فراز جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو - فراز

مغزل

محفلین
غزل

جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو

یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دھند ہے بادل ہے کہ سایہ ہے کہ تم ہو

اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو

یہ عمر گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو

ہر بزم میں‌ موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو

اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو

وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو

آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو

اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو

احمد فراز
 

فاتح

لائبریرین
غزل

اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو

وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو

آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم ابھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو


سبحان اللہ! انتہائی خوبصورت انتخاب ہے۔ بہت شکریہ جناب
 

محمداحمد

لائبریرین
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو


واہ مغل بھائی،

احمد فراز کا کلام اور انتخاب آپ کا۔ ہم تو لاجواب ہی ہو گئے۔ :)
 

مغزل

محفلین
بندہ پروری ہے جناب کی ، ویسے اس کی طرح تو آپ نے مجھے آبجو پر دی تھی ۔۔ یاد ہے کہ نہیں ۔۔ ویسے میں نے ذپ بھی کیا تھا۔
بہت شکریہ ۔۔ بلکہ بہت بہت شکریہ
والسلام
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو​
یہ خواب ہے خوشبو ہے کہ جھونکا ہے کہ پل ہے
یہ دُھند ہے بادل ہے کہ سایا ہے کہ تم ہو​
اِس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہیں لرزاں
میں ہُوں کہ کوئی اور ہے دنیا ہے کہ تم ہو​
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھو یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو​
یہ عمرِ گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہی لگتا ہے کہ تم ہو​
ہر بزم میں‌ موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے شیریں ہے کہ لیلیٰ ہے کہ تم ہو​
اِک درد کا پھیلا ہُوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اِک موج میں آیا ہُوا دریا ہے کہ تم ہو​
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اِس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو​
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم بھی اس شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو​
اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو​
(احمد فراز)
(کتاب: جاناں جاناں۔ ص 106)
 
Top