جل دیوتا ( بچوں کے لئے ڈراما ) از : پنڈت ہری چند اختر

جل دیوتا
( بچوں کے لئے ڈراما )

از : پنڈت ہری چند اختر
کھیل میں کام کرنے والے

جل دیوتا
جل پریاں ( دردانہ ، مرجان ، مہ پارہ ، نسیم )
ماہی گیر
ایک لڑکا
ایک لڑکی
بہت سی جل پریاں

( سمندر کی تہہ میں کائی سے بھری ہوئی چٹانیں اور بےشمار سرسبز اور خوش رنگ پودے نظر آتے ہیں ۔ ایک غار میں سے جل دیوتا کے محل کو راستہ جاتا ہے ۔ اندر سبز روشنی سے سارا محل جگ مگ جگ مگ کر رہا ہے ۔ جل دیوتا داخل ہوتا ہے ۔ ہریاول کا لباس ۔ سفید نورانی داڑھی اور سر پر سنہری تاج ہے ۔ ہاتھ میں اُس کا مشہور و معروف تِرشول ہے ۔)
جل دیوتا : (آواز دیتا ہے ) دردانہ او دردانہ !کہاں ہو تم ؟ ۔۔۔ دردانہ ! ۔۔۔ اِدھر آؤ ۔ مرجان ! ۔۔ ۔ اری او مرجان !

( جل پریوں کے قہقہوں کی آواز آتی ہے )
جل دیوتا : پھر چُھپ گئیں ! اِدھر آؤ فوراً ۔ اری او نسیم ! سنتی ہو ؟ دردانہ ۔۔۔ مرجان !
( چٹانوں کے پیچھے اور غار کے اندر سے چھ سات جل پریاں نکل آتی ہیں ۔ سب کے بال نہایت خوب صورت ، سنہری اور لمبے ہیں ۔ جنہیں پھولوں اور سیپ کے ٹکڑوں سے سجا رکھا ہے ۔ گلے میں کوڑیوں کی کنٹھیاں ہیں ۔ مختلف رنگوں کے خوش نما بھڑکیلے اور چُست کُرتے پہن رکھے ہیں جو اُن کے ٹخنوں تک آتے ہیں ۔ اور نیچے آ کر مچھلی کی دُم کی طرح پھیل جاتے ہیں ۔ کندھوں سے کائی کے تودے سے پروں کی صورت میں لٹک رہے ہیں ۔)
جل دیوتا : سارا دِن آنکھ مچولی کھیلنے کے سوا کچھ سوجھتا بھی ہے تمہیں ؟ نا بابا ایسی چھوکریا ں تو کہیں نہیں دیکھیں ۔ مہ پارہ ! کھڑی کیا دیکھتی ہو ۔ فوراً جا کر محل کے باغ کی صفائی جا انتظام کرو ۔ کائی سے پٹا پڑا ہے سارا باغ ۔ سنا ؟
مہ پارہ : ( جاتے ہوئے ) جی اباجان جا رہی ہوں ۔
جل دیوتا : سمندر کی تہہ میں ڈوبنے والے جہازوں کے روپے پیسے ، ہیرے جواہرات اور سونے کے ڈھیر لگے ہوےئ ہیں ۔ ستارہ تم جاؤ ۔ صدف کو بھی ساتھ لے جاؤ اور جس قدر خزانہ لا سکو لے آؤ ۔ مگر جھٹپٹے سے پہلے پہلے واپس آ جانا ۔

