تفسیر المیزان کا پیش لفظ: تفسیر القرآن در قرآن

سید ذیشان

محفلین
اس پیش لفظ میں ہم اس کتاب میں قرآن کے معنی سمجھنے کے طریقہ کار پر بحث کریں گے
۔
"التفسیر"، یعنی، قرآن کی آیات کے معانی کو سمجھانا، اس کے ماخذ کوواضح کرنا ،اور اس کی اہمیت معلوم کرنا، اسلام کی قدیم ترین علمی سرگرمیوں میں سے ایک ہے۔ قرآن کی تفسیر اس کے نزول سے ہی شروع ہو گئی تھی، جیسا کہ اللہ کے ان الفاظ سے واضح ہوتا ہے: "جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے " ( ۲:۱۵۱) [AYAH]2:151[/AYAH]



اولین مفسرین رسول ؐکے چند صحابہ تھے، جیسا کہ، ابن عباس، عبداللہ ان عمر،ابی ابن کعب وغیرہ (ہم علی کے لئے صحابی کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کا رتبہ بہت مختلف ہے-) اس زمانے میں تفسیر آیات کے ادبی پہلو، اس کے شان نزول اور کبھی کبھار ایک آیت کی تفسیر دوسری آیت سے کرنے تک محدود ہوتی تھی۔ اگر آیت کسی تاریخی واقعے کے متعلق ہوتی یا پھر اس میں آغاز تخلیق یا حیات بعد الموت کے حقائق بیان ہوتے، تو رسولؐ کی چند روایات بیان کر دی جاتیں تاکہ اس کے معانی واضح ہو جائیں۔

یہی طریقہ کار حجرت کے بعد پہلی دو صدیوں تک رہنے والےتابعینمثلاً٘ مجاہد، قتادہ، ابن ابی لیلہ، الشعبی،اسودی وغیرہ کا بھی تھا - یہ روایات کا اور بھی زیادہ استعمال کرتے تھے،جن میں وہ روایات بھی شامل تھیں جو یہودیوں نے گھڑی تھیں۔ یہ ان روایات کو پرانےقوموں کی کہانیاں ، آغازتخلیق مثلاً زمین اور آسمان کی تخلیق، دریاوں اور پہاڑوں کی تخلیق، شداد کی ارم، انبیاء کی نام نہاد کوتاہیاں، کتابوں کی تحریف وغیرہ، بیان کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے- اس طرح کی کچھ چیزیں چند صحابہ سے منسوب تفاسیر میں بھی ملتی ہیں
۔
خلفاء کے دور میں جب مسلمانوں نے ہمسایہ ممالک کو فتح کیا تو ان کا واسطہ مفتوح علاقوں کے لوگوں سے پڑا اور یہ ان کے علماء سے مذہبی مباحث میں مگن ہو گئے۔ اس طرح سے الٰہیات کی بحوث جن کو "علم الکلام" کہا جاتا ہے معرض وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ یونانی فلسفے کی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا گیا۔یہ تبدیلی پہلی صدی ہجری کے اواخر میں (اموی دور) میں شروع ہوئی اور تیسری صدی ہجری کے اواخر (یعنی عباسی دور) تک جاری رہی۔ اس سے مسلمان علماء میں عقلی اور فلسفیانہ دلائل دینے کا رواج پیدا ہوا۔
اسی دور میں معاشرے میں تصوف کا آغاز ہوا؛ اور لوگ اس کی طرف مائل ہونا شروع ہو گئےکیونکہ تصوف لوگوں کو لفظی اور عقلی پیچیدگیوں کی بجائے خودنظمی ا ور درویشانہ طریقہ کار سے دین کی آگاہی فراہم کرنے کی وعید سناتا تھا۔

اس کے علاوہ ایک گروہ ظاہر ہوا جو خود کو اہل روایت کہتے تھے اور سمجھتے تھے کہ انسان کی نجات قرآن اور حدیث کے ظاہری معنی کی پیروی کرنے میں ہے اور اس میں کسی قسم کی علمی تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔یہ زیادہ سے زیادہ الفاظ کی علمی قدر کو جانچنے کی اجازت دیتے تھے۔

چناچہ، دوسری صدی ابھی کچھ زیادہ نہیں گزری تھی کہ مسلمان معاشرہ چار مختلف گروہوں میں بٹ چکا تھا: مکلمون (علم کلام کے علماء)، فلسفی، صوفیاء اور اہل روایت۔امت میں ذہنی پراگندگی پائی جاتی تھی اوریہ اپنی سمت کھو چکے تھے۔ ان سب میں قدر مشترک صرف یہ کلمہ تھا: "لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ" اس کے علاوہ یہ ہر ایک چیز میں ایک دوسرے سے اختلاف کرتے تھے۔ اللہ کے ناموں اور صفات کی تشریح میں ایکدوسرے سے اختلاف تھا، اللہ کے عمل میں ایکدوسرے سے اختلاف رکھتے تھے؛ زمین اور آسمان کی حقیقت اور ان میں یا ان پر موجودات کی نوعیت پر بھی اختلاف تھا؛ اللہ کے حکم و فرمان پر اختلاف تھا؛اس بات پر بھی سب کی رائے مختلف تھی کہ ایا انسان اپنے اختیار میں آزاد ہے یا پھر اللہ کے ہاتھ میں ایک کھلونے کی طرح ہے؛ جزا اور سزا کے مختلف پہلووں پر بھی رائے زنی ہوتی تھی؛ برزخ ،حشر، جنت، جہنم پر رائے ایک جگہ سے دوسری جگہ گیند کی طرح اچھالی جاتی تھی۔مختصراً، کوئی ایسا مضمون نہیں بچا تھا، جو کہ مذہب سے متعلق ہو اور اس پر کسی طرح کا اختلاف نہ ہو۔ اور یہ انفراج، متوقع طور پر، قرآن کی تفاسیر میں بھی داخل ہوا۔ہر ایک گروہ اپنی رائے کو قرآن سے اخذ کرنا چاہتا تھا، اور اس کے لئے تفسیر کا استعمال کیا گیا۔

