اقتباسات جاوید اقبال کی کتاب "زندہ رود " میں عطیہ فیضی کا ذکر

سید زبیر

محفلین
شمشاد ، فرحت کیانی ،@باباجی ،@نیرنگ خیال ، عاطف بٹ،@تعبیر ،@تلمیذ@حسان خان" لندن کے کسی دورے میں یکم اپریل ۱۹۰۷ کو مس بیک کے ہاں ان کی ملاقات عطیہ فیضی سے ہوئی مس بیک علی گڑھ کالج کے پرنسپل بیک کی بہن تھیں ۔وہ لندن میں ہندوستانی طلبا کی بہبود کی نگران تھیں اور ان سے مادر مشفق کا سا برتاؤ کرتی تھیں عطیہ فیضی نے اقبال کو فارسی اور عربی کے علاوہ سنسکرت سے سے بھی شناسا پایا ۔وہ بہت حاضر جواب تھے اور دوسروں کی کمزوری سے فاءدہ اٹھانے اور یا مذاحیہ فقرہ کہنے کسنے میں انہیں کمال حاصل تھا لیکن زندہ دلی کے باوجود ان کے مذاق میں طنز کا پہلو نما یا ں تھا ۔دوران گفتگو عطیہ فیضی نے تاثر قائم کیا کہ اقبال حافظ کے بے حد مداح تھے ۔ٓپ نے کہا کہ میں جب حافظ کے رنگ میں ہوتا ہوں تو ان کی روح مجھ میں حلول کر جاتی ہے میں خود حافط بن جاتا ہوں بہر حال اقبال نے سید اور بیگم بلگرامی کی طرف سے عطیہ فیضی کو کیمبرج آنے کی دعوت دی اور طے پایا کہ وہ ۲۲ اپریک کو کیمبرج پہنچیں گی ۔ چند روز بعد اقبال نے عطیہ فیضی کو 'فراس کاتی ریستوران میں عشاءیہ پر مدعو کا ۔کھانوں کے انتخاب اور پھولوں کی زیبائش پر نگاہ ڈال کر عطیہ فیضی نے ان کی تعریف میں چند جملے کہے تو ان کے جواب میں اقبال نے کہا میری شخصیت کے دو پہلو ہیں ،باطنی طور پر تو میں عالم خواب میں رہنے وال فلسفی اور صوفی ہوں ،مگر ظاہری طور پر میں ایک عملی اور کاروباری قسم کا انسان ہو ں۔عطیہ فیضی نے بھی کچھ دنوں کے بعد اقبال کے لیے ایک چائے پارٹی کا انتظام اپنی راہائش گاہ پر کیا اور اپنے جاننے والوں کو ان سے ملایا اس دعوت میں ادب و فلسفہ کی طالبات مس سلوسٹر اور مس لیوی شریک تھیں اور منیڈل اور مٹرنر ٹراتھ جیسے موسیقار بھی موجود تھے جنہوں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا اقبال نے اس موقع پر فی البدیہہ مزاحیہ اشعار سن کر محفل کو زعفران زار بنادیا ۔جب عطیہ فیضی نے وہ اشعار قلمبند کرنے کی خواہش ظاہر کی تو اقبال نے یہ کہ کر انہیں روک دیا کہ اشعار کا تعلق صرف اس مخصوص موقع سے تھا اور ان کو قلمبند کرنا غیر ضروری ہے۔۔ اقبال دو ہفتے لندن ٹھہرنے کے بعد کیمبرج چلے گئے اس کے بعد عطیہ فیضی کو کیمبرج لے جانے کے لیے پھر لندن پہنچے چنانچہ ۲۲ اپریل کو اقبال ،سر عبدالقادر اور عطیہ فیضی لندن سے کیمبرج اور طریفانہ باتیں ہوتی رہیں یہ لوگ تقریباً بارہ بجے بلگرامی کے مکان پر پہنچے اقبال نے عطیہ فیضی کا تعارف سید اور بیگم بلگرمی سے کرایا دن بھر وہاں طالب علم ٓتے جاتے رہے اقبال بظاہر تھکے تھکے اور خاموش دکھائ دیتے تھے لیکن جونہی کسی نے کچھ کہا ، وہ بجلی ایسی سرعت سے اس پر کوئی نہ کوئی فقرہ ایسا کستے کہ لاجواب کر دیتے عطیہ فیضی اسیرات واپس لندن چلی گئیں یکم جون ۱۹۰۷ کو آرنلڈ نے کیمبرج میں دریائے کیم کے کنارے ایک پکنک کا اہتمام کیا اور عطیہ فیضی کو شرکت کیے لیے دعوت بھیجی عطیہ فیضی لندن سے پھر کیمبرج پہنچیں اس دعوت میں کئی اہل علم بلائے گئے تھے اقبال بھی موجود تھے حیات و موت کے مسئلے پر بحث چھڑ گئی ہر کوئی اپنی رائے کا اظہار کر رہا تھا مگر اقبال خاموش تھے جب سب اپنی اپنی کہہ چکے تو آرنلڈ نے اقبال سے پوچھا کہ آپ نے رائے کا اظہار نہیں کیا اقبال نے اپنی مخصوص طنز بھری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا کہ حیات موت کی ابتدا ہے اور موت حیات کی ابتدا ہے اس فقرے پر بحث ختم ہو گئی ۔ غالباً انہی دنوں سر عبدالقادر بھی اقبال کو ملنے آخری مرتبہ کیمبرج گئے ۔کچھ دوستوں نے انہیں چائے پر مدعو کیا اور پھر سب دریاۓ کیم ے کنارے سیر کرنے گئے ایک خاتون کے پاس کیمرہ تھا
وہ مجمع کی تصویر لینے لگیں مجمع کیمرے کے سامنے ترتیب پا رہا تھا کہ آفتاب بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا اور سب اس کے بادلون کے پیچھے سے نکلنے کا انتظار کرنے لگے آفتاب کو منہ چھپاتے دیکھ کر اقبال نے فی البیہہ دو مصرعے کہے : ماہ روئے بر لب جو ے کشد تصویر ما
منتظر باشیم ما تا آفتاب آید بروں
۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔لندن میں ان کے قیام کے دوران ۱۹ جون ۱۹۰۷ آرنلڈ نے اقبال اور عطیہ فیضی کو اپنے گھر عشاءیہ پر مدعو کیا اثنائے گفتگو میں آرنلڈ نے بتایا کہ وہ اقبال کو جرمنی بھیجنا چاہتے ہیں کیونکہ وہاں بعض ایسے نایاب عربی مسودات دریافت ہوئے ہیں جن کو پڑھ کر سمجھنے کی ضرورت ہے اور اقبال اس کام کے لیے موزوں ہیں اقبال نے اس مقصد کو پورا کرنے کی ہامی بھر لی اگلی شام وہ کچھ عرصبی اور جرمن کتب لے کر عطیہ فیضی کے مکان پر پہنچے اور تین گھنٹے تک انہیں وہ کتابیں پڑھ کر سناتے رہے عطیہ فیضی کا مشاہدہ ہے کہ وہ جرمن فلسفیوں کے افکار سے متاثر تھے ۔فارسی شعرا میں زیادہ تر حافظ کا کلام سناتے رہے ۔ ۲۲ جون کو عطیہ فیضی کے ہاں پھر محفل جمی ڈاکٹر انصاری نے گانا سنایا ۔لارڈ سنہا کی بیٹیوں کمولا اور سمولا نے ساز بجائے اور اقبال نے حاضرین مں سے ہر کسی پر فی البدیہہ مزاحیہ اشعار موزوں کر کے سب کو محظوظ کیا ۔۲۷ جون کو اقبال عطیہ فیضی کو اپنی رہائش گاہ پر لے گئے ان کی لینڈ لیڈی مس شولی نے نہایت عمدہ دیسی کھانے پکا رکھے تھے عطیہ فیضی کو معلوم ہوا کہ وہ کھانے اقبال کی ہدایت پر تیار کیے گئے تھے اور مزید یہ کہ اقبال ہر قسم کے دیسی کھانے پکا سکتے تھے اسی شام اقبال نے اپنے تحقیقی مقالے کے کچھ حصے عطیہ فیضی کو پڑھ کر سنائے اور ان کی رائے طلب کی بعد میں عطیہ فیضی انہیں امپیریل انسٹی ٹیوٹ کی سالان تقریب پر لے گئیں جہاں شاہی افراد کے افراد موجود تھے اس پر تکلف اجتماع سے اقبال سخت بیزار ہوئے اور حسب عادت طنز بھرے فقرے کسنے لگے عطیہ فیضی کے بیان کے مطابق سوسائٹی میں اقبال کے متعلق یہ مشہور تھا کہ وہ لندن میں سب سے تیز طبیعت رکھنے والے ہندوستانی ہیں اقبال زیادہ دوست بنانے کے قائل نہ تھے اجنبیوں میں کم آمیز ہو جاتے اور چلنے پھرنے یا باہر جانے سے گریز کر نے لگ گئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۲۹ جون کو لیڈی ایلیٹ کی پر تکلف ایٹ ہوم پارٹی پر عطیہ فیضی اور اقبال موجود تھے اتنے میں مس سروجنی داس (بعد میں سروجنی نائیڈو،ہندوستان کی مشہور شاعرہ اور سیاستدان) زرق برق لباس پہنے،بیش قیمت زیورات سے آراستہ اور ضرورت سے زیادہ بناؤ سنگھار کیے ہوئے داخل ہوئیں وہ سب کو نظر انداز کرتی ہوئی لپک کر اقبال کے پاس پہنچیں کہ میں تو صرف آپ سے ملنے کی خاطر آئی ہوں اقبال کا بر جستہ جواب یہ تھا 'ی دھچکا اتنا اچانک ہے کہ میرے لیے تعجب کا باعث ہوگا اگر میں اس کمرے سے زندہ و سلامت باہر نکل سکوں ' اقبال کے ہائیڈل برگ جانے سے سے پیشتر عظیہ فیضی ہر دوسرے تیسرے دن ملتی تھیں ۔اس دوران اقبال نے انہیں دنیا کی تاریخ کے موضوع پر جرمن زبان میں اپنا تحریر کردہ مضمون دکھایا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال نے جرمن زبان سیکھنے کی تیاری کیمبرج ہی سے شروع کر دی تھی عطیہ فیضی کے بیان کے مطابق اقبال تاریخ میں دلچسپی لینے کے علاوہ اب جرمن فلسفہ اور شاعری کی طرف زیادہ مائل ہو گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اقبال نے ہائیڈل برگ میں سکونت اختیار کر نے کے کچھ عرصے بعد فیضی کو ب وہاں آنے کی دعوت دی اور ساتھ کچھ کتابیں لانے کو بھی کہا عطیہ فیضی پانچ چھے اشخاص کے ہمرا ہ۰ ۲اگست ۱۹۰۷ کو کو ہائیڈل برگ پہنچیں اقبال اپنے احباب کے ہمراہ ان کا ستقبال کرنے کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے ان کا تعارف فراڈ لین دیگے ناست اور فراڈلین سینےشل سے کرایا گیا پہلے ایک قافلے کی صور ت میں انہیں ان کی رہائشگاہ پر لے جایا گیا اور پھر سب رات گئے تک یونیورسٹی باغ کے قہوہ خانہ میں بیٹھے کافی پیتے رہے اور ہنسی مذاق کرتے رہے عطیہ فیضی نے محسوس کیا کہ اقبال بے حد خوش ہیں اور لدن والا طنز بھرا لہجہ غائب ہے اور ان کی طبیعت میں ایک نئی قسم کا سادہ پن اور تحمل آگیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگلے چند روز ہائیڈل برگ کے ارد گرد مشہور شلوش نیکر بانشٹائین اور آسر باخ میں پہاڑیوں کی سیر کرتے ،باغات میں سیب توڑتے ،پھول اکٹھے کرتے ،لوک ناچ میں حصہ لیتے اوپن اءیر ریستورانونوں میں کھانا کھاتے یا نیچل ہسٹری اور اسلحہ کے عجائب گھر دیکھتے گزر گئے اقبال کی رگ ظرافت پھڑکنے سے باز نہ رہتی ایک شب ہوسٹل میں رات کے کھانے پر کسی لڑکی کو دیکھ کر عطیہ فیضی کے سامنے یہ شعر فی البدیہہ موزوں کر کے سنایا او خوب ہنسایا
اس کے عارض پر سنہری بال ہیں
ہو طلائی استرا اس کے لیے
۴ ستمبر ۱۹۰۷ کو عطیہ فیضی نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ واپس جانا تھا اس دن صبح اشپیئر ہوف پھلوں کے باغ میں ہر کوئی الگ الگ کھانے تیار کر کے لایا اقبال بھی ہندوستانی طرز کا کھانا خود پکا کر لائے سب نے باغ میں بیٹھ کر انواع و اقسام کے کھانے کھائے جب عطیہ فیضی کے رخصت ہونے کا وقت آیا تو سب لوگ ایک صف میں کھڑے ہو گئے عطیہ فیضی کو سامنے کھڑا کیا اور بینڈ کے ساتھ اقبال کی رہنمائی میں جرمن زبان میں تحریر کردہ یہ الوداعی نظم کورس میں گائی گئی
ٓخر کار ہندوستان کے نہایت درخشاں ہیرے کو
خدا حافظ کہنے کا وقت آہی گیا
وہ تارا جو یہاں چمکتا تھا اور رقصاں رہتا تھا
اور دور نزدیک مجمعوں کو روشن کرتا تھا
جو صلح اور امن کے جھنڈے کی طرح خبر گیری کرتے ہوئے
ہر جگہ برہم مزاجوں کو سکون بخشتا تھا
ہم ایک بڑی آہ سے آراستہ ہو کر آئیں ہیں
جو دور نزدیک ہر بلندی تک جاتی ہے
ہاں ،تم جسے اشعار میں مخاطب کیا گیا ہے
ہماری بہترین دعائیں اور برکتیں ساتھ لیتی جاؤ
ہماری بہترین خواہشات تمہارے ساتھ رہیں گی
دریاؤں جھیلوں اور سمندروں کو عبور کرتے وقت
شان و شوکت اور کامیابی کے ساتھ واپس لوٹو
تمہارے دوست بہت بڑی تعداد میں منتظر ہیں
لہٰذا اس وقت تک کےلیے ہم کہتے ہیں
خدا حافظ ، الوداع
 
Top