( دور سے گانے کی آواز )
دردانہ : ہیں ! یہ کون گا رہا ہے ؟
( سب سنتے ہیں )
مرجان : اُنہیں موئے ماہی گیروں میں سے کوےئ ہوگا ۔ شاید وہی نگوڑا ہو جو اگلے ہفتے میری شاگردوں میں سے چھ مچھلیاں پکڑ کر لے گیا تھا ۔
جل دیوتا : تم نے اُنہیں یہ نہیں سمجھایا تھا کہ کیچوے کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا کریں ؟
مرجان : میں تو بُہتیرا سر کھپاتی ہوں مگر اُن کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ بس احمقوں کی طرح میرا منہ تکتی اور زور زور سے سانس لے کر بُلبلے اُٹھاتی رہتی ہیں ۔
( باقی جل پریاں قہقہہ لگاتی ہیں )
جل دیوتا : ہم اِن فانی انسانوں کی خاطر اپنی رعیت کو اس طرح مرتے نہیں دیکھ سکتے ۔سنتی ہو مرجان ؟ اگر تم اپنی شاگردوں کو بھلی طرح نہیں پڑھا سکتیں تو مجھے مچھلیوں کا اسکول کسی اور جل پری کے سپرد کرنا پڑے گا ۔
مرجان : ( سہمی ہوئی آواز میں ) کہیں اس کلمونہی سوسن کے حوالے نہ کر دینا ۔
نسیم : یوں حسد سے جل مرنا اچھی بات نہیں مرجان ۔ اُس کی شکل تو دیکھو کتنی پیاری ہے !
مرجان : لیکن اُسے پڑھانا وڑھانا تو خاک نہیں آتا ۔
( گانے کی آواز اور بھی نزدیک سنائی دیتی ہے )
دردانہ : اباجان ۔ میں کہتی ہوں ۔ کیوں نہ اس ماہی گیر کو پھانس کر یہاں لے آئیں ۔ اور اُسے مچھلیاں پکڑنے کا مزا چکھائیں ۔
جل دیوتا : ( مسکراتے ہوئے ) تمہاری خوشی ۔۔۔۔۔ لیکن دیکھنا اسے کوئی تکلیف نہ ہو ۔
جل پریاں : ( جاتے ہوئے ) بہت اچھا اباجان ۔
دردانہ : ( دور سے آواز دیتی ہے ) اباجان ! طوفان برپا کیجئے طوفان ۔ بہت جلدی !
(سب جل پریاں چلی جاتی ہیں ۔ جل دیوتا ایک چٹان پر بیٹھ کر ترشول گھماتا ہے ۔ اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ آندھی کا شور اور بجلی کی کڑک سنائی دیتی ہے ۔ گانے کی آواز بند ہو جاتی ہے اور طوفان کے شور میں جل پریوں کے قہقہے سنائی دیتے ہیں ۔یکایک ایک ماہی گیر بھاگتا ہوا آتا ہے ۔ اس کے پیچھے ایک لڑکی اور ایک لڑکا ہے ۔ روشی ہو جاتی ہے ۔ اور یہ تینوں کھڑے جل دیوتا کا منھ تکتے نظر آتے ہیں ۔)
جل دیوتا : میں ہوں آپ کو خادم جل دیوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھے÷
( سب جل پریاں آجاتی ہیں )
ماہی گیر : کیا اپ جل دیوتا ہیں ؟
جل دیوتا : جی ہاں ۔
لڑکی : سچ مچ ؟
لڑکا : ٹھیک کہتے ہونا ؟
جل دیوتا : بالکل ٹھیک ۔
لڑکی : ہا ہا !
لڑکا : خوب ۔ بہت خوب ۔ مزا آگیا ۔
ماہی گیر : دیکھا مچھلیاں پکڑنے کا نتیجہ ؟ دم نہ لینے دیتے تھے تم دونوں ۔ اب جل پریوں نے پکڑ لیا ۔ اور تمہاری مہربانی سے میں بھی سمندر کی تہہ میں پہنچ گیا ۔ اللہ جانے اب زمین پر پہنچنا کب نصیب ہوگا ! پھر تمہارے ماں باپ کیا کہیں گے ۔ میرے اللہ ! اب اُنہیں کس طرح خبر کروں ؟ کیوں جی یہاں کوئی تار گھر ہے ؟
