بی بی فاطمہ (س) کا پیغام

میر انیس

لائبریرین
کافی عرصے سے اسلامی تعلیمات کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہ رہا تھا پر فرقہ واریت کچھ اسطرح بڑھ گئی ہے کہ سوچتا تھا کہ میں کچھ لکھوں تو اس پر اعتراضات شروع نہ ہوجائیں اور پھر وہی بحث برائے بحث کا سلسلہ شروع نہ ہوجائے ویسے بھی یہ بات ہماری رگ و پے میں سرایت کر گئی ہے کہ ہم کسی بھی تحریر یا تقریر کو سُنے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ کہیں یہ ہمارے مخالف فرقے کی طرف سے تو نہیں آئی اور پھر اصل بات چھوڑ کر جو بات کہنے والے کا اصل مُدعا تھا وہ ان چند باتوں کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جو اس نے اپنے عقیدے کے مطابق کہیں تھیں ۔ اور تو اور پہلےخود مجھ میں ہی یہ خامی تھی پر مجھ کو اپنے مسلک کے ایک جید عالم مولانا حسن صادق اوراہلِ سنت کے ممتاز عالم دین مولانا طارق جمیل مل گئے جو بات ایسی کرتے ہیں کہ چاہے کسی بھی مسلک کا مسلمان ہو اگر انکی بات تعصب سے بالا تر ہوکر سنے گا تو بات اس کے دل میں اتر جائے گی میں یہاں مولانا صادق حسن کی ایک تقریر کو جو میں نے سنی ہے اور یقین کریں اتنی بھائی کہ آپ لوگوں کی خدمت میں پیش کرنے کا قصد کر بیٹھا ۔ پر میری گذارش ہے کہ جب تک یہ مکمل نہ ہوجائے اس پر یا اسکے کسی بھی حصے کو تنقید کا نشانہ نہ بنائیں یہ بھی ہوسکتا ہے میں یہ 2 یا 3 دن میں مکمل کردوں مگر زیادہ دن بھی لگ سکتے ہیں پر یہ میرا دعوٰی ہے کہ اگر آپ نے توجہ سے پڑھی تو یقیناَ پسند ضرور آئے گی۔
یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔
حضرت علی (ع) کا قیامت کے خوف سے گریہ

قران پاک میں پروردگارِعالم نے میدانِ قیامت کا تذکرہ کرتے ہوئے نی صرف مسلمانوں کو بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کو منتخب کیا ہے اور ارشاد ہوا کہ " یا ایھاالناس اتقو اربکم" اےانسانوں اپنے پروردگار سے ڈرو اور یاد رکھو کہ "انازلۃ الساعۃ شیءَ عظیم" قیامت کے میدان کی منزل اور قیامت کے میدان کا مرحلہ اور میدانِ قیامت کا آنا انتہائی عظیم امر ہے اور وہ ایسا امر ہے کہ اس دن ہر دودھ پلانے والی ماں اپنے بچوں کو فراموش کردے گی ۔ تو قیامت کا میدان وہ مشکل ترین میدان ہے اور اہم ترین گھڑی ہے کہ جس میں ہر انسان کو بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوکر اپنے پروردگار کے سامنے زندگی کے ایک ایک عمل کا حساب دینا پڑے گا۔ مولائے کائینات حضرت علی ابن ابی طالب (ع) جب اس میدان کو یاد کرتے ہیں تو کہتے ہیں آہ علی(ع) کے پاس میدانِ قیامت میں جانے کیلئے سامان کتنا کم ہے۔ جب کہ علی(ع) کو قبر جیسے تنگ و تاریک اور مشکل ترین جگہ سے ہوکر پروردگار کی بارگاہ میں کھڑا ہونا ہے " جو تمام مومنین کے امیر ہیں جن کی نماز کی یہ حالت کہ پاؤں میں لگا ہوا تیر جو کسی طرح نکل نہیں پارہا ہو نماز کی حالت میں نکال لیا جائے اور پتہ بھی نہ چلے جن کے روزے کی یہ کیفیت ہے کہ تین دن روزہ رکھا تو سورہِ ھل اتٰی نازل ہوگئی زکواۃ کی یہ حالت کہ حالت رکوع میں زکواۃ دیں اور قران کی آیت "انماالولی کم اللہ "نازل ہوجائے۔ جہاد کی یہ کیفیت کہ فاتح خیبر، بدرو حنین کہلاتے ہیں جن کی زندگی کے ایک ایک عمل کو کیا بتایا جائے ایک ضربت ہوتی ہے اور عبادت ثقلین سے برتر ہوجاتی ہے وہ حضرت علی(ع) فرمارہے ہیں کہ قیامت کے میدان میں جانا کوئی آسان مرحلہ اور آسان کام نہیں ہےجب میدانِ قیامت میں جبار و قہار بادشاہ کو دیکھتا ہوں تو اپنے اعمال تو بہت ہی کم نظر آتے ہیں۔ اور یہی نہیں آپ اولیاء اللہ کو دیکھیں یا انبیاء مرسلین کو دیکھیں یا ملائکہ مقربین کو ہی دیکھیں ہر کسی کو میدانِ قیامت کا خوف ہی خوف ہے۔
تین قسم کی عورتوں کو خوش خبری
مگر اس منزل پر عورتوں کیلئے آنحضرت (ص) کی ایک بشارت ہمارے سامنے آئی ہے۔ کہ ہر شخص گھبرائے ہر شخص پریشان ہو ہر مومن کی حالت میں تغیر آئے مگر ان عورتوں کو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں جنکے لئے آنحضرت (ص) کی یہ حدیث موجود ہے کہ تین عورتیں ایسی ہیں جو میدان قیامت کی سخت ترین منزلوں میں قبر سے اٹھائے جانے سے حشر کے میدان تک اور پھر پلِ صراط سے جنت میں داخل ہونے تک میری بیٹی فاطمہ (س) کی ساتھی ہونگی بس شرط ایک ہی ہے اور وہ ہے کہ ان کے پاس ایمان ہو۔
اب یہ تین عورتیں کونسی ہیں جو بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کیے ساتھ محشور ہونگی۔
1-اپنے شوہر کی غربت پر صبر کرنے والی

