آخری تدوین:
باب اول: موگلی کے بھائی

کہانی اِک مزے کی آج ہم تُم کو سناتے ہیں
جسے پڑھ کر سبھی بچّے خوشی سے جھوم جاتے ہیں

یہ ناوِل ہے جسےرڈ یارڈکپلنگجی نے لکھّا ہے
اسے منظوم کرنے کا خیال اب جی میں آیا ہے

کہیں جنگل میں ننھے بھیڑیوں کو ماں سُلاتی تھی
تھپکتی تھی اُنھیں اور پیار سے لوری سناتی تھی

کہیں سے ایک گیدڑ ہڈیوں کو سونگھتا آیا
طباقی نام تھا جس کا بہت ہی لالچی وہ تھا

اُسے یوں تھوتھنی اپنی جھکاکر سونگھتے پایا
تو پاپا بھیڑیئے نے بھی اُسے ہڈی پہ ٹرخایا

اُسے ہڈی ملی، فوراً شرارت کا خیال آیا
بڑی معصوم سی صورت بناکر اُس نے فرمایا

سُنا ہے دور جنگل میں کہیں اِک شیر رہتا ہے
اُسے کھانے کو کچھ بھی مِل نہ پایا اور وہ بھوکا ہے

کہیں ایسا نہ ہو وہ اپنے جنگل میں بھی آدھمکے
یہاں پر آکے وہ بس جائے اور محصول لے ہم سے

یہیں پر ایک بستی ہے جہاں انسان رہتے ہیں
یہ حضراتِ گرامی شیر سے زیادہ ہی ڈرتے ہیں

کہیں ایسا نہ ہو یہ شیر اُن کے جانور کھالے
جواباً آدمی بھی شیر سے کچھ اپنا بدلا لے

ابھی باتیں یہ جاری تھیں کہ پاپا بھیڑیا بولا
’’ابھی یہ کون چیخا تھا، ابھی کِس نے ہے منہ کھولا‘‘

جب اُس نے غور سے دیکھا، پہاڑی پر نظر آیا
وہ بچہ نام جس نے بھیڑیوں سےموگلی پایا

٭٭٭٭٭٭​
 
باب دوم : شیر خان

طباقی نے اُسے دیکھا تو فوراً زہر یوں اُگلا
کہ اِس بچے کو اب توشیر خانآکر ہی کھائے گا

جو ماما نے اسے دیکھا وہ اِس کی سمت یوں بھاگی
اِسے بس دیکھتے ہی اُس کے اندر مامتا جاگی

کہا کہ ناس ہو اس شیر کا، وہ کیوں اِسے کھائے
یہ اک معصوم بچہ ہے ، میں واری ہوگئی ، ھائے

اُدھر پیچھے سے بچوں کی صدا یوں کان میں آئی
ہماراموگلی بھائی، ہماراموگلی بھائی

اچانک غار کے منہ پر اندھیرا چھا گیا یکدم
بھیانک رات اور جنگل میں چھایا ہُو کا تھا عالم

دھاڑا شیرباہر غار سے یوں لے کے انگڑائی
کہا اس غار سے ہے آج آدم بُو مجھے آئی

کہا پاپا نے یہ سچ ہے، یہ بچہ آدمی کا ہے
ہمارے غار میں یہ آج ہی بس آکے ٹھہرا ہے

کہا ماما نے بس یہ آج سے میرا ہی بیٹا ہے
مزے سے دودھ پی کر یہ مرے بچوں میں لیٹا ہے

یہ منظر دیکھ کر یوں شیر خانی اپنی بھولاوہ
بہت بوڑھا ہوا تھا بس جوانی اپنی بھولا وہ

دبائی دُم ہوا پھر اس جگہ سے وہ رفُو چکر
طباقی بھی اسی کے ساتھ بھاگا، کھا کے اِک ٹکر

وہی گیدڑ جو پاپا بھیڑئیے کے غار تک آیا
جونہی بچے کو دیکھا شیر کو وہ ساتھ ہی لایا

مگر ماما کا غصہ دیکھتے ہی ساتھ بھاگے وہ
کبھی تھا شیر آگے اور کبھی ہوتا تھا آگے وہ

٭٭٭٭٭٭​
 
آخری تدوین:
باب سوم : اکیلا

وہ دونوں بھاگ نکلے جب تو پاپا بھیڑیا بولا
ابھی یہ موگلی کے راستے کا پہلا پتھر تھا

ابھی تو جھُنڈ میں اپنے، ہمیں پیشی بھی دینی ہے
پھر اپنے فیصلے کی اُن سے منظوری بھی لینی ہے

نہ جھگڑا مول لیں وہ شیر سے تو رام کرنا ہے
ہمیں تو چُپ چُپاتے بس یہی اِک کام کرنا ہے

مگر پہلے مجھے تُم یہ بتادو اے مِری بیوی!
یہ انسانوں کا بچہ ہے اِسے تُم کیسے پالو گی؟

یہ بولی بھیڑیوں کی ماں اُٹھا کر سر رعُونت سے
یہ میرا موگلی ہے جو عبارت ہے محبت سے

اِسے میں پال لوں گی اور پھر اِک دِن وہ آئے گا
بڑا ہوکر یہ اپنے جھُنڈ کی عزت بڑھائے گا

یہ لنگڑا شیر جو بزدِل ہے اور گایوں کو کھاتا ہے
اسی کی سرزنش کو پھر یہاں انسان آتا ہے

یہ میرا موگلی اِک دِن زمانے کو دِکھائے گا
بہادُر ہے یہ لنگڑے شیر کو اِک دِن بھگائے گا

کہا پاپا نے یہ سب ٹھیک ہے لیکن بتاؤتو!
مجھےاس سےنمٹنے کا کوئی گر بھی سِکھاؤ تو!

’اکیلا’ چودھویں کی شب ہمیں جب خود بُلائے گا
تو اِس انسان کے بچے کو کون اُس سے چھُپائے گا

کہ جنگل کا یہی قانون ہے ، بچے بڑے ہوکر
سلامی جھُنڈ کے سردار کو دیں گے کھڑے ہوکر​
 
باب چہارم : جنگل کا قانون

سنو بچو! پھر اگلی چودھویں کی رات جب آئی
تو ہر سُو چاند کی روپہلی کرنوں کی ضیا ٔ چھائی

اکیلا نے کہیں جنگل کی اِک اُونچی پہاڑی پر
صدا جنگل کے سارے بھیڑیوں کو دی کھڑے ہوکر

سیَونی جھُنڈ کے سب بھیڑئیے آئے صدا سُن کر
وہ اپنے سارے بچّوں کو بھی لائے آج چُن چُن کر

اکیلا دیکھ کر چیخا، ’’ اے میرے بھیڑیو ! پیارو!‘‘
’’ذرا تُم غور سے دیکھو، او میرے ساتھیو! یارو!‘‘

بنا کر دائرہ بیٹھے ، درندوں کی وہ مجلس میں
سبھی تھے خون کے پیاسے، سبھی خونخوار تھے جِس میں

’’مگر جنگلی درندوں کا بھی اِک قانون ہوتا ہے‘‘
جو اِس قانون کو توڑے ہمیشہ خود ہی روتا ہے

یہی قانون تھا اُس جھُنڈ کا، بچے وہاں لائیں
کہ یوں پلّے یہ اُن کے، جھُنڈ میں شامِل کیے جائیں

جب اُن کے سامنے بچّے یہ کھیلے، خوش ہوئے سب ہی
مگر انسان کے بچّے کو دیکھا ، چونک اُٹھے سب ہی

یہ انسانوں کا بچّہ ہے ، یہاں کیا کرنے آیا ہے؟
یہ انسانوں کا بچّہ ہے اِسے یاں کون لایا ہے؟

اِسی اثناٗ میں بھُوکے شیر کی آواز یوں آئی
شکاری ہوں ، نوالہ یہ مِرا ہے، مجھ کو دو بھائی

تمہی جنگل کے ہو آزاد باسی یہ دِکھادو نا!
تمہیں انسان کے بچے سے کیا مطلب بتادو نا!

یہ سننا تھاکہ وہ چلّائے ہم آواز ہوکر سب’’
ہم اِس جنگل کے باسی ہیں ، ہمیں اِس شے سے کیا مطلب؟‘‘

٭٭٭٭٭٭​
 
باب پنجم : بھالو

خموشی چھاگئی جِس دَم اکیلا سامنے آیا
وہیں جنگل کا اِک قانون اُس نے پھِر سے دُہرایا

’’اگر چاہیں کسی پلّے کو اپنے جھُنڈ میں لانا
تو پھِر لازِم ہے اُس کے حامیوں کا سامنے آنا
ذرا یہ غور سے سُن لیں جو ہیں سب حاضِر و ناظِر
ہمیں درکار ہیں دو جانور اِس کام کی خاطِر‘‘

یہ سننا تھا کہ بھالو کوُد کر یوں سامنے آیا
اور اِک بھونچال کی مانند اُس نے سب کو چونکایا
یہی بھالو تھا جو اِن سب کو مکتب میں پڑھاتا تھا

سبھی قانون جنگل کے اُنہیں پڑھ کر سُناتا تھا

اُسے حق تھا کہ اِس مجلِس میں اپنی رائے دے سکتا
یہ بھالو تھا کُچھ ایسا ہی کہ بس دِل موہ لے سب کا

کہا بھالو نے یہ بچہ ہے میرا اور میں اسِ کا ہوں
میں اِس انسان کے بچے کے حق میں رائے دیتا ہوں

’’چلویہ طے ہوا اب ایک بھالو اِس کا حامی ہے
مگر اب موگلی کے حق میں خالی اِک اسامی ہے

اگر دو جانور یک رائے ہوکر اِس کا دَم بھر لیں
تو شامل موگلی کو جھنڈ میں ہم آج ہی کرلیں‘‘

اُدھر ماما اکیلی دانت اپنے تیز کرتی تھی
وہ اپنے ناخنوں کو اپنے منہ سے بھی کُترتی تھی

کہیں ایسا نہ ہو کہ فیصلہ اُس کے خلاف آئے
تو پھر بیچارہ بچہ جان تو اپنی بچا پائے

میں اِس بچے کی خاطِر جان بھی اپنی گنوا دوں گی
جو اِس کو کھانے آئے گا، میں اُس کو بھی مِٹا دوں گی

٭٭٭٭٭٭​
 
باب ششم : سیونی جھُنڈ

اُدھر جب دیر گزری اور نہ کوئی سامنے آیا
جو دیکھا موگلی کو، بھیڑیوں کا جی بھی للچایا

عجب کیاتھا کہ اس بچے کو یونہی پھاڑ کھاتے وہ
عجب کیا تھا کہ ماما بھیڑیئے کا دِل دُکھاتے وہ

بگھیرا تیندوا اُس راہ سے گُذرا تو واں ٹھہرا
لگا پایا جو اُس نے بھیڑیوں کا راہ میں پہرا

تجسس غالب آیا اور وہ شامل ہوگیا اُس میں
جو یوں وہ کام آیا موگلی کے، اس تجسس میں

کہانی ساری سُن کر وہ بھی اس میدان میں آیا
اور اس بچے کے حق میں اِک نئی تجویز بھی لایا

کہا اِس جان کے بدلے تمہیں اِک جان دیتا ہوں
ابھی بھینسا کہیں پر مار کر میں چھوڑ آیا ہوں

