تازہ غزل : رنگِ دنیا دیکھتا رہتا ہوں میں از نویدظفرکیانی

رنگِ دنیا دیکھتا رہتا ہوں میں
خود کو خود سے مانگتا رہتا ہوں میں
رات بھر کیوں جاگتا رہتا ہوں میں
چاند سے کیا پوچھتا رہتا ہوں میں
کیسا نابینا سمے ہے زیست کا
سب سے آنکھیں مانگتا رہتا ہوں میں
تشنگی بجھتی نہیں اظہار کی
اپنے اندر گونجتا رہتا ہوں میں
زعم ہے پتھرائے جانے کا مجھے
اور دل کو تھامتا رہتا ہوں میں
خشک پتے ہیں یا امّیدیں ظفر
ٹہنیوں سے توڑتا رہتا ہوں میں
نویدظفرکیانی
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت ہی خوب۔۔۔۔!

اچھی غزل ہے نوید بھائی۔ بہت سی داد پیشِ خدمت ہے۔



شعر نمبر 3 اور 5 میں ٹائپو ہے اور "ز" کی جگہ "ذ" پریس ہوگیا ہے۔ اسے ٹھیک کر دیجے گا۔
 
Top