پہلی وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی غربت پر صبر کیا اور اپنے شوہر سے کوئی ایسی خواہش نہ کی جو وہ پورا نہ کرسکتا ہو۔ جب باپ اپنی بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرتا ہے تو کتنی تمنائیں ہوتی ہیں نا اسکا اسوقت بس چلے تو دنیا کی ساری آسائشیں اپنی بیٹی کو دیکر اپنے گھر سے رخصت کرے اور جب باپ ایسا باپ ہو جو سردارِ انبیاء جسکی بادشاہی کی ہر زمانہ گواہی دے جسکا اقتدار پوری کائنات پر چلتا ہو اگر وہ جو کچھ بھی اسوقت اپنی بیٹی کو دیدے تو کم ہے مگر مختصر سے سامانِ زندگی کے بعد آپ(ص) نے فرمایاکہ بیٹی تو جس گھر میں جارہی ہے وہاں تجھ کو دولت دنیا میں سے تو کچھ نہیں ملے گا مگر تیرا شوہر وہ ہے جو تیرے باپ کے بعد کائنات کےافضل ترین افراد میں سے ہے ۔ پس اپنے شوہر سے ایسی کوئی فرمائش نہ کرنا کہ جسے وہ پورا نہ کرسکے اور پھر اسے دکھ ہو کہ میں اپنی بیوی کی ایک چھوٹی سی خواہش بھی پوری نہیں کرسکا۔
وہ تحفہ جو رسول اللہ (ص) نے شہزادی فاطمہ(س) کو دیا