دردانہ : عقل کے ناخن لو ۔ سمند کی تہہ میں تار گھر کہاں !
لڑکا : چھوڑو جی ان باتوں کو ۔ بڑے مزے کی سیر ہوئی آج ۔
ماہی گیر : سیر ! مزے کی سیر ! تم اسے سیر کہتے ہو ؟ مجھے تو اس میں مزے کی کوئی بات نظر نہیں آتی ۔ اور باباجی ۔ خدا کے لئے یہ چمٹا سا پرے پھینک دیجئے ۔ مجھے تو اس سے خوف آتا ہے ۔
لڑکی : ( اپنے آپ سے ) اگر یہ چمٹا ہے تو اتنا بڑا چمٹا تو اینٹوں کے بھٹوں ہی میں کام آتا ہوگا ۔
( ستارہ اور صدف ایک بڑے صندوق کو گھسیٹتی ہوئی داخل ہوتی ہیں )
جل پریاں : ( صندوق کے ارد گرد کھڑی ہو کر ڈھکنا اٹھاتے ہوئے ) اہاہا ! خزانہ ! خزانہ !
( جل پریاں صندوق میں سے طرح طرح کے زیور اور جواہر نگال کر پہنتی جاتی ہیں ۔ ماہی گیر اور دونوں بچے گردنیں موڑ کر حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں ۔)
لڑکا : خزانہ ! سچ مچ کا خزانہ ! بالکل وہی جیسا میری کتاب کی تصویر میں نظر آتا ہے ۔
ماہی گیر : سونا ! کتنا سونا ! لاکھوں کروڑوں سکے ! ( صندوق میں ہاتھ ڈال کر کچھ سکے بکھیر دیتا ہے ) میرے پاس اتنا سونا ہو تو میری اور بوڑھی ماں کی ساری عمر مزے سے کٹ جائے ۔ اور پھر بھی کفن دفن کے لئے بہت سا بچ رہے ۔
( کچھ سکے اٹھا کر جیب میں ڈالنا چاہتا ہے )
جل دیوتا : شاہی خزانے کو مت چھوؤ ۔
ماہی گیر : دیکھئے نا ۔ آپ کے پاس اللہ کا دیا اتنا کچھ ہے ۔ پھر بھی آپ چند سکے اس غریب اور بڈھے ماہی گیر کو نہیں دے سکتے ؟
جل دیو تا : کہہ جو دیا کہ شاہی خزانے کو ہاتھ نہ لگاؤ ۔ یہ جل دیوتا کا مال ہے ۔ ہمیں سمندر میں سے ملا ہے ۔
ماہی گیر : مگر پھر بھی میں کہتا ہوں ۔ آپ کو مجھے کچھ نہ کچھ دینا ہی چاہئے ۔ ہے نا ؟ میری کشتی کو دیکھئے ۔ چٹانوں سے ٹکرا کر چور چور ہو چکی ہے ۔ ( جل پریاں ہنستی ہیں ۔) آپ لوگوں نے ایک غریب ماہی گیر کی کشتی توڑ ڈالی ۔ یہ بھلا کہاں کا مذاق ہے ۔
مرجان : تم نے بھی تو ہماری مچھلیاں پکڑی تھیں کیوں ؟
ماہی گیر : جیتی رہو بیٹی ۔تم سچ کہتی ہو ۔ میں نے مچھلیاں پکڑی تھیں ۔ میری گزر ان ہی مچھلیوں پر ہے ۔
جل دیوتا : اور ہماری گزر اس خزانے پر ہے ۔
لڑکی : لیکن آپ کے پاس تو لاکھوں کروڑوں من سونا ہوگا ۔
لڑکا : اس قدر سونے سے بھی آپ کا پیٹ نہیں بھرتا ۔ آخر آپ کو اتنے سکوں کی کیا ضرورت ہے ۔
جل دیوتا : میری بہت سی بیٹیاں ہیں ۔ جن کو لکھانا پڑھانا اور سمندر کے قانون سکھانا ہوتا ہے ۔پھر تم دیکھتے ہو ان کے لئے اچھی پوشاک بھی ضروری ہے ۔
( جل پریاں اب تک صندوق کے جواہرات اور اپنے زیور دیکھ دیکھ کر خوش ہو رہی ہیں ۔ اور بار بار آئنوں میں اپنی صورت دیکھتی ہیں ۔)
