہ تاریخی جملہ کہ میں گئی تھی اپنے والد کے پاس کسی دنیاوی چیز کو لینے اور میرے والد نے مجھے آخرت سے سرفراز کرکے بھیجا ہم کو یہ بتارہا ہے کہ دیکھو باپ کی ذمہ داری یہ نہیں کہ بیٹی کو زیادہ سے زیادہ سامان دیدیا جائے مال' دنیا میں عزت و آبرو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے مگر وہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ۔ تمہاری ذمہ داری ی ہے کہ کہ اپنی بیٹی کو آخرت دو ۔ آخرت دینے کے دو طریقے ہیں جب بیٹی تمہارے پاس آئے تو اسکو آخرت دو جب تم بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرو تو یہ خیال کرکے رخصت کرو کہ جس گھر میں بھجوایا جارہا ہے وہاں جانے کے بعد میری بیٹی کی دنیا بن رہی ہے یا میری بیٹی کی آخرت بن رہی ہے۔ اور کس انداز سے شہزادی زہرا نے اپنی زندگی کو فقر و فقہ میں گزارا
یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔
حضرت علی (ع) کا قیامت کے خوف سے گریہ
قران پاک میں پروردگارِعالم نے میدانِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے نی صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کو منتخب کیا ہے اور ارشاد ہوا کہ " یا ایھاالناس اتقو اربکم" اےانسانوں اپنے پروردگار سے ڈرو اور یاد رکھو کہ "انازلۃ الساعۃ شیءَ عظیم" قیامت کے میدان کی منزل اور قیامت کے میدان کا مرحلہ اور میدانِ قیامت کا آنا انتہائی عظیم امر ہے اور وہ ایسا امر ہے کہ اس دن ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے بچوں کو فراموش کردے گی ۔ تو قیامت کا میدان وہ مشکل ترین میدان ہے اور اہم ترین گھڑی ہے کہ جس میں ہر انسان کو بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر اپنے پروردگار کے سامنے زندگی کے ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ مولائے کائینات حضرت علی ابن ابی طالب (ع) جب اس میدان کو یاد کرتے ہیں تو کہتے ہیں آہ علی(ع) کے پاس میدانِ قیامت میں جانے کیلئے سامان کتنا کم ہے۔ جب کہ علی(ع) کو قبر جیسے تنگ و تاریک اور مشکل ترین جگہ سے ہوکر پروردگار کی بارگاہ میں کھڑا ہونا ہے " جو تمام مومنین کے امیر ہیں جن کی نماز کی یہ حالت کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر جو کسی طرح نکل نہیں پارہا ہو نماز کی حالت میں نکال لیا جائے اور پتہ بھی نہ چلے جن کے روزے کی یہ کیفیت ہے کہ تین دن روزہ رکھا تو سورہِ ھل اتٰی نازل ہوگئی زکواۃ کی یہ حالت کہ حالت رکوع میں زکواۃ دیں اور قران کی آیت "انماالولی کم اللہ "نازل ہوجائے۔ جہاد کی یہ کیفیت کہ فاتح خیبر، بدرو حنین کہلاتے ہیں جن کی زندگی کے ایک ایک عمل کو کیا بتایا جائے ایک ضربت ہوتی ہے اور عبادت ثقلین سے برتر ہوجاتی ہے وہ حضرت علی(ع) فرمارہے ہیں کہ قیامت کے میدان میں جانا کوئی آسان مرحلہ اور آسان کام نہیں ہےجب میدانِ قیامت میں جبار و قہار بادشاہ کو دیکھتا ہوں تو اپنے اعمال تو بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ اور یہی نہیں آپ اولیاء اللہ کو دیکھیں یا انبیاء مرسلین کو دیکھیں یا ملائکہ مقربین کو ہی دیکھیں ہر کسی کو میدانِ قیامت کا خوف ہی خوف ہے۔
تین قسم کی عورتوں کو خوش خبری
مگر اس منزل پر عورتوں کیلئے آنحضرت (ص) کی ایک بشارت ہمارے سامنے آئی ہے۔ کہ ہر شخص گھبرائے ہر شخص پریشان ہو ہر مومن کی حالت میں تغیر آئے مگر ان عورتوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں جنکے لئے آنحضرت (ص) کی یہ حدیث موجود ہے کہ تین عورتیں ایسی ہیں جو میدان قیامت کی سخت ترین منزلوں میں قبر سے اٹھائے جانے سے حشر کے میدان تک اور پھر پلِ صراط سے جنت میں داخل ہونے تک میری بیٹی فاطمہ (س) کی ساتھی ہونگی بس شرط ایک ہی ہے اور وہ ہے کہ ان کے پاس ایمان ہو۔
اب یہ تین عورتیں کونسی ہیں جو بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کیے ساتھ محشور ہونگی۔
1-اپنے شوہر کی غربت پر صبر کرنے والی