یہ قانونی تقاضا اس طرح پورا کیا اُس نے
نیا اِک بھیڑیا اُ س جھُنڈ کو یوں دے دیا اُس نے

خوشی سے پھول کر کُپا ہوئی ماما یہ سنتے ہی
ہنسی رُکتی نہ تھی ، یوں کھِل گئی تھی تھوتھنی اُس کی

یہاں پھر آؤ دیکھا اور نہ تاؤ اپنے بھالو نے
کہ جس کو خوش کیا تھا آنے والے اِس دیالو نے

بڑی ہی سادگی سے تیندوے کے وہ قریب آیا
اور اس کو گود میں لے کر اک ایسا ناچ دکھلایا

جسے دیکھا کیے بس دیر تک سب دیکھنے والے
بگھیرا سے بہت خوش تھے ، سبھی گورے، سبھی کالے

اکیلا نے یہ سارا ماجرا دیکھا تو یوں بولا
بہت کچھ سوچنے کے بعد اس نے اپنا منہ کھولا

یہ بچہ آج سے اک بھیڑیا ہے جھنڈ کا سُن لو
یہ میرا فیصلہ ہے، حکم ہے، میرا کہا، سُن لو

٭٭٭٭٭٭​
 
باب ہفتم: موگلی کا بچپن


یہ سننا تھا کہ باچھیں کھِل گئیں رنجور ماما کی
سبھی ڈر اور سبھی فکریں ہوئیں اب دور ماما کی

وہ اپنے سارے بچوں کو جلو میں لے چلی اپنے
بنا جب موگلی اپنا ، ہوئے پورے سبھی سپنے

غرض اب موگلی کی داستاں یوں آگے چلتی ہے
اس انسانوں کے بچے کی عجب قسمت بدلتی ہے

اسے دس سال تک ماما نے اپنے بھَٹ میں یوں پالا
اسے جنگل کا اِک ننھا سا باسی ہی بنا ڈالا

بچاکر موگلی کو خوش تھے بھالو اور بگھیرا بھی
کہ اُس کی زندگانی ان کی ہی مرہونِ منت تھی

یہی دونوں جنھوں نے موگلی کو یوں سدھایا تھا
انہوں نے ہی اسے جنگل کا ہر رستہ دکھایا تھا

بگھیرا نے درختوں پر اسے چڑھنا سکھایا تھا
تو بھالو نے اسے کُشتی کا ہر اِک گُر بتایا تھا

یونہی دس سال گزرے اور بہت تبدیلیاں آئیں
اکیلا کو بڑھاپے میں وہ یوں کچھ کھینچ کر لائیں

کبھی طاقت سے وہ اس جھنڈ کا سردار ہوتا تھا
مگر اب رفتہ رفتہ اپنی وہ قوت کو کھوتا تھا

یہی دن تھے کہ اس جنگل میں پھر سے شیر خان آیا
اور اس کے ساتھ ہی جنگل میں اس کا خوف بھی چھایا

وہی سب بھیڑیے جو موگلی کو بھائی کہتے تھے
وہی بھائی مگر اب شیر سے یوں ڈرتے رہتے تھے

کہیں سے شیر آجائے گا ، ان کو پھاڑ کھائے گا
اور ان کی ہڈیوں سے بھوک وہ اپنی مٹائے گا

ٌٌٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌٌٌ​
 
باب ہشتم : دیس نکالا


یہی حالات تھے جن کا یہاں قصہ سناتے ہیں
یہی وہ گیت ہیں جن کو یہاں پر گنگناتے ہیں

اکیلا نے سیونی جھنڈ کا اجلاس بلوایا
بگھیرا کو بھی دعوت دی گئی ، وہ بھی وہاں آیا

ابھی بیٹھے ہی تھے سب جانور اس جھنڈ کے آکر
یکایک شیر کی آواز سے اچھلے وہ گھبرا کر

یہی وہ شیر تھا جو موگلی کا جانی دشمن تھا
شرارت سے طباقی نے اُسے بھی واں پہ بُلوایا

اسی اجلاس میں سب بھیڑیوں کا فیصلہ بدلا
یہیں پر موگلی کی زندگی کا راستہ بدلا

ابھی دس سال پہلے ہی اُسے بیٹا بنایا تھا
مگر حالات بدلے ، اب یہاں پر خوف چھایا تھا

کہا سب نے کہ اب ہم موگلی کو رکھ نہیں سکتے
مزہ انسان کی اب دوستی کا چکھ نہیں سکتے

یہی جنگل جہاں پر بھیڑیوں کی حکمرانی تھی
یہیں اب شیر تھا موجود اور بدلی کہانی تھی

ہم اِس کو شیر کے چنگل میں دے دیں گے کہا سب نے
ہم اپنی جاں بچائیں گے ارادہ کرلیا سب نے

اِدھر یہ سب اچھلتے تھے، اُدھر ماما تڑپتی تھی
اُسے بس موگلی پیارا تھا، اُس کا نام جپتی تھی

بگھیرا نے جو یہ حالات دیکھے ، وہ بھی گھبرایا
بہت سوچا تو اُس کے ذہن میں بس ایک حل آیا

کہا اُس نے سنو! اے میرے پیارے بھیڑیو یارو!
بہت مشکل ہوئی ہے صورتِ حالات اے پیارو!

اگر تُم موگلی کو شیر کے پنجوں میں دے دو گے
اِدھر جو اُس کی ماما ہے ، اُسے کیسے سنبھالو گے

ذرا میری سنو تم اور میرا مشورہ مانو
اگر تُم مجھ کو اپنے جھُنڈ کا اِک دوست ہی جانو

یہاں سے دور، جنگل سے پرے کچھ لوگ رہتے ہیں
یہ انسانوں کی بستی ہے جسے وہ گاؤں کہتے ہیں

وہاں میں موگلی کو چھوڑ آؤں گا ، یہ وعدہ ہے
یہ میرا مشورہ ہے اور یہی میرا ارادہ ہے

یہی حل ہے کہ ماما کو بھی جس سے چین آئے گا
نہ ہوگا موگلی یاں پر، نہ اُس کو شیر کھائے گا

نہ کچھ پوچھے گی ماما ، اور نہ کچھ وہ کریدے گی
وگرنہ وہ تڑپ کرہی یہاں پر جان دے دے گی

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ​
 

باب نہم :

سمجھ داری کی باتیں تھیں، یہی مشکل کا اِک حل تھا
ذرا سی دیر میں اس حل کا حامی سارا جنگل تھا

طباقی نے سُناجونہی کہ ان کا فیصلہ یہ تھا
وہ سر پر پیر رکھ کر تب وہاں سے بھاگ نکلا تھا

وہاں سے بھاگ کر وہ شیر کے ہی پاس آیا تھا
اور اُس کو ماجرا اُس رات کا پھر کہہ سنایا تھا

یہ سنتے ہی اُٹھا جب شیر لے کر ایک انگڑائی
طباقی کو اسی میں خیریت اپنی نظر آئی

دبائی دُم ، ہوا پھر وہ وہاں سے بھی رفو چکر
اُسے ہڈی تو مل جاتی، مگر تھا جان کا بھی ڈر

چلو یہ فیصلہ تو ہوگیا ، کچھ میں بھی سوچوں گا
ابھی ہے موگلی جنگل میں اُس کو جا دبوچوں گا

یہ کہہ کر شیر گرجا زور سے اور سب ہی تھّرائے
گرج ایسی تھی اکثر کا تو سن کر دم نکل جائے

بگھیرا نے سنا تو موگلی کو ڈھونڈنے نکلا
اُسے جنگل کے اِک کونے میں اُس نے کھیلتا پایا

ابھی گو موگلی نے شیر سے ڈرنا نہ سیکھا تھا
کسی سے وہ نہ ڈرتا تھا، نہ کچھ وہ خوف کھاتا تھا

کہا اُس سے بگھیرا نے یہاں پر شیر آئے گا
مجھے ڈر ہے شکار اپنا وہ تُم کو ہی بنائے گا

یہ بہتر ہے کہ میں تُم کو یہاں سے دور لے جاؤں
اِک انسانوں کی بستی ہے، وہاں پر چھوڑ کر آؤں

کہا تب موگلی نے اے مرے پیارے بگھیرا جی!
ذرا سی بات یہ میری سمجھ میں کیوں نہیں آتی

مجھے اِس شیر سے ڈرنے کی آخر کیا ضرورت ہے
چھپا پھرتا تھا کل تک وہ، یہی اُس کی حقیقت ہے

مجھے تو جھُنڈ کی اپنے حمایت بھی میسر ہے
یہی ہیں بھائی میرے اور یہی جنگل مرا گھر ہے

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ

 
باب دہم : ’کا‘ کا شکار


غرض باتوں ہی باتوں میں بہت ہی دور جاپہنچے
اندھیرا چھاگیا تب موگلی بولا بگھیرا سے

چلو اب گھر چلو بھیا! مجھے تو نیند آتی ہے
بہت کھیلا ہوں سارا دن ، تھکن مجھ کو ستاتی ہے

کہا اُس سے بگھیرا نے بہت ہی تھک گیا ہوں میں
یہیں اونچے درختوں پر ہی سونا چاہتا ہوں میں

سویرے تازہ دم ہوکر یہاں سے آگے جائیں گے
بہت امید ہے بستی کوئی رستے میں پائیں گے

یہاں سے کچھ مسافت پر کہیں انسان رہتے ہیں
پہنچ کر سامنے اُن کے جو بیتی ہے وہ کہتے ہیں

اِک اونچی شاخ کو پھر تاک کر وہ چڑھ گیا اُس پر
وہیں پیر اپنے پھیلائے، بنایا شاخ کو بستر

اشارہ کردیا پھر موگلی کو، ’’ تم بھی آجاؤ!‘‘
اسی کونے میں آجاؤ، یہیں تم بھی سماجاؤ

اُچھل کر موگلی نے دُم پکڑلی پھر بگھیرا کی
اُسی دُم کے سہارے پھر لگائی اِک چھلانگ اونچی

وہاں سونے تو لیٹا موگلی ، لیکن پریشاں تھا
وہ اپنے بھیڑیوں کی بے وفائی پر بھی حیراں تھا

ابھی سونے نہ پائے تھے وہاں اِک اژدہا آیا
نظر پڑتے ہی اپنے تر نوالے پر، وہ للچایا

یہ موذی کنڈلیوں میں اپنی سب کو بھیچ لیتا تھا
بھیانک تھا، یہ ظالم تھا، یہ موذی تھا، یہی ’ کا‘ تھا

اسی ’کا‘ نے اب آکر موگلی کو آن پکڑا تھا
اسی موذی نے اپنی کنڈلیوں میں اُس کو جکڑا تھا

اسی دم موگلی کی ایک ہلکی کسمساہٹ سے
بگھیرا چونک کر اُٹھا اسی ہلکی سی آہٹ سے

بس اُٹھتے ہی اسی دم چونک کر وہ ہوش میں آیا
اور اِک بھاری سا پنجہ اس فضا میں ایسے لہرایا

جسے کھا کر وہ موذی آج اپنا ہوش کھو بیٹھا
وہاں سے بھاگ نکلا اور سارا جوش کھو بیٹھا

ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ​
 
آخری تدوین:
باب یازدہم : کرنل ہاتھی


دوبارہ آکے وہ لیٹے، ابھی کچھ رات باقی تھی
ابھی یہ رات جانے اور کیا کیا گُل کھِلائے گی