جل دیوتا : پھر ہیں اپنے اسکولوں کی مرمت پر بہت سارا روپیہ خرچ کرنا پڑتا ہے ۔ سمندری پودوں کی دیکھ بھال پر بھی لاکھوں اٹھ جاتے ہیں ۔ موتیوں کا کاروبار بھی روپے پیسے کے بغیر نہیں چل سکتا ۔اسی طرح اسفنج اور مونگے کے کارخانے بھی ہیں ۔ ذرا سوچو تو ان کامو کے لئے روپے کی ضرورت ہے یا نہیں ؟
لڑکی : میرے اللہ ۔ مجھے تو کبھی ان باتوں کا خیال نہیں آتا ۔
ماہی گیر : ( رونی صورت بنا کر ) پھر میری کشتی کا کیا ہوگا ؟
دردانہ : اگر تم وعدہ کرو کہ پھر کبھی مچھلیاں نہ پکڑو گے تو ہم تمہاری کشتی کی مرمت کر دیں گے ۔
لڑکی : کر لو وعدہ ۔ ضرور کر لو ۔ ورنہ ہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے یہیں پڑے رہنا ہوگا ۔
لڑکا : اور مجھے ابھی چائے بھی نہیں ملی ۔
ماہی گیر : لیکن میری گزران کیوں کر ہو گی ؟
لڑکا : ( ذرا دیر سوچ کر ) تم ملائی کی برف بیچ لیا کرنا ۔
ماہی گیر : ( کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے ) ہاں ، یہ تو ہو سکتا ہے ۔
دردانہ : تو پھر وعدہ کرتے ہو نا ؟
ماہی گیر : میں وعدہ کرتا ہوں ۔ مگر مہربانی کرکے اپنے تھوڑے سے سنہری بال دے دیجئے ۔ تاکہ میں لوگوں کو دکھا کر کہہ سکوں کہ میں نے سچ مچ کی جل پریاں دیکھی ہیں ۔
لڑکی : ( چاقو نکال کر ) اور مجھے بھی۔ ضرور ضرور ! نہیں تو اسکول میں کسی کو یقین نہ آئے گا کہ میں نے جل پریاں دیکھی ہیں ۔
( کئی جل پریاں اُنہیں اپنے تھوڑے تھوڑے بال کاٹ لینے کی اجازت دے دیتی ہیں )
جل دیوتا : اچھا اب میں جاتا ہوں ۔
نسیم : کہاں چلے اباجان ؟
جل دیوتا : ( ایک بہت بڑی گھڑی نکال کر ) آج " مرکزی شارک لیگ " کا جلسہ ہے ۔ مجھے اس میں شامل ہونا ہے ۔ وہ دیکھو ۔ وہیل صاحب مجھے بُلانے آئے ہیں ۔اس ماہی گیر کو لے جا کر آرام سے اس کی کشتی میں پہنچادو ۔ کشتی اب بالکل ٹھیک ٹھاک ہو چکی ہے ۔ خدا حافظ !
جل پریاں : خدا حافظ اباجان !
( جل پریاں ماہی گیر اور بچوں کو بازوؤں سے پکڑ کر دروازے کی طرف گھسیٹتی ہیں )
جل پریاں : چلو جلدی چلو ۔
لڑکا : کہاں لئے جاتی ہو ہمیں ؟
دردانہ : چلے آؤ ۔
مرجان : چلے آؤ ۔
سب جل پریاں : ( دور سے ) چلے آؤ ۔ چلے آؤ ۔ چلے آؤجی ۔
( سب نکل جاتے ہیں ۔ دور سے قہقہوں کی آواز آتی ہے ۔ جل دیوتا اکیلا ایک چٹان پر کھڑا ہنس رہا ہے ۔ اور ہنسنے میں اُس کی داڑھی لہرا رہی ہے ۔ ایک منٹ کے بعد ملاح کے گانے کی آواز آتی ہے ۔ یہ آواز آہستہ آہستہ مدھم ہوتی جاتی ہے )
( پردہ گرتا ہے )
حوالہ : بچوں کے اخبار " پھول " کی چالیس سالہ جلدوں سے انتخاب کتاب " پھول "
انتخاب : غلام عباس
ناشر : مکتبہء سجاد کامران

 
آخری تدوین:
Top