مجھے شدید رنج ہوتا ہے جب میں ایک نظریاتی ، سیاسی اختلاف پر مبنی کسی بحث پر انانیت اور تعصب کو ملک و قوم کی بقاء کےاولین ترجیحات پر حاوی ہوتا ہوا دیکھتا ہوں ۔ ہم مسلسل کئی صدیوں سے اپنے ہی پہلوؤں میں خنجر سے وار کرر ہے ہیں ۔ ہماری ساری تاریخ اسی طرح کے تعصب ، نفرت ، کھینچا تانی ، کدورتوں سے بھری پڑی ہے ۔ اور یہی حال مذہبی گروہوں کا بھی ہے ۔ جہاں ایک بھائی نے دوسرے بھائی کا سر کاٹا ۔ اقتدار کے خاطر دشمنوں کو اپنی صفوں میں گھسنے دیا ، اپنی انانیت اور غرور کا سر بلند کرنے کے لیئے اپنے ہی گھروں میں آگ لگائی ۔ جنگِ صفین سے لیکر آج کے خود کش حملوں تک ساری سیاسی بساط کا انحصار اپنے ہی لوگوں کی گردنیں کاٹنے پر مقدم ہے ۔ ہم اتنے اندھے اور بے حس ہوچکے ہیں کہ کسی سے کسی قسم کی بھی مخالفت ہو ہماری اولین ترجیح یہی ہوتی ہے کہ کس طرح ہم اپنی بات کو صحیح ثابت کریں اور سامنے والے کو ذلیل و رسواء کریں ۔ اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں کہ ہماری انانیت کے اس بت سے ہمارے گھر سے شہر ، ملک اور پھر پوری امت کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ہماری دور اندیشی کا یہ عالم ہے کہ گذشتہ چھ سو صدیوں سے ہم اسی سوچ میں غرقاں ہیں کہ کس طرح ہماری ذاتی مفادات پورے ہوجائیں ۔ اور اس کی قیمت چاہے ہمیں اپنی نسلوں کو گروی رکھوا کر بھی دینی پڑے ہم بخوشی تیار ہیں ۔ خود پرستی اور خود غرضی ہم میں اس طرح سرایت کرچکی ہے کہ ہم میں یہ سوچنے کی صلاحیت ہی نہیں رہی کہ دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے ۔ اور ہم کہہ رہے ہیں کہ کوا حرام ہے کہ نہیں ۔ لوگوں نے چاند اور کہکشاؤں پر کمندیں ڈال دیں ہیں ۔اور ہم ایک دوسرے کے گھر ڈھانے کے لیئے بےتاب رہتے ہیں ۔ لوگوں نے سائنس و ٹیکنالوجی میں اس قدر ترقی کرلی ہے کہ دوسرے قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود بھی ان کے پیروں کی خاک چاٹتے رہتے ہیں ۔ دنیا نے اپنے اپنے صدیوں پرانے اختلافات بھلا کر ایکا کر لیا ہے ۔ یہاں تک کہ کرنسی ایک کرلی ہے ۔ جہاں زبانوں پر صدیوں جنگیں جاری رہتیں تھیں ۔ جن کی شہر کی گلیوں میں گھٹنوں گھٹنوں کیچڑ پھیلا ہوا ہوتا تھا۔ وہاں اب ایک کاغذ کا فالتو ٹکڑا بھی نظر نہیں آتا ۔ ہماری اقتصادی ، معاشی اور تعلیمی حالت تو چھوڑیں ، اخلاقی حالت جو انسانیت کا شرف ہے اس کا یہ حال ہے کہ ہمیں کسی سے سیاسی اختلاف ہو ، مذہبی اختلاف ہو ، نظریاتی اختلاف ہو اور حد تو یہ ہے کہ عمومی اختلاف بھی ہو ۔ تو ہم انانیت اور جاہلیت کی تمام حدیں توڑتے ہوئے صرف سامنے کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جہاں سرے سے یہ خیال کا وجود ہی نہیں ہے کہ ایک گھر میں کوئی بھی اختلاف گھر کا شیرازہ بکھرتا ہے ۔ گھر کا تقدس پامال کرتا ہے ، ایک ہی صفوں میں جھک جانے والوں کو ایک دوسرے سے جدا کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر ترقی و تحقیق کا راستہ بند کرتا ہے ۔ جس سے سفر آگے کی طرف نہیں بلکہ پیچھے کی طرف رواں ہوتا ہے ۔ چھ سو سال پہلے مسلمانوں کی حالت کا موازانہ آج کی حالت سے کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ ہم سے اچھے وہ لوگ تھے جو اپنے اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر ملک و قوم اور امت کا سوچتے تھے ۔ ہم میں تو اتنی بھی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ ہم کسی عمومی اختلاف پر سامنے والی کی بات کو برداشت کرسکیں ۔ باقی کسی حساس اور تپتے ہوئے اختلا ف پر کیا امید رکھی جاسکتی ہے ۔
