سید اِجلاؔل حسین
محفلین
اساتزہ سے ایک معاملے پرمشورہ درکار ہے۔ کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ردیف کی وجہ سے مصرعِ ثانی میں 'تُو' استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شکریہ۔
محترمی الف عین صاحب نے بجا فرمایا:کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟
عروضیوں کے نزدیک اس طرح کی غلطی کو شتر گربہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ’ شتر‘ بمعنیٰ اونٹ اور ’گربہ‘ بمعنیٰ بلی۔ یعنی کسی ایک ہی ہستی کے لیے دو مختلف ضمیروں کے استعمال کی اِجازت نہیں ہے۔ اور منطقی طور پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بیک وقت کسی ایک فرد کو آ پ دو مختلف ضمیروں سے کیسے مخاطب کر سکتےہیں۔بات تو واضح ہو چکی کہ یہ شتر گربہ ہے۔ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس میں یہ الفاظ بدلنا ہی ہوں گے۔
بات تو واضح ہو چکی کہ یہ شتر گربہ ہے۔ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس میں یہ الفاظ بدلنا ہی ہوں گے۔ خاص کر پہلے مصرع میں ’تمہارا‘ فٹ کرنے کے لئے۔ شب فرقت کو بدلا جا سکتا ہے یا کسی اور لفظ کو۔مثلاً
ہجر میں جن کی بہت یاد ستاتی ہے ہمیں
کاش اک بار وہی زہر پلانے آتے
اب تو حرام ہو چکا۔میرے سوال کا جواب ؟
لفظ اجتناب کرنا کیا مکروہِ تحریمی کے زمرے میں آتا ہے یا مکروہِ تنزیہی کے ؟
انتظار رہے گا
غالب صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ کیجیے:اساتزہ سے ایک معاملے پرمشورہ درکار ہے۔ کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ردیف کی وجہ سے مصرعِ ثانی میں 'تُو' استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شکریہ۔
غالب صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ کیجیے:
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے
برادرم یوسف نے غالب کا جو شعر درج کیا ہے اس میں مخاطب کو دونوں جگہ تم ہی کہا ہے اور مخاطب کی زبان میں شاعر کیلیے تُو ہے نہ کہ مخاطب تُو ہے
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ "تُو کیا ہے"
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