شیرازخان
محفلین
تخیل میں کوئی خنجر چلا کر کیا ملا ہم کو
کہ لفظوں کی رگوں کو پھر دُکھا کر کیا ملا ہم کو
سیاہی ہاتھ پر پھیلی، ہو جیسے آٖگ جنگل کی
قلم کی پیاس آہوں سے بجھا کر کیا ملا ہم کو
نہیں ہر کھیل قسمت کا ذرا سا حوصلہ کرنا
کہ ہر بازی مقدر کی بنا کر کیا ملا ہم کو
اگر سنسان رہنے دیں تو کچھ عبرت ہی حاصل ہو
چلو میلے بھی قبروں پر لگا کر کیا ملا ہم کو
گرے کچھ اور نظروں سے ہوئے کچھ اور بھی تنہا
کہ اپنے پیٹ سے کپڑا اُٹھا کر کیا ملا ہم کو
وہ نظریہ ء پہچاں ہی جو دب کر لُٹ گیا اپنا
تو دشمن سے یہ جسم و جاں بچا کر کیا ملا ہم کو
جنہیں بہتر طریقے سے ہزاروں نے کیا موزوں
وہ باتیں پھر سے شعروں میں بنا کر کیا ملا ہم کو
الف عین
کہ لفظوں کی رگوں کو پھر دُکھا کر کیا ملا ہم کو
سیاہی ہاتھ پر پھیلی، ہو جیسے آٖگ جنگل کی
قلم کی پیاس آہوں سے بجھا کر کیا ملا ہم کو
نہیں ہر کھیل قسمت کا ذرا سا حوصلہ کرنا
کہ ہر بازی مقدر کی بنا کر کیا ملا ہم کو
اگر سنسان رہنے دیں تو کچھ عبرت ہی حاصل ہو
چلو میلے بھی قبروں پر لگا کر کیا ملا ہم کو
گرے کچھ اور نظروں سے ہوئے کچھ اور بھی تنہا
کہ اپنے پیٹ سے کپڑا اُٹھا کر کیا ملا ہم کو
وہ نظریہ ء پہچاں ہی جو دب کر لُٹ گیا اپنا
تو دشمن سے یہ جسم و جاں بچا کر کیا ملا ہم کو
جنہیں بہتر طریقے سے ہزاروں نے کیا موزوں
وہ باتیں پھر سے شعروں میں بنا کر کیا ملا ہم کو
الف عین