وہ آنکھیں بند کرکے سوچتے تھے پھر سے سو جائیں
تمنا تھی کہ میٹھی نیند کی وادی میں کھوجائیں

اچانک سارا جنگل گونج اُٹھا ایسی چنگھاڑوں سے
چلی آئیں جو ان کی سَمت ٹکرا کر پہاڑوں سے

بگھیرا جانتا تھا، یہ پرانے اُس کے ساتھی تھے
ندی کے پار جو رہتا تھا اُس جتھے کے ہاتھی تھے

انہیں گوروں نے پچھلی جنگ میں بھی لابھِڑایا تھا
انہوں نے لکڑیاں لا کر ندی پر پُل بنایا تھا

بس اس کے بعد سے جتھا بھی اک رجمنٹ کہلایا
لقب سردار ہاتھی نے یہیں کرنل کا تھا پایا

یہیں جنگل کے بیچوں بیچ وہ تھے گشت فرماتے
کبھی مستی میں آجاتے تو اپنا گیت بھی گاتے

انہیں دیکھا، ہمارا موگلی نیچے اُتر آیا
یہیں جتھے میں کرنل کے ، عجب اِک ماجرا پایا

صفوں میں ہاتھیوں کے ، ایک ننھا منّا ہاتھی تھا
یہی ننھا سا ہاتھی کھیل میں اب اُس کا ساتھی تھا

ادھر جب حاضری کے وقت اُس چھوٹے کو نہ پایا
ڈسپلن کے خلاف اِس بات پر کرنل کو طیش آیا

اِدھر دیکھا، اُدھر دیکھا، اُسے پیچھے کہیں پایا
اُٹھا کر موگلی کو کوئی اس کے ساتھ لے آیا

اِس انسانوں کے بچے کو صفوں میں اپنی پاتے ہی
کوئی کرنل نے پائی انتہاء نہ اپنے غصے کی

ادِھر یہ ماجرا دیکھا، بگھیرا دوڑ کر آیا
بہت مشکل ہوئی ، اس نے مگر کرنل کو سمجھایا

یہ انسانوں کا بچہ ہے یہ پھر بھی ساتھ ہے میرے
یہ بچہ بے ضرر سا ہے ، ملیں گے ایسے بہتیرے

مگر جنگل میں ہرگز کام اس کا اب نہیں کرنل
میں اِس کو لے چلا ہوں ایک بستی میں یہیں کرنل

یہ سننا تھا کہ ہوکر مطمئن سب چل پڑے ہاتھی
بگھیرا نے لیا پھر سانس لمبا جب گئے ہاتھی

یہ جنگل ہے یہاں پر ہر قدم پر ایک خطرہ ہے
ابھی کچھ رات باقی ہے، بہت ہی دور جانا ہے

چلو اِک بار پھر سے نیند کی وادی میں کھو جائیں
ابھی سورج نہیں نکلا، چلو ہم پھر سے سو جائیں
ٌٌٌ ٌٌٌٌ ٌٌٌٌٌٌ​
 
باب دوازدہم:

بحث و تکرار


بہت کچھ سُن چکا تھا موگلی، اب اُس کی باری تھی
یہی سب سوچتے یہ رات اس نے بھی گزاری تھی

میں اس جنگل کو چھوڑوں گا تو کیسے جی سکوں گا میں
میں اب اک بھیڑیا ہوں، ساتھ ہی اُن کے مروں گا میں

چلو واپس چلیں، اُن بھائیوں کو میں منا لوں گا
انھی کے ساتھ ہی اِس زندگی کا میں مزا لوں گا

یہ جنگل میرا گھر ہے، میں تو یہ جنگل نہ چھوڑوں گا
یہیں رہ کر میں اُس بدبخت کی گردن مروڑوں گا

مگر یہ بھی تو ممکن ہے، وہ میرا دوست بن جائے
یہی جو شیر دشمن ہے، وہ کل سے دوست کہلائے

یہ سنتے ہی بگھیرا لال پیلا ہوکے یوں بولا
ہمارے موگلی کے بھولے پن پر اُس نے منہ کھولا

یہ کیسی بے وقوفی ہے! یہ جو کچھ بک رہے ہو تُم
گزشتہ دس برس سے شیر کو بھی جانتے ہو تُم

کسی کا دوست گو یہ شیر ہرگز ہو نہیں سکتا
وہ اپنی خود سری یوں چُپ چُپاتے کھو نہیں سکتا

یہی بہتر ہے میرے ساتھ اس بستی کو چل نکلو
تُم اس جنگل کو فوراً چھوڑ دو گر جاں بچانی ہو

یہ سننا تھا، ہمارا موگلی بھی طیش میں آیا
بہت کچھ یاں پہ اُس نے بھی بگھیرا کو سنا ڈالا

تحمل سے سنا اب موگلی کو بھی بگھیرا نے
نہ سنتا گر تو کیسے حادثے ہوتے خدا جانے

کہا کچھ تو یہی کہ رات باقی ہے چلو سوئیں
ذرا اِک بار پھر سے نیند کی وادی میں ہم کھوئیں

یہ کہہ کر سو گیا وہ اور خرّاٹے لگا بھرنے
مگر سونے دیا نہ موگلی کو اُس کے تیور نے

٭٭٭٭٭٭​
 
باب سیزدہم :موگلی کا اغوا​


ابھی کچھ دیر گزری تھی کہ اکِ ہلچل ہوئی نیچے
ذرا جب غور سے دیکھا تو یہ بھالو میاں ہی تھے
اُسے دیکھا تو اپنا موگلی نیچے چلا آیا​
اِسی بھالو کے اُس نے روپ میں اِک دوست تھا پایا​

چلو کچھ دیر تو سستا لیے ، اب کھیل کھیلیں گے
بگھیرا جونہی اُٹھے گا، اسے بھی ساتھ لے لیں گے