اہل روایت قرآن کوان روایات سے، جو کہ صحابہ اور تابعین سے منسوب تھیں، سمجھانا چاہتے تھے۔ جب تک روایات موجود ہوتیں یہ چلتے رہتے اور جب روایات نہ ملتیں تو یہ رک جاتے۔ یہ اس کو واحد محفوظ راستہ سمجھتے تھے، جیسا کہ اللہ نے فرمایا:۔۔۔"اور وہ جو علم میں راسخ ہیں کہتے ہیں: ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں، یہ سب کا سب ہمارےرب کی طرف سے ہے " (۳:۷)[AYAH]3:7[/AYAH]

لیکن یہ غلطی پر تھے۔اللہ نے قرآن میں ایسا نہیں فرمایا کہ عقلی دلیل کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اللہ ایسا کیسے فرماتا جب کہ قرآن کی صداقت خود عقلی دلائل پر منحصر ہے۔ دوسری طرف، اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ صحابہ یا تابعین کی رائے کو دینی شہادۃ کے طور پر مانا جا سکتا ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتا تھا جب کہ ان کی رائے میں اسقدر اختلاف تھا؟ مختصراً، اللہ نے ہمیں ایسے راستے کی طرف نہیں بلایا جس سے ہمیں متضاد باتوں کو ماننا پڑے۔ اس نے ہمیں قرآنی آیات پر غور و فکر کا حکم دیا ہے تاکہ اس سے ظاہری تضادات کا خاتمہ ہو سکے۔ اللہ نے قرآن کو ایک رہنما اور ایک نور بنا کر بھیجا ہے جو ہر شے کی توضیح ہے۔ایک روشنی کسی اور سے رہنمائی کیوں حاصل کرے؟ ایک رہنما کسی اور کی رہنمائی میں کیوں چلے؟ "ہر ایک چیز کو سمجھانے والا" کسی اور کے سمجھانے کا محتاج کیوں ہو؟

مکلمون ان سب سے بدتر تھے۔ یہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے؛ اور ہر ایک فرقہ اس آیت کیساتھ چپکا ہوتا تھا جو بظاہر ان کی رائے کی مطابق ہوتی۔ اور جو آیات ان کی رائے سے مخالف ہوتیں تو یہ ان کی ظواہر کے خلاف تاویلات کرتے۔

فرقہ وارانہ اختلافات کا بیج علمی نظریات میں بویا گیا،یا پھر، اکثر و بیشتر، اپنی قومی اور قبائلی مفادات کی اندھا دھند پیروی کی شکل میں؛ لیکن یہاں اس کو مختصراً بیان کرنے کا بھی محل نہیں ہے۔ اس طرح کی تفسیر کو تشریح کی بجائے تحریف کہا جائے گا۔ایک آیت کی تفسیر کے دو طریقے ہیں--- کوئی کہہ سکتا ہےکہ: "قرآن کیا کہتا ہے؟" یا پھروہ کہہ سکتا ہے کہ "اس آیت کی کس طرح سے تشریح کی جائے کہ یہ میرے عقیدے پر منطبق ہو جائے؟"۔ ان دو طریقوں میں فرق کافی واضح ہے۔ پہلے والا طریقہ پہلے سے اختیار کردہ ہر خیال کو بھلا دیتا ہے اور وہاں لے جاتا ہے جہاں قرآن اس کی رہنمائی کرتا ہے۔ دوسرے طریقے میں پہلے سے ہی اس بات کا تعین ہو چکا ہوتا ہے کہ کس بات پر یقین کرنا ہے۔ایسی تفسیر کوئی تفسیر نہیں ہے۔

فلسفی بھی اسی مرض میں مبتلا تھے۔ ان لوگوں کی کوشش ہوتی کہ قرآنی آیات کو یونانی فلسفے کے اصولوں پر منطبق کریں۔یہ چار شاخوں میں بٹے ہوئے تھے: ریاضی، نیچرل سائنس،الہیات اور علم شہریات۔اگر کوئی آیت صاف طور پر ان اصولوں کے خلاف ہوتی تو اس کی ظاہر کے خلاف تاویل کر دی جاتی۔اسطرح وہ آیات جو مابعدالطبیعات، کائنات کی تخلیق، زمین اور آسمان کی تخلیق ، زندگی اور موت ، حیات بعدالموت، جنت ، جہنم سے متعلق ہوتیں تو ان کو بگاڑ کر اپنے فلسفے پر منطبق کر لیا جاتا۔یہ فلسفہ مسلمہ طور پر مفروضوں کا ایک مجموعہ ہوتا تھا، کسی قسم کے ثبوت کے بغیر؛ لیکن مسلمان فلسفی اس بات پر کوئی ندامت محسوس نہیں کرتے تھے کہ آسمان کی تہوں، سیاروں کے مداروں، عناصر کی تعداد وغیرہ کو مطلق حقیقت جان کرقرآن کی آیتوں کی تفسیر کو اس پر منطبق کرتے۔

صوفیوں نے اپنی نگاہیں تخلیق کے باطنی رخ پر مرکوز کی ہوئی تھیں؛ یہ اندرونی دنیا میں اتنے مگن تھے کہ باہر کی دنیا کو نہیں دیکھ سکتے تھے۔ ان کی سرنگی نگاہیں چیزوں کوحقیقی تناظر میں دیکھنے سے مانع تھیں۔ ان کی باطن کی محبت ان کو آیات کے باطنی معانی کو دیکھنے پر مجبور کرتی تھی؛ آیت کے ظاہری معنی کو خاطر میں لائے بغیر۔ اس نے لوگوں کو ترغیب دلائی کہ تشریح کے لئے شاعری کو بنیاد بنایا جائے، اور اسطرح کسی چیز کو بھی ثابت کرنے کے کسی بھی چیز کا سہارا لیا جائے۔ حالت اتنی ابتر ہوئی کہ آیات کی تشریح الفاظ کے لئےمتعین اعدادسے کی جانے لگی؛ حروف کو خیر اور نحس میں تقسیم کیا گیا اور اس تقسیم کی بنیاد پر تشریح کی جانے لگی۔یہ ہوائی قلعے تعمیر کرنے کے مترادف تھا، ہے نا؟ صاف طور پر، قرآن صرف صوفیاء کے لیے نازل نہیں کیا گیا، اور نا ہی یہ صرف ان کو مخاطب کرتا تھا جو کہ حروف کے لئے متعین اعدادکے نظام سے واقف تھے؛ اور نہ ہی اس کے حقائق علم نجوم کے حساب پر مبنی تھے۔