یہ وہ تحفہ ہے جو اللہ کے رسول(ص) نے اپنی بیٹی فاطمہ (س) کو دیا اور بتایا کہ باپ ہونے کا مقصد یہ نہیں کہ تم دنیاوی دولت سے اپنی بیٹی کا دامن بھردویا یہ کہ تم دنیا کے سازو سامان جائیداد اور دولت کے انبار اپنی بیٹی کے حوالے کردو نہیں اگر تم ایک اچھے باپ ہو تو تم کو اپنی بیٹی کی دنیا سے زیادہ اس کی آخرت کی فکرہونی چاہیئے۔
شہزادی فاطمہ (س) ایک دن آنحضرت (ص) کی خدمت میں آتی ہیں اور آنے کے بعد سوال کرتی ہیں کہ بابا یہ تو بتایئے کہ جنات کی غذا کیا ہے آنحضرت (ص) نے جنات کی غذا ارشاد فرمائی پھر بی بی فاطمہ نے سوال کیا کہ فرشتوں کی غذا کیا ہے آپ(ص) نے ارشاد فرمادیا۔ پھر پوچھا مومنوں کی غذا کیا ہے آپ (ص) نے ارشاد فرمادیا پھر بی بی فاطمہ(ص) نے سوال کیا کہاب یہ بتائیں آلِ محمد کی غذا کیا ہے کہ آج تین دن ہوگئے کہ گھر میں چولہا نہیں جل سکا ہم فقر و فاقہ میں زندگی گذار رہے ہیں تو آپ(ص) نے فرمایا بیٹا تیرا باپ تیرے اس سوال کے جواب میں پانچ کلمے اور پانچ جملے عطا کرتا ہے یہ تیرے باپ کا جواب ہے اس سوال کے جواب میں جو تو نے کیا۔ بیٹی یہ کہتی رہو"یا رب الاولین و یا رب الآخرین و یا ذوالقوۃالمتین و یا راحم المساکین" روایت یہ بتاتی ہے کہ شہزادی اپنے گھر واپس جاتی ہیں اور حضرت علی(ع) سے سامنا ہوتا ہے آپ ان سے سوال کرتے ہیں کہ بنتِ رسول (ص) آپ اپنے والد کے پاس گئیں تھیں انہوں نے کیا جواب دیا ۔ تو بس شہزادی کا یہ فقرہ بتارہا ہے کہ باپ کی ذمہ داری کیا ہے اور ایک بیٹی کا فریضہ کیا ہے شہزادی بڑے فخر سے کہتی ہیں کہ میں اپنے باب کے پاس گئی تھی دنیاوی مسئلے کے حل کیلئے مگر اپنے باپ سے آخرت کا سامان لے کر آرہی ہوں۔ اور پھر حضرت علی (ع) کا جواب سنیں اور آج کل کے شوہر سے موازنہ کریں اپ نے فرمایا بے شک آپ کے بابا دنیا کے سب سے عظیم انسان ہیں ۔ اور یہ سن کر بی بی زہرا کا سر فخر سے اور اونچا ہوجاتا ہے۔ بی زہرا کا یہ تاریخی جملہ کہ میں گئی تھی اپنے والد کے پاس کسی دنیاوی چیز کو لینے اور میرے والد نے مجھے آخرت سے سرفراز کرکے بھیجا ہم کو یہ بتارہا ہے کہ دیکھو باپ کی ذمہ داری یہ نہیں کہ بیٹی کو زیادہ سے زیادہ سامان دیدیا جائے مال' دنیا میں عزت و آبرو قائم رکھنے کا ایک ذریعہ ہوسکتا ہے مگر وہ تمہاری ذمہ داری نہیں ہے ۔ تمہاری ذمہ داری ی ہے کہ کہ اپنی بیٹی کو آخرت دو ۔ آخرت دینے کے دو طریقے ہیں جب بیٹی تمہارے پاس آئے تو اسکو آخرت دو جب تم بیٹی کو اپنے گھر سے رخصت کرو تو یہ خیال کرکے رخصت کرو کہ جس گھر میں بھجوایا جارہا ہے وہاں جانے کے بعد میری بیٹی کی دنیا بن رہی ہے یا میری بیٹی کی آخرت بن رہی ہے۔ اور کس انداز سے شہزادی زہرا نے اپنی زندگی کو فقر و فقہ میں گزارا
 

میر انیس

لائبریرین
فضائلِ زہرا (س)

ایک مرتبہ ایک شخص حضرت امام جعفرِ صادق کے پاس آیا اور سوال کیا کہ میں نے پوارا سورہ ھل اتٰی پڑھ ڈالا بار بار تلاوت کی پروردگار نے جنت کی کیسی کیسی نعمتوں کی بشارت دی ہے جنت کی کونسی ایسی نعمت ہے جسکا تذکرہ اس سورہ میں موجود نہیں مگر امام مجھے یہ سمجھ نہیں آیا کہ جنت کی تمام نعمتوں کا تذکرہ کیا گیا مگر اس سورۃ جسکا موضوع ہی جنت ہے حوروں کا تذکرہ نظر نہیں آیا ۔ امام (ع) نے فرمایا اس سورہ میں حوروں کا تذکرہ اس لئے نہیں ہے کہ یہ سورہ المبارک بی بی فاطمہ (س) کی شان میں اللہ نے نازل کیا ہے اور بی بی زہرا(س) کی شان کے ساتھ حوروں کا تذکرہ مناسبت نہیں رکھتا۔ یعنی پروردگار عالم اپنی وہ نعمت جس کا تذکرہ وہ قران میں جگہ جگہ جب بھی جنت کی نعمتوں کا ذکر آتا ہے کرتا ہے لیکن جب ذکرِ فاطمہ (س) ہورہا ہے تو اس نعمت کے ذکر کو مخفی کردیا گیا تاکہ کہیں بی بی فاطمہ (س) کی شان میں کمی محسوس نہ ہو۔
سورہٓ دھر(ھل اتٰی) کا اخلاقی پہلو

