جو کہتے ہیں اگر عمران خان لندن میں دھرنا دیتے (نونیوں کے نام)

arifkarim

معطل
c5b1e1c15823efa55bee6f5a861da109.jpg

زیک
قیصرانی
فرحت کیانی
زرقا مفتی
عبدالقیوم چوہدری
نایاب
 
مدیر کی آخری تدوین:
نوٹ: اس "جمہوریت" کے دیگر محافظوں کو یہاں بغیر اجازت ٹیگ کیا جا سکتا ہے۔
سری لنکن پروٹیسٹ کے بارے میں باقی سب کچھ ٹھیک لکھا ہے۔ لیکن ان کالم نگار صاحب نے سچ میں جھوٹ شامل کرنے کی بھی کافی کوشش کی ہے۔یہ تامل گارڈین کی 15 اپریل 2009 کی رپورٹ کا ایک اقتباس ہے، امید ہے پاکستانی کالم نگار صاحب کے ارشادات اور اس میں فرق نظر آ جائے گا۔

At many times, the Police was seen preventing further people joining the sit in. However Tamils continued to pour into Westminster to join the protest

The police eventually moved the protesters back onto the green on Tuesday 7 April, using heavy tactics that saw a number of people injured. Six people were also arrested, but most were released soon after

Police say the demonstrators' action is unlawful because they did not give notice of the rally, which initially led to the closure of Westminster Bridge. And officers requested that flags bearing images representing the Tamil Tigers be removed
دوسری رپورٹ بھی پڑھ لیں۔

The London protests began on April 6. Several thousand protesters gathered for an impromptu demonstration outside Parliament, with the slogans “stop the genocide” and “stop the war” and blocking traffic through Westminster Bridge

The Metropolitan Police declared the protest illegal and cordoned it off. One demonstrator jumped into the River Thames and was rescued by emergency services. That evening, thousands of people, including families with young children, staged an overnight sit-in outside Parliament

The following morning, at 6.30 a.m., police announced that the protest would be moved to Parliament Square. Many demonstrators were dragged away by their arms and legs, and police staged several baton charges on those attempting to move to the Square

A number of demonstrators received serious injuries as a result of the police attacks. Kavitha Sathiyamoorthy, an 18-year-old protester, told the Guardian news paper that the police had charged the demonstration, causingher to fall into the crowd
۔۔۔۔۔​

سب سے خطرناک سچ وہ ہوتا ہے جس میں جھوٹ کی آمیزش بھی کر دی گئی ہو۔ کم از کم آپ کو اس کالم کو پوسٹ کرنے سے پہلے اس کے مندراجات کی تصدیق کر لینی چاہیے تھی۔
 
آخری تدوین:

arifkarim

معطل
الحمدللہ، گلو بٹ پولیس کی جارحیت کیخلاف اسلام آباد ہائی کورٹ نے وزیر اعظم اسمیت دیگر وزراء کیخلاف ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ تحریک انصاف زندہ باد!

اسلام آباد(دنیا نیوز)اسلام آباد کی مقامی عدالت نے تحریک انصاف کے کارکنوں کے قتل پر وزیر اعظم سمیت 11 اہم شخصیات کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا ، مقدمہ میں دہشتگردی کی دفعات شامل کرنے کی استدعا بھی منظور کر لی گئی۔

وزیر اعظم سمیت 11 اہم شخصیات کے خلاف قتل کے مقدمہ کے اندراج کی درخواست پر سماعت ایڈیشنل سیشن جج شاہ رخ ارجمند نے کی۔ دوران سماعت تھانہ سیکریٹریٹ پولیس کی جانب سے عدالت میں رپورٹ جمع کرائی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایف آئی آر کے اندراج کی درخواست بدنیتی پر مبنی ہے، درخواست محض تشہیر اور سنسنی پھیلانے کے لئے دائر کی گئی ہے اس لئے اسے خارج کیا جائے۔ تحریک انصاف کے وکلاء کا کہنا تھا کہ 27 جون 2014 کو بہاولپور میں عمران خان نے اسلام آباد میں دھرنے کا باقاعدہ اعلان کیا ۔ 14 اگست کا اجازت نامہ ملنے پر دھرنا دیا گیا، 19 اگست کی شام کو دھرنا پر امن طور پر شاہراہ دستور پر منتقل کیا گیا، عدالت کو بتایا گیا کہ تحریک انصاف کے کارکنوں نے کوئی خلاف ورزی نہیں کی۔ 30 اگست کو شب جب دھرنے کو پرامن طور پر وزیر اعظم ہائوس منتقل کرنے کا اعلان کیا گیا تو پولیس کی جانب سے شیلنگ اور فائرنگ کی گئی جس کے نتیجے میں 4 کارکن جاں بحق جبکہ سیکڑوں زخمی ہوئے، تحریک انصاف کے وکلاء کا کہنا تھا کہ حکومت نے ریاستی مشینری اور پولیس کو ذاتی مفاد کیلئے استعمال کیا، پورے آپریشن کی کمانڈ وزیر داخلہ چودھری نثار نے کی، چودھری نثار نے ریڈ زون کا دورہ کیا، کامیاب آپریشن پر اہلکاروں کو مبارکباد دی۔ وکلاء کا کہنا تھا کہ پولیس نے عمران خان کے کنٹینر پر براہ راست فائرنگ کی ، وزیر دفاع نے ٹی وی پر بیان دیا کہ آپریشن کا فیصلہ وزیر اعظم کی مشاورت سے ہوا۔ دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر داخلہ چودھری نثار وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر ریلوے خواجہ آصف سمیت 11 شخصیات کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔ تحریک انصاف نے درخواست میں آئی جی پنجاب، آئی جی ریلوے پولیس، ایس ایس پی آپریشن، ڈپٹی کمشنر، اس کے وقت کے آئی جی خالد خٹک کو نامزد کیا ہے۔ عدالت نے تحریک انصاف کے مقدمہ میں دہشتگردی 7 اے ٹی اے کی دفعات شامل کرنے کی استدعا بھی منظور کر لی ہے۔ عوامی تحریک کی درخواست پر بھی وزیر اعظم سمیت 11 افراد کے خلاف تھانہ سیکریٹریٹ میں مقدمہ درج ہے جس کی تحقیقات ایس پی کپیٹن الیاس کی سربراہی میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کر رہی ہے۔
http://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Pakistan/238536

عبدالقیوم چوہدری
کیا برطانوی گلو بٹوں کیخلاف بھی ایسا ہی مقدمہ درج ہوا تھا؟
 
آخری تدوین:
Top