بلا شبہ، حضورؐ اور اہلبیت سے ایسی روایات مروی ہیں مثلا: "بیشک قرآن کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن، اور اس کا ایک اور باطن، اسطرح سے سات درجے (بعض روایات میں ستر کا عدد آیا ہے) ہیں۔" لیکن حضورؐ اور آئمہ نے اس کے ظاہر کو اتنی ہی اہمیت دی جتنی کہ باطن کو؛ وہ اس کی نزول کا اتنا ہی پاس رکھتے تھے جتنا کہ اس کی تشریح کا۔ ہم سورۃ آل عمران کے شروع میں اس بات کی وضاحت کریں گے کہ تفسیر آیت کی ظاہری معانی کے خلاف تشریح نہیں ہے۔ ایسی تفسیر کوتحریف کہنا چاہیے۔تفسیر کے یہ معانی قرآن کے نزول اور اسلام کے پھیلنے کے بہت بعد مسلمانوں میں رائج ہوئے۔ قرآن تفسیر کے بارے میں کیا کہتا ہے، وہ معانی اور اہمیت کے علاوہ کچھ اور ہے۔

جدید دور میں تفسیر کا ایک نیا طریقہ کار رائج ہوا ہے۔ کچھ لوگ،قیاساً مسلمان،جو کہ نیچرل سائنس سے بہت متاثر تھے جو کہ تجربات اور مشاہدات پر مبنی ہے،اور سماجی سائنس، جو کہ دلائل پر مبنی ہے، انہوں نے یورپ کے مادہ پرستوں کی پیروی کی۔ ان غیر اسلامی نظریات کے اثر میں آ کر انہوں نے کہاکہ دینی حقائق سائنسی علوم کےبرخلاف نہیں جا سکتے؛ کوئی بھی اس پر ایمان نہیں رکھ سکتا جو کہ حواس خمسہ نہ محسوس کر سکیں؛ مادہ اور اس کے خاصیات کے علاوہ کچھ بھی وجود نہیں رکھتا۔دین جس چیز کو حقیقت قرار دیتا ہے۔۔ لیکن سائنس اس کو نہیں مانتی۔۔جیسا کہ عرش،کرسی،لوح،قلم--ان کی اسطرح سے تشریح کی جائے جو سائنس کے مطابق ہو؛ جہاں تک ان چیزوں کا تعلق ہے جس کے بارے میں سائنس خاموش ہے۔ جیسا کہ حیات بعد الموت وغیرہ، ان کو مادی قوانین کے مطابق ڈھالنا ہو گا؛ وہ ستون جو خدائی دین کے قوانین کی بنیاد ہیں--مثلا٘ وحی،فرشتے،شیطان،رسالت،نبوت،امامت وغیرہ۔۔۔روحانی چیزیں ہیں اور روح مادہ کی ارتقا ہےیا پھر مادہ کی ایک خاصیت؛ ان قوانین کا مرتب کرنا ایک خاص معاشرتی ذکاوت کا انعکاس ہے، جو ان کو صحت مندانہ غور و خوض کے بعد جاری کرتا ہے، جو کہ ایک اچھے اور ترقی یافتہ معاشرے کو پیدا کر سکے۔

یہ لوگ مزید کہتے ہیں: روایات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ ان میں بہت ساری جعلی ہیں؛ صرف ان روایات پر اعتبار کیا جا سکتا ہے جو قرآن کے مطابق ہیں۔جہاں تک قرآن کی بات ہے تو اس کو پرانے نظریات کی بنیاد پر تشریح نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ وہ مشاہدات اور تجربات پر مبنی نہیں تھے۔۔۔ وہ ایک قسم کی ذہنی مشقیں تھیں،جس کو جدید سائنس نے مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ سب سے بہتر، بلکہ واحد درست طریقہ یہ ہے کہ قرآن کی آیات کی تشریح قرآن کی آیات سے ہی کی جائے، سوائے اس کے جہاں سائنس کی اس بارے میں کوئی رائے ہو۔

مختصراً، یہ سب وہ باتیں ہیں جو انہوں نے لکھی ہیں یا مشاہدات اور تجربات کے انحصار کی وجہ سے جو باتیں سامنے آتی ہیں۔ہمیں اس بات سے یہاں سروکار نہیں کہ کیا ان کےسائنسی نظریات کو قرآن کی تفسیر کے لئے بنیاد قرار دیا جا سکتا ہے-لیکن یہاں ایک بات کی نشاندہی ضروری ہے کہ وہ اعتراضات جو انہوں نے قدیم مفسرین پر اٹھائے ہیں--کہ انہوں نے تفسیر نہیں بلکہ اپنی مرضی کی تشریحات کی ہیں-- ان کے اپنے طریقہ کار پر بھی مکمل طور پر لاگو ہوتے ہیں؛ یہ بھی یہی کہتے ہیں کہ قرآن اور اس میں بیان کردہ حقائق کو سائنسی نظریات کے مطابق ڈھالیں۔اگر ایسا نہیں ہے تو یہ اس بات پر کیوں مصر ہیں کہ علمی نظریات کو تفسیر کی بنیاد بنایا جائے جس سے ان کو کوئی اختلاف قبول نہیں ہے۔

یہ طریقہ پرانے غلط طریقوں میں کوئی بہتری نہیں لاتا۔

اگرتفسیر کے مذکورہ طریقوں پر نظر ڈالی جائے توان سب میں ایک مشترکہ خرابی ہے: یہ اپنی فلسفیانہ اور علمی نظریات کو قرآن کے معانی پر ٹھونستے ہیں، یہ قرآن کو خارجی نظریات کا تابع بناتے ہیں۔ اسطرح تفسیر اختراع بن جاتی ہے، قرآن کے حقائق کوتشبیحات سے غلط معنی دئے جاتے ہیں اور اصل معانی فوت ہو جاتے ہیں۔