کچھ ہفتوں سے سیاست و مذہب کے فورمز پر جس طرح کی کھینچا تانی چل رہی ہے ۔ میری نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ مگر میری بدقسمتی کہ اتفاق سے میری مصروفیات کا وہ عالم ہوگیا کہ میں روز نہیں آسکا ۔ مگر اس دوران چند لوگوں نے صرف انہی اختلافات کو اخلاقی اقدار کا وہ نمونہ بنایا کہ اللہ کی پناہ ۔ سیاست کے فورمز میں ہر روز ایک نیا دکھڑا شروع ہوجاتا ہے ۔ دوسرا آکر اس پر واویلا مچاتا ہے ۔ تیسرا آکر اس میں بھنگڑا ڈالنا شروع کردیتا ہے اور کچھ دیر بعد سب دھمال شروع کردیتے ہیں ۔ سیاسی اور مذہبی فورمز کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہاں ہر کوئی آکر اپنا راگ الاپے ۔ یہ فورمز نیک اور مثبت مقصاصد کے لیئے ہیں ۔ مذہبی فورم اختلافی ، مسلکی ، گروہی شوشہ چھوڑنے کے لیئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے نظریات کو مثبت اور خلوص نیت سے دیکھنے اور سمجھنے کے لیئے بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح سیاسی فورم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیئے نہیں بلکہ سر جوڑ کر مل بیٹھ کر ملک و قوم کی بقاء کی فکر کے لیئے بنایا گیا ہے ۔ مگر جس طرح سے ہم نے ان فورمز کا استحصال کیا ہے اور جس طرح ان فورمز کو مچھلی بازار کا نمونہ بنایا ہے ۔ وہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔ ہم میں اب اتنی بھی اہلیت اور دانشمندی نہیں رہی کہ یہ سوچ پیداہی نہیں ہورہی ہے کہ اس قسم کے الزامات ، تبصرہ جات ، تہمتیں ، بہتانوں سے کس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ ہم اس قسم کی بے مقصد اور لایعنی بحث سے اپنے انا کے کس جذبے کو تسکین پہنچا رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں انتہائی درجے جاکر ہم ملک و قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔ متعہ ، نام نہاد جہاد اور دیگر عمومی اور لاحاصل مذہبی اختلافات پر بے مقصد بحث پر اپنی توانائیاں اور قیمتی وقت خرچ کرکے ہم اسلام کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے تو امت میں کونسی ایسی جوہری تبدیلیاں رونما ہوجائینگی جو ایک دم سے مسلم امہ کو آج کی ترقی یافتہ طاقتوں پر حاوی کردے گی ۔
یہ رویہ ایک تھکی ، شکست خوردہ ، نااہل ، جاہل قوم کا ہوتا ہے ۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں ۔ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو بے مقصد اور لاحاصل بحث میں ضائع نہیں کریں ۔ قوم کو راہ دکھائیں ۔ امید کی کرن جلائیں ، تعلیمی اور ہوسکے تو اقتصادی و معاشی ترجیحات پر اپنی فکر کا رخ موڑیں اور بتائیں کہ ہم اس اندھیرے سے کیسے نکل سکتے ہیں ۔ کس طرح مایوس اور مردہ قوم میں زندگی کو متحرک کرسکتے ہیں ۔ کس طرح ہم اپنے گلی کوچے محفوظ بناسکتے ہیں ۔ کس طرح مجبوروں اور بے کسوں کی دادرسی کرسکتے ہیں ۔ کس طرح امن کی فاختائیں ہمارے سروں پر سایہ کرسکتیں ہیں ۔ کس طرح ہم اپنے نسلوں کو اپنے آپ پر فخر کرنے پر تیار کرسکتے ہیں ۔ مگر افسوس کہ ہم کو یہ ترجحیات اور مقاصد نظر ہی نہیں آتے ۔ بلکہ ہم ایک کنویں میں رہ کر اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کیساتھ اپنے انانیت کو قائم رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔ جہاں سے باہر کی دنیا ہمیں نظر نہیں آتی ۔
میرا خیال ہے کہ کافی دھمکا چوکڑی مچ گئی ہے ۔ سیاسی اور مذہبی فورمز پر کسی ایسی نئی پوسٹ یا دھاگے کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ جہاں بحث برائے بحث اور اختلاف کو ہوا دینے شائبہ نظر آئے گا ۔ کسی بھی ایسے مسلکی اختلاف کی اشاعت ممکن نہیں ہوگی ۔ جس سے کدروتوں اور نفرتوں میں اضافہ ہو یا اس کی تحریک ملے ۔ ایسی بھی پوسٹ جس سے کسی لاحاصل بحث یا کسی قسم کے مچھلی بازار کے سرگرم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا ۔ وہ بھی قابلِاشاعت نہیں ہونگیں ۔ سب کے سامنے یہ ترجیحات اور مقاصد رہیں تاکہ ان کی محنت ضائع نہیں ہو ۔ مجھے امید ہے دوست و احباب مجھ سے تعاون کریں گے ۔ ہمیںچاہیئے کہ ہم نئی منصوبہ بندیوں ، پالیسوں ، حکمت عملیوں کو زیر بحث بنائیں جس سے ملک و قوم اور پھر ساری امت کا کوئی فائدہ پہنچے ۔ ہوسکتا ہے بہت سوں کی نظر میں یہ ایک خیالی پلاؤ ہو ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس طرح ہم سوچنا تو شروع کرسکتے ہیں ۔ کوئی سوچنا شروع کردے تو شاید کوئی اس کو حقیقت کا رنگ بھی دیدے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حقیقتیں اسی طرح جنم لیتیں ہیں ۔
بقول فراز
ہم اگر منزليں نہ بن پائیں
منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں
کچھ ہفتوں سے سیاست و مذہب کے فورمز پر جس طرح کی کھینچا تانی چل رہی ہے ۔ میری نظر سے پوشیدہ نہیں ہے ۔ مگر میری بدقسمتی کہ اتفاق سے میری مصروفیات کا وہ عالم ہوگیا کہ میں روز نہیں آسکا ۔ مگر اس دوران چند لوگوں نے صرف انہی اختلافات کو اخلاقی اقدار کا وہ نمونہ بنایا کہ اللہ کی پناہ ۔ سیاست کے فورمز میں ہر روز ایک نیا دکھڑا شروع ہوجاتا ہے ۔ دوسرا آکر اس پر واویلا مچاتا ہے ۔ تیسرا آکر اس میں بھنگڑا ڈالنا شروع کردیتا ہے اور کچھ دیر بعد سب دھمال شروع کردیتے ہیں ۔ سیاسی اور مذہبی فورمز کا مقصد یہ نہیں ہے کہ یہاں ہر کوئی آکر اپنا راگ الاپے ۔ یہ فورمز نیک اور مثبت مقصاصد کے لیئے ہیں ۔ مذہبی فورم اختلافی ، مسلکی ، گروہی شوشہ چھوڑنے کے لیئے نہیں بلکہ ایک دوسرے کے نظریات کو مثبت اور خلوص نیت سے دیکھنے اور سمجھنے کے لیئے بنایا گیا ہے ۔ اسی طرح سیاسی فورم ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کے لیئے نہیں بلکہ سر جوڑ کر مل بیٹھ کر ملک و قوم کی بقاء کی فکر کے لیئے بنایا گیا ہے ۔ مگر جس طرح سے ہم نے ان فورمز کا استحصال کیا ہے اور جس طرح ان فورمز کو مچھلی بازار کا نمونہ بنایا ہے ۔ وہ انتہائی افسوس ناک اور قابلِ مذمت ہے ۔ ہم میں اب اتنی بھی اہلیت اور دانشمندی نہیں رہی کہ یہ سوچ پیداہی نہیں ہورہی ہے کہ اس قسم کے الزامات ، تبصرہ جات ، تہمتیں ، بہتانوں سے کس کو کیا فائدہ پہنچ سکتا ہے ۔ ہم اس قسم کی بے مقصد اور لایعنی بحث سے اپنے انا کے کس جذبے کو تسکین پہنچا رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم یا پیپلز پارٹی اور دیگر پارٹیوں کی حمایت اور مخالفت میں انتہائی درجے جاکر ہم ملک و قوم کی کیا خدمت کر رہے ہیں۔ متعہ ، نام نہاد جہاد اور دیگر عمومی اور لاحاصل مذہبی اختلافات پر بے مقصد بحث پر اپنی توانائیاں اور قیمتی وقت خرچ کرکے ہم اسلام کی کیا خدمت کر رہے ہیں ۔ اور اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ ایسا کر رہا ہے تو امت میں کونسی ایسی جوہری تبدیلیاں رونما ہوجائینگی جو ایک دم سے مسلم امہ کو آج کی ترقی یافتہ طاقتوں پر حاوی کردے گی ۔
یہ رویہ ایک تھکی ، شکست خوردہ ، نااہل ، جاہل قوم کا ہوتا ہے ۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں ۔ اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں کو بے مقصد اور لاحاصل بحث میں ضائع نہیں کریں ۔ قوم کو راہ دکھائیں ۔ امید کی کرن جلائیں ، تعلیمی اور ہوسکے تو اقتصادی و معاشی ترجیحات پر اپنی فکر کا رخ موڑیں اور بتائیں کہ ہم اس اندھیرے سے کیسے نکل سکتے ہیں ۔ کس طرح مایوس اور مردہ قوم میں زندگی کو متحرک کرسکتے ہیں ۔ کس طرح ہم اپنے گلی کوچے محفوظ بناسکتے ہیں ۔ کس طرح مجبوروں اور بے کسوں کی دادرسی کرسکتے ہیں ۔ کس طرح امن کی فاختائیں ہمارے سروں پر سایہ کرسکتیں ہیں ۔ کس طرح ہم اپنے نسلوں کو اپنے آپ پر فخر کرنے پر تیار کرسکتے ہیں ۔ مگر افسوس کہ ہم کو یہ ترجحیات اور مقاصد نظر ہی نہیں آتے ۔ بلکہ ہم ایک کنویں میں رہ کر اپنے اپنے مقاصد اور مفادات کیساتھ اپنے انانیت کو قائم رکھنا مقصود ہوتا ہے ۔ جہاں سے باہر کی دنیا ہمیں نظر نہیں آتی ۔
میرا خیال ہے کہ کافی دھمکا چوکڑی مچ گئی ہے ۔ سیاسی اور مذہبی فورمز پر کسی ایسی نئی پوسٹ یا دھاگے کو قبول نہیں کیا جائے گا ۔ جہاں بحث برائے بحث اور اختلاف کو ہوا دینے شائبہ نظر آئے گا ۔ کسی بھی ایسے مسلکی اختلاف کی اشاعت ممکن نہیں ہوگی ۔ جس سے کدروتوں اور نفرتوں میں اضافہ ہو یا اس کی تحریک ملے ۔ ایسی بھی پوسٹ جس سے کسی لاحاصل بحث یا کسی قسم کے مچھلی بازار کے سرگرم ہونے کا خدشہ پیدا ہوگا ۔ وہ بھی قابلِاشاعت نہیں ہونگیں ۔ سب کے سامنے یہ ترجیحات اور مقاصد رہیں تاکہ ان کی محنت ضائع نہیں ہو ۔ مجھے امید ہے دوست و احباب مجھ سے تعاون کریں گے ۔ ہمیںچاہیئے کہ ہم نئی منصوبہ بندیوں ، پالیسوں ، حکمت عملیوں کو زیر بحث بنائیں جس سے ملک و قوم اور پھر ساری امت کا کوئی فائدہ پہنچے ۔ ہوسکتا ہے بہت سوں کی نظر میں یہ ایک خیالی پلاؤ ہو ۔ مگر میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم اس طرح ہم سوچنا تو شروع کرسکتے ہیں ۔ کوئی سوچنا شروع کردے تو شاید کوئی اس کو حقیقت کا رنگ بھی دیدے ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حقیقتیں اسی طرح جنم لیتیں ہیں ۔
بقول فراز
ہم اگر منزليں نہ بن پائیں
منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں