جب شکاری خود شکار ہوجائے

behind-bars-copy.jpg

ڈان فوٹو

ان کے نام مختلف، عقائد الگ اور قومیتیں جدا ہیں، لیکن انڈیا اور پاکستان کے مچھیروں کا کرب مشترک ہے۔ وہ یہ کہ اگرپانی کی موجیں انہیں ایک دوسرے کی حدود میں دھکیل دیں تو قید ان کا مقدر بن جاتی ہے۔
کراچی میں ملیر جیل میں ایسی کئی ان کہی اور ان سنی کہانیاں ہیں۔ یہ ہندوستانی مچھیرے ہیں جو ایک صبح سمندر سے رزق کمانے کیلئے اپنے گھر سے نکلے تھے لیکن واپس نہ جاسکے۔ انہیں غیر قانونی طور پر سمندری حدود پار کرنے پر میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی نے گرفتار کیا ہے۔ انہیں 1947 کے فورن ایکٹ اور فشریز ایکٹ کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے اور انہیں جنگی قیدی کا درجہ دیا جاتا ہے۔
دوسری جانب ان مچھیروں کے گھر والوں کو معلوم ہی نہیں چلتا کہ ان کے پیارے کہاں غائب ہوگئے اور بعض دفعہ تو مہینوں بعد ان کا سراغ ملتا ہے اور خبر پہنچ پاتی ہے۔
‘ وہ یقیناً اپنا پاسپورٹ ساتھ نہیں رکھتے اوراسی لئے ان کی قومیت کی شناخت مشکل ہوتی ہے،’ ریٹائرڈ جسٹس ناصر اسلم زاہد نے کہا جو سرحد کے دونوں جانب گرفتار ہونے والے مچھیروں کی مدد کرنے والی ایک این جی ااو، لیگل ایڈ سے وابستہ ہیں۔ ‘ یہ ایک بہت سنگین مسئلہ ہے لیکن غالباً دونوں اطراف کی حکومتوں کی ترجیح میں شامل نہیں،’ انہوں نے کہا۔
قومیت معلوم کرنے کیلئے ، مجسٹریٹ یہ کیس ایڈوکیٹ جنرل کو بھیجتا ہے جو کیس کو وزارتِ داخلہ کو بڑھاتی ہے جہاں سے یہ وزارتِ خارجہ کو جاتا ہے۔ پھر یہ معاملہ انڈیا میں خارجہ امور کی وزارت کو روانہ کیا جاتا ہے، وہاں سے یہ وزارتِ داخلہ بھیجا جاتا ہے پھر یہ ریاست کی سطح تک آتا ہے اور اس کے بعد ایک ایس ایچ او تک جاتا ہے جو مچھیرے کی قومیت معلوم کرتا ہے۔ اور اس کے نتائج بھی اسی راستے سے واپس آتے ہیں۔
‘جب ایک مچھیرا ریاست گجرات میں پکڑا جاتا ہے، تو صوبائی حکومت دہلی میں وفاقی حکومت کو آگاہ کرتی ہے،’ ناصر اسلم زاہد نے بتایا۔ ‘ پھر وہ دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کو آگاہ کرتے ہیں۔
ہندوستانی حکومت سے اجازت ملنے پر پاکستانی سفیر گجرات جیل تک سفر کرکے ماہی گیر سے ملاقات کرتا ہے۔ اس کا نام ، پتہ ، فون نمبر اور عزیز و اقارب کے نام معلوم کرتا ہے۔ پھر انہیں اسلام آباد روانہ کرتا ہے۔ پھر یہ تفصیلات کراچی کے مجاز تھانے میں آتی ہے جہاں سے اس مچھیرے کا تعلق ہوتا ہے۔
پولیس ان سب باتوں کی تصدیق کرتی ہے اور پھر یہ عمل دوبارہ اسی طرح پلٹایا جاتا ہے اور اس کارروائی کا ایک چکر مکمل ہونے میں ایک سال تک لگ جاتا ہے۔’
‘ اس تمام عمل میں بسا اوقات ایک سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے،’ ناصر اسلم زاہد نے بتایا۔ ‘ یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک کے محکمہ داخلہ کو معاملات میں تیزی لانی چاہئے۔ ‘
فی الحال تین غیر سرکاری تنظیمیں ، پاکستانی اور ہندوستانی ماہی گیروں کی رہائی کیلئے کوششیں کررہی ہیں ان میں پاکستان فشر فوک ( پی ایف ایف)، پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیبرایجوکیشن اینڈ ریسرچ ( پائلر) اور لیگل ایڈ شامل ہیں۔ ان کے ہندوستانی تنظیموں سے اور سول سوسائٹی سے بھی راوبط ہیں اسی لئے نہ صرف یہ تنظیمیں مچھیروں کی رہائی کیلئے جدوجہد کرتی ہیں بلکہ دورانِ قید ان کی دیکھ بھال بھی کرتی ہیں۔
‘ پوری دنیا میں جب بھی ایک ملک کے ماہی گیر پڑوسی ملکوں کی آبی حدود میں پکڑے جاتے ہیں انہیں واپس کردیا جاتا ہے۔ انڈیا نے سری لنکا اور بنگلہ دیش کے ساتھ معاہدہ کیا ہے کہ اگر مچھیرے دوسرے ملک کی حدود میں پکڑے جائیں تو ان کی مچھلی ضبط کرکے انہیں واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ ‘ پاکستان فشر فوک ( پی ایف ایف) کے صدر محمد علی شاہ نے بتایا ۔ ‘ سارک ممالک کی سطح پر اسی طرح کے معاہدے ہونے چاہئے۔’
‘ دوہزار سات کی ابتدا میں پاک و ہند کی جوڈیشل کمیٹی بنائی گئی جو انڈیا اور پاکستان کے چار ریٹائرڈ ججوں پر مشتمل تھی ۔ ان کا کام تھا کہ وہ دونوں جانب گرفتار ہوکر قید ہونے والے سویلین خصوصاً مچھیروں کو آزاد کرانے کیلئے کوشش کریں گے لیکن اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
پی ایف ایف کے کوآرڈنیٹر سامی میمن کے مطابق ماہی گیروں اور ان کےاہلِ خانہ کے درمیان واحد رابطہ ڈاک کے ذریعے بھیجے جانے والے خطوط ہی ہیں لیکن وہ بھی بہت کم۔ ‘ یہ قانونی سے زیادہ سیاسی مسئلہ ہے۔ دونوں ممالک کی سرحدی فورسز سمندری حدود کی خلاف ورزی کے نام پر غریب لوگوں کو گرفتار کرتی ہیں، جہاں حدود کو واضح انداز میں بیان بھی نہیں کیا گیا ہے۔ یہ ایک سیاسی مسئلہ ہے کہ جب جب دونوں ممالک کےدرمیان کشیدگی ہوتی ہے اس کی قیمت مچھیروں کو چُکانی پڑتی ہے۔’
پائلر کے کرامت علی نے بتایا کہ ایک ہندوستان کے زیرِانتظام کشمیر کے ایک کیس سپریم کورٹ میں فائل کیا تھا کہ پاکستانی کشمیر سے تعلق رکھنے چند افراد ہندوستان میں سزا پوری کرنے کے باوجود قید ہیں۔ کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ دیا ۔ اسی طرح پی ایف ایف اور پائلر نے پاکستان میں قید ہندوستانی مچھیروں کی رہائی کیلئے کورٹ سے رجوع کیا تو ان کے حق میں فیصلہ ہوا اور ساڑھے چار سو کے قریب انڈین مچھیروں کو رہا کیا گیا ۔ اسی طرح کا طرزِ عمل ہندوستان سے بھی دیکھا گیا جب انہوں نے پاکستانی ماہی گیروں کو رہا کردیا۔
ابھی ملیر جیل میں چارسو پندرہ ہندوستانی مچھیرے قید ہیں۔ اس کی تصدیق ناصر اسلم زاہد اور پی ایف ایف نے کی ہے۔ جبکہ گزشتہ نو ماہ میں چار سو افراد رہا کئے گئے ہیں۔ اگرچہ غلطی سے سرحد پار کرنے کی سزا صرف چھ ماہ ہے لیکن غریب مچھیرے بعض اوقات تین تین سال تک قید میں رہتے ہیں۔
‘ ہم چاہتے ہیں کہ پانی کی حد بندی اس طرح کردی جائے کہ دونوں ممالک کے مچھیرے اسے مشترکہ ماہی گیری کا علاقہ تصور کریں۔ اسی طرح مچھیروں کی رجسٹریشن کرکے انہیں کارڈ دیئے جاسکتے ہیں۔ پائلر کے کرامت علی نے تجویز دی کہ کشتیوں پر جی پی ایس نظاموں کی تنصیب لازمی کردی جائے تاکہ مچھیرے ایک خاص حد سے آگے نہ بڑھیں۔ اسی طرح سیکیورٹی فورسز کو بھی سمندری گشت بڑھانے کی ضرورت ہے
بہ شکریہ ڈان اردو

اسی موضوع پر تصویری گیلری
 
Top