جیسا کہ ہم نے ابتدا میں کہا کہ قرآن اپنے آپ کو "تمام دنیاوں کے لئے ہدایت"( ۳:۹۶)[AYAH]3:96[/AYAH]؛ "ظاہر روشنی"(۴:۱۷۴)[AYAH]4:174[/AYAH]؛"ہر شے کا بیان" (۱۶:۸۹)[AYAH]16:89[/AYAH]کے طور پر متعارف کراتا ہے-لیکن یہ لوگ، قرآن کے ان بیانات کے خلاف، اس کی خارجی عناصر سے رہنمائی کرتے ہیں، اس کو خارجی نظریات سے روشن کرتے ہیں، اور اس کی اپنے علاوہ کچھ اور زریعےسے وضاحت کرتے ہیں۔یہ "کچھ اور" کیا ہے؟ اسے کس نے بالا دستی عطا کی ہے؟ اور اگر کسی آیت کی مختلف تشریحات میں اختلافات ہوں۔۔۔اور بہت ہی شدید قسم کے اختلافات موجود ہیں۔۔۔پھرقرآن کس ثالث کی طرف رجوع کرے گا؟

قرآن کی تشریحات میں اختلافات کی اصل کیا ہے؟ یہ اختلافات الفاظ یا جملوں کے معنی ٘میں اختلاف کی وجہ سے نہیں ہو سکتے۔قرآن کو صاف عربی میں بھیجا گیا ہے۔کوئی بھی عرب، یا غیر عرب جو عربی زبان سے واقف ہو، اس کو سمجھنے میں مشکل سے دوچار نہیں ہو سکتا۔

چھ ہزار سے زائد آیات میں سے کوئی ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے جو کہ عقدہ ہو، مبہم ہو، یا اپنے مفہو٘م میں دشوار ہو؛ اور ایک بھی ایسا جملہ نہیں ہے جس کے معنی تلاش کرنے میں انسانی ذہن کو دقت ہو۔آخر کار قرآن،مسلم طور پر، فصیح ترین کلام ہے۔اور یہ فصاحت کے ضروری اجزا میں سے ہے کہ تقریر میں کوئی ابہام یا شبہ نہ ہو۔

حتٰی کہ وہ آیات جن کو متشابہات کہا جاتا ہے، ان کے معانی میں کوئی ابہام نہیں ہے؛ جہاں پر ابہام ہے وہ اس شخص یا گروہ کی پہچان ہے کہ جن کی طرف وہ آیت اشارہ کرتی ہے۔اس بات کی کچھ وضاحت ضروری ہے:
اس دنیا میں ہمیں ہر طرف سے مادہ نے گھیرا ہوا ہے؛ حتی کہ ہمارے حواس کابھی اس سے گہرا تعلق ہے۔ مادہ اور مادیت سے اس قدر مانوسیت نے ہماری سوچ پر بھی اثر ڈالا ہے۔ جب ہم کوئی لفظ یا جملہ سنتے ہیں تو ہمارا ذہن اس کے مادی معنی کی طرف دوڑتا ہے۔ مثلاً جب ہم زندگی، علم، قوت، سماعت، بصارت، گویائی، ارادہ، لذت، غصہ،تخلیق اور حکم جیسے الفاظ سنتے ہیں تو فوراً٘ ہمارا ذہن ان کی مادی تجلی کی طرف جاتا ہے۔ اسی طرح جب ہم آسمان، زمین،لوح،قلم،عرش،کرسی،فرشتے اور ان کے پر،شیطان اور اس کا قبیلہ اور فوج جیسے الفاظ سنتے ہیں تو ہمارا ذہن ان الفاظ کی مادی تجلی کی طرف جاتا ہے۔
اسی طرح جب ہم یہ جملے سنتےہیں ،"اللہ نے کائنات بنائی"، "اللہ نے یہ کیا"، "اللہ جانتا تھا"،"اللہ نے اس کا رادہ کیا"، یا "ارادہ کرتا ہے"، ہم ان سب افعال کو "وقت"کے قالب میں دیکھتے ہیں، کیونکہ ہم ہر فعل کو زمانے کیساتھ جوڑتے ہیں۔
اسی طرح جب ہم یہ آیات سنتے ہیں:۔۔"اور ہمارے پاس اور بھی زیادہ ہے"(۵۰:۳۵)[AYAH]5:35[/AYAH]،۔۔۔"اور ہم اپنے پاس ہی بناتے"(۲۱:۱۷)[AYAH]21:17[/AYAH]،۔۔۔"اور اس کی طرف تمہیں واپس لایا جائے گا "(۲:۲۸)[AYAH]2:28[/AYAH]، ہم اللہ کے وجود کیساتھ"جگہ" کی نسبت دیتے ہیں، کیونکہ ہمارے ذہن میں یہ دونوں خیالات ایکدوسرے سے الگ نہیں ہو سکتے۔
اسی طرح، یہ آیات پڑھنے کے بعد: "جب ہم کسی شہر کو تباہ کرنے کا اردہ کرتے ہیں"(۱۷:۱۶)[AYAH]17:16[/AYAH]، "جب ہم کسی پر اپنا انعام نازل کرنے کا رادہ کرتے ہیں۔۔"(۲۸:۵)[AYAH]28:5[/AYAH]،"اور اللہ تمارے لئے آسانی چاہتا ہے"(۲:۱۲۸)[AYAH]2:128[/AYAH]، ہم یہ سوچتے ہیں کہ "ارادہ" کے ہر جملے میں ایک ہی معنی ہیں، جیسا کہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے ہمارا اپنا قصد یا نیت۔
اس طرح ہم جانے پہچانے معنی، جو کی اکثر مادی ہوتے ہیں، کی طرف چھلانگ لگاتے ہیں۔ اور یہ قدرتی بھی ہے۔ انسان نے اپنی معاشرتی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے الفاظ بنائے ہیں، اور معاشرہ انسان کی مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے بنایا گیا۔تعجب نہیں ہے کہ الفاظ، ان چیزوں کی علامات بن گئے جن سے انسان مربوط تھے اور جنہوں نے اس کی مادی ترقی میں مدد کی۔
لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مادی چیزیں مسلسل تبدیل ہو رہی ہیں اور انسان کی ترقی کیساتھ ترقی پزیر ہیں۔ انسان نے چراغ کا نام ایک ایسے برتن کو دیا جس میں وہ ایک بتی لگاتا ہے اور کچھ چربی ڈال دیتا ہے، یہ چربی اس بتی کو روشن رکھتی ہے اور یہ روشنی تاریک جگہوں کو منور کرتی ہے۔ یہ آلہ اب تبدیل ہوتے ہوتے برقی بلب کی صورت اختیار کر گیا ہے؛ بتی کے نام کے سوا چراغ کی کوئی بھی چیز اس بلب میں نہیں پائی جاتی۔
اسی طرح پرانے زمانے کے وزن ناپنے کے ترازو اور آج کل کے آلات میں بھی کچھ مشترک نہیں ہے؛ لیکن نام تبدیل نہیں ہوا۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی چیز سے اس کے نام کا بنیادی تعلق اس کی شکل و صورت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد اور افادیت ہے۔
انسان، اپنی عادات اور رہن سہن میں جکڑا ہوا ہے، اکثر وہ اس حقیقت کو نہیں دیکھ پاتا۔ یہی وجہ ہے حشاویہ اور وہ لوگ جو کہ خدا کی تجسیم کے قائل ہیں، قرآن کی آیات کو مادہ اور نیچر کے قالب میں تفسیر کرتے ہیں۔ اصل میں وہ اپنی عادت اور الفاظ کے استعمال میں جکڑے ہوئے ہیں، ناکہ قرآن کے ظواہر اور روایات میں۔ اگرچہ قرآن کے ظاہری معنی میں بھی ہمیں کافی شواہد ملتے ہیں کہ اپنی عادات اوراطوار کے مطابق خدا کے کلام کی تفسیر کرنے سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ مثلا، اللہ نے فرمایا: "کوئی چیز اس کے مثل کے مشابہ نہیں ہے "(۴۲:۱۱)[AYAH]42:11[/AYAH]؛ "نظریں اس کو نہیں جانچ سکتی اور وہ سب نظروں کو جانچ سکتا ہے ، اور وہ حکمت والا اور خبردار ہے"( ۶:۷۳)[AYAH]6:73[/AYAH]؛ "اللہ پاک ہے اس سے جو یہ بیان کرتے ہیں"(۲۳:۹۱)[AYAH]23:91[/AYAH]۔ یہ آیات واضح طور پر بتاتی ہیں کہ ہمیں جن چیزوں کے عادت ہے ان کو اللہ کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا۔
یہ وہ حقیقت تھی جس کی وجہ سے لوگوں نے یہ جانا کہ وہ قرآن کے الفاظ کو عام فہم معانی کیساتھ منسوب نہیں کر سکتے۔ یہ ایک قدم آگے گئے، انہوں نے منطق اور فلسفہ کے استدلال سے امداد لی تاکہ یہ کوتاہیوں سے بچ سکیں۔اس طرح قرآن کی تفسیر کے لئے علمی راستہ قائم ہوا اور اس سے ان اشخاص یا گروہوں کی شناخت میں مدد ملی جن کی طرف قرآن میں اشارہ ہو سکتا تھا۔ اس میں دو طرح کے استدلال ممکن ہیں:
ا- مفسر ،قرآن کے ایک جملے سے اٹھنے والے معمے کو اٹھاتا ہے، اس کو علمی اور فلسفیانہ انداز میں پرکھتا ہےاور اس کے حل کا تعین کر لیتا ہے۔ اسطرح وہ ایک آیت کو لے کر اسی معانی پر منطبق کرتا ہے جو وہ سمجھتا ہے کہ درست حل ہے۔
مسلمان فلسفیوں اور مکلمون نے اس طریقے کو اپنایا ہے۔ لیکن جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے قرآن اس طریقے کو صحیح نہیں گردانتا۔
ب- مفسر اس آیت کو دوسری متعلقہ آیات کے ذریعے تشریح کرتا ہے، ان سب پر ایک ساتھ غور کرتا ہے۔۔۔اور غور کرنے پر قرآن ہی میں کافی زور دیا گیا ہے۔۔۔ اور اس شخص یا چیز کی اس کی خاصیت یا صفات سے شناخت کرتا ہے۔
بیشک یہی قرآن کی تفسیر کا واحد درست طریقہ ہے۔
اللہ نے فرمایا: "اور ہم نے یہ کتاب تم پر ناذل کی ہے جس میں ہر چیز کا کافی بیان ہے"(۱۶:۸۹)[AYAH]16:89[/AYAH] تو کیا ایسی کتاب کے لئے ممکن ہے کہ وہ خود اپنی وضاحت نہ کرے؟ اور یہ بھی فرمایا: "۔۔تمام انسانیت کے لئے ہدایت اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں تمیز کرنے والا ہے۔۔۔"(۲:۱۸۵)[AYAH]2:185[/AYAH] اور یہ بھی فرمایا: "--اور ہم نے تمہاری طرف ایک ظاہر روشنی اتاری ہے" (۴:۱۷۴)[AYAH]4:174[/AYAH]- قرآن ایک ہدایت ہے، ایک دلیل ہے،حق و باطل میں تمیز کرنے والا ہے اور ایک ظاہر روشنی ہے۔ کیا یہ سوچا بھی جا سکتا ہے کہ یہ اپنے معاملے میں ہی ان کی ہدایت نہیں کرے گا، جب کہ یہ ان کی سب سے اہم ضرورت ہے؟
پھر اللہ نے فرمایا:
"وہ لوگ جو ہمارے لئے جدوجہد کرتے ہیں، انکو ہم ضرور اپنے راستے کی طرف ہدایت کریں گے" (۲۹:۶۹) [AYAH]29:69[/AYAH]کون سی جدوجہد اس کی اپنی کتاب کے سمجھنے کے لئے کی گئی جدوجہد سے بہتر ہے؟اور قرآن سے زیادہ سیدھا راستہ کونسا ہے؟
ان مطالب کی آیات بہت زیادہ ہیں، اور ہم ان کو سورۃ آل عمران کے شروع میں تفصیل سے دیکھیں گے۔
اللہ نے اپنے رسولً کو قرآن سکھایا اور ان کو اس کتاب کا استاد مقرر کیا:"اس کو ایک امانت دار فرشتہ لے کر آیا ہے تاکہ تم ڈرانے والوں میں سے ہو" (۲۶:۱۹۳) [AYAH]26:193-4[/AYAH]؛ " اور ہم نے تیری طرف قرآن نازل کیا تاکہ لوگو ں کے لیے واضح کر دے جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے اور تاکہ وہ سوچیں" ( ۱۶:۴۴)؛[AYAH]16:44[/AYAH]۔۔"-- ایک رسول انہیں میں سے مبعوث فرمایا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے--"(۶۲:۲) [AYAH]62:2[/AYAH]اور رسولً نے اپنی اہل بیت کو اپنے بعد اس بات پر مامور کیا کہ وہ ان کا کام آگے بڑھائیں۔ یہ بات اس متفق الیہ حدیث سے ظاہر ہوتی ہے:
"میں تم میں دو وزنی چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں؛ جب تک ان کو تھامے رہو گےکبھی گمراہ نہیں ہوگے: اللہ کی کتاب اور میری ذریت، میریے اہل بیت؛ اور یہ دونوں ایک دوسرے سے کبھی جدا نہیں ہوں گے حتٰی کہ یہ مجھ سے حوض کوثر پر نہیں ملتے۔"
اور اللہ نے ان دو آیتوں میں اس کو کنفرم کیا ہے، کہ اہل بیت کے پاس کتاب کا اصل علم ہے:
"---اللہ یہی چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور رکھے، اے اہل بیت، اور تمہیں پاکیزہ طہارت دے " (۳۳:۳۳)[AYAH]33:33[/AYAH]؛ "کہ بیشک یہ قرآن بڑی شان والا ہے۔ ایک پوشیدہ کتاب میں لکھا ہوا ہے۔جسے بغیر پاک لوگوں کے اور کوئی نہیں چھو سکتا"(۵۶:۷۷-۷۹)[AYAH]56:77-79[/AYAH]
اور رسول ً اور آئمہ اہل بیت نے ہمیشہ قرآن کی تفسیر کا دوسرا طریقہ استعمال کیا۔ جیسا کہ قرآن کی تفسیر پر انکی روایات میں دیکھا جا سکتا ہے۔ہمیں ایسی ایک بھی مثال نہیں ملتی جہاں انہوں نے کسی علمی نظرئیے یا فلسفیانہ مفروضوں کی بنا پر کسی آیت کی تفسیر کی ہو۔
رسول ًنے ایک خطبہ میں ارشاد فرمایا:
"لہٰذا جب خسارہ تمہارے ذہنوں کو پراگندہ کرنے کے لئے آئے جیسے کہ رات کے مختلف پہر، تب قرآن کو مضبوطی سے تھام لو؛ کیونکہ یہ وہ وسیلہ ہے جس کو وسیلہ عطا کیا جائے گا، اور یہ ایک قابل اعتماد وکالت کرنے والا ہے؛ اور جو بھی اس کو اپنے سامنے رکھے گا؛ یہ اس کو جنت کی طرف لے جائے گا؛ اور جو اس کو اپنے پیچھے رکھے گا؛ یہ اس کو آگ کی طرف لے جائے گا؛ اور یہ وہ ہدایت کرنے والا ہے جو بہترین راستے کی طرف ہدایت کرتا ہے؛ یہ وہ کتاب ہے جس میں توضیع ،تخصیص اور تکرار ہے؛ اور یہ محکم ہے، اور مذاق نہیں ہے؛ اس کے صریح معنی بھی ہیں اور باطنی بھی؛ پس اس کے ظاہری معنی ٹھوس اور باطنی معنی علم ہیں؛ اس کا ظاہر خوبصورت اور باطن گہرا ہے؛ اور اس کی بہت ساری سرحدیں ہیں؛ اور اس کی سرحدوں کی بھی کئی سرحدیں ہیں؛ اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے، اور اس کے معجزات کبھی پرانے نہیں ہونگے۔اس میں ہدایت کے چراغ اورحکمت کے نور کے مینارے ہیں، اور یہ اس کے لئے ہدایت ہے جس کو صفات کا علم ہے؛ پس، ہر ایک کو اپنی نظر وسیع کرنی چاہئے؛ اور اپنی آنکھوں کو ان صفات کی طرف پہنچانا چاہیے کیونکہ اگر کوئی تباہی میں گھرا ہے تو اس کو نجات مہیا ہو، اور جو کوئی جکڑا ہو تو اسے آزادی میسر آئے۔چونکہ غور و فکر دیکھنے والے کے دل کی زندگی ہے ، ایسے ہی جیسے کسی کے پاس روشنی ہو تو وہ اندھیرے میں بہت آسانی سے چل سکتا ہے؛ اس لئے تم کو اچھی آزادی کی طلب کرنی چاہئے کچھ صبر کیساتھ۔"
علی نے قرآن کے بارے میں ایک خطبے میں فرمایا:"---اس کا ایک حصہ دوسرے کیساتھ گفتگو کرتا ہے، اور ایک حصہ دوسرے کی گواہی دیتا ہے۔--"
یہ وہ سیدھا راستہ ہے جو کہ قرآن کے اساتذہ نے استعمال کیا، ان تمام پر اللہ کا سلام ہو-
ہم مختلف عنوانات کے تحت اس بابت لکھیں گے کہ تفسیر کے اس طریقے کے استعمال کی وجہ سے اللہ نے ان مقدس آیات کے زریعے ہمیں کس فہم سے روشناس کرایا ہے- ہم نے تفسیر کو کسی علمی، فلسفیانہ یا باطنی نظرئیے کی بنیاد پر نہیں کیا۔

ہم نے اس میں کسی قسم کا بیرونی مواد داخل نہیں کیا بجز چند ایک علمی نکات کے جو عربی فصاحت اور اس کی سمجھ بوجھ کے لئے ضروری ہیں، لیکن یہ ایس چیزیں ہیں کہ جن کی سمجھ ہر ایک کو آسانی سے آ سکتی ہے۔
مذکورہ طریقہ کار کو استعمال کرنے کے بعد یہ چیزیں بالکل کھل گئی ہیں:
۱۔ وہ معاملات جن کا تعلق اللہ کے ناموں، اس کے صفات، اس کی زندگی، علم، قوت،سماعت،بصارت،اور وحدانیت وغیرہ سے متعلق ہیں۔ جہاں تک اللہ کی جسمانیت کا تعلق ہے تو آپ یہ دیکھیں گے کہ قرآن کے مطابق اللہ کی ایسی کوئی توضیح ممکن نہیں ہے۔
۲-اللہ کے افعال مثلاً تخلیق کائنات،حکم، ارادہ،خوہش،ہدایت،گمراہی،فرمان،جبر،قدر،خوشی،خفگی اور اسی طرح کے مزید افعال۔
۳-اللہ اور انسان کے بیچ کے معاملات یعنی پردہ،لوح،قلم،عرش،کرسی آسمان، زمین، فرشتے، شیطان، جن وغیرہ۔
۴-انسان کی دنیا میں آنے سے پہلے کی تفصیلات۔
۵-وہ تمام معاملات جو انسان کو زندگی میں درپیش ہوتے ہیں، جیسا کہ انسانیت کی تاریخ، نفس کا علم، معاشرت کی بنیاد،رسالت اور نبوت، وحی، القا،کتاب اور مذہب اور قانون۔ رسولوں کا اعلٰی مرتبہ، اور ان کی کہانیاں۔
۶-انسان کی اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کا علم، یعنی برزخ۔
۷- انسان کے کردار کے معاملات۔ اس عنوان کے ذیل میں اللہ کے دوست ان کی روحانی سلوک میں جن منزلوں سے گزرتے ہیں جیسا کہ: اسلام،ایمان،فیض،انکساری،اخلاص اور دیگر اچھائیاں۔
(ہم نے شرعی قوانین پر تفصیلی بحث نہیں کی کیونکہ یہ موضوع اصول فقہ کی کتب کے لئے زیادہ موزوں ہے۔)
اس طریقہ کار کے بلاواسطہ نتیجے کے طور پر، ہمیں کبھی کسی بھی آیت کو اس کے ظاہری معنی کے خلاف تشریح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ تفسیر نہیں بلکہ اختراع ہے۔۔
تفسیر کے آخر میں ہم نے رسول ً اور اہل بیت کی کچھ روایات درج کی ہیں جو کہ سنی اور شیعہ راویوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔لیکن ہم نے صحابہ اور تابعین کی رائے کو شامل نہیں کیا ہے، چونکہ، اولاً ان میں آپس میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثانیاً، ان کی رائے کو اسلام میں سند کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
ان روایات کو دیکھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ کہ تفسیر کا یہ نیا طریقہ کار دراصل سب سے پرانا طریقہ ہے جو کہ قرآن کے اساتذہ استعمال کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ہم نے الگ سے کئی مضامین پر تحاریر مرتب کی ہیں جہاں ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فلسفیانہ، علمی،تاریخی،معاشرتی اور اخلاقی۔ ایسی تمام ابحاث میں ہم نے خود کو صرف بنیادی باتوں تک محدود رکھا ہے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں، جو عظیم ہے،کہ ہمیں ہدایت دے اور ہماری تحریر کو اپنے نقطے پر رکھے۔ وہ بہترین ناصر اور بہترین ہدایت کرنے والا ہے۔

اللہ پر منحصر
محمد حسین الطباطبائی
 

نایاب

لائبریرین
بہت شکریہ محترم سید ذیشان بھائی
بہت وقت و محنت صرف ہوا ہوگا یقینا اس ترجمے پر
اللہ آپ کو بہترین جزا سے نوازے آمین
 

سید ذیشان

محفلین
مکمل حوالہ دے دیا کریں۔ کیا مکمل تفسیر کی فائل بھی موجود ہے؟؟؟


یہ میں نے انگریزی سے ترجمہ کیا ہے۔
مکمل تفسیر تو عربی اور فارسی میں انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ انگریزی کی بھی کچھ جلدیں موجود ہیں۔
میں نے اس فائل سے ترجمہ کیا ہے
 
جزاک اللہ بھائی جان
بہت خوب ترجمہ کیا ہے آپ نے اس سے ہم جیسے لوگوں کو سیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔اللہ آپ کو مزید ہمت اور حوصلہ دے۔بھائی جان آپ نے جو ربط دیا ہے اس میں انگریزی والا کھل نہیں رہا کیا آپ مجھے اس کی کاپی ذاتی مراسلہ میں بھیج سکتے ہیں؟
 
ترجمے کی حد تک لائق تحسین کام ہے۔ اس کے لئے داد۔

باقی میرے خیال میں اس میں بحث کے لائق کچھ بھی نہیں تھا۔ :)
اور دنیا کے نوے فی صد مسلمان نہ تو اس طریقے پر چلتے ہیں نہ اس سے کسی ملتے جلتے طریقوں پر۔ اصل طریقہ وہی ہے جس پر امت جمع ہے۔ اور سب عمل پیرا ہیں۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
۷- انسان کے کردار کے معاملات۔ اس عنوان کے ذیل میں اللہ کے دوست ان کی روحانی سلوک میں جن منزلوں سے گزرتے ہیں جیسا کہ: اسلام،ایمان،فیض،انکساری،اخلاص اور دیگر اچھائیاں۔
(ہم نے شرعی قوانین پر تفصیلی بحث نہیں کی کیونکہ یہ موضوع اصول فقہ کی کتب کے لئے زیادہ موزوں ہے۔)
اس طریقہ کار کے بلاواسطہ نتیجے کے طور پر، ہمیں کبھی کسی بھی آیت کو اس کے ظاہری معنی کے خلاف تشریح کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی۔ جیسا کہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ یہ تفسیر نہیں بلکہ اختراع ہے۔۔
تفسیر کے آخر میں ہم نے رسول ً اور اہل بیت کی کچھ روایات درج کی ہیں جو کہ سنی اور شیعہ راویوں سے ہم تک پہنچی ہیں۔لیکن ہم نے صحابہ اور تابعین کی رائے کو شامل نہیں کیا ہے، چونکہ، اولاً ان میں آپس میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ ثانیاً، ان کی رائے کو اسلام میں سند کی حیثیت حاصل نہیں ہے۔
ان روایات کو دیکھنے کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ کہ تفسیر کا یہ نیا طریقہ کار دراصل سب سے پرانا طریقہ ہے جو کہ قرآن کے اساتذہ استعمال کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ہم نے الگ سے کئی مضامین پر تحاریر مرتب کی ہیں جہاں ان کی ضرورت محسوس ہوئی۔ فلسفیانہ، علمی،تاریخی،معاشرتی اور اخلاقی۔ ایسی تمام ابحاث میں ہم نے خود کو صرف بنیادی باتوں تک محدود رکھا ہے۔
 

