چھوٹاغالبؔ
لائبریرین
اولیا کرام کی سر زمین اوچشریف سابق ریاست بہاولپور کی تحصیل احمد پور شرقیہ کے مغرب کی جانب 21 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے
یہ تاریخی شہر مذہبی ، ثقافتی ، تجارتی و علمی و روحانی حیثیت کا حامل رہا ہے
قبل از مسیح یہ شہر بہت بڑا تجارتی اور فوجی مرکز ہونے کے باوجود 36 مربع میل حدودِ اربعہ کا شہر ہوتا ہوگا، مگر اب یہ ایک اجڑا دیار ہے۔
جہاں یہ خطہ فاتحین کی عتابی نگاہوں کے پیشِ نظر رہا وہاں یہ سر زمین خیر کے داعی انسانوں ، راموں ، گروؤں ، لاماؤں ، گیانیوں ، سادھوؤں اور طلوعِ اسلام کے بعد اولیا کرام کی توجہ کا مرکز رہی۔ حضور ختم المرتبت ﷺ کی آل اطہار جتنی کثرت سے اس سر زمین پر آ کر آباد ہوئی ، زمانے کے کسی اور خطے میں نہیں ہوئی۔
اگر اس کو تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت نوح علیہ اسلام کے بیٹے یافث نے ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح اس شہر کی بنیاد رکھی۔
اوچ شریف کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہےیہ شہر حملوں اور قدرتی آفتوں کی زد میں رہا ہے۔ شکست و ریخت اس کا مقدر بنی۔ ہر فاتح اس شہر کو فتح کرنے کے بعد آگ لگا دیتا تھا اور اس کو بگڑتے سنورتے کئی عرصے لگ جاتے ۔ سونے کی چڑیا ہونے کی وجہ سے ہر آنے والے حکمران ی نظریں اس شہر پر جمی رہیں ۔ وسیع حدودِ اربعہ رکھنے کے باوجود اب یہ شہر گلیوں کوچوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے ہزاروں سال سے آباد اس شہر کا وجود ابھی تک قائم ہے تاہم حکمرانوں کی باہمی جنگ و جدل سے ہونے والی تباہی کے اثرات ۔اورشہر کی تباہ کاریوں کی کہانیاں صدیوں پرانی چلی آ رہی ہیں ۔
ماضی میں اس کے مختلف نام رہے۔ اچھ، اوچ ، اوسا، الیگزینڈرہ۔
ایک روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کا ہندو راجہ جے پال تخت نشین تھا ۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں ۔ ایک کا نام اوچھا رانی جس کے نام پر اوچ آباد کیا گیا ۔دوسری بیٹی کا نام سیتا رانی تھا ، جس کے نام پر سیت پور آباد ہوا (جو کہ اب بھی موجود ہے)
جب حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒ اوچشریف تشریف لائےتو اوچ کا نام دیو گڑھ تھا۔
مشہور سیاح ابنِ بطوطہ بھکر سے ہوتا ہوا جب اوچشریف پہنچا تو اسے تجارتی شہر پایا ۔ (یہاں تجارتی سلسلہ دریائی ہوتا تھا)ابنِ بطوطہ یہاں سے ہوتا ہوا دریائی راستوں سے عرب چلاگیا۔
سینکڑوں دفعہ اس شہر کے محا صرے ہوئے ۔ تباہی اور بربادی سے ہزاروں مکان ٹیلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ لاکھوں انسان موت کی نذر ہو گئے۔تاریخی آثار آج بھی اس کی بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ دھرم شالے ، پریم مندر ، شمشان بھومی وغیرہ کے آثارِ قدیمہ اور کھنڈرات وضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ۔ خدا جانے اسے کتنی بار اجاڑا گیا ۔ کتنے مکین دفن ہوئے ، کتنے بے گناہ انسان زندہ جلا دئیے گئے۔
یہاں پر 2 ہزار سال پرانی قبریں ، انسانی ڈھانچے ، کھوپڑیاں ، ہڈیاں ان ٹیلوں نما دیواروں میں پیوست نظر آتی ہیں ۔ بعض اوقات بارش کے بعد پرانے مکانوں کی بنیادیں واضح طور پر نظر آجاتی ہیں، اور کئی پرانے سکے ، پارنی چیزیں ان ملبوں سے مل جاتی ہیں ۔ خبر نہیں تہہ نشین ان ٹیلوں میں کتنے نوادرات دفن ہیں ۔ اگر آثارِ قدیمہ والے توجہ دیں تو موہنجوداڑو ، ہڑپہ جیسی چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں
ایک روایت ہے کہ چچ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس شہر کو ملتان پہنچنے کے دوران محاصرہ کر کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جبکہ پانچ سو سال قبل حسن ارغونی نے اس شہر کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ اس وقت اوچ شریف قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
سکندرِ اعظم کی فتح کے بعد اوچ کو سکندریہ کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ جب سکندر یہاں سے واپس لوٹا تو اس نے اس شہر کو کچھ معاہدوں کے تحت راجہ پورس کے حوالے کیا ۔
1005ء میں سلطان محمود غزنوی نے اس شہر پر حملہ کیا، اور راجہ جے پال کو شکست دی۔
1075ء میں شہاب الدین غور ی نے اس شہر پر اپنا تسلط قائم کیا۔
سلطان جلال الدین شاہ خوارزم 1221 ھ چنگیز خان سے شکست کھا کر دریائے سندھ عبور کرکے فرار ہوا ۔ سندھ پہنچنے کے بعد ناصر الدین قباچہ اور شمس الدین التمش سے مدد کی درخواست کی لیکن بے سود۔جب ناامید واپس جانے لگا تو شہر اوچ کو آگ لگا دی ۔
گیارہویں صدی عیسوی کے آخر میں جنوبی ہند کے بہت مشہور شہروں میں اوچ شریف کا شمار ہونے لگا ۔
اس کے بعد یہ شہر بھاٹیہ خاندان کے بادشاہوں کے زیرِ اقتدار رہا۔
سادات کرام کی اوچ شریف میں آمد:۔
روایت ہے کہ پہلے سادات عظام کی آمد ساحلِ مکران پر ہوئی ۔ سندھ کے صادقین نے از حد عزت و توقیر اور پذیرائی دی ، تو یہ سلسلہ مکران سے لے کر اوچ اور ملتان اور اس کے بعد ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا ۔ اوچشریف میں سب سے پہلے بزرگ سیدنا صفی الدین حقانی گارزونی تشریف فرما ہوئے ۔ پھر اولیا کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
(جاری ہے)
یہ تاریخی شہر مذہبی ، ثقافتی ، تجارتی و علمی و روحانی حیثیت کا حامل رہا ہے
قبل از مسیح یہ شہر بہت بڑا تجارتی اور فوجی مرکز ہونے کے باوجود 36 مربع میل حدودِ اربعہ کا شہر ہوتا ہوگا، مگر اب یہ ایک اجڑا دیار ہے۔
جہاں یہ خطہ فاتحین کی عتابی نگاہوں کے پیشِ نظر رہا وہاں یہ سر زمین خیر کے داعی انسانوں ، راموں ، گروؤں ، لاماؤں ، گیانیوں ، سادھوؤں اور طلوعِ اسلام کے بعد اولیا کرام کی توجہ کا مرکز رہی۔ حضور ختم المرتبت ﷺ کی آل اطہار جتنی کثرت سے اس سر زمین پر آ کر آباد ہوئی ، زمانے کے کسی اور خطے میں نہیں ہوئی۔
اگر اس کو تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا حضرت نوح علیہ اسلام کے بیٹے یافث نے ڈیڑھ ہزار سال قبل مسیح اس شہر کی بنیاد رکھی۔
اوچ شریف کے اوراق پلٹیں تو معلوم ہوتا ہےیہ شہر حملوں اور قدرتی آفتوں کی زد میں رہا ہے۔ شکست و ریخت اس کا مقدر بنی۔ ہر فاتح اس شہر کو فتح کرنے کے بعد آگ لگا دیتا تھا اور اس کو بگڑتے سنورتے کئی عرصے لگ جاتے ۔ سونے کی چڑیا ہونے کی وجہ سے ہر آنے والے حکمران ی نظریں اس شہر پر جمی رہیں ۔ وسیع حدودِ اربعہ رکھنے کے باوجود اب یہ شہر گلیوں کوچوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔
حیران کن بات یہ ہے ہزاروں سال سے آباد اس شہر کا وجود ابھی تک قائم ہے تاہم حکمرانوں کی باہمی جنگ و جدل سے ہونے والی تباہی کے اثرات ۔اورشہر کی تباہ کاریوں کی کہانیاں صدیوں پرانی چلی آ رہی ہیں ۔
ماضی میں اس کے مختلف نام رہے۔ اچھ، اوچ ، اوسا، الیگزینڈرہ۔
ایک روایت کے مطابق بارہویں صدی میں یہاں کا ہندو راجہ جے پال تخت نشین تھا ۔ اس کی دو بیٹیاں تھیں ۔ ایک کا نام اوچھا رانی جس کے نام پر اوچ آباد کیا گیا ۔دوسری بیٹی کا نام سیتا رانی تھا ، جس کے نام پر سیت پور آباد ہوا (جو کہ اب بھی موجود ہے)
جب حضرت جلال الدین سرخ پوش بخاری ؒ اوچشریف تشریف لائےتو اوچ کا نام دیو گڑھ تھا۔
مشہور سیاح ابنِ بطوطہ بھکر سے ہوتا ہوا جب اوچشریف پہنچا تو اسے تجارتی شہر پایا ۔ (یہاں تجارتی سلسلہ دریائی ہوتا تھا)ابنِ بطوطہ یہاں سے ہوتا ہوا دریائی راستوں سے عرب چلاگیا۔
سینکڑوں دفعہ اس شہر کے محا صرے ہوئے ۔ تباہی اور بربادی سے ہزاروں مکان ٹیلوں کی شکل اختیار کر گئے۔ لاکھوں انسان موت کی نذر ہو گئے۔تاریخی آثار آج بھی اس کی بربادی کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ دھرم شالے ، پریم مندر ، شمشان بھومی وغیرہ کے آثارِ قدیمہ اور کھنڈرات وضح طور پر محسوس ہوتے ہیں ۔ خدا جانے اسے کتنی بار اجاڑا گیا ۔ کتنے مکین دفن ہوئے ، کتنے بے گناہ انسان زندہ جلا دئیے گئے۔
یہاں پر 2 ہزار سال پرانی قبریں ، انسانی ڈھانچے ، کھوپڑیاں ، ہڈیاں ان ٹیلوں نما دیواروں میں پیوست نظر آتی ہیں ۔ بعض اوقات بارش کے بعد پرانے مکانوں کی بنیادیں واضح طور پر نظر آجاتی ہیں، اور کئی پرانے سکے ، پارنی چیزیں ان ملبوں سے مل جاتی ہیں ۔ خبر نہیں تہہ نشین ان ٹیلوں میں کتنے نوادرات دفن ہیں ۔ اگر آثارِ قدیمہ والے توجہ دیں تو موہنجوداڑو ، ہڑپہ جیسی چیزیں حاصل ہو سکتی ہیں
ایک روایت ہے کہ چچ نے آج سے ڈیڑھ ہزار سال قبل اس شہر کو ملتان پہنچنے کے دوران محاصرہ کر کے اپنے قبضے میں لے لیا۔ جبکہ پانچ سو سال قبل حسن ارغونی نے اس شہر کو جلا کر راکھ کر دیا ۔ اس وقت اوچ شریف قلعہ کی حیثیت رکھتا تھا۔
سکندرِ اعظم کی فتح کے بعد اوچ کو سکندریہ کے نام سے پکارا جانے لگا ۔ جب سکندر یہاں سے واپس لوٹا تو اس نے اس شہر کو کچھ معاہدوں کے تحت راجہ پورس کے حوالے کیا ۔
1005ء میں سلطان محمود غزنوی نے اس شہر پر حملہ کیا، اور راجہ جے پال کو شکست دی۔
1075ء میں شہاب الدین غور ی نے اس شہر پر اپنا تسلط قائم کیا۔
سلطان جلال الدین شاہ خوارزم 1221 ھ چنگیز خان سے شکست کھا کر دریائے سندھ عبور کرکے فرار ہوا ۔ سندھ پہنچنے کے بعد ناصر الدین قباچہ اور شمس الدین التمش سے مدد کی درخواست کی لیکن بے سود۔جب ناامید واپس جانے لگا تو شہر اوچ کو آگ لگا دی ۔
گیارہویں صدی عیسوی کے آخر میں جنوبی ہند کے بہت مشہور شہروں میں اوچ شریف کا شمار ہونے لگا ۔
اس کے بعد یہ شہر بھاٹیہ خاندان کے بادشاہوں کے زیرِ اقتدار رہا۔
سادات کرام کی اوچ شریف میں آمد:۔
روایت ہے کہ پہلے سادات عظام کی آمد ساحلِ مکران پر ہوئی ۔ سندھ کے صادقین نے از حد عزت و توقیر اور پذیرائی دی ، تو یہ سلسلہ مکران سے لے کر اوچ اور ملتان اور اس کے بعد ہندوستان میں پھیلتا چلا گیا ۔ اوچشریف میں سب سے پہلے بزرگ سیدنا صفی الدین حقانی گارزونی تشریف فرما ہوئے ۔ پھر اولیا کرام کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا۔
(جاری ہے)