تو بس اسی سے متعلق اس روایت کو یاد کریں جسکا ایک پہلو تو آپ نے دیکھا ہے پر دوسرا پر کبھی غور نہیں کیا وہ عورت جو بی بی فاطمہ (س) کے ساتھ میدانِ قیامت میں جانے کی آرزو کرے اسے اپنے شوہر کی غربت پر صبر کرنا ہےاور اپنے شوہر کو اس منزل پر لے کر جانا ہے جو ہمیں اس واقعے میں نظر آرہا ہے۔ سورہ ھل اتٰی کا واقعہ ہوسکتا ہے آپ نے سنا ہو اور بار بار سنا ہو مگر اس کا ایک نقطہ ہر کسی کو نظر نہیں آتا ۔ واقعہ مختصراَ یہ ہے کہ ایک دن دونوں شہزادے امام حسن (ع) اور امام حسین(س) بیمار پڑگئےاور اتنے شدید بیمار ہوئے کہ بی بی فاطمہ (س) اور مولا علی(ع) نے منت مانی کہ اگر یہ صحت یاب ہوگئے تو تین دن تک روزہ رکھیں گے۔ جب شہزادے صحت یاب ہوگئے تو روزہ رکھنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ مگر افطاری کیلئے تو گھر میں کچھ تھا نہیں حضرت علی(ع) ایک شخص سے معاہدہ کرتے ہیں کہ میں تین دن تمہارے باغ میں کام کروں گا اور تم مجھے تین دن کی روٹیوں کے حساب سے گندم پیشگی اجرت کے طور پر دوگے آپ یہ گندم لے کر شام کے وقت بی بی فاطمہ(س)کے پاس آتے ہیں اور بی بی اس کے تین برابر کے حصے کردیتی ہیں ایک دن کا تو کام ہوچکا باقی دو دن کا کام ابھی باقی ہے۔ آپ نے ایک حصے کو پیس کر روٹیاں تیار کرلیں اور جیسے ہی افطار کا وقت آیا ایک یتیم نے دروازے پر دستک دی کے میں بھوکا ہوں اور میرے گھر والے بھی بہت بھوکے ہیں گھر کے ایک ایک فرد یہاں تک کے بچوں تک نے روٹیاں خیرات میں دیدیں۔ اور نمک اور پانی سے روزہ کھولا گیا۔ مگر مجھے صرف یہ بتایا جائے کہ بیماری سے اُٹھے ہوئے بچے ہیں سارا دن محنت مزدوری کر کے آئے ہوئے شوہر ہیں اور شہزادی نے بھی سارا دن گھر میں کام کیا ہے گھر کا کونسا کام ہے جو شہزادی نہ کرتی ہوں کھانا پکانا گندم پیسنا، بستر بچھانا اور بستر بھی وہ بستر جو اونٹ کی کھال کا بنا ہوا تھا جس کو دن کے وقت گھوڑے کو چارہ کھلانے کیلئے استعمال کیا جاتا اور شام کو جھاڑ کر لیٹنے بیٹھنے کیلئے بچھایا جاتا تھا حضرت علی کی تلوار اور صیقل کی صفائی کرنے کا کام ہو یا کنویں سے پانی بھرنا ہو تمام کام شہزادی کرتی ہیں۔ اب آپ پورے گھر کو دیکھ لیجئے سب روزے سے تھے اور بے انتہا تھکے ہوئے ہیں ننھے شہزادے ابھی بیماری سے اٹھے ہیں۔ سارا دن روزہ رکھا تھا اور جو روٹی تیار کیں تھیں وہ سائل لے گیا۔ مزے کی بات ہے کہ گندم بھی موجود ہے۔کون سی ایسی ماں ہے جس کے پاس سامان موجود ہو پھر بھی اپنے بچوں کو بھوکا رکھے۔ کون سی بیوی ایسی ہے کہ جسکا شوہر سارا دن تھک کر آیا ہو سامان موجود پونے کے بعد اسکو بھوکا رکھے۔ کون سی عورت ایس ہے جو خود سارا دن کا روزہ رکھی ہوئی ہو بھوک مٹانے کا سامان بھی ہو اور فاقہ کرے بھوک بھی ہے کل کا روزہ بھی ہے تھکن بھی ہے اور ایسی تھکن کے کل پھر یہ سب کام کرنا ہے۔۔ تاریخ یہ بتارہی ہے کہ بی بی فاطمہ(س) کے پاس تین دن کا گندم تھا ایک دن کے گندم کی روٹیاں تو سائل لے گیا۔ کیا بی بی فاطمہ کیلئے یہ ممکن نہیں تھا کہ یہ جو گندم کل کیلئے رکھا ہے کل اور پرسوں مزید محںت کی جاسکتی ہے پر آج تو روٹیاں پکالی جائیں ۔ کیا چیز آپ کو روک رہی ہے کون سا امر مانع ہے بی بی کیلئے ۔ تھکن ؟ پر کل بھی تو گندم پیسنی پڑے گی تو تھکن اور بڑھ جائے گی کل تو دو دن کے روزے رکھ چکی ہوں گی کل تو دو دن کا کام کیا ہوا ہوگا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ باقی گندم سے آپ روٹیاں تیار نہیں کرتیں آپ کے سامنے گندم بھی ہے بیٹے بھی بھوکے ہیں شوہر بھی اب فاقہ سے ہے خود بھی یہ مصیبت جھیل رہی ہیں ۔ پر بی بی فاطمہ (س) کو سب کچھ گوارا ہے اور یہ بات بھی بتادوں کے اب یہ لوگ بستر پار جاکر سوئیں گے نہیں یہ اہلِ بیت اطہار کا گھر ہے جہاں مختصر سےآرام کے بعد اب جو عبادت کا سلسلہ شروع ہوگا تو وہ صبح کی نماز تک جاری رہے گا۔ آج کے دور میں سانس لینے والی مسلمان عورت یہ کہتی ہوئی نظر آتی ہے کہ میں نہیں جانتی تم چوری کرو یا ڈاکہ ڈالو حلال طریقہ اپناؤ یا حرام طریقہ میری خواہش پوری تم کو ضرور کرنی ہے وہ ذرا بی بی فاطمہ (س) کے گھر چل کر دیکھے کہ شریعت کا کتنا خیال ہے۔ حتٰی کہ جو چیز واجب بھی نہیں اسکے لئے کتنی احتیاط کی جارہی ہے اللہ اللہ ۔ یہ احتیاط کیا ہے ۔ اصل میں یہ تین دن کی جو گندم ہے وہ اس معاہدے پر ملا ہے کہ تین دن کام کرو تو یہ اس کی اجرت ہے ۔ بی بی زہرا(س) نے فقط یہ دیکھا کہ میرے شوہر نے تو ابھی صرف ایک دن کام کیا ہے تو اس گندم کا صرف ایک تہائی پر ہمارا حق بنتا تھا وہ ہم نے اللہ کی راہ میں دیدیا مگر ابھی کل کا کام نہیں ہوا ہے تو اس گندم کا باقی حصہ ہم کو دے تو دیا گیا ہے ہوسکتا ہے یہ شرعاَ ہمارے لئے حلال بھی ہو پر بی بی فاطمہ(س) کی غیرت اور پابندیٓ دین کا جذبہ مجبور کر رہا ہے، فاقے کرلو بچوں کو بھوک سے تڑپتا ہوا دیکھ لو مگر اس گندم کو ہاتھ بھی نہ لگاؤ جو ہمارا حق ہے لیکن ابھی اس کے بدلے کا کام نہیں ہوا ہے گوارہ نہیں ۔ اندازہ کریں جس گھر میں رزقِ حرام و حلال کے بارے میں احتیاط کی یہ حالت ہوکہ اپنا حق بھی ہو لیکن چونکہ یہ ایک امکان موجود ہے کہ اگر کل کام نہ ہوسکے تو یہ ہمارا حق نہ ہوگا۔ سارے گھر کیلئے نہیں پر اُن معصوم شہزادوں کیلئے تو مختصر سی غذا تیار کی جاسکتی تھی مگر بی بی فاطمہ (س) نے بتایا کہ دیکھو زندگی گزارنااتنا آسان نہیں ہے تو میدانِ قیامت میں فاطمہ(س) کا ساتھ دینا بھی اتنا اسان نہیں ہے ۔ شوہر اگر اس قابل نہ ہو کہ بیوی کی خواہش پوری کرسکے تو بیوی دیکھ لے کہ جو بی بی فاطمہ(س) رزق کے بارے میں اتنی احتیاط کر رہی ہیں۔ وہ بھلا اس مومنہ کو اپنی سواری کے ساتھ چلنے کی اجازت کیسے دے سکتی ہیں جو اپنے شوہر کو ترغیب دلا کر حرام راستے پر لے جائے۔
جاری ہے
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک سوال میری طرف سے بھی

یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔

بی بی فاطمتہ الزہرا کے یوم شہادت سے کیا مراد ہے؟
 

میر انیس

لائبریرین
ایک سوال میری معلومات کے لئے۔
یہ (س) کا کیا مطلب ہے؟
سلام اُللہ علیہا۔
ایک سوال میری طرف سے بھی

یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔

بی بی فاطمتہ الزہرا کے یوم شہادت سے کیا مراد ہے؟
گو کہ میں نے درخواست کی تھی کہ جب تک میں اپنی تحریر مکمل نہیں کرلوں آپ لوگ کوئی تبصرہ کوئی سوال نہ کیجئے گا اور ایسے سوالات جو فرقہ بازی کی طرف لے جائیں وہ میرے مقصد کو ہی ختم کردیں گے ۔ اور چونکہ اب مجھ کو اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب بات یقیناَ فرقہ بازی کی طرف جائے گی تو میں یہ موضوع بند کر رہا ہوں حالانکہ میں صرف ایک اچھی بات پہنچا کر ثواب کما نا چاہ رہا تھا میری پوری بات مکمل ہوجانے کے بعد اگر کسی کو بھی اس سے تھوڑا سا بھی فیض مل جاتا تو میری آخرت سنور جاتی ۔ خیر سوال کیا ہے تو سادہ سا جواب ضرور دوں گا کہ یوم شہادت کا مطلب ہے جس دن بی بی فاطمہ سلام اُللہ علیہا کی شہادت ہوئی تھی وہ دن یعنی 3 جمادی الثانی۔
 