بگھیرا نے جب ان دونوں کو نیچے کھیلتا پایا
تو خود بھی مطمئن ہوکر وہ نیچے ہی چلا آیا

اُدھر جب کھیل سے اکتا گئے، خود کو تھکا بیٹھے
کنارے اِک ندی کے تب وہ سُستانے کو جا بیٹھے

ابھی بیٹھے ہی تھے جاکر کہ بندر لوگ آپہنچے
اُچک کر موگلی کو لے گئے ندیا کنارے سے

ذرا اِن بندروں کا حال اب تُم کو سناتے ہیں
سب اِن کا نام سُن کر ہاتھ کانوں کو لگاتے ہیں

شرارت اور ذلالت میں کوئی ان کا نہیں ثانی
شریف اِن کو سمجھنے کی ، کرے نہ کوئی نادانی

بہت دن سے لگا کر گھات یہ جنگل میں بیٹھے تھے
اسی امید پر کہ موگلی قابو میں آجائے
اُسے پکڑیں گے اور پھر آگ کی ترکیب پوچھیں گے​
اذیّت دیں گے اس کو اور یوں مجبور کردیں گے​
ہمارے ہاتھ یوں پھر آگ کا جب راز آئے گا​
ہمیں تخریب کاری کا نیا انداز آئے گا​

لگاکر آگ جنگل کو ، تماشا ہم بھی دیکھیں گے
جلے گا جب ہر اک دشمن ہمارا ، ہم بھی دیکھیں گے

پکڑ کر موگلی کو لے گئے ویران مندر میں
نڈر لڑکا تھا ، پھر بھی وہ نہ لایا اُن کو خاطر میں

انہوں نے اس پہ ظلم و جور کی پھر انتہا کردی
حصولِ آتشِ بے نور کی کوشش سِوا کردی

ہمارا موگلی تھا خود بھی اِک انسان کا بچّہ
جسے جنگل کے خون آشام حیوانوں نے پالا تھا

مگر جنگل کے ہر اِک جانور سے پیار کرتا تھا
کسی سے دشمنی کرنا کبھی اس نے نہ سیکھا تھا

وہ شیطانوں کو کیونکر آگ کا یہ راز دے دیتا
تباہی اور بربادی کو اِک آغاز دے دیتا
میں اب کچھ بھی نہ بولوں گا ارادہ یہ کیا اُس نے​
ہر اِک تکلیف سہہ کر بھی لبوں کو سی لیا اُس نے​

٭٭٭٭٭٭​
 
آخری تدوین:
باب چہاردہم: کیے جاؤ کوشش


بہت دوڑے، بہت بھاگے، بگھیرا اور بھالو بھی
مگر ان بندروں کی گرد بھی نہ ہاتھ آنی تھی

بالآخر ہار کر اور تھک کر اک کھاڑی میں آ بیٹھے
بہت پچھتا رہے تھے، موگلی کو یوں گنوا بیٹھے

غموں سے چُور تھے مایوسیوں نے اُن کو گھیرا تھا
مگر اِس حال میں بھی سامنے اُن کے سویرا تھا

ابھی ہمت نہ ہاریں گے، ارادہ اُن کا پکا تھا
ہم اپنی جان واریں گے، یہ اُن دونوں نے سوچا تھا

کبھی جب زندگی میں کوئی بھی ایسا مقام آئے
کوئی حیلہ، کوئی ترکیب جب واں پر نہ کام آئے

مرے بچو کہیں ایسے میں تُم مایوس مت ہونا!
کبھی ناکامیوں کے سامنے ہمت نہیں کھونا!

ہمیشہ ہارنے کے بعد اِک کوشش ضروری ہے
یہ گر ایسا ، بنا جِس کے ہر اِک ترکیب ادھوری ہے

یہی ترکیب بھالو کو، بگھیرا کو بھی بتلائی
خدا کا شُکر ہے دونوں کو اِس گر کی سمجھ آئی

چلو اِک بار پھر سے اپنی قسمت آزمائیں ہم
ہمارے موگلی کو بندروں سے اب چھڑائیں ہم

کبھی اُن ہستیوں نے ہار کی صورت نہیں دیکھی
جنھوں نے ہار کر بھی آج تک بازی نہیں ہاری

نہ مانو ہار اور اک بار پھر کوشش کیے جاؤ
یہی ہے زندگی ، یہ زندگی یونہی جیے جاؤ

یہی کچھ سوچ کر اٹھّے ، بگھیرا اور بھالو جب
دلوں میں اُن کے گھر کرنے لگا پھر اِک نیا کرتب

٭٭٭٭٭٭​
 
آخری تدوین:
باب پانزدہم : مشورہ

اسی اثنا میں اِک کّوا کہیں سے اُڑ کر آپہنچا
یہ اُن کی خوش نصیبی تھی کہ وہ اچھی خبر لایا

کہا اُس نے، تمہارے موگلی کو میں نے دیکھا ہے
وہی جو بھیڑیوں کے ساتھ اسی جنگل میں رہتا ہے

اُسے اُن بندروں نے اپنے چُنگل میں پھنسایا ہے
جنھوں نے پاس اِک مندر میں اپنا گھر بنایا ہے

تڑپ کر اُٹھ گئے دونوں سُنی کوّے کی جب کائیں
کہا، رستہ دِکھاؤ، ہم اُسے فوراً چھُڑا لائیں

کہا کوّے نے ، ایسی جلد بازی بھی نہیں اچھی
نہ سوچی چال کوئی، اور چلے ہو اُٹھ کے فوراً ہی

سُنو جب آج اماوس کی اندھیری رات بھی ہوگی
نہ واں پر چاند ہوگا اور نہ کوئی روشنی ہوگی