پہلی وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی غربت پر صبر کیا اور اپنے شوہر سے کوئی ایسی خواہش نہ کی جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ جب باپ اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے تو کتنی تمنائیں ہوتی ہیں نا اسکا اسوقت بس چلے تو دنیا کی ساری آسائشیں اپنی بیٹی کو دیکر اپنے گھر سے رخصت کرے اور جب باپ ایسا باپ ہو جو سردارِ انبیاء جسکی بادشاہی کی ہر زمانہ گواہی دے جسکا اقتدار پوری کائنات پر چلتا ہو اگر وہ جو کچھ بھی اسوقت اپنی بیٹی کو دیدے تو کم ہے مگر مختصر سے سامانِ زندگی کے بعد آپ(ص) نے فرمایاکہ بیٹی تو جس گھر میں جارہی ہے وہاں تجھ کو دولت دنیا میں سے تو کچھ نہیں ملے گا مگر تیرا شوہر وہ ہے جو تیرے باپ کے بعد کائنات کےافضل ترین افراد میں سے ہے ۔ پس اپنے شوہر سے ایسی کوئی فرمائش نہ کرنا کہ جسے وہ پورا نہ کرسکے اور پھر اسے دکھ ہو کہ میں اپنی بیوی کی ایک چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہیں کرسکا۔
وہ تحفہ جو رسول اللہ (ص) نے شہزادی فاطمہ(س) کو دیا
یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کے رسول(ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو دیا اور بتایا کہ باپ ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ تم دنیاوی دولت سے اپنی بیٹی کا دامن بھردویا یہ کہ تم دنیا کے سازو سامان جائیداد اور دولت کے انبار اپنی بیٹی کے حوالے کردو نہیں اگر تم ایک اچھے باپ ہو تو تم کو اپنی بیٹی کی دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کی فکرہونی چاہیئے۔
شہزادی فاطمہ (س) ایک دن آنحضرت (ص) کی خدمت میں آتی ہیں اور آنے کے بعد سوال کرتی ہیں کہ بابا یہ تو بتایئے کہ جنات کی غذا کیا ہے آنحضرت (ص) نے جنات کی غذا ارشاد فرمائی پھر بی بی فاطمہ نے سوال کیا کہ فرشتوں کی غذا کیا ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمادیا۔ پھر پوچھا مومنوں کی غذا کیا ہے آپ (ص) نے ارشاد فرمادیا پھر بی بی فاطمہ(ص) نے سوال کیا کہاب یہ بتائیں آلِ محمد کی غذا کیا ہے کہ آج تین دن ہوگئے کہ گھر میں چولہا نہیں جل سکا ہم فقر و فاقہ میں زندگی گذار رہے ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا بیٹا تیرا باپ تیرے اس سوال کے جواب میں پانچ کلمے اور پانچ جملے عطا کرتا ہے یہ تیرے باپ کا جواب ہے اس سوال کے جواب میں جو تو نے کیا۔ بیٹی یہ کہتی رہو"یا رب الاولین و یا رب الآخرین و یا ذوالقوۃالمتین و یا راحم المساکین" روایت یہ بتاتی ہے کہ شہزادی اپنے گھر واپس جاتی ہیں اور حضرت علی(ع) سے سامنا ہوتا ہے آپ ان سے سوال کرتے ہیں کہ بنتِ رسول (ص) آپ اپنے والد کے پاس گئیں تھیں انہوں نے کیا جواب دیا ۔ تو بس شہزادی کا یہ فقرہ بتارہا ہے کہ باپ کی ذمہ داری کیا ہے اور ایک بیٹی کا فریضہ کیا ہے شہزادی بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ میں اپنے باب کے پاس گئی تھی دنیاوی مسئلے کے حل کیلئے مگر اپنے باپ سے آخرت کا سامان لے کر آرہی ہوں۔ اور پھر حضرت علی (ع) کا جواب سنیں اور آج کل کے شوہر سے موازنہ کریں اپ نے فرمایا بے شک آپ کے بابا دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں ۔ اور یہ سن کر بی بی زہرا کا سر فخر سے اور اونچا ہوجاتا ہے۔ بی زہرا کا یہ تاریخی جملہ کہ میں گئی تھی اپنے والد کے پاس کسی دنیاوی چیز کو لینے اور میرے والد نے مجھے آخرت سے سرفراز کرکے بھیجا ہم کو یہ بتارہا ہے کہ دیکھو باپ کی ذمہ داری یہ نہیں کہ بیٹی کو زیادہ سے زیادہ سامان دیدیا جائے مال' دنیا میں عزت و آبرو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے مگر وہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ۔ تمہاری ذمہ داری ی ہے کہ کہ اپنی بیٹی کو آخرت دو ۔ آخرت دینے کے دو طریقے ہیں جب بیٹی تمہارے پاس آئے تو اسکو آخرت دو جب تم بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرو تو یہ خیال کرکے رخصت کرو کہ جس گھر میں بھجوایا جارہا ہے وہاں جانے کے بعد میری بیٹی کی دنیا بن رہی ہے یا میری بیٹی کی آخرت بن رہی ہے۔ اور کس انداز سے شہزادی زہرا نے اپنی زندگی کو فقر و فقہ میں گزارا