ظفری

لائبریرین
اچھا کیا کہ آپ نےیہ سلسلہ بند کردیا ۔ چونکہ آپ کا موضوع کا محرک ایک مسلک کے مخصوص عقائد پر مبنی تھا ۔ اس لیئے اس پر لاحاصل بحث کاقوی امکان موجود تھا ۔ ہم فروعی مسائل پر تو بحث کے متحمل ہو نہیں سکتے ۔مسلکی عقائد پر کیا بحث کرسکیں گے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
میں اردو محفل کے منتظمین کا بے حد مشکور ہوں کہ انہوں نے اس موضوع کا قفل کھول دیا اور مجھ کو دوبارہ اپنی بات آپ لوگوں تک پہنچانے کا موقع دیا۔ اور ایک ایسے دن یہ موقع مجھ کو ملا کہ بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا کی شہادت کا یوم تھا۔ اب انشاللہ میں جلد ہی اپنے اس موضوع کو تمام کروں گا مجھ کو اس سلسلے میں آپ سب کی مدد چاہیئے اور وہ صرف اتنی کے کہیں سے بھی کوئی فرقہ وارانہ اختلاف نہ ہوورنہ یہ دھاگہ پھر مقفل کردیا جائے گا اور میری بات ادھوری رہ جائے گی۔ اس دھاگے میں میرا موضوع صرف وہ تین عورتیں رہیں گی جن کے لئے آنحضرت(ص) نے بشارت دی ہے کہ روزِ محشر وہ جب قبر سے اٹھائی جائیں گی تو میری بیٹی فاطمہ(س) کے ساتھ ہوں گی میدانِ حشر میں میری بیٹی حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا کے ساتھ ہوں گی یہاں تک کہ پلِ صراط کے مقام پر اور پھر جنت میں جانے کے جتنے مراحل ہیں سب میں وہ میری بیٹی بی بی فاطمہ (س) کے ہم رکاب ہوں گی اب ایک قسم اُن عورتوں کی تو میں بتا چکا ہوں کہ وہ عورت جس نے اپنے شوہر کی غریبی پر صبر کیا۔ باقی دو ابھی بتانا باقی ہیں
 
سلام اُللہ علیہا۔

گو کہ میں نے درخواست کی تھی کہ جب تک میں اپنی تحریر مکمل نہیں کرلوں آپ لوگ کوئی تبصرہ کوئی سوال نہ کیجئے گا اور ایسے سوالات جو فرقہ بازی کی طرف لے جائیں وہ میرے مقصد کو ہی ختم کردیں گے ۔ اور چونکہ اب مجھ کو اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ اب بات یقیناَ فرقہ بازی کی طرف جائے گی تو میں یہ موضوع بند کر رہا ہوں حالانکہ میں صرف ایک اچھی بات پہنچا کر ثواب کما نا چاہ رہا تھا میری پوری بات مکمل ہوجانے کے بعد اگر کسی کو بھی اس سے تھوڑا سا بھی فیض مل جاتا تو میری آخرت سنور جاتی ۔ خیر سوال کیا ہے تو سادہ سا جواب ضرور دوں گا کہ یوم شہادت کا مطلب ہے جس دن بی بی فاطمہ سلام اُللہ علیہا کی شہادت ہوئی تھی وہ دن یعنی 3 جمادی الثانی۔
میر انیس بھائی آپ اپنی بات پوری کیجئے، بے صبری کا مظاہرہ حضرت موسی (ع) نے بھی کیا تھا، تو بہت سے راز اس دنیا تک پہنچنے سے روک گئے تھے، آپ ایک اچھی بات کر رہے ہیں، اپنی بات جاری رکھیں، اور کسی فرقہ پرستی پر مبنی سوال کو نظر انداز کریں. تمام دوستوں سے گزارش ہے کے حوصلہ رکھیں، تمام سوالوں کے جواب مل جاتے ہیں، لیکن کسی اچھی بات کو مکمل ہونے دیں. جزاک الله!
 
اچھا کیا کہ آپ نےیہ سلسلہ بند کردیا ۔ چونکہ آپ کا موضوع کا محرک ایک مسلک کے مخصوص عقائد پر مبنی تھا ۔ اس لیئے اس پر لاحاصل بحث کاقوی امکان موجود تھا ۔ ہم فروعی مسائل پر تو بحث کے متحمل ہو نہیں سکتے ۔مسلکی عقائد پر کیا بحث کرسکیں گے ۔

جناب ظفری صاحب میں سمجھتا ہوں یہ آپکی زیادتی ہے کے ذکر فاطمہ (س) کو ایک مسلک کے مخصوص عقائد تک قید کریں، جب کے تمام امت کا عقیدہ ہونا چاہئے. اہل بیت اطہار تمام مسالک سے بالاتر ہیں.
 