یہی ہے رات جب اُن بندروں کا ناچ ہوتا ہے
اِسی تاریک منظر میں تمہیں بھی وار کرنا ہے

اندھیرے ہی کے عالم میں اگر ہلچل مچا پاؤ
تو ممکن ہے وہاں سے موگلی کو تُم بچا لاؤ

اُنہیں کوّے میاں کا مشورہ بے حد پسند آیا
تو باہم مشورہ کرکے اِسے دونوں نے اپنایا

یہ طے کرکے وہاں سے دونوں اُٹھّے، ساتھ کوّا بھی
اسی تاریک مندر میں وہ پہنچے، رات جب آئی

ہر اِک مشکل میں اِن کا یہ طریقہ تُم بھی اپناؤ
خِرد مندوں سے کرکے مشورہ تُم راستہ پاؤ



٭٭٭٭٭٭​
 
باب شانزدہم: رہائی




اندھیری رات تھی، ماحول پر چھایا تھا سنّا ٹا
دبے پاؤں چلے دونوں وہاں، پہنے ہوئے ڈھاٹا

گھنے جنگل کے بیچوں بیچ یہ ویران مندِر تھا
برس بیتے نہ آیا تھا کسی انسان کا سایا

شکستہ تھے درو دیوار، گویا اِک کھنڈر تھا یہ
اور اب عرصے سے اِن شیطاں صفت روحوں کا گھر تھا یہ

وہاں بھالو شکستہ اِک سُتوں کے سامنے پہنچا
وہ اِک بھاری سا پتھر اپنے پنجوں میں دبائے تھا

وہی پتھر گھُماکر اُس نے بیچوں بیچ دے مارا
اور اپنی پوری قوّت سے سُتوں سے خود بھی ٹکرایا

مچی ہڑبونگ ایسی سارے بندر چیخ کر بھاگے
کوئی ڈر کر رہا پیچھے، کوئی بھاگا گیا آگے

بگھیرا بھی دہاڑ اٹھّا، جو دیکھا رنگ محفل کا
گھُٹا ماحول یوں اُس کی دہاڑوں سے لرز اُٹھّا

بگھیرا نے اِسی ہڑبونگ میں پھر مدّعا پایا
ہمارے موگلی کو ایک کمرے میں کھڑا پایا

اِسے فوراً ہی اپنی پیٹھ پر تب اُس نے بِٹھلایا
دبے پاؤں پھر اُس مندِر سے وہ باہر چلا آیا

رِہائی بندروں سے پاچکا تھا موگلی بھائی
سمجھ پھر بھی نہ اُس کی کھوپڑی میں گھَر بَنا پائی

یہ جنگل ہے یہاں خطروں سے ہردَم کھیلنا ہوگا
ہنسی اور کھیل کچھ ایسا نہیں، دُکھ جھیلنا ہوگا

وہاں سے دُور نکلے اور اِک میدان میں پہنچے
تھکن سے چُور تھے کچھ دیر سُستانے کو آبیٹھے

اِشارہ پاکے بھالُو نے وہاں پر بات یوں چھیڑی
نرالی اور انوکھی ہے ادا ہر ایک، جنگل کی

یہاں انسان کوئی بھی اکیلا رہ نہیں سکتا
درندوں کے یہاں پر وار انساں سہہ نہیں سکتا

یہی بہتر ہے انسانوں کی بستی ڈھونڈ لیتے ہیں
اور اِس بستی میں اب ہم موگلی کو چھوڑ دیتے ہیں

یہ سُنتے ہی وہاں سے ہوگیا فوراً روانہ وہ
بُلاتے رہ گئے دونوں مگر پھر بھی نہ مانا وہ
٭٭٭٭٭٭​
 
باب ہفدہم: ویرانے کے ساتھی





وہاں سے بھاگ کر وہ ایک ویرانے میں آپہنچا
عجب وحشت سی طاری تھی عجب ویران منظر تھا

پہنچ کر اس جگہ کچھ دیر کو سستا لیا ا ُس نے
بہت ہی تھک چکا تھا وہ، ٹھکانا پالیا اُس نے

اسی ویران جنگل میں، یہیں کچھ گِدھ بھی رہتے تھے
یہ مسکن تھا چڑیلوں کا جسے اپنا یہ کہتے تھے

یہ جنگل بھی عجب تھا، یاں کوئی آتا نہ جاتا تھا
نہ اس حصے میں کوئی جانور بھی گھر بناتا تھا

یہی وحشت تھی جو اُن کے مزاجوں میں سمائی تھی
اِسی میں دِن کٹا تھا اور اسی میں رات آئی تھی

یہیں پر کوئی مردہ جانور ملتا تو کھا لیتے
ذرا کچھ پیٹ میں جاتا تو کچھ دن یوں بِتا لیتے

یہ مردہ خور تھے اور بس یہی تھی اُن کی خصلت بھی
یہی وحشت ، یہی مستی بنی تھی اُن کی عادت بھی

اسی عالم میں بیزاری کے، اک ٹہنی پہ رہتے تھے
"کوئی مردہ، کوئی بسمل نظر آئے " یہ کہتے تھے

کوئی زخمی نظر آتا تو اس کی تاک میں رہتے
جب اُس کی جاں نکلتی تب یہ اُس کو نوچ کھاتے تھے

انہیں اِس حال میں یوں موگلی چلتا نظر آیا
کہ اِس جنگل میں انساں کا نظر آنا عجوبہ تھا

بہت حیراں ہوئے وہ دیکھ کر ایسے درندے کو
بجائے چار پیروں کے جو دو پیروں پہ چلتا ہو

کئی چکر لگائے اور پھر نیچے اُتر آئے
بہت نزدیک سے پھر موگلی کو دیکھ وہ پائے

انہیں روتا ہوا یہ موگلی اچھا لگا اُس دم
کہ وحشت اُسکے چہرے پر تھی اور آنکھیں تھیں اُسکی نم

اسی باعث انہوں نے موگلی کو دوست گردانا
غنیمت ہے کسی جنگل میں اِک اچھے کا مل جانا

ذرا سی دیر کو باتیں ہوئیں اور ہوگئی یاری
جنھیں کچھ دیر پہلے صرف اپنی بھوک تھی پیاری​
 
باب ہجدھم: شیر خان کا حملہ


ابھی اس دوستی کو چند ہی لمحات گزرے تھے
مگر یہ قیمتی لمحے کئی برسوں سے لمبے تھے

یہ سچی دوستی بھی دوستو ! کیا قیمتی شَے ہے
یہ ایسا گیت ہے جس کی بہت مخمور سی لَے ہے

ذرا سی دیر میں ایسے وہ گہرے دوست بن بیٹھے
لگا ایسے کہ مدت سے وہ سارے دوست ہوں جیسے

ہوئے باتوں میں ایسے گُم کہ دنیا ہی بھُلا بیٹھے
بگھیرا اور بھالو دوسری جانب پریشاں تھے

اُنہیں بس موگلی کے دشمنوں کا خوف کھاتا تھا
خیال اُن کو بس اپنے موگلی کا ہی ستاتا تھا

کہیں ایسا نہ ہوجائے، اسے اب شیر پاجائے
اکیلا جان کر اُس کو کوئی نقصان پہنچائے

کہاں پر جا چھپا ہے موگلی ، کیسے اُسے پائیں
یہ موذی تاک میں ہے موگلی کوکیسے بتلائیں

اِدھر جنگل کی میرے دوستو ہر شے نرالی ہے
نظامِ زندگی ان بے زبانوں کا مثالی ہے

خبر کوئی کسی بھی حادثے کی چھُپ نہیں پاتی
پہنچتی ہے وہ جنگل کے ہر اِک گوشے کو گرماتی

گِدھوں کے غول نے جب موگلی سے دوستی کرلی
فضاء میں اُڑتے کوّوں نے خبر یہ خوب پھیلادی

یہی سرگوشیاں پھر شیر کے کانوں تلک آئیں
اندھیری رات تھی، جب بدلیاں بھی جھوم کر چھائیں

کہا یہ شیر نے موقع بہت اچھا ہے ، اٹھ بیٹھو!
اٹھو ہانکا لگانے کے لیے کوّوے وہاں بھیجو

دبے پاؤں وہاں پہنچا، یہاں دیکھا وہاں جھانکا
اُدھر اُس کے اشارے پر لگا کوّوں کا بھی ہانکا

سُنا جب شور کوّوں کا تو اپنا موگلی نکلا
اچانک شیر کو پھر اپنی جانب گھورتا پایا

گِدھوں نے جب اُسے دیکھا ، اُڑن چھو ہوگئے فوراً
ڈرا اب موگلی دِل میں ، جو پایا سامنے دشمن
ٌٌ ٌ ٌ ٌ ٌ ٌ


نوٹ: تبصروں کے لیے دیکھیے مندرجہ ذیل دھاگہ
جنگل بُک: رڈیارڈ کپلنگ کی کہانی پر نظم: از محمد خلیل الرحمٰن
 
آخری تدوین:
باب نوزدھم: دو بدو مقابلہ

مقابل موگلی نے شیر کو دیکھا تو گھبرا یا
مگر یہ سوچ کر اُس ناتواں نے حوصلہ پایا


جیے سو سال ڈر کر ہم تو اس سے موت بہتر ہے
بہادر بن کے مر جائیں اگر مرنا مقدر ہے


کیا جب فیصلہ مرنے کا تب وہ جوش میں آیا
نہتّے موگلی کو دیکھ کر پھر شیر للچایا


لگائی اِک چھلانگ اور موگلی کے سر پہ وہ آیا
ہمارے موگلی نے بھی عجب کرتب یہ دکھلایا


قلابازی اچھل کر کھائی اور یوں دور جاپہنچا
گیا جب وار خالی اَوج پر تھا شیر کا غصہ


پلٹ کر شیر نے چاہا کہ جھپٹے حوصلہ پاکر
اُچک کر موگلی کو لے اُڑا پھر ایک گِدھ آکر


اسی اثناء میں بھالو بھی اِسی منظر میں آٹپکا
اُسے جب شیر نے دیکھا تو اس کی سَمت وہ لپکا


بہادر تھا، جری تھا وہ مگر آخر کو بھالو تھا
اُسے سہنا پڑا آکر یہاں پر شیر کا غصہ


ذرا سی دیر میں دُرگت بنادی شیر نے اُس کی
کیا زخمی، بری حالت بنادی شیر نے اُس کی


یہ منظر دیکھ کر بادل بڑے ہی زور سے گرجے
ہمارے موگلی کا ہاتھ چھوٹا، وہ گرا دھڑ سے


قریب اِک پیڑ پر بجلی گری، یکدم وہ جل اٹھّا
اسے جلتے جو دیکھا موگلی اس کی طرف لپکا


وہیں سے ایک جلتی شاخ اس نے توڑ لی فوراً
وہ جلتی شاخ اُس نے شیر کے جبڑوں میں دی فوراً


ہُوا دھشت کے مارے شیر پاگل اور نکل بھاگا
اب اِس جنگل میں اُس کا لوٹ کر آنا بھی مشکل تھا


بھگاکر شیر کو اب موگلی بھالو کے پاس آیا
اُسے اِس کُنج میں بے ہو ش اور بے سُدھ پڑا پایا


جتن سارے ہی کرڈالے، نہ بھالو ہوش میں آیا
بگھیرا جب وہاں پہنچا، فضا میں سوگ طاری تھا​
 
Top