سید ذیشان

محفلین
جزاک اللہ بھائی جان
بہت خوب ترجمہ کیا ہے آپ نے اس سے ہم جیسے لوگوں کو سیکھنے کا بھی موقع ملتا ہے ۔اللہ آپ کو مزید ہمت اور حوصلہ دے۔بھائی جان آپ نے جو ربط دیا ہے اس میں انگریزی والا کھل نہیں رہا کیا آپ مجھے اس کی کاپی ذاتی مراسلہ میں بھیج سکتے ہیں؟



پسند کرنے کا شکریہ سب احباب کا۔
 

سید ذیشان

محفلین
ترجمے کی حد تک لائق تحسین کام ہے۔ اس کے لئے داد۔

باقی میرے خیال میں اس میں بحث کے لائق کچھ بھی نہیں تھا۔ :)
اور دنیا کے نوے فی صد مسلمان نہ تو اس طریقے پر چلتے ہیں نہ اس سے کسی ملتے جلتے طریقوں پر۔ اصل طریقہ وہی ہے جس پر امت جمع ہے۔ اور سب عمل پیرا ہیں۔


آپ کی داد کا شکریہ۔

جہاں تک دوسری بات کا تعلق ہے تو آپ کے "خیالات" سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ :)
 

اکمل زیدی

محفلین
۔
جیسا کہ ہم نے تم میں ایک رسول تم ہی میں سے بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں سکھاتا ہے جو تم نہیں جانتے تھے
...پھر کہا جاتا ہے رسول امی ( انپڑہ تھے )...
۔۔


ہم علی کے لئے صحابی کا لفظ استعمال نہیں کرتے کیونکہ ان کا رتبہ بہت مختلف ہے
کیلریفکشن غیر ضروری لگی وہ بھی ابتدا میں بلکل ...

ہجرت
ہر ایک گروہ اپنی رائے کو قرآن سے اخذ کرنا چاہتا تھا، اور اس کے لئے تفسیر کا استعمال کیا گیا۔
صورت حال آج بھی وہی ہے ...

یہ مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے تھے؛ اور ہر ایک فرقہ اس آیت کیساتھ چپکا ہوتا تھا جو بظاہر ان کی رائے کی مطابق ہوتی۔ اور جو آیات ان کی رائے سے مخالف ہوتیں تو یہ ان کی ظواہر کے خلاف تاویلات کرتے۔

فرقہ وارانہ اختلافات کا بیج علمی نظریات میں بویا گیا،یا پھر، اکثر و بیشتر، اپنی قومی اور قبائلی مفادات کی اندھا دھند پیروی کی شکل میں؛ لیکن یہاں اس کو مختصراً بیان کرنے کا بھی محل نہیں ہے۔ اس طرح کی تفسیر کو تشریح کی بجائے تحریف کہا جائے گا۔
بلکل صحیح ...متفق ...ایسا ہی ہے ...
چھ ہزار سے زائد آیات میں سے کوئی ایک بھی آیت ایسی نہیں ہے جو کہ عقدہ ہو، مبہم ہو، یا اپنے مفہو٘م میں دشوار ہو؛ اور ایک بھی ایسا جملہ نہیں ہے جس کے معنی تلاش کرنے میں انسانی ذہن کو دقت ہو
.یہ تو محکم آیتوں کی بات ہوگئی .....متشابہ آیات کے بارے میں کیا کہینگے ؟؟
اگر کسی آیت کی مختلف تشریحات میں اختلافات ہوں۔۔۔اور بہت ہی شدید قسم کے اختلافات موجود ہیں۔۔۔پھرقرآن کس ثالث کی طرف رجوع کرے گا؟
؟؟
حتٰی کہ وہ آیات جن کو متشابہات کہا جاتا ہے، ان کے معانی میں کوئی ابہام نہیں ہے؛ جہاں پر ابہام ہے وہ اس شخص یا گروہ کی پہچان ہے کہ جن کی طرف وہ آیت اشارہ کرتی ہے۔
ان اشاروں کی تشریح کون کرے اور دوسرا کیسے تسلیم کرے ..بات پھر وہیں آگئی نا ..
 

سید ذیشان

محفلین
۔

...پھر کہا جاتا ہے رسول امی ( انپڑہ تھے )...
۔۔



کیلریفکشن غیر ضروری لگی وہ بھی ابتدا میں بلکل ...


ہجرت

صورت حال آج بھی وہی ہے ...


بلکل صحیح ...متفق ...ایسا ہی ہے ...

.یہ تو محکم آیتوں کی بات ہوگئی .....متشابہ آیات کے بارے میں کیا کہینگے ؟؟

؟؟

ان اشاروں کی تشریح کون کرے اور دوسرا کیسے تسلیم کرے ..بات پھر وہیں آگئی نا ..

اس ترجمے کو یہاں پیش کرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ تاریخ میں کی گئی مختلف تفاسیر کا ایک جائزہ پیش کرتا ہے۔ اور قرآن ہی سے قرآن کی تفسیر کرنے کا طریقہ کار بیان کرتا ہے۔

جہاں تک بات محکم اور متاشبہ آیات کی ہے تو مصنف کے مطابق ان کے معانی کو جاننے میں کوئی دشواری نہیں ہے۔ اس کے بارے میں تفصیل اسی تفسیر کے متن میں موجود ہے۔ لیکن وہ سب انگریزی میں ہے، جبکہ یونیکوڈ اردو میں اس کا متن موجود نہیں ہے۔

مزید یہ کہ، روایات کو مصنف نے بالکل رد نہیں کیا ہے، سنی اور شیعہ دونوں طریق کی روایات ہر متعلقہ آیت کی تفسیر میں موجود ہیں، لیکن ان روایات سے آیات کے معانی اخذ کرنے میں مدد نہیں لی گئی، اس کام کے لئے دیگر قرآنی آیات کا سہارا لیا گیاہے۔
 
Top