انجانا

محفلین
ایک سوال میری طرف سے بھی

یہ تقریر بی بی فاطمۃالزہراسلام اُللہ علیہا کے یومِ شہادت پر انہوں نے کی تھی پر ان کا کہنا تھا کہ اس تقریر کا انتخاب انہوں نے آج کل کےماحول اور موجودہ معاشرے کو دیکھ کر کیا ہے۔

بی بی فاطمتہ الزہرا کے یوم شہادت سے کیا مراد ہے؟
یوم شہادت کی وضاحت مطلوب ہے۔ کیا حضرت فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کی وفات طبعی نہیں تھی؟ اس کے بارے میں مستند معلومات درکار ہیں
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم۔ آج کافی عرصے بعد اردو محفل آیا تو یہ دھاگہ نظر آیا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حاضرین محفل نے اس دھاگے سے جو سبق لینا تھا اس میں جو پیغام موجود تھا اسکو نظر انداز کرکے ایک شہادت کے لفظ پر تکرار شروع کی تھی میں بار بار کہتا رہا کہ دھاگہ مکمل ہونے دیں بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام سے تو واقف ہوں لیکن اس وقت تعصب کی فضا نے مجھے مزید لکھنے سے روک دیا۔
 

فاخر رضا

محفلین
محل شاہوں کے ہیں روشن
تیری تربت بے دیا ہے
تیری تربت کا مقدر
سلسلہ در سلسلہ ہے
تیرگی ظلمت اندھیرا
ہائے زہرا ہائے زہرا
 

سیما علی

لائبریرین
عظمت کا تیری یہ بھی نمونہ ہے فاطمہ
دروازہ بہشت پہ لکھا ہے فاطمہ

زندہ ہوئی یہودی دولہن تو کھلا یہ راز
موت و حیات پر تیرا قبضہ ہے فاطمہ

ناد علی وظیفہ ہے کونین کا مگر
مشکلکشا علی کا وظیفہ ہے فاطمہ

نسلوں میں اس کی بھوکا نہ رہ پائے گا کوئی
جس کی نگاہ میں تیرا فاقہ ہے فاطمہ

نہج بلاغہ ہے تیرے شوہر کی منقبت
قرآن کیا ہے تیرا قصیدہ ہے فاطمہ

کیوں اس کی دسترس میں نہ ہو مشکلوں کی دھوپ
ساون پہ تیرے بچوں کا سایہ ہے فاطمہ


جناب عامر رضوی صاحب
 

سیما علی

لائبریرین
کہیں قرآں کہیں قرآں کی تلاوت زہرا کہیں کعبہ کہیں کعبے کی جلالت زہرا

کہیں ایماں کہیں ایماں کی حرارت زہرا کہیں قدرت کہیں قدرت کی مشیت زہرا

ساری دنیا تجھے خاتون جناں کہتی ہے
انتہا یہ ہے رسالت تجھے ماں کہتی ہے

تیرے شبر کی اداؤں پہ فدا ہیں الیاس صبر ایوب سے افضل تیرے شبیر کی پیاس

ہے وفاؤں کا پیمبر تیرا بیٹا عباس اور زینب تیری عظمت کی مکمل عکاس

اہل جنت تیرے آگن کو چمن کہتے ہیں
تیری فضہ کو بھی جبریل بہن کہتے ہیں

دیا کعبہ کو بھی سیرت سے اجالا تو نے بخشا قرآں کو بھی عظمت کا حوالہ تو نے

اپنے بچوں کی طرح دین کو پالا تو نے اس طرح اپنی کنیزوں کو بھی ڈھالا تونے

اپنے لہجے سے بلاغت کی گرہ کھولتی ہے
تیری فضہ تیرے قرآں کی زباں بولتی ہے

تیرے رشتہ کے لیے عرش سے تارہ اترا بن کے دولہا تیرے گھر آیا وقار کعبہ

ہر سمندر کو تیرے مہر میں رب نے رکھا عرش اعظم پہ مشیت نے تیرا عقد پڑھا

ہار آیا نہ کوئی قیمتی زیور آیا
منھ دکھائی میں تیری سورۂ کوثر آیا

لے لیے خلد میں آدم سے لباس جنت تیرے شہزادوں کی رضوان نے کی ہے خدمت

تھے وہ آدم کہ ہوئی خاک سے ان کی خلقت عرش سے لائے تیرا نور نبی رحمت

مرتبے تیرے رسولوں سے بڑے ہیں زہرا
خود محمد تیری ڈوڑھی پہ کھڑے ہیں زہرا

پوری دنیا میں ہے زہرا کے سوا گھر کس کا بھوک میں بھی جہاں مسکینوں پہ ہوتی ہو عطا

سب ہوں روزے سے مگر بانٹ دیں سب اپنی غذا عرش پہ جاکے فرشتوں نے کہا تو ہوگا

عظمتیں سب در زہرا کی بھکاری نکلیں
روٹیاں دہر کے سورے سے بھی بھاری نکلیں

چادر فاطمہ آسان نہیں تیری ثناء تیرے پیوند سے ترکیب ہوئی کرب و بلا

آیتوں نے تیری غربت کا وہ منظر دیکھا پاؤں کھل جاتے تھے ڈھکتی تھیں اگر سر زہرا

تو مگر نور کا عنوان بھی تفسیر بھی ہے
پنحتن بھی تیرے سایے میں ہیں جبریل بھی ہے

قل کفی ہے تیری چوکھٹ کے شرف کا آغاز لافتی کو تیرے شوہر کی شجاعت پہ ہے ناز

ہل اتی تیرے قبیلے کی عطا کا انداز انما نے تیری چادر کے تلے کھولا یہ راز

خود خدا بھی کوئی پوشیدہ خزانہ ہوتا
تو نہ ہوتی تونہ دنیا نہ زمانہ ہوتا

یہ زمیں اور یہ افلاک تیرے صدقے میں حق نے پانی کو کیا پاک تیرے صدقے میں

عرش کو چھونے لگی خاک تیرے صدقے میں خود ملک لے گیے خوراک تیرے صدقے میں

تیری تخلیق بھی صد نازش رب ہے زہرا
تو محمد کے تعارف کا سبب ہے زہرا

جناب نایاب ہلوری صاحب
 

میر انیس

لائبریرین
السلام علیکم۔ آج کافی عرصے بعد اردو محفل آیا تو یہ دھاگہ نظر آیا۔ بہت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ حاضرین محفل نے اس دھاگے سے جو سبق لینا تھا اس میں جو پیغام موجود تھا اسکو نظر انداز کرکے ایک شہادت کے لفظ پر تکرار شروع کی تھی میں بار بار کہتا رہا کہ دھاگہ مکمل ہونے دیں بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے مقام سے تو واقف ہوں لیکن اس وقت تعصب کی فضا نے مجھے مزید لکھنے سے روک دیا۔
السلام علیکم ۔ اس میں سنی شیعہ تاریخ کا اختلاف ہے بہتر ہے کہ ہر شخص اپنے مسلک کے حساب سے دیکھے وفات یا شہادت لکھے جسطرح اہل تشیع اور کچھ اہلسنت بھی اہلبیت کے ساتھ علیہ السلام لکھتے ہیں لیکن اہل سنت کی اکثریت رضی اللہ تعالیٰ عنہ یا عنہا لکھتی ہے جیسا کہ بی بی زہرا کے ساتھ میں نے سلام اللہ علیہا لکھا اور آپ نے رضی اللہ تعالیٰ عنہا لیکن دونوں نے ایک دوسرے پر اعتراض نہیں کیا۔ اور یہی رویہ رکھنا چاہئے۔ میں سب سے ملتمس ہوں کہ اس دھاگے کے متن کو سبق کے طور پر لیں صرف عنوان میں موجود لفظ شہادت کو لے کر بیٹھ جانا مناسب نہیں اس سے جو درس ہم کو لینا چاہئیے وہ نظر میں رکھیں۔
میرے کچھ دوستوں کا اسرار ہے یہ دھاگا مکمل کروں اور اگر یہ مکمل ہوگیا اور کسی نے پھر لفظ شہادت کو لیکر اس پر مسلکی اختلاف حاوی کرنے کی کوشش نہیں کی تو انشاءاللہ یہ بھی اپنی طرز کا منفرد دھاگا اور اردو محفل کا ایک ریکارڈ ہوگا جو آٹھ ساڑھے آٹھ سال بعد مکمل ہوگا۔
 

میر انیس

لائبریرین
محل شاہوں کے ہیں روشن
تیری تربت بے دیا ہے
تیری تربت کا مقدر
سلسلہ در سلسلہ ہے
تیرگی ظلمت اندھیرا
ہائے زہرا ہائے زہرا
انشاءاللہ اب وہ دن دور نہیں جب بیبی زہرا سلام اللہ کا روضہ دوبارہ تعمیر ہوگا انشاء اللہ
 

سیما علی

لائبریرین
اچھا کیا کہ آپ نےیہ سلسلہ بند کردیا ۔ چونکہ آپ کا موضوع کا محرک ایک مسلک کے مخصوص عقائد پر مبنی تھا ۔ اس لیئے اس پر لاحاصل بحث کاقوی امکان موجود تھا ۔ ہم فروعی مسائل پر تو بحث کے متحمل ہو نہیں سکتے ۔مسلکی عقائد پر کیا بحث کرسکیں گے ۔
بالکل درست بیٹا میرا بھی یہی نظریہ ہے ۔جس سے کسی بھی مسلک کے عقائد کو چھیڑا جائے یا کسی قسم کی دلآزاری کا خدشہ ہو اُس سے بچنا بہتر ہے۔اور ہمیشہ ایسی بحث کا اختتام دل آزاری و رنجش پہ ہوتا ہے۔
 
Top