تو اور تم کا اکھٹا استعمال۔۔۔

اساتزہ سے ایک معاملے پرمشورہ درکار ہے۔ کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ردیف کی وجہ سے مصرعِ ثانی میں 'تُو' استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شکریہ۔
 

یوسف-2

محفلین
عمومی طور پر تو ( نثر ہو نظم) بیک وقت دونوں کا استعمال غیرفصیح ہی نظر آتا ہے لیکن آپ مثال دے کر بہتر انداز میں پوچھ سکتے ہیں کہ کیا اس طرح کا استعمال درست ہے یا نہیں۔ اس بارے میں مستند وضاحت تو الف عین اور محمد وارث جیسے اساتذہ کرام ہی کرسکتے ہیں کہ لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ایک قادر الکلام شاعر ایک ہی شعر میں ایک ہی ”مخاطب“ کو بھی ”تو“ اور ”تم“ دونوں الفاظ سےبھی پکارنے کا قرینہ دکھلا سکتا ہے۔یعنی یہ ”ترکیب استعمال“ اور شاعر کی قدرت و مہارت پر منحصر ہے کہ وہ ایک ہی شعر میں ”تم“ اور ”تو“ دونوں کو کس طرح استعمال کر کے ”سند جواز“ عطا کرتا ہے۔ گو کہ یہ شعر آپ کے سوال کا جواب نہیں ہے لیکن اس میں بھی دونوں الفاظ کو استعمال کیا گیا ہے۔​
ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے​
تم ہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے :)
 

محمد وارث

لائبریرین
میرے خیال میں یہ درست نہیں ہے اور عیوب سخن میں سے ہے، اس کو شتر گربہ کہا جاتا ہے یعنی اونٹ اور بلی کو اکھٹا کر دینا، شعر میں خطاب کا قرینہ ہونا چاہیے، ایک شعر میں ایک جگہ اگر آپ سے مخاطب کر رہے ہیں تو اسی شعر میں دوسری جگہ تم یا تو سے مخاطب کرنا شتر گربہ ہوگا، اسی طرح اگر تم ہے تو تُو یا آپ بھی شتر گربہ ہوگا۔

برادرم یوسف نے غالب کا جو شعر درج کیا ہے اس میں مخاطب کو دونوں جگہ تم ہی کہا ہے اور مخاطب کی زبان میں شاعر کیلیے تُو ہے نہ کہ مخاطب تُو ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ "تُو کیا ہے"
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟

یہ تو تھی اصولی بات، عملی طور پر اساتذہ کے ہاں بھی شتر گربہ کی مثالیں موجود ہیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ اتنا بڑا عیب نہیں ہے، اور اساتذہ بھی ضرورتِ شعری کے تحت اس کو استعمال کرتے رہے ہیں۔

سو دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ضرور ہے، جس سے اجتناب اُولیٰ ہے :)
 
بہت شکریہ، جناب یوسف و جناب وارث صاحب!

مزید تنقید کے لئے شعر پیش ہے:

شبِ فرقت میں تری یاد رلاتی ہے بہت
کاش اک بار تمہی زہر پلانے آتے​

یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مصرعِ اول میں 'تمہاری' نہیں آ سکتا اور مصرع ثانی میں 'تو ہی' نہیں آ سکتا۔ originallyمیں نے یہ شعر اس طرح سے کہا تھا:

شب فرقت میں تری یاد رلاتی ہے بہت​
کاش اک بار مجھے زہر پلانے آتے​
آپ سب کی ماہرانہ رائے کا انتظار رہے گا۔

شکریہ۔
 

الف عین

لائبریرین
بات تو واضح ہو چکی کہ یہ شتر گربہ ہے۔ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس میں یہ الفاظ بدلنا ہی ہوں گے۔ خاص کر پہلے مصرع میں ’تمہارا‘ فٹ کرنے کے لئے۔ شب فرقت کو بدلا جا سکتا ہے یا کسی اور لفظ کو۔مثلاً
ہجر میں جن کی بہت یاد ستاتی ہے ہمیں
کاش اک بار وہی زہر پلانے آتے
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
سید اجلال حسین صاحب کا سوال ہے:
کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟
محترمی الف عین صاحب نے بجا فرمایا:
بات تو واضح ہو چکی کہ یہ شتر گربہ ہے۔ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس میں یہ الفاظ بدلنا ہی ہوں گے۔
عروضیوں کے نزدیک اس طرح کی غلطی کو شتر گربہ سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ’ شتر‘ بمعنیٰ اونٹ اور ’گربہ‘ بمعنیٰ بلی۔ یعنی کسی ایک ہی ہستی کے لیے دو مختلف ضمیروں کے استعمال کی اِجازت نہیں ہے۔ اور منطقی طور پر بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بیک وقت کسی ایک فرد کو آ پ دو مختلف ضمیروں سے کیسے مخاطب کر سکتےہیں۔
 
بات تو واضح ہو چکی کہ یہ شتر گربہ ہے۔ جو شعر تم نے لکھا ہے، اس میں یہ الفاظ بدلنا ہی ہوں گے۔ خاص کر پہلے مصرع میں ’تمہارا‘ فٹ کرنے کے لئے۔ شب فرقت کو بدلا جا سکتا ہے یا کسی اور لفظ کو۔مثلاً
ہجر میں جن کی بہت یاد ستاتی ہے ہمیں
کاش اک بار وہی زہر پلانے آتے

بہت شکریہ جناب الف عین صاحب اور رحمانی صاحب!
 

ساجد

محفلین
اساتذہ کی ادبی گفتگو اور زبان و بیان پر دسترس کا مشاہدہ ہمیں ہماری ”بے ادبی“ پر شرمندہ کرتا ہے۔ کاش ہم بھی اردو کی نوک پلک درست کرنے کی اہلیت کے حامل ہوتے۔
محترم استاد الف عین و محمد وارث بھائی آپ کا بہت شکریہ کہ آپ کے طفیل ہماری اردو بھی کافی بہتر ہوئی ہے۔
 
وارث بھائی کی بات سے کلی اتفاق کرتا ہوں۔ شتر گربہ بیسویں صدی سے پہلے کے یعنی متاخرین کے زمانے میں بہت پایا جاتا تھا، پھر حسرت موہانی کے دور اور بعد کے ادوار میں اس کو مکمل طور پر متروک جانا گیا۔ مصحفی، جرات وغیرہ کے کلام میں اس قسم کی مثالیں عام پائی جاتی ہیں۔ پھر بعد کے اساتذہ مثلاً داغ دہلوی اور اس زمانے کے دیگر شعراء نے اسے بالکل ختم کر دیا۔ تو اب مکروہ تحریمی ہی جانا جاتا ہے۔
 

RAZIQ SHAD

محفلین
سو دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ یہ حرام تو نہیں مگر مکروہ ضرور ہے، جس سے اجتناب اُولیٰ ہے
میری ایک مشکل حل کر دیجئے
لفظ اجتناب کرنا کیا مکروہِ تحریمی کے زمرے میں آتا ہے یا مکروہِ تنزیہی کے ؟
 

RAZIQ SHAD

محفلین
میرے سوال کا جواب ؟
لفظ اجتناب کرنا کیا مکروہِ تحریمی کے زمرے میں آتا ہے یا مکروہِ تنزیہی کے ؟
انتظار رہے گا​
 
اساتزہ سے ایک معاملے پرمشورہ درکار ہے۔ کیا ایک ہی شعر کے ایک مصرع میں ' تُو' اور دوسرے میں مجبورا ' تم' استعمال کیا جا سکتا ہے؟ ردیف کی وجہ سے مصرعِ ثانی میں 'تُو' استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ شکریہ۔
غالب صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے​
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے​
 

فہد اشرف

محفلین
غالب صاحب کے ہاں اس کا استعمال ملاحظہ کیجیے:

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے​
برادرم یوسف نے غالب کا جو شعر درج کیا ہے اس میں مخاطب کو دونوں جگہ تم ہی کہا ہے اور مخاطب کی زبان میں شاعر کیلیے تُو ہے نہ کہ مخاطب تُو ہے

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تُم کہ "تُو کیا ہے"
تمہی کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